وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان خطاء کا پتلا ہے اور اللہ تعالی نے اس کی غلطیوں کو معاف کرنے کے لئے بے شمار طریقے بتائے ہیں انبیاء کرام کو بھیجا ہے جو اس کی تربیت کر سکیں، الہامی کتابیں نازل فرمائی، امت مسلمہ کے لئے تو اللہ نے پورا کا پورا مہینہ رحمتوں، مغفرتوں اور برکتوں کا نازل فرمایا جس کو ہم رمضان المبارک کہتے ہیں اس مہینے میں اللہ تعالی چند ایک گناہوں کو چھوڑ کر تقریبا تمام گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔آج کل ہم دیکھتے ہیں کی مسلمان بہت سارے اندرونی و بیرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ان حالات میں اگر کوئی اسلام کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا ہو تو مسلمانوں کی حالات دیکھ کر ان سے متنفر ہوتا ہے وہ سوچتا ہے کہ شاید ان کی زندگی میں کوئی نظم کوئی مقصد نہیں ہے اس لئے یہ لوگ اس دہانے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ لیکن خداوند رحمان نے انسانوں کو ایک منظم برنامہ کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کی اس دنیا میں کیسے زندگی گزارنی ہے اور ہمارا مقصد و ہدف کیا ہے حتا ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل سے لیکر بڑے بڑے مشکلات غرض ہر چیز کے لئے قوانین بنائے ہیں تاکہ انسان گمراہ نہ ہوں اور اس پر عمل کریں تو ہمیشہ فلاح پاسکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ہم نے اصل اسلام کو فراموش کیا ہے اور جزیات کو لیکر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں جس کا نہ خود انسان کو فائدہ ہے اور نہ ہی معاشرے کو بلکہ فقط تفرقہ اور دشمنی کا باعث بنتا یے۔میں یہاں پر انسان کی پانچ عادتیں بیان کرنا چاہتا ہوں کی ان عادتوں کو خدا و پیامبر نے پسند فرمایا ہے اور یہ عادتین انسان کی دنیا و آخرت دونوں میں فلاح کے کئے کافی ہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جنگ احزاب(خندق) کے دوران یہودی قبیلہ بنی قریظہ جو مدینہ میں آباد تھے اور مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے اس کے بدلے میں مسلمانوں کو بھی ان سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ لیکن جنگ احزاب میں بنی قریظہ مشریکین کے ساتھ مل جاتے ہیں اور مدینہ کے اندر انتشار و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خارجی دشمنوں سے زیادہ سخت تھا۔ بحرحال پیامبر کے حکم پر قلعہ بنی قریظہ کا محاصرہ کیا جاتا ہے اور ہلکی پھلکی لڑائی کے بعد تمام یہودیوں کو اسیر بنایا جاتا ہے اور ان کے تمام مردوں کو خیانت کے جرم میں قتل کیا جاتا ہے سوائے ایک یہودی شخص کے، وہ یہودی پوچھتا ہے کہ مجھے کیوں رہا کیاگیا ہے تو اس وقت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں تم میں پانچ خصوصیات ایسی ہیں کہ جسے خدا و پیامبر نے پسند فرمایا ہے۔ جب رسول اکرم یہ صفات بیان کرتے ہیں تو وہ شخص قسم کھا کر کہتا ہے کہ محمد اور اس کے خدا نے سچ کہا ہے پھر وہ اسلام قبول کرتا ہے اور ایک جنگ میں شہید ہوجاتا ہے۔
رسول اکرم ص نے اس شخص کی جو صفات بیان کیا تھا وہ مندرجہ زیل ہیں ۔۱ غیرت ۲.صداقت ۳۔ سخاوت ۴۔ شجاعت ۵۔ حسن خلق۔
اگر ہم ان کی مختصر مختصر تعریف کریں تو غیرت اسے کہتے ہیں کہ ہر چیز جس کی حفاظت ضروری ہو اس کی نگھبانی کرنا ہے، غیرت دو قسم کے ہیں ایک ذاتی ایک دینی، ذاتی یعنی ناموس وغیرہ کی حفاظت اور دینی یعنی احکام دین کی پاسداری وغیرہ۔ صداقت یعنی سچائی جس کا مخالف جھوٹ یے اور صداقت کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتا ہے کہ جس میں خداوندعالم فرماتا ہے:" اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں (صادقین) کے ساتھ رہو"۔ اس کے برعکس کہتے ہیں کی جھوٹ و فریب ہر چیز کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ سخاوت: سخاوت کے بارے میں امام علی ع فرماتے ہیں کہ "سخاوت مند شخص وہ ہے جو مال کو حلال طریقے سے حاصل کرتا ہے اور حلال راستے میں خرچ کرتا ہے۔" اگر کوئی سخی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے اپنے نفس پر ملکہ حاصل ہے وہ اپنے نفس کی تابع نہیں ہے اور نہ ہی اس کو اپنی تعریف یا بڑھائی کی فکر ہے وہ فقط نیکی اور رضایت خدا کی خاطر اپنے مال کو مصرف کرتا ہے۔
شجاعت:شجاعت سب سے بہترین صفت ہے اگر شجاعت نہ ہوتو غیرت صداقت اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ممکن ہی نہیں۔ حسن خلق: حسن خلق کے بارے میں پیامبر اکرم ص فرماتے ہیں کہ "اے لوگو تم میں اس قدر توانائی نہیں ہے کہ تم اپنے مال و دولت سے لوگوں کی خدمت کرو اور ان کو راضی کر سکو پس تم لوگوں کے ساتھ خوش دلی اور خوش اخلاقی سے پیش آیا کرو"۔ دوسری جگہ پر فرماتے ہیں کہ تم چاہتے ہو کہ تمھارا وجود ھوا و باران، اور چاند و سورج کی طرح بن جائے کہ اس سے دنیا میں موجود ہر چیز فیض حاصل کر سکیں تو لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی و خوش دلی کے ساتھ پیش آیا کرو۔
خوش اخلاقی و خوش رفتاری کے حوالے سے ایک واقعہ صحابی رسول سعد بن معاذ سے منسوب ہے کہ جب آپ کی رحلت ہوئی تو خود پیامبر گرامی نے ان کی نماز جنازہ ادا کیا اور ان کو قبر میں اتارا پھر مسلمانوں سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں کہ آج سعد بن معاذ کے نماز جنازے میں ۹۰ ھزار فرشتوں نے شرکت کی ہیں جب مسلمان یہ سنتے ہیں تو سعد بن معاذ کے والدہ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ آپ کے فرزند کی نماز جنازہ کس قدر شان و شوکت سے ادا ہوئی ہے کہ فرشتے شامل ہوئے ہیں اور پیامبر آخرزمان نے امامت کی ہے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد حضرت محمد (ص) کے چہرہ مبارک کا رنگ تغیر ہونے لگتا ہے اصحاب پوچھتے ہیں یا رسول اللہ کیا ماجرا ہے ابھی تو آپ خوش تھے اب آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار کیوں؟ پیامبر نے فرمایا میں ابھی سعد بن معاذ کے ہڈیوں کی ٹوٹنے کی آواز کو سُن رہا ہوں وہ فشار قبرکے سخت عذاب سے گزر رہا ہے۔ اصحاب نے سوال کیا یا رسول اللہ ابھی تو آپ نے ان کی نماز جنازہ میں فرشتوں کی آمد کی خبر دی تھی؟ اور اب عذاب کی ! رسول اکرم (ص) نے فرمایا بیشک ایسا ہی ہے سعد بن معاذ کے سارے کام اچھے تھے لیکن وہ گھر پر اپنے بیوی بچوں سے بد اخلاقی سے پیش آیا کرتا تھا جس کی وجہ سے فشار قبر کے مرحلے سے گزرنا پڑرھا ہے۔
اللہ اکبر !عدالت خداوند دیکھیں ایک یہودی کو اس کے)اچھی( خصلتوں اور عادتوں کی وجہ سے بخش دیتا ہے اور موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ حق کو اپنایئں اور دوسری جانب صحابہ رسول اکرم کو اس کے ایک بُرے خصلت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔
لہذا ہمیں اس ماہ مبارک میں اپنی کوتاہیوں کو دیکھنا چاہئے، ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہئے اور اس بابرکت مہینے میں سعی و کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنے برُے کاموں کو ترک کریں اور اچھے کاموں کو اپنائیں، کم سے کم اُس یہودی میں موجود پانچ صفات کو اپنے اندر تلاش کریں اور جو کمی پیشی ہے اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ خدا و رسول ہم سے بھی خوش ہوں کیونکہ یہ ہماری اصلاح کا بہتریں موقع ہے اس ماہ کوصرف افطاری اور سحری کے چٹ پٹوں میں نہیں گزارنا چاہئے۔ یقین کریں اگر ہم میں یہ پانچ خصلتیں آجائیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا شروع کریں تو ہم اپنے گھر کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو بھی جنت بنا سکتے ہیں ۔ اس طرح ہم اپنے اندر موجود انسانیت اور اصل مسلمانیت کو بیدار کر سکتے ہیں اور اگر ہم اس کام میں کامیاب ہو گئے توہمیں درپیش گھریلو و معاشرتی مسائل و مشکلات کا اسی فیصد خاتمہ ممکن ہے، لہذا اس ماہ مبارک رمضان کو ایسے ہی ہاتھ سے نہ جانے دیں اگر اہم سب اپنی ایک ایک غلطی کی بھی اصلاح کر سکیں تویہ ہماری بڑی کامیابی ہیں اور اسی ایک کامیابی سے ہم اپنی اور معاشرے کی اصلاح کر سکتے ہیں۔
تحریر۔۔۔۔ناصررینگچن