وحدت نیوز(آرٹیکل) ایام محرم الحرام ہے اور ہمیں دنیا کے ہر کونے میں یا حسین کی صدائیں سنائی دیتی ہے، ساری کائینات ہمیں حسین کا دیوانہ لگتا ہے، لاکھوں جانیں حسین پر قربان ہونے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا عاشق حسین ہے؟ مسلمان ہو یا غیر مسلم جب اسم حسین کو زبان پر ورد کرتے ہیں تو سب احترام کرتے ہیں اور امام حسین کے یثار و قربانی کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی سچائی، خلوص، جزبہ شہادت، جذبہ ایمانی اور بہادری کو داد دیتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ۱۳۷۹ سال گزرنے کے باوجود کربلا ابھی تک زندہ ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے ایسا کیا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے ساری دنیا امام حسین کو فراموش نہیں کرسکے؟ کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا، مسلمان، مسیحی، ہندو، کافر سب امام حسین کو اور ان کے اہداف و قربانی کو یاد کرتے ہیں؟ کیا دنیا میں واقعہ کربلا کے بعد کوئی ظلم و ستم نہیں ہوا؟ کسی کو بھوکا پیسا قتل نہیں کیا گیا؟ آخر کیوں دوسرے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے مگر واقعہ کربلا ہر زمانے اور ہر دور میں نیا لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہدف و درس کربلا اسی زمانے کے لئے ہے۔
اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے شخصیت حسین کو دیکھنا ہوگا کہ آخر خود امام حسین کون ہے ان کی شخصیت کیا ہے، امام حسین کو پہچانے کے بعد ہم ان کے اہداف اور مقصد کو سمجھ سکتے ہیں۔ امام جسین کی شخصیت کے بارے میں رسول اکرم ص کی بے شمار احادیث موجود ہیں، ان میں سے ایک حدیث میں یہاں نقل کرنا چہتا ہوں کہ رسول اکرم ص فرماتے ہیں: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"۔ یعنی کردار، گفتار و رفتار میں حسین رسول اکرم ص کی طرح ہے، جس طرح رسول اللہ ص ساری انسانوں کے لئے رحمت بن کر آئے اسی طرح امام حسین بھی انسانوں کے لئے ہادی و امام امت ہیں اور ظلم و بربریت کے اندھیری میں ڈوبی ہوئی قوموں اور انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ حسین اور رسول اللہ ص میں فرق صرف یہ ہے کہ حضرت محمد خدا کے آخری نبی ہیں اور حسین امام ہے جنہوں نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لئے اپنی جان، مال، ناموس سب کو قربان کیا اور دین محمدی کو بچایا۔
واقعہ کربلا اور دنیا میں رونما ہونے والے دوسرے حادثوں میں بہت بڑا فرق ہے، ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ تاریخ انسانی ظلم و بربریت، جنگ و جدال کے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کے پیچھے خودغرضی، مفاد پرستی، شخصیت پرستی، ہوس پرستی، قوم پرستی، طاقت پرستی نظر آتا ہے لیکن حق و باطل اور خداپرستی کا معیار کہی نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ جس حادثہ کی اہداف و مقصد محدود ہوتا ہے وہ اسی محدودیت میں دفن ہو جاتا ہے۔
لیکن واقعہ کربلا اور شخصیت حسینی ان سب سے ہٹ کر ہے یہ حماسئہ کربلا و حماسئہ حسینی ہے، یہ ایک حادثہ اور ایک شخصیت نہیں ہے بلک یہ ایک ایسا جامع واقعہ ہے جو زمان، مکان، رنگ نسل، مفادات، ریاکاری و دنیاوی خواہشات سے بالاتر ہے، یہ حق و باطل کا میزان ہے، یہ مظلومیت و بہادری کا درس گاہ ہے، یہ ایمان و سچائی کا مرکز ہے، یہ وفا و بہادری کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے، یہ ایک ایسا درس گاہ ہے جو ہر زمانے کے انسانوں کے لئے درس فرق مابین حق و باطل سیکھاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا مادہ پرستی و ظلم و ستم کی جانب رواں ہے درس کربلا و اہداف حسینی انسانوں کے سامنے واضح ہو رہی ہے۔ اسی لئے واقعہ کربلا اور شخصیت امام حسین ہر ایک کے دلوں میں زندہ ہے، ہر باشعور انسان کردار و گفتار امام حسین کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتا ہے۔
۔ روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے: "امام حسین ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔"
۔ عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ: "امام حسین کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کے لیے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے۔"
۔ تھامس کارلائل نے کہا کہ: "واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسین کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔"
۔ تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے “دی فال آف رومن ایمپائر” میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ: "امام حسین کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔"
۔ روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ: "حسین ہر اس طبقے کے لیے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کر دیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔"
۔ انگلش رائٹر تھامس لیل نے اپنی کتاب "انسائیڈس عراق" میں لکھا ہے کہ: "امام حسین کے عقیدتمند ایسے دیوانے ہیں کہ اگر انہیں صحیح رخ میں گائیڈ کیا جائے تو یہ دنیا کو ہلا کے رکھ سکتے ہیں۔ تھامس ۱۹۱۸-۱۹۲۱ میں سرکاری طور پر عراق میں تعینات تھا اور یہ بات اس نے شہدا کربلا کے گرد عزاداری دیکھ کر کہی تھی۔"
۔ وولف انسٹی ٹیوٹ کیمبرج کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر نے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ: "موجودہ دنیا کی ملٹی فیس سوسائیٹیز میں سب سے بڑا مسئلہ سوشل جسٹس کا ہے اور سوشل جسٹس حاصل کرنے کے لیے امام حسین بہترین رول ماڈل ہیں۔"
۔ انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ: "امام حسین نوع انسان کے لیے رول ماڈل ہیں، میرے لیے امام حسین کئی جہتوں سے مسیح کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسین کی یہ بات مجھے بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے۔"
۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ "میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسین ابن علی کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔
. جواہر لعل نہرو پنڈت نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کے لئے صراط مستقیم کی اعلی ترین مثال ہے۔اسی لئے جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشرکے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہے حسین
تحریر۔۔۔ناصررینگچن