وحدت نیوز (آرٹیکل) الیکشن ۲۰۱۸ میں عمران خان واضح برتری کے ساتھ سب سے آگے ہے، انتخآبی نتائیج نے تمام سیاسی جماعتوں کے چاروں شانے چت کر دیے ہیں،اب عمران خان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی، کے پی کے اور وفاق میں اپنی حکومت تشکیل دے سکتا ہے۔ عمران خآن نے الیکشن کے بعد جو خطاب کیا ہےاورجس طرح اپنے مقصد کو پیش کیا یہ عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھا، اس انتخابات کی سب سے بڑی کامیابی اور شفافیت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بہت سے پرانے اور بڑے بڑے کھلاڑی میدان سے آوٹ ہوگئے ہیں، ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے بعض حلقے جن کو ان تنظیموں کا گڑ سمجھا جاتا تھآ وہاں سے ان کو شکست ہوئی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے انتخابات میں لاکھوں ووٹ لینے والوں کی حقیقت کیا تھی۔ اس الیکشن میں عوام کی واضح ترجمانی ہوئی ہیں، عوام نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم پاکستان کے پرانے سیاسی نظام اور حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں جنہوں نے ہمیشہ جھوٹے وعدوں اور دعوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔
اس الیکشن میں عوام نے بیداری اور ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنی قیمتی ووٹ کا صحیح استعمال بھی کیا ہے اور پاکستان کے سیاسی نظام میں موجود وطن کے خائینوں کو عبرت ناک شکست دی ہے، جنہوں نے پاکستان کی معیشیت، امن و امان اور ہمارے مستقبل کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ یہاں پر ایک بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہِے کہ اس انتخابات کی شفافیت اور پُرامن طریقے سے کامیابی ہونے میں ہماری سیکورٹی اداروں کی خصوصا پاک فوج، رینجرز اور پولیس کے جوانوں کے خون بھی شامل ہیں جنہوں نے کراچی سے لیکر وزیرستان تک سیاسی جماعتوں کی عسکری وینگز اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکز کو تباہ کر دیا تھا جس کی بدولت کچھ ناخوشگوار واقعات کے سوا پورا ملک پُر امن رہا اور انتخابات بھی وقت پر اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔
یہاں میرا مقصد عمران خان کی حمایت کرنا نہیں ہے لیکن مجھے یہ کہتے ہوِئے بھی کوئی قباحت نہیں ہوتی ہے کہ موجودہ دور کے تمام سیاسی رہنمائوں سے بہتر اب تک تو عمران خان ہی ہے، ہم پُرانے سیاستدانوں کو کئی بار آزماچکے ہیں لہذا اب عمران خان کو بھی موقع دینا چاہئے۔
عمران خان الیکشن تو جیت گئے ہیں لیکن یہ اس کی کامیابی نہیں ہے اصل کامیابی انتخابات جیتنا نہیں بلکہ اپنے کئے گئے وعدوں کو پورا کر کے دیکھا نے میں ہے۔ پی ٹی آئی کی بائیس سالہ سیاست میں سخت ترین امتحان اب شروع ہوا ہے،عوام نے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح انجام دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو اقتدار کی کرسی سونپی ہے اور امید ہے کہ وہ عوام کے امیدوں پر پانی نہیں پھیرینگے۔
اس وقت پی ٹی آئی کو اندرونی و بیرونی طور پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، اندورونی طور پر پہلی ذمہ داری اور چیلنج یہ ہے کہ وزارات کی قلم دان کن کن کو سونپی جائے جو عمران خان اور عوام کے وژن کو سامنے رکھ کر، زاتی مفادات سے ہٹ کر، ملک و قوم کی ترقی کے لئے کام کریں، دوسری ذمہ داری استقامت کا مظاہرہ کرنا اور اندورونی چپقلش سے دور رہنا ہے۔
بیرونی طور پر پہلی مشکل سیاسی مخالفین کی ہے، تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی کی مخالفت کے لئے ساز باز شروع کر دی ہیں تاکہ عمران کو حکومت بنانے میں اور چلانے میں رکاوٹ پیدا کر سکیں ۔ دوسری مشکل پاکستان کی معیشیت کا ہے۔ پاکستان کے قرضے اور پٹرو ڈالر کو کنٹرول کرنا ہے، جب تک پٹرو ڈالر اور قرضوں کے تناسب کو حل نہیں کرینگے عوام کو رلیف نہیں دیا جاسکتا جو کہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ تیسرا چیلنج دہشت گردوں اور ملک کے دشمن عناصر کو قابو کرنا ہے۔ چوتھا چیلنج ہمسایہ ممالک سے تعلقات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بیلنس کرنا ہے۔ لیاقت علی خان سے لیکر اب تک ہماری خارجہ پالیسی یک طرفہ رہی ہے اور وطن عزیز کی مفادات کو ذاتی مفادات اوراقتدار کے لئے قربان کیا گیا ہے۔ اس وقت دنیا کے افق پر پاکستان کی خارجہ پالیسی انتہائی اہمیت کی حامل ہے خصوصا جب عالمی طاقتوں میں پاور شفٹنگ، سوفٹ وار اور معیشت کی جنگ چل رہی ہے تو دوسری طرف شام، یمن میں جنگ جاری ہے تو تیسری طرف مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر بھی روز بہ روز گمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے وطن عزیز کے مفادات اور پالیسیوں کو واضح اور بیلنس کرنا چاہئے تاکہ ہم دنیا میں طاقتور ہو کر ابھر سکیں۔
یہاں پر ہمارے اوپر یعنی پاکستانی عوام اور جوانوں پر ایک اور بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نے سالوں کی جدوجہد کے بعد آج ایک نئی پارٹی کو اس کے اچھے اہداف کی بناء پر اقتدار تک لے پہنچایا ہے، اب اس پارٹی اور ہمارے منتخب کردہ نمایندوں سے کام لینا بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ کس طرح اُن کے ذریعے ہم اپنے معاشرتی، سیاسی، سماجی اور دیگر مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بیدار رہنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جب بھی کوئی معاشرہ اچھآئی اور ترقی کی طرف جاتا ہے تو اس کے دشمن متحرک ہو جاتے ہیں تاکہ ان کے درمیان انتشار، بدنظمی، بے اعتمادی اور فساد کی فضاء کو قائم کرسکیں۔ ان حالات میں اگر ہم بیدار نہیں رہے تو ہمارے دشمن کامیاب ہو جاینگے اور ہماری محنت و قربانی ضائع ہوجائے گی لہذا ہمیں اپنے چاروں طرف اپنوں اور غیروں دونوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا کام ووٹ دیکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ جانا نہیں ہے بلکہ معاشرتی و حکومتی کاموں میں ہاتھ بٹانا اور دشمنوں کی سازشوں پر کڑی نظر رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں کبھی مشکلات، ناکامیوں اور خطرات سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ لہذا اگر ہم نے پاکستان کے مستقبل کو بہتر بنانا ہے تو مل جل کر اتحاد و اتفاق کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جو کوئی ہمیشہ کوشش و تلاش کی حالت میں رہتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے کہ خدا اس کو اس کے کئے کی جزا دیتا ہے اور کبھی اس کی کوشش کو ناکام ہونے نہیں دیتا۔
تحریر ۔۔۔ناصر رینگچن