وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان جسے بعض لوگ بانجھ زمین کہتے ہیں کہ یہاں کوئی عالمی سطح کی شخصیت سامنے نہیں آئی ،ایسی شخصیت جس نے سیاسی،سماجی،اور عالمی سطح پر معاشروں کو اپنے وجود سے متاثر کیا ہو اور اپنی ذات کیساتھ اس پاک سر زمین کا نام روشن کیا ہو،ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے اس پاک سر زمین پر بہت سی شخصیات نے جنم لیا مگر عالمی مہروں اور سامراجی نیٹ ورک نے انہیں راستے کی دیوار سمجھا اور پھر کسی کے سینے میں لیاقت باغ کے جلسے میں گولی اتار دی گئی ،کسی کو لیاقت باغ کے باہر ہجوم کے درمیان نشانہ بنا یا گیا اور کسی کو کال کوٹھڑی میں پھانسی دیکر راستہ صاف کیا گیا،انہی میں ایک ایسی شخصیت بھی تھے جنہیں پشاور کے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ میں دم فجر اجرتی قاتلوں کے گروہ سے قتل کروایا گیا،میری مراد ایک ملکوتی و کرشماتی شخصیت علامہ سید عارف حسین الحسینی رح کی ہے جو کسی بھی طور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر کے اسے حقیقی معنوں میں ایک آزاد مملکت بنانا چاہتے تھے جن کی قائدانہ خصوصیات اور مخلصانہ جدوجہد اور بلند افکار امت مسلمہ کو نئی جہت دے رہے تھی اور دنیا انہیں پاکستان میں انقلاب اسلامی کا نقیب سمجھ رہی تھی کہ 5 اگست کی فجر کی نماز کے وقت انہیں اجرتی قاتلوں کے ایک گروہ نے اس وقت شہید کر دیا جب وہ نماز کی تیاری کیلئے وضو گاہ سے نیچے اتر رہے تھے،یہ ایک قیامت خیز دن تھا ،جب ملت ایسی قیادت سے محروم کر دی گئی جو امید تھی،جو خوشبو تھی،جو روشنی تھی،جو پھولوں میں مہک کی مانند تھی،جن کا وجود سراپا نور تھا،انہیں راستے سے ہٹادیا گیا،انہیں ہم سے چھین لیا گیا۔
علامہ سید عارف حسین الحسینی رح نے تقریبا ساڑھے چار سال( 10فروری 1984 سے 5 اگست 1988 )کا مختصر عرصہ ملت جعفریہ کی قیادت و سیادت میں گذارا ہے، مگر آج 30 برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کی نورانی و معنوی شخصیت کے سحر میں پوری قوم ایسے ہی گرفتار دکھائی دیتی ہے کہ جیسے آج ہی وہ ہم سے جدا ہوئے ہوں، اور کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں موجود ہوں اور راہنمائی فرما رہے ہوں۔شہدا ء از روئے قرآن زندہ ہیں اور خدا کے ہاں سے رزق پاتے ہیں ہم اس کا شعور نہیں رکھتے،پھر کیسے ممکن ہے کہ امت کا درد لیکر میدان عمل میں اپنے خون سے اپنی پیشانی رنگین کرنے والی ہستی امت کے یہ حالات،تفرقہ و تقسیم،دہشت گردی،استعماری سازشیں،اور ارض پاک پر عالمی سازش گروں کی اس ملک کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کے منصوبے دیکھ کے انہیں آرام آ گیا ہو وہ یقیناًحق پرستوں اور مخلصان خدا و دین خدا کی نصرت و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہونگے اس کا احساس اس تحریک اور تحرک میں کئی ایک مقامات پر محسوس ہوتا ہے جب کچھ دکھائی نہیں دیتا،عقلیں فیصلے کرنے سے عاری آ جاتی ہیں تو غائبانہ امداد سے ناممکنات ممکن ہو جاتے ہیں،یہی شہدا ء ہوتے ہیں جو ایسے اوقات و مصائب کے دوران مدد فرماتے ہیں!
علامہ سید عارف حسین الحسینی کا آنائی تعلق کرم ایجنسی کے گاؤں پیواڑ سے تھا جو افغانستان کے بارڈر کے نزدیک ہے انہوں نے 25 نومبر 1946 کی ایک سہانی فجر کوایک نجیب اور بلند مقام سادات حسینی کے فرد سید فضل حسین شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی تھی، پیواڑ کے پرائمری اسکول سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرنے والے سید عارف حسین نے بعد ازاں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے نجف و قم کی فضاؤں میں پرواز کی اور علم و عرفان کی منازل طے کیں۔ آپ بچپن سے ہی بے حد دیندار، متقی اور پرہیزگار بلکہ شب زندہ دار تھے اور یہ سب تو جیسے آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ نے پہلی بار 1967 میں نجف کا سفر کیا، تاکہ اعلی علمی مدارج کو طے کر سکیں۔ یہ وہ دور تھا جب عراق میں آقائے محسن الحکیم مجتھد اعلی تھے، سید عارف الحسینی شروع سے ہی ملکوتی صفات کے مالک تھے، جن کی کرنیں صاحبان نظر کو محسوس ہو جاتی تھیں۔
آپ کے اساتذہ بھی آپ میں عرفانی و معنوی صفات دیکھ لیتے تھے۔ جب حضرت امام خمینی رح ایران سے جلا وطن ہو کر نجف پہنچے تو آپ ان کی محفل کے شریک بن گئے اور ہمیشہ نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعی کرتے۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ عشق خمینی رہ میں تبدیل ہو گیا، اسی عشق نے آپ کو بعد میں قومی حقوق کے نگہبان اور استعمار دشمن قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا۔عراق کے بعد آپ ایران میں قم میں بھی زیر تعلیم رہے ان دنوں انقلاب کی تحریک عروج پر تھی،آپ چونکہ بڑھ چڑھ کے انقلابی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے لہذا شاہ کی حکومت اور ایجنسیوں کی نظر میں آ گئے اور ایران میں گرفتار ہوئے بعد ازاں انہیں ایران سے نکلنا پڑا۔پاکستان میں آ کے آپ نے جامعہ جعفریہ پاراچنار میں بطور مدرس خدمات سرانجام دینا شروع کیں،1980ء میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی معروف و مشہور اسلام آباد تحریک میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیااور ایک بڑے وفد کیساتھ شریک ہوئے۔10 جولائی 1984 کے دن آپ کو بھکر میں قائد ملت جعفریہ منتخب کیا گیا۔
ساڑھے چار سال کے بعد 5 اگست 1988 کی دم فجر جمعہ کے دن پشاور میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ کو ہم سے چھین لیا گیا۔یہ مختصر عرصہ قیادت کو دیکھیں اور ان کے کاموں کی تفصیل ،ان کے ملک گیر دورہ جات،گاؤں گاؤں،سکردو گلگت سے لیکر اندرون بلوچستان کے بہت ہی چھوٹے چھوٹے دیہات اور سندھ کے گوٹھ بھی آپ کی پہنچ سے دور نا رہے،آپ ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں جاتے تاکہ علم کی خیرات بانٹیں،شعور کی زکوٰۃ دیں،اسلام کے حقیقی پیغام جو خاتم الانبیا ء کی شکل میں امت تک پہنچا تھااور جسے وقت کیساتھ ساتھ بھلا دیا گیا تھا اسے یاد کروانے کیلئے آپ نے اپنے اوپر آرام اور چین کو حرام کر لیا تھا۔پاکستان بلا شبہ تمام اقوام اور مکاتیب فکر کی محنتوں اور قربانیوں کا ثمر ہے جس میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار اور کرسی کی خاطر یا غیر ملکی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فرقہ واریت اور شر پسندی کا بیج بویا جس کی وجہ سے ملکی فضا مکدر ہو چلی تو شہید قائد علامہ عار ف الحسینی نے اتحاد بین المسلمین کا علم بلند کیا اور اس پرچم کو تھام کے ملک کے گوش و کنار میں وحدت امت اور باہمی احترام و اخوت کی جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا،اس حوالے سے انہیں بانی اتحاد بین المسلمین اور داعی وحدت کا لقب دیا گیا،ان کی روش تھی کہ وہ جہاں بھی دورے پہ جاتے اہلسنت علما ء و عمائدین ان کیساتھ ہوتے،جو امت کو اتحاد و وحدت کی دعوت دیتے۔علامہ عارف الحسینی کی جہاں دیگر خوبیاں اور خصوصیات ان کی شخصیت کو روشن کیئے ہوئے ہیں وہاں ان کا سیاسی میدان میں وارد ہونا اور اس دور کے آمر کے سامنے سینہ سپر ہو کے جمہوری قوتوں کیساتھ رابطے بڑھانا نیز پہلی بار اہل تشیع کی طرف سے سیاسی اجتماعات کا انعقاد جن میں مینار پاکستان لاہور،دھوبی گھاٹ گراؤنڈ فیصل آباد،قلعہ قاسم باغ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قرآن و سنت کانفرنسز کا انعقاد جن میں سیاسی پروگرام اور منشور کا اعلان کیا گیا،اور پھر ضیا ء کے جھوٹے وعدوں پر سخت تنقید اور ریفرنڈم کی کھل کے مخالفت سے ان کا قد سیاسی حلقوں میں بلند ہوا،آمریت کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت کے قائدین کیساتھ ان کے روابط بہت گہرے تھے اور سیاسی قائدین ان کے خلوص اور بے باک موقف ،جس کا اظہار برملا کرتے تھے نے سب کے حوصلوں کو تقویت بخشی،وہ ضیا ء کی مارشل لا ء حکومت کو غیر آئینی سمجھتے تھے اور اس کے ہر کام پر تنقید کرتے تھے ،ضیا ء الحق نے ریفرنڈم کروایا تو آپ نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا بہانہ گردانتے ہوئے مسترد کر دیا۔
وہ فکر امام خمینی کے خالص اور سچے پیرو تھے اسی لیئے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں مین نہیں کرتے ہم ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔انہوں نے ایک جگہ فرمایا کہ،،تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی ،سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باوجود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں،،ایک اور جگہ گفتگو کرتے ہوئے علامہ عارف الحسینی کا فرمانا تھا کہدنیا میں اسلام دو طرح کے ہیں۔ ایک اسلام حضرت محمدؐ کا اسلام ہے اور دوسرا امریکہ اور روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے شریعت آرڈیننس دینے والوں نے اسلام اور قرآن کی بالا دستی کی بجائے امریکی نظریات سے قریب خود ساختہ اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی ہے کیونکہ انہیں وہ اسلام قبول نہیں ہے جس میں جذبہءجہاد ہو۔ ایک اور مقام پہ یوں رہنمائی فرماتے ہیںسیاست ہمارا راستہ:۔ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جد و جہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
*ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔ *
ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔یہ علامہ عارف الحسینی ہی تھے جنہوں نے ملک کی ایک بڑی آبادی جو بکھری ہوئی تھی اور کوئی موقف نہیں رکھتی تھی ،حکمران چند گنے چنے لوگوں کیساتھ ساز باز کر کے ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے ان کی جدوجہد کے بعد ملکی مسائل کے بڑے فیصلوں میں اہل تشیع کی شرکت اور انہیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ ترک کرنا پڑا،انہوں نے اپنے خلوص،جدوجہد،تحرک،للہیت،اور مسلسل عمل سے پاکستان کے چاروں صوبوں،آزاد کشمیر کی ریاست اور گلگت بلتستان تک کے اہل تشیع کو ایک لڑی میں پرو دیا اور ایک ایسی تنظیم و تحریک کی بنیادیں مضبوط کیں جس نے بعد ازاں ان کی محنتوں کا پھل ایک عرصہ تک کھایا ۔کسی بھی قوم کی قوت اور طاقت اس کے نوجوان اور طلبا ء ہوتے ہیں،علامہ عارف الحسینی کی شخصیت کی کشش ایسی تھی کہ اس دور میں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں ان کے نام پر وقف کر دیں،نوجوانوں کا ہجوم ان کیساتھ ہر جگہ ان کی گفتگو ،ان کی تقاریر،اور ان کے افکار تازہ سے معطرہونے کیلئے بیتابی سے شریک ہوتا،اجتماعات جس بھی سطح کے ہوتے نوجوان ،بلکہ علما کی کی بھی بڑی تعداد اس پر خلوص قیادت کا ساتھ دینے کیلئے موجود ہوتے۔
علامہ عارف الحسینی نے اس پاک وطن کو استعمار کے شکنجوں سے نکال باہر کرنے کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا ۔وہ پاکستان کو استعمار اور تکفیریت کی سازشوں سے آزاد کروانے کیلئے دن رات ایک کیئے ہوئے تھے،وہ حق کے پیرو تھے،سچائی و صداقت کی علامت تھے،خلوص کے پیکر تھے،ان کی عبادت و دعاؤں کی محافل اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ ایک برگزیدہ ہستی تھے،وہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں میں شمار ہوتے تھے،اللہ جنہیں اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو فرقان عطا کرتا ہے علامہ عارف الحسینی ایسی ہی ہستی کا نام ہے،ان کے کردار،عمل،روحانیت،خلوص،تقوٰی ،معرفت،فکر و شعور کوایک روشن اور واضح شکل میں ہم نے دیکھا ہے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ مستضعف اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کی امید تھے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ اس دھرتی کا ایک ایسا فرزند تھا جس نے اسے اسلام ناب محمدی سے متعارف کروایا اور اس کے نفاذ کی عمل جدوجہد میں ان کی شہادت ہوئی،ہم اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ وہ ہماری محافل میں ،دعا و مناجات میں گڑ گڑا کے آرزوئے شہادت کرتے تھے،وہ متمنئی شہادت تھا،اس نے اپنے پاک خون سے اپنی پیشانی کو سرخ کرنے کی تڑپ میں زندگی گذاری اور بالآخر استعمار اور اس کے آلہ کاروں نے ایک عالمی ساز کے تحت انہیں راستے سے ہٹایا،5اگست 1988ء کی فجر دم جب وہ اپنے مدرسہ میں باوضو نماز کی تیاری کر رہے تھے انہیں اجرتی قاتلوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا،یوں پاکستان میں اسلامی انقلاب کی امید دم توڑ گئی اور ہم اپنے عزیز و عظیم قائد سے محروم کر دئیے گئے۔آپ کا خون آلود چہرہ دیکھا توآپ کی اخروی زیارت اور پر سکون ابدی نیند ہم سب کو ایک پیغام دے رہی تھی۔
ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
زندگی اتنی تو غنیمت نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
تحریر: حجت الاسلام علامہ راجہ ناصرعباس جعفری دام ظلہ