وحدت نیوز (آرٹیکل) ریاض ، سعودی عرب کا دارلحکومت ہے، جی ہاں یہ وہی مقام ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے مسٹر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کیا تھا،گزشتہ روز انصاراللہ یمن نے ریاض پر متعدد بیلسٹک میزائل داغے،انصار اللہ کے مطابق تمام میزائل ہدف پر لگے جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق حملہ ناکام بنا دیا گیا، ہم جانتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں اس طرح کی متضاد اطلاعات معمول کی بات ہیں۔
انصاراللہ کے زیرکنٹرول المثیرہ ٹی وی کے مطابق میزائلوں نے اپنے اہداف کودرستگی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے ۔ اسی طرح برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ریاض کے اوپر فضامیں زبردست روشنی کے ساتھ چھ زوردار دھماکے ہوئےاور متعدد مقامات سے دھواں بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دیا۔یاد رہے کہ یہ دسمبر ۲۰۱۷سے اب تک ریاض پرہونے والا چھٹا میزائل حملہ ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ میزائل حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب یمن کی مغربی بندرگاہ الحدیدہ پر متحدہ عرب امارات کی قیادت میں سعودی اتحاد کا ایک بڑا حملہ جاری ہے اور اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے۔ تیرہ جون ۲۰۱۸سےالحدیدہ پر جاری اس حملے میں ابھی تک سعودی اتحاد سوائے انسانی جانوں کے زیاں کے اور کوئی ہدف پورا نہیں کر سکا لیکن دوسری طرف انصاراللہ کے میزائل ریاض کی فضاوں میں پھٹ چکے ہیں، عرب ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش نے حوثیوں کے اسلحہ اور ان کے ماہر نشانہ بازوں کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹس کے بعد ٹوئٹر پر جو متعدد ٹویٹس کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی اتحاد کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب نے اب تک شام، عراق، بحرین اور یمن میں جہاں بھی مداخلت کی ہے وہاں عمارتوں کے کھنڈرات اور انسانی لاشوں کے سوا کسی مقصد کو حاصل نہیں کیا ہے یا بنی نوعِ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سعودی عرب کے تیار شدہ القاعدہ ، طالبان اور داعشی ٹولے بری طرح ناکام اور پسپا ہو چکے ہیں۔
سعودی اتحاد اپنی سابقہ شکستوں کی روشنی میں یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ یمن پر اپنا تسلط کسی صورت بھی قائم نہیں کر سکتا تاہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے اس نے اس وقت یمن کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔
دوسری طرف اب امریکہ و مغرب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ سعودی اتحاد کی کارروائیوں سےکوئی کامیابی حاصل ہونے والی نہیں۔چنانچہ یمن پر حملے کے حوالے سے خود امریکہ و مغرب پر بھی مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔
سعودی عرب کے سامنے مندرجہ زیل اہم اہداف ہیں جو جنگ کے ذریعے کسی طور بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے:
۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے
۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے
۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے
۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے
اربابِ دانش جانتے ہیں کہ جنگ مزید تباہی و بربادی تو پھیلا سکتی ہے لیکن اس سے سعودی اتحاد کو کوئی کامیابی ملنے والی نہیں، اب سعودی عرب ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہے کہ وہ نہ ہی تو یمن میں آسانی کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی یمن سے باعزت طور پر نکل سکتا ہے، سعودی عرب اگر دیگر ممالک کی طرح یمن سے بھی شکست خوردہ ہو کر نکلتا ہے تو ساری دنیا خصوصاً امریکہ و مغرب کی نگاہوں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور دوسرا مسئلہ جو کہ اس سے بھی بڑا ہے ، وہ یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے پیچھے ہٹنے سے انصاراللہ رسماً پورے یمن کی مالک بن جائیگی اور سعودی اتحاد کے مقاصد کے بر عکس منطقے میں ایران اور حزب اللہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ریاض کی فضاوں میں پھٹتے ہوئے میزائل جہاں سعودی عرب کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں وہیں اقوامِ عالم کو بھی اپنا فریضہ انجام دینے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔
سعودی اتحاد کی اس رسوائی اور پسپائی کے عالم میں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یمن میں بسنے والے دوکروڑ سے زائد انسانوں کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرے۔یمن میں اس وقت جو انسانیت سوز حالات ہیں ان کے پیشِ نظر عالمی برادری کو یا تو بھرپور احتجاج کرنا چاہیے اور یا پھر یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.