وحدت نیوز(آرٹیکل) کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لیا اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے:
میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری
میرا ہونا غلام حضرت شبیر ہونا ہے
ِ61ہجری کی ابتدا ہی میں نواسہ رسول ؐ کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و با وفادار اصحاب راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :{حُسَيْنٌ مِنّی وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللہ ُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً}1۔حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔
آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول علیہ السلام پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا :{إِنّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فی أُمَّۃِ جَدّی، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْہی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَسيرَ بِسيرَۃِجَدّۃوَأَبی عَلِیِّ بْنِ أَبي طالِب}2۔میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔
دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ "الموت أولی من رکوب العار والعار أولی من دخول النار"۔۳۔
امام خمینی رہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔ آپ نے جلا وطنی کے عرصہ میں بھی تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔
امام خمینی مکتب حسینی کے شیدائی تھے۔ آپ اتحاد امت کے داعی اور مجاہد مبارز عالم دین تھے آپ نے جو راستہ اختیار کیا وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی عزت، سربلندی اور افتخار کا راستہ ہے۔ آپ کی باتیں ،آپ کی تحریریں ، آپ کی تقریریں اور آپ کی روشن فکر آہنی عزم،ثابت قدمی،شجاعت، غیرت، قوت فیصلہ غرض ہر ہر پہلو میں امام حسین علیہ السلام کے کردار اور عزم صمیم کا عکس نظر آتا ہے۔ امام خمینیؒ خود فرماتے ہیں ہم جو کچھ بھی ہیں اور ہماری کامیابیاں یہ سب حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا کے واقعہ کا عکس و درس ہے۔
اس مقالہ کا موضوع "قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف امام خمینی رہ کی نگاہ میں " ہے ۔امام خمینی رہ کے گفتگو میں قیام عاشورا کےجو اہداف بیان ہوئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہے:
1۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا
2۔ اسلامی معاشرےکی اصلاح
3۔ ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی
4۔امر بالمعروف و نہی از منکر
5۔اسلامی حکومت کا قیام
6۔اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
7۔ الہی ذمہ داری پر عمل کرنا۔
واضح رہے کہ یہ اہداف ایک دوسرے کے مقابل میں نہیں بلکہ ان اہداف میں سے بعض ہدف کو دوسرے اہداف کے ساتھ جمع کر سکتا ہے۔ امام خمینی رح کے کلمات میں ان میں سے ہر ایک ہدف کی تاکید ہوئی ہے۔ علاوہ بر ایں ان میں سے ہر ایک ایک الہی قیام کے لئے مستقل ہدف بن سکتا ہے۔ اس لئے ان تمام موضوعات کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔4
1۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا:
کسی مکتب فکر کی تحریف اس مکتب فکر کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔کسی بھی مکتب اور مذہب میں بدترین تحریف یہ ہے کہ اس مکتب کے رہبران اور سیاستدان اس مکتب اور مذہب کے قوانین اوردستورات کے برخلاف عمل کریں لیکن دوسرے افراد کے سامنےاپنے گفتار و کردار کو اس مکتب کے قوانین ، دستورات اور تعلیمات کے عین مطابق سمجھنے لگے۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں بھی اموی مشینری کی طرف سے اسلام کے لئے اس قسم کا خطرہ موجود تھا اگر اس دور میں امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو اسلام کا صرف نام باقی رہ جاتا۔
امام خمینی رح اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ظالم و جابر یزیدی حکومت کا ارادہ تھا کہ سرخ قلم سے اسلام کے نورانی چہرے پر لکیر کھینچے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصدر اسلام کے مسلمانوں کی زحمتوں اور شہداء کے پاکیزہ خون کو ضائع کرے۔
ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :بنی امیہ نے اسلام کو ایک طاغوتی نظام کے طور پر پیش کیا یہاں تک کہ بانی اسلام کے چہرے کو بھی حقیقت کے بر عکس پیش کیا۔معاویہ اوراس کے ظالم بیٹے یزیدنے خلیفہ رسول خدا کے عنوان سے اسلام کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جس طرح چنگیز خان نے ایران کے ساتھ سلوک کیا اور اس دین کو جس کی بنیاد وحی پر تھی ایک شیطانی رژیم میں تبدیل کیا۔
ایک اور جگہ امام خمینی رح فرماتے ہیں: سید الشہداء امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ معاویہ اور اس کا بیٹا اس عظیم مکتب کو تباہ کر ر ہے ہیں اوراسلام کے اصلی اورحقیقی چہرے کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں ۔۔۔ وہاں جماعتیں تھیں تو بھی لہو و لعب کی مجالسیں برپا ہوتی تھیں۔ خدا خواہی کا نعرہ لگاتے تھے لیکن خدا و الوہیت کے خلاف قیام کرتےتھے۔ ان کے اعمال اوران کا رویہ شیطانی تھا لیکن ان کی فریاد خلیفہ رسول خدا کاتھا۔
معاویہ اور یزید کی طرف سے اسلام کو جو خطرہ تھا وہ یہ نہیں تھا کہ خلافت کو غضب کیا گیابلکہ یہ بہت کم خطرہ تھا لیکن ان کی طرف سے اسلام کو جوشدید خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاہتےتھے۔ اسلام کی معنویت کو ایک طاغوت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اوریہ اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا اور اس خطرے کو امام حسین علیہ اسلام نے دفع کیا اوراگر وہ اس چیز میں کامیاب ہوتے تو اسلام کا ایک اورنقشہ ہوتا اوراسلام بھی دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی رژیم و سلطنت کی طرح ہوجاتا۔5۔اسی طرح ایک اورمقام پر فرماتے ہیں :سید الشہداء علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اموی خاندان اسلامی خلافت کے نام پرمکتب اسلام کو آلودہ کر رہے ہیں اورہر قسم کے ظلم و ستم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے افراد کا تاثر یہ ہے کہ یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس لئےیہ کام انجام دے رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ یزید کے خلاف قیام کریں اوراس راہ میں شہید ہوجائے تا کہ معاویہ اوراس کے بیٹے یزید کے آثار کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دے۔
امام خمینی رح فرماتے ہیں:معاویہ اوراس کے بیٹے یزید کے دور حکومت میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کر رہے تھے اور خلیفہ المسلمین اور خلیفہ رسول اللہ کے عنوان سے ہر قسم کی جنایات انجام دیتے تھے اس لئے بزرگان اسلام کی ذمہ داری بنتی تھیں کہ وہ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے قیام کرے، دنیا کو ان کی خباثت برملا کرے اور اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرے کیونکہ بہت سے لا علم اورغافل افراد اسی کو ہی اسلامی خلافت سمجھتے تھے ۔6
امام خمینی رح کے ان کلمات میں آپ تحریف کے مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہوئے اسے بہت ہی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں اور اس سے مقابلہ کرنے کو قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف میں سے قرار دیتے ہیں۔اس تحریف کا خطرہ یہ تھا کہ اسلام کے لبادے میں اسلامی تعلیمات کو جان بوجھ کر لگد مال کئے جاتے تھے اور یہ کام بھی ان افراد کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو خلیفہ المسلمین کہلاتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں اسلام سرے سے صفحہ ہستی سے مٹ رہا تھا جبکہ نادان افراد ان کے اعمال و کردار کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کو جب مروان نے کہا کہ مدینہ کے گورنر کے پیشنہاد پر عمل کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرے تو آپ نے کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اورفرمایا: «و علی الاسلام، السلام، اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید7۔
۲۔ اسلامی معاشرے کی اصلاح
امام حسین علیہ السلام کےقیام کے اہداف میں سے ایک اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ۔اور یہی تمام انبیاء و اولیا ءکرام کا ہدف تھا۔امام خمینی رح اس سلسلے میں فرماتے ہیں :تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ان سب کا مسئلہ یہی تھا کہ فرد معاشرے پر قربان ہو جائے اور یہ فرد جس قدر عظیم اور بڑا ہی کیوں نہ ہو جب معاشرے کی مصلحت کے ساتھ اس کا ٹکراو ہو تو اسے معاشرے پر اپنے آپ کو فدا کرنا چاہیے۔
ایک اور مقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں:سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اسی معیار کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے اصحاب و انصار کو اسلامی معاشرے کی اصلاح کی خاطر قربان کیا ۔ "و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب و المیزان، لیقوم الناس بالقسط"8
اسی طرح آپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے اوپر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ قیام کرے اوراپنے پاکیزہ خون کو اسلام پر قربان کرے تاکہ ملت کی اصلاح ہو اورآپ نے ایسا ہی کر دیا۔9۔
امام خمینی رح فرماتے ہیں:امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: انی لم اخرج اشراولا بطرا ولامفسدا ولاظالماانماخرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدیوابی علی بن ابی طالبؑ۔10۔اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے علماءدین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جو عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا اس میں بھی بنی امیہ کے خلاف اپنی قیا م کو معارف دینی کی ترویج ، اسلامی معاشرے کی اصلاح ، مظلوم افراد کی فریاد رسی ،قرآنی تعلیمات اوردستورات اسلامی کا اجرا قرار دیا۔11
3۔ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف بنی امیہ کی طرف سے ہونی والی ظلم و ستم اور ناانصافی تھی ۔ امام خمینی رح اس بارے میں فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام اور امام زمان عج اسی طرح تمام انبیاء کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ ظالم و جابر حکومت کے مقابلہ میں ایک الہی حکومت تشکیل دے۔
اسی طرح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد شروع سے ہی عدل کا نفاذتھا اوراپنی پوری زندگی ظالم و جابر حکومت کے خاتمہ میں صرف کی۔ایک اورمقام پرآپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سب خدا کی راہ میں قربان کر دیا اوراسلام کی تقویت کی خاطر ظلم کے خلاف قیام فرمایا۔
امام خمینی رح ایک اورجگہ فرماتے ہیں:سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک ظالم و جابر جب ایک رعایا پر حکومت کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا: اگر کوئی ظالم و جابر لوگوں پر حکومت کرے اوران پر ظلم و ستم روا رکھے تو لوگوں کو چاہئے کہ اس کا مقابلہ کرے اور اس کے خلاف قیام کرے۔۔۔۔۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جو کوئی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کا مقام بھی یزید جیسے جابر و ظالم کا مقام ہے۔ 12
امام خمینی رح فرماتے ہیں :ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: میں موت کو سعادت جبکہ ظالمین کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار سمجھتا ہوں۔ «انی لا اری الموت الا السعادۃ و الحیاۃ مع الظالمین الا برما»13
امام علی علیہ السلام علماء ربانی کے وظائف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظالموں کے ظلم اور مظلومین کی آواز پر خاموش نہیں رہنا چاہئے۔14
اسی طرح امام علی علیہ السلام کے اس عہد نامہ میں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا اس میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں عدل کا قیام حکمرانوں کے لئے بہترین تخفہ ہے۔15
4۔امر بالمعروف و نہی از منکر
اسلامی معاشرے میں منکرات اوربرائیوں کا اصلی سبب اموی حکومت تھا اس کے خلاف اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا ۔اما م خمینی رح اس بارے میں فرماتے ہیں :حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام نےقلیل افراد کے ساتھ یزیدی حکومت کے خلاف جو قیام کیا اس بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میرا فریضہ ہے کہ میں اس حکومت کے خلاف قیام کروں اور نہی از منکر کروں۔
ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد معروف کو معاشرے میں رائج کرنا اور منکرات کا خاتمہ کرنا تھا ۔توحید کے علاوہ باقی سب چیزیں منکرات ہیں اور یہ سب انحرافات اسی منکرات کی وجہ سے ہے۔ آپ کے قیام کا مقصد نہی از منکر تھا تاکہ کسی بھی معاشرے میں کوئی برائی اورمنکر موجود نہ رہے۔
سید الشھداء امام حسین علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی منکرات کو ختم کرنے اور ظالم حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والےمفاسد کے خاتمے کےلیے صرف کیا۔۔آپ نے محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: {ارید ان آمر بالمعروف و انہی عنالمنکر} میں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں16۔آپ علماء دینی کو مخاطب قراردیتے ہوئے اپنے مشہور خطبہ میں امر بالمعروف و نہی از منکر اوراس الہی فریضہ کو درج ذیل چیزوں کے ساتھ ضروری قرار دیتےہیں۔
1۔لوگوں کواسلام کی دعوت
2۔رد مظالم
3۔ظالم کی مخالفت اوراس کے خلاف قیام
4۔لوگوں کے درمیان بیت المال کی عادلانہ تقسیم
5۔زکوۃ کی جمع آوری اور اسے صحیح مصرف میں خرچ کرنا۔
آپ فرماتے ہیں:"ان الامر بالمعروف و النہی عنالمنکر دعاء الی الاسلام مع ردالمظالم و مخالفۃالظالم و قسمۃ الفی و الغنائم و اخذ الصدقات من مواضعہا و وضعہا فی حقہا"17۔
ایک اورجگہ پر امام حسین علیہ السلام نے فلسفہ قیام کوحق پرعمل نہ کرنے اور باطل سے اجتناب نہ کرنے کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :" الا ترون ان الحق لایعمل بہ و ان الباطل لایتناہی عنہ"18۔کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اورباطل سے اجتناب نہیں کیا جا رہا ۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر کے بارے میں قرآن مجید میں زیاد ہ تاکید ہوئی ہے جیسا کہ :
(۱) ارشاد رب العزت ہے : {ولتکن منکم امۃیدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر اولئک ھم المفلحون}19۔ اور تم میں سے
ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے،نیکیوں کا حکم دے،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔
(2) ایک اور مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :{ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ}20۔ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگون کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ۔
(3)اسی طرح فرماتا ہے :{ یؤمنون باللہ ویوم الآخرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکرویسارعون فی الخیرات واولئک من الصالحین}21۔یہ اللہ اورآخرت پر ایمان رکھتے ہیں،نیکیوں کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہیں اور یہی لوگ صالحین اور نیک کرداروں میں ہیں۔
(4) سورہ توبہ میں ارشادفرماتا ہے :{ التائبون الحامدون السئحون الراکعونالامروبالمعروف والناھون عن المنکر والحٰفظون لحدوداللہ وبشرالمؤمنین}22.یہ لوگ توبہ کرنے والے،عبادت کرنے والے،حمد پروردگار کرنے والے،راہ خدا مین سفر کرنے والے،رکوع کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیکیوں کا حکم دینے والے،برائیوں سے روکنے والے اور حدود الہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنت کی بشارت دیدیں۔
(5)ایک اور مقام پر ارشاد ہوتاہے :{فلو لاکان من القرون من قبلکم اولوبقیۃ ینھون عن الفسادفی الارض الاقلیلاممن انجینامنھم}23۔تو تمہارے پہلے والے زمانون اور نسلوں مین ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے علاوہ ان چند افراد کے جنہیں ہم نے نجات دیدی۔
(6)اسی طرح ارشاد رب العزت ہوتاہے :{ کانوا لا یتناہون عن منکرفعلوہ لبئس ماکانویفعلون}24۔انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے۔
سیدا لشہدؑ ا خو د کو تمام احکام اسلامی خصوصامنکرات اور فحشاء کے مقابلہ میں ذمہ دار سمجھتے تھے جبکہ اسلامی معاشرہ فسق و فجور اور فساد سے بھر چکا تھاخاص کر یزید کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک ہادی، مصلح اور منادی کی قیام کی ضرورت دو چند ان ہو گئی تھی لہذا آپ نے اس فریضہ کے انجام دہی کے لئے قیام فرمایا ۔
5۔حکومت اسلامی کا قیام
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کا قیام تھا یا نہیں۔ اس حوالے سے دو نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بعض افراد کا عقیدہ ہے کہ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کوتشکیل دینا تھا ۔بعض افراد کے عقیدہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں یہ ہدف نہیں ہو سکتی کیونکہ تاریخی شواہد اوربہت ساری روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام اپنی اوراپنے اعوان و انصار کی شہادت کے بارے میں پہلے سے ہی مطلع و آگاہ تھے۔ لہذا تشکیل حکومت آپ کے اہداف میں سے نہیں ہو سکتا۔
امام خمینی رح کے کلمات میں یہ دونوں باتیں جمع نظر آتی ہیں۔ یعنی آپ اپنی اوراپنے اصحاب کی شہادت سے آگاہ تھے اور ساتھ ساتھ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کی تشکیل اورظالم و جابر حکومت کا خاتمہ تھا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں : امام حسین علیہ السلام نے اپنا شرعی وظیفہ سمجھا کہ اس ظالم حکومت کے خلاف قیام کرے یہاں تک کہ اسی راہ میں شہید ہو جائے۔ آپ نے بھی سب کچھ اسی راہ میں قربان کیا تاکہ یہ حکومت ہمیشہ کے لئے ذلیل اوررسوا ہو۔
امام خمینی رح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک جابر حکومت اسلامی معاشرے پر قابض ہے تو آپ نے اس شرائط میں اپنی شرعی ذمہ داری کو تشخیص دیتے ہوئے قیام فرمایا درحالیکہ آپ جانتے تھے کہ ایک قلیل گروہ اس ظالم حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔25
بنابریں مندرجہ بالا عبارات میں تین نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
۱۔ متعدد روایات کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔
۲۔ ظاہری محاسبات سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ امام اورآپ کے انصار و اعوان اموی حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
۳۔ اسلامی معاشرے میں انحرفات اور برائیاں اس قدر پھیل چکی تھی کہ اس کی اصلاح کے لئے ایثار و فدا کاری اورشہادت کی ضرورت تھی۔
امام خمینی رح اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے فرماتے ہیں:اگر کوئی امام حسین علیہ السلام کے ان خطبات کا مطالعہ کریں جسے آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت اور مکہ سے نکلتے وقت بیان فرمائے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ حکومت ا سلامی کی تشکیل چاہتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نےحکومت کی خاطر قیام نہیں فرمایا یہ صحیح نہیں ہے بلکہ آپ نے حکومت اسلامی کی خاطر قیام فرمایا تھا ۔ حکومت اسلامی اما م حسین علیہ السلام جیسی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونا چائیے۔۔۔۔۔۔۔26
لیکن یہ سوال کہ امام حسین علیہ السلام کو اگر اپنی شہادت کا علم تھا یا آپ جانتے تھے کہ ظاہری طور پر آپ کو شکست ہوگی اور آپ اسلامی حکومت تشکیل نہیں دےپائیں گے یعنی اس مقصد کے عدم حصول کوبھی جانتے تھے ۔۔۔ بنابریں اسلامی حکومت کی تشکیل ایک انسان عاقل کا مطلوب و ہدف نہیں ہو سکتا؟
امام خمینی رح کے کلمات میں غور و فکر کرنے سے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ یہ اشکال اس وقت صحیح ہے جب امام کا مقصد اپنے زمانے میں اسلامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد یہ ہو کہ مسلمان اس بات کو جان لین کہ اسلامی حکومت کی بھاگ دوڑ ایک صالح انسان اور ایک معصوم ہستی یا اس کے نمائندہ کے ہاتھ میں ہونا چاہئے جیسے مسلم بن عقیل وغیرہ اس وقت یہ مسئلہ پیش نہیں آتا اور جو کچھ امام خمینی رح کے کلمات سے سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا: یہ لوگ حکومت کی خاطر قیام کر چکے تھے اس کے بعد فرماتے ہیں : حکومت اسلامی کو حسین ابن علی علیہ السلام جیسی ہستی اوران کے پیروکاروں کے ہاتھو ں ہونا چاہئے۔
6۔ اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
عظیم انسانوں کے ارمان اوراہداف بھی عالی ہوا کرتی ہے ۔امام حسین علیہ السلام کی شخصیت صرف اس زمانے کے انسانوں کےساتھ
مختص نہیں تھی بلکہ آپ کی شخصیت پوری انسانیت اورقیامت تک آنے والی نسلوں کے ساتھ مختص ہے۔آپ پوری انسانیت کی فلاح ، بھلائی اورخیر خواہی چا ہتے تھے ۔ اور یہ سب دین مقدس اسلام کے مرہون منت ہی محقق ہو سکتی ہے۔
امام خمینی رح فرماتے ہیں: اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک سبب اسلامی معارف کی نشر اوراسلام کی حفاظت تھی۔ امام حسین علیہ السلام ،اسلام اورمسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔آپ چاہتے تھے کہ اسلام آپ کی فدا کاری اورایثار و شہادت کی بدولت دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان پھیل جائے اور اسلامی سیاسی و اجتماعی نظام ہمارے معاشرے میں رائج ہو اس لئے آپ نے بنی امیہ کی مخالفت کی اورقیام فرمایا27
ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :سید الشہدا علیہ السلام صرف ثواب کی حصول کے لئے اپنی جان کوقربان نہیں کیا بلکہ اس مقدس مکتب اور دین کو نجات دلانے کی خاطراوراسے ایک دفعہ پھر زندہ کرنے کی خاطر اپنی جان کو اسلام پر قربان کیا۔28۔
امام خمینی رح ایک اورمقام پر فرماتے ہیں: امام حسین علیہ اسلام نے اسلام کو اپنے اعمال کے ذریعےہمیشہ کے لئے حفظ کیا۔جو اسلام آج ہم تک پہنچا ہے وہ سید الشہدا علیہ السلام کی قربانی اوربچانے کی وجہ سے ہے۔آپ نے ان پاک جوانوں اورباوفا اصحاب کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اپنی جانیں اسلام پر نچھا ور کر دی اوراسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کیا۔
اسی طرح آپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اسلام کو زندہ کیا ۔آپ خود شہید ہوگئے لیکن مکتب اسلام اسی شہادت کی وجہ سے زندہ ہوگیا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں:امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ اوراپنے سارے عزیز و اقارب کو اسلام پر قربان کیا اور یوں ان کی شہادت کے بعد اسلام بہت زیادہ طاقتور ہوا۔29۔
امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری حفظ دین اور حفظ قوانین اسلامی ہے اور سیدا لشہداء ؑ کورسول اللہ ؐاورحضرت علی ؑ نے تربیت دی تھی کہ اسلام کے علاوہ باقی سب کچھ بے فائدہ ہے اگر اسلام ہے تو سب کچھ ہے اگر دین نہیں تو کچھ بھی نہیں لہذا امام ؑ نے دین کو بچانے کے لئے قیام کیا اور عظیم قربانی دی آپؑ کی قربانی نے نہ صرف دین کو بچایا بلکہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بنا: "جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا"30۔
امام حسینؑ شہید ہوئے لیکن آپ ؑ نے اپنے بنی ہاشم ا ور اصحاب کے خون سے اسلام کی آبیاری کر کے دین کو بچا لیا اور باطل بھی مٹ گیا اس کے بعد کسی کو بھی اسلام کومٹانے کے لئے میدا ن میں آنے کی جرات نہ ہوئی اورامام ؑ عالی کاہدف اس عظیم انقلاب ،قیام اورقربانی کا حفظ دین اوربقاء دین کی بہترین دلیل آپؑ کے اپنے کلام اورفرمائشات ہے ۔جیسا کہ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا :{انی لم اخرج اشراولا بطراولامفسداولاظالماانماخرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدی وابی علی بن ابی طالب}ؑ
مدینے سے نکلنے لگے تو روضہ رسول پر تشریف لے گئے اوریوں دعا فرمائی : مالک اس وقت مجھے اپنی ذمہ داری کی طرف راہنمائی فرما ،تا کہ میں اس پر عمل کر سکو ں اور فرمایا :{اللہم ان ہذا قبر نبیک وانا ابن بنت نبیک} مکہ میں آپؑ نے جو خطبہ دیاجس میں اپنی شہادت کا ذکر کے ساتھ اس کے مقصد عظمیٰ اورہدف حقیقی کی طرف بھی اشارہ فرمایا اوراس کے علاوہ ابن عباس کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا : یہ لوگ کہیں مجھے رہنے نہیں دیں گے ۔بہر حال اسلام کلی طورپر خطرے میں تھا اور دشمن کا یہ آخری فیصلہ تھا کہ اسلام کو ختم کرے تو اما م ؑ نے یہ محسوس کیا جب تک قربانی نہیں دینگے دین نہیں بچ سکتا لہذا اپنے سارے کنبہ اور اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں آئے اورشہید ہوئے لیکن اسلام اورتوحید کو بچا لیا۔
7۔الہی ذمہ داری پر عمل کرنا
وظیفہ شناسی اوراپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کرنااعلی ترین اخلاقی و دینی احساس ہونے کی علامت ہے۔ اس احساس کو پروان چڑھانے کے لئے نفس کی بہت زیادہ ریاضت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی احساس کے سایہ میں انسان کی روح پائیدار اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ اپنے الہی وظائف کی انجام دہی اوراس راستہ میں آنے والے جتنے ناگوار حوادث اور وقائع کے ساتھ سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کی راہ میں ناکامی ،نا امیدی اورشکست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سخت سے سخت شرائط میں بھی اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہے کیونکہ وہ سوائے الہی وظیفہ کے کسی اورچیز کے بارے میں نہیں سوچتا۔
امام خمینی رح خود ایک عظیم انسان تھے جس نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو یہ درس دیا ۔اپنی گفتگو میں ہمیشہ اس بات کی تاکید کی اورہمیشہ لوگوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ انسان مومن سوائے الہی وظیفے کے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی مقصد کی خاطر قیام فرمایا یہاں تک کہ شہادت جیسے عظیم رتبہ پر فائز ہوگئے۔
ایک اور مقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں: سید الشہدانےاپنا وظیفہ سمجھ کر اموی طاقت کے سامنے قیام فرمایا اورڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا چاہے جو کچھ بھی ہو جائے درحالیکہ ظاہری اعتبار سے آپ جانتے تھےکہ قلیل تعداد ان کے کثیر تعداد کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی آپ نے اپنے الہی ذمہ داری پر عمل کیا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی شرعی ذمہ داری تھی کہ اموی حکومت کے خلاف قیام کرے اور اپنا خون اسلام پر قربان کرے تا کہ ملت کی اصلاح ہو۔
اسی طرح فرماتے ہیں :سید الشہداء نے اپنے اہل بیت اور اصحاب و اعوان کے ساتھ قیام فرمایا چونکہ یہ قیام اللہ کے لئے تھا اس لئے اس طاغوتی خبیث حکومت کا تختہ پلٹادیا۔جو اللہ کی راہ میں کام کرتا ہے اس کے لئے اس راہ میں شکست نہیں ہے اگرچہ وہ اس راہ میں مر جائے۔امام حسین علیہ السلام بھی شہید ہوگئے لیکن آج بھی زندہ ہے۔31
بنی امیہ کے مردہ دل سیاستدان اس خیال میں تھے کہ حسین بن علی علیہ السلام کے بعد کام تمام ہو جائے گا ،لیکن زمانے کی گردش نے ان افراد کویہ بتا دیا کہ جس حسین علیہ السلام کو تم شہید کر چکے ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حوالہ جات:
1۔ بحارالانوار،ج 43، ص 261، حدیث اوّل.
2۔ سيد هاشم رسولي محلاتي، زندگاني امام حسين (ع)، دفتر نشر فرہنگي اسلامي، ص152.
3۔بحارالانوار، ج 45، ص 50۔
4۔ امام خمینی رح کی گفتگو میں تکرار سے بچنے کے لئے بعض الفاظ حذف کیا گیا ہے لیکن محتوی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔
5۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 29- 35.
6۔سیدبن طاووس، اللهوف، انتشاارت الرضی، قم، ص 10
7۔ملہوف (لہوف)، ص 99 و بحارالانوار، ج 1، ص 184.
8۔سورہ حدید، آیۃ 25 ۔
9۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س) ص 37 و 41.
10۔ بحارالانوار: 44 / 331، مقتل المقرم / 156۔
۱۰۔تحف العقول، انتشارات بصیرتی، قم، ص 170۔
11۔فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س) . ص 33 -42 ۔
12۔ تحف العقول، ص 174، بلاغة الحسین(ع)، ص 158.
۱13۔نہج البلاغۃ، خطبۃ 3، «اخذالله علی العلماء ان لا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم».
14۔ نہج البلاغۃ، نامہ 53، فراز 57، «ان افضل قرۃ عین الولاہ، استقامہ العدل فی البلاد».
15۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 33، 38، 39.
16۔لہوف، ص 10.
17۔تحف العقول، ص 168
18۔ مدرک قبل، ص 174، بلاغہ الحسین(ع)، ص 157
19۔ سورہ آل عمران ، آیت۱۰۴ ۔
20۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۱۰ ۔
22۔ سورہ آل عمران ، آیت ۱۱۴ ۔
23۔ سورہ توبہ آیت ۱۱۲۔
24۔ سورہ ہود ، آیت ۱۱۶۔
24۔ سورہ مائدہ ،آیت ۷۹ ۔
25۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 40-41.
26۔ایضا، ص 39، 41
27۔ایضا، ص 40-41
28۔ ایضا، ص 42
29ایضا، ص 52 -50
30۔ اسراء؍ ۸۱۔
31۔ ایضا، ص 48 -49۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی