مسئلہ یمن اور یمن جنگ پرتحریک انصاف کی ثالثی

06 December 2018

وحدت نیوز(آرٹیکل) یمن مشرق وسطی کا ترقی پذیر اور غریب ترین ملک ہے جس کا کل رقبہ پانچ لاکھ ستائیس ہزار نو سو ستر مربع کلومیٹر ہے۔جس کے شمال میں سعودی عرب مغرب میں بحرہ احمر جنوب میں خلیج عدن اور مشرق میں بحرہ عرب اور عمان واقع ہیں یمن تقریبا دو ہزار کلومیڑ ساحل سمندر بھی رکھتا ہے یمن کی ا?بادی 2016کی شماری کے مطابق تقریبا دو کروڑ پچھتر لاکھ چوراسی ہزار کے لگ بھگ تھی بنیادی طور پر یمن ایک زرعی ملک ہییمن پر 275قبل مسیح یہودی حکمران تھے چوتھی صدی مسیح میں یہاں عیسایت پہنچی اور ساتویں صدی میں میں اسلام کی تیزی سے ترویج ہوئی اور یمن اب ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ یمن کی جنگ کا محرک 2011قبل پیدا ہونے والا سیاسی بحران تھا جو کہ غربت بے روزگاری کرپشن کے خلاف عوامی احتجاجی مظاہروں سے شروع ہوا اور سن1978یعنی 34سال سے یمن پر حکمرانی کرنے والے صدر علی عبداللہ صالح کو عوامی احتجاج کے جواب میں مستعفی ہونا پڑا۔21فروری 2012 میں صدر عبداللہ منصور الہادی کو عبوری صدر کے طور پر اقتدار منتقل کیا گیا ۔

اقتدار کی اس منتقلی میں عوامی کسی قسم کی رائے شامل نہیں تھی اور عوام منصور کو بیرونی ممالک سے وابستگی رکھنے والے ایک فرد کے طور دیکھ رہے تھے۔ عبداللہ منصور الہادی نے دو سال میں الیکشن کروا کر اقدار منتقل کرنے کا وعدہ کیا مگر اس پر عملدا?مد نہیں کیا دوسال بعد بھی حکومت چلتی رہی اور اس نے استعفی بھی دیا مگر خود ہی واپس لے لیا جس نے یمن کی دو بڑی سیاسی قوتوں الاصلا ح اورانصاراللہ پارٹی کے درمیان سیاسی کشمکش کو مزید بڑھا دیا اور عوامی احتجاجات نے شدت اختیار کرلی 2014میں انصاراللہ نے دارالحکومت میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے اور دارالحکومت کی اہم عمارتوں پر قبضہ کرلیا اس میں سابق صد ر علی عبداللہ الصالح کی مدد بھی شامل تھی۔دارحکومت صنعا پر اپوزیشن جماعتوں کے قبضے کے بعد صدر منصور الہادی نے سعودی عرب میں پناہ لے لی۔ اور اپنی عبوری حکومت کی بحالی کے لئے سعودی عرب سے مدد مانگی وہ اس عوامی احتجاج کا سارا ملبہ حوثی قبائل پر ڈال رہا تھا جبکہ منصور ہادی کیخلاف احتجاج میں یمن کی اکثر چھوٹی بڑی پارٹیاں بشمول معزول صدر علی عبداللہ کی پارٹی بھی شامل تھی۔

سعودی عر ب صدر منصورالہادی کی بحالی چاہتاتھا اوراپوزیشن چاہتی تھی کہ الیکشن دوبارہ کروائے جائیں۔ اور نوبت جنگ وجدل کی جانب چلی گئی یوں عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عرب نے دیگر عرب ممالک کے ساتھ مل کر یمن پر چڑھائی کردی۔اسی دوران سابق صدر علی عبداللہ صالح تنازعات کا شکار ہوئے اور انہوں دسمبر 2017میں قتل کر دیا گیا۔اس قتل نے بھی ملکی سیاسی تنازعے میں اضافہ کیا ۔ سعودی عرب کا دعوی تھا کہ وہ جلد ہی منصورالہادی کی حکومت بحال کروا دے گا۔مگر تین سال سے زیادہ عرصہ مسلسل جنگ کے بعد صر ف اور صر ف یمن کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا۔مسلسل بمباری اور میزائل حملوں نے انفرسٹریکچر تباہ کر دیا جنگ کے نتیجے میں اب تک لا کھ لوگ لقمہ اجل بن گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ جنگ نے ملک کی معیشیت تباہ کر گی۔ ملک میں قحط کی صورت حال پیدا ہو گی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اگر جلد ہی اقوام عالم نے یمن کا مسئلہ حل کرنے کی سنجید ہ کوشش نا کی تو جنگ سے پیدا ہونی والی قحط سالی اور اس کے نتیجے میں انسانی ہلاکتوں ایک عظیم انسانی المیہ جنم دے گی جس کے بعد لوگ افریقہ کے ممالک کی قحط سالی کے سانحات کو بھول جائیں گے۔ سعودی عرب کو اب تک اس جنگ میں شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔حالیہ ایک مثال ہی لے لیں حدیدہ کی بندرگا ہ پر سرتوڑ کوششوں کے باوجود 16جون سے جاری حملوں کے بعد بھی قبضہ نہیں کیا جا سکا ۔16جون کو حدیدہ بندرگاہ پر ہونے والے آپریشن میں امریکی ،برطانوی اور فرانسیسی نیوی ایئر فورس سمیت متحدہ عرب امارات کی فورسز بھی موجود تھیں ۔ایک غریب پڑوسی ملک میں سیاسی بحران کی پشت پناہی اور عوام پر مرضی مسلط کرنے کی ضد نے خود سعودی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اب تک اس جنگ میں سعودی عرب اربوں ڈالر جھونک چکا ہے۔مگر نتیجہ کچھ حاصل نا کر سکا۔ عالمی سطح پر سبکی الگ ملک کے اندر سے اٹھنے والے سوالات اور تشویش خود سعودی بادشاہت کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔جنگ سے ہاتھ ہٹاناسعودی بادشاہت کی انا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اور سعودی عرب یمن جنگ کے دلدل میں بری طرح پھنس چکاہے۔ جنگ کے اخراجات اور دنیا کو خاموش رکھنے کے لئے دی جانی والی بڑی رقوم نے ملکی معیشت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ۔ٹیکسوں میں اضافہ۔مہنگائی۔غیر ملکی مقیم ہنر مندوں اور مزدوروں کو اپنے ممالک واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اب خود حکومت سعودی عرب اس جنگ سے باعزت باہر نکلنے کا رستہ تلاش کر رہی ہے۔

حوثیوں کے ساتھ سعودی عرب کے اعلی سطح پر کئی مزاکرات کے دور بھی چلے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے عوامل خصوصا اثر انداز ہونے والے ممالک سے یمن صورتحال حال پر سعودی بیانیہ کو تقویت دینا بھی شامل ہے۔ الاصلاح اور انصاراللہ جو کہ منصور الہادی کے معاملے پر دست وگریبان ہو گئے تھے لیکن اب بیرونی حملے نے یمن بحران کے دو سیاسی کرداروں کو بھی متحد کر دیاہے اس وقت الاصلاح جماعت انصاراللہ سے تعاون کر رہی ہے ۔عوام میں انصاراللہ جماعت کی محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ تو تھے کچھ تاریخی اور موجودہ حقائق اب بات کرتے ہیں پاکستان کی، آیا ایسی کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان یمن جنگ کا حصہ دار بن گیا بلکہ یوں کہنا بجا ہو گا فریق بن گیا ہے۔ تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ پاکستانی سیاست کبھی بھی عالمی طاقتوں کی مداخلت اور اثر ورسوخ سے خالی نہیں رہی۔ اگر ہم عرب ریاستوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ اثر سعودی عرب کا رہا ہے جہاں ایک طرف سعودی عرب میں موجود مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات کی بدولت پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ سرزمین وحی کے لئے تقدس اور احترام کا جذبہ رہا وہیں پر علاقائی سیاسی صورت حال نے بارہا سعودی بادشاہت کو علاقے میں اہم رول ادا کرنے کا موقع دیا۔

نائن الیون کے بعد عالمی سطح پر سعودی عرب کا ایک نیا تعارف اور کردار سامنے آیا۔ پاکستان کے سیاسی و سماجی معاملات میں سعودی عرب کا ہمیشہ ایک نقش موجود رہا ہے۔ جب یمن جنگ کی ابتدا ء ہوئی تو کسی کو اندازہ نہیں تھاکہ مفلوک الحال ننگے پاوں لڑنے والے یمنی زیادہ دیر مزاحمت کر سکیں گئے۔مگر یہ جنگ شروع دن سے ہی خود سعودی عرب کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی چلی گئی۔ اس دوران سعودی عرب کی جانب سے ایک اکتالیس ملکی ملٹری الائینس کی تشکیل سامنے آئی جسے کو دہشت گردی کے خلاف آراستہ کرنے کا نعرہ لگایا گیا یاد رہے اس دوران شام و عراق میں داعش کا عفریت اپنے پنچے گاڑ چکا تھا۔مگر سنجیدہ طبقے نے اس الائنس کو علاقے کی ایک اور طاقت ایران کے خلاف اور یمن جنگ میں استعمال کرنے کا خدشہ پیش کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اس ملٹری الائینس کے مقاصد دہشتگردی سے نمٹنا نہیں تھا بلکہ درپردہ مقاصد یمن جنگ میں فتح حاصل کرنا اور خطے میں اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔اسی ملٹری الائنس کی متنازہ کردار نے قطر کے ساتھ جوکہ سعودی عرب کا سب سے اہم اور بڑا اتحادی تھا اختلافات کو جنم دیا اور بات ایک دوسرے کے بائیکاٹ دھمکیوں اورپھر جو ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جو چلا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اس متنازہ اسلامی ملٹری الائینس کی سربراہی کے لئے پاکستانی ریٹائرڈ جنرل رحیل شریف کو پیشکش کی گئی جو کہ انہوں نے قبول کر لی جبکہ جنرل صاحب نے حکومت وقت سے اس حوالے سے کوئی اجازت نہیں لی۔سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں جنر ل راحیل شریف کی سعودی ملٹری الائینس کی سربراہی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔سعودی حکومت نے اس وقت کی حکمران جماعت سے ن لیگ سے یمن جنگ میں براہ راست شمولیت کے لئے درخواست کی جبکہ اس وقت بھی مختلف پروگرامات کے تحت پاکستانی ملٹری سعودی عرب میں موجود ہ تھی۔ حکومت ابھی اس حوالے سے کشمکش کاشکار تھی کہ آیا فورسز بھیجی جائیں کہ نہیں اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر حکومت کی مخالفت شروع کر دی جس میں تحریک انصاف پیش پیش تھی اس کے علاوہ ایک سیاسی مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین نے ملک کے کئی شہروں میں افواج پاکستان کی غیر ملک کی جنگ میں شمولیت کی مخالفت میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہر ے کئے۔

تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی نے اس وقت پارلیمنٹ ہاوس میں بیان دیا کہ ہم ہر صورت یمن جنگ میں پاکستانی افواج کی شمولیت کی مخالفت کرتے ہیں ہم پاکستان کو مذید کسی غیر کی جنگ کا فریق نہیں بننے دیں گے۔یمن پر حملہ کیا گیا ہے وہا ں موجود سیاسی بحران کو حل کرنے کے لئے غلط رستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ہم حکومت پاکستان کے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کریں گئے۔ جس کے بعد حکومت کو اس معاملے پر پسپائی اختیار کرنا پڑی اور سعودی حکومت نے ابھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ 2018کے الیکشن کے بعد اقتدار تحریک انصاف کے پاس آیا۔تبدیلی کے نعرے سے حکومت بنانے والی تحریک انصاف کو جب اقتدار ملا تو سابقہ حکومتوں کی رویات کے مطابق انہوں نے بھی چلانا شروع کردیا کہ خزانہ خالی کر دیا گیا ہے ملکی معیشت خطرے میں ہے۔لہذا قرض لینا ضروری ہو گیا ہے۔ لیکن حسب روایت تحریک انصاف نے آئی ایم ایف یا دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت اور اوپن شرائط پر قرض لینے کی بجائے۔اپنے دوست ممالک سے نرم اور خفیہ شرائط پر قرض لینے کی تگ ودوشروع کی پھر رویت کے برخلاف نئے وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ یا چین کی بجائے سعودی عرب کا دورہ کیا مگر قرض کی شرائط میں یمن جنگ پر تحریک انصاف کے سابقہ موقف کے برخلاف نکات شامل تھے لہذا فوری طور پر کوئی بات نہیں بن سکی مگر درپردہ بات چیت چلتی رہی اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نے یمن جنگ پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا۔اور کچھ ہی دنوں بعد پھر سعودی عرب میں منعقد ایک عالمی تجارتی کانفرنس میں شمولیت کے لئے وزیراعظم عمران خان سعودی عرب پہنچے اور چھ ارب ڈالر کا ایک پیکچ منظور کروائے میں کامیاب بھی ہو گئے یاد رہے کہ ترقی میں سعودی صحافی جمال خاشجقی کے قتل کے بعد دنیا کی بہت سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنزنے اس کانفرنس کا بائیکاٹ بھی کیا۔ اور یہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یمن میں قتل ہوتے ہوئے ہزاروں خاشجقی نظر نہیں آئے ، پاکستان کی وزارت خارجہ نے گزشتہ دونو ں ایک بیان میں پاکستان کی جانب سے یمن جنگ میں ثالثی کے کردار کی تائید اور اس پر پیشرفت کی نوید سنائی۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں یمنی سفیر جسے آج تک کبھی کسی سرکاری پروگرام میں مدعوبھی ناکیا گیا جوکہ منصورالہادی حکومت کانمائندہ ہے سے ملاقات کی اور اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ وہ منصور الہادی کی حکومت کی بحالی کے لئے کوشش کریں گئے۔ مگر یہ کیا ہو ایہ موقف تو شروع دن سے سعودی حکومت کا تھا کہ منصور الہادی کی حکومت بحال کی جائے جس کے لئے اس نے یمن پر ہزاروں ٹن بارود برسا دیا جبکہ یمنی عوام کا مطالبہ نئے آئین کی تشکیل اور نئے سرے سے انتخابات تھے اور اب بھی یہی مطالبہ ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کا موجودہ موقف اپنے گزشتہ موقف سے یکسر مختلف ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر منصورالہادی کی حکومت کی بحالی ہی تحریک انصاف کا موقف تھا تو ن لیگ دور حکومت میں یمن مسئلہ پر کیا صرف اپوزیشن کی گئی تھی؟ن لیگ بھی تو سعودی حکومت کے موقف یعنی منصورالہادی حکومت کی بحالی کی کوشش کرنا چاہتی تھی۔ ثالثی تو تب ہوتی جب حکومت کا موقف کوئی نیا حل نکالنے پر ہوتا مگر سعودی عرب کے موقف کو بیان کر کے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی جانب داری واضع کر دیا ہے۔

 اس وقت عوامی مزاحمت کے نتیجے میں قائم ہونے والی انصاراللہ کی حکومت جس نے چار سال سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی بمباری کا مقابلہ کیا ہے اسی منصور الہادی کی حکومت بحالی کے سیاسی بحران نے جہاں ہزاروں یمنی جان سے گئے اور لاکھو ں زخمی ہوئے ہیں اور یمن قحط سالی کے حالات سے گزر رہا ہے وہ کیسے منصورالہادی کی حکومت کو بحال کروانے پر رضا مند ہو سکتے ہیں۔ لہذ اتحریک انصاف کی حکومت نے جو موجودہ موقف اپنایا ہے یہ مذید مسئلے کو بڑھا سکتا ہے حل نہیں کر سکتا۔ حکومت اگر چاہتی ہے کہ یمن کے مسئلہ پر کوئی سنجیدہ کردار ادا کرئے تو اسے تما م فریقین سے بات کرنا ہو گی ،لیکن ایسا دیکھائی نہیں دیتا ہے 6ارب ڈالر تھوڑی رقم نہیں ہوتی ہے ۔اور یمن مسئلہ پر ہی وزارت خارجہ نے عالمی سطح پر ایک اور سبکی بھی اٹھا ئی ہے گزشتہ دونو ں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں یمن پر جاری جنگ اور اس کی تحقیقات کے لئے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی جانب سے جاری تحقیقات کے دورانئے میں اضافے کے لئے ایک قرادراد پیش کی گئی جس کی مخالفت میں تحریک انصاف کی حکومت نے ووٹ دیا باوجود اس کے یہ قرادرا منظور ہو گئی یادر رہے کہ یہ وہی موقف ہے جو کہ پاکستان کا مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ہندوستانی مظالم پر عالمی انسانی حقوق کی تنظم کے زریعے تحقیقا ت کروانے سے متعلق ہے۔اور ہم کشمیر میں تو عالمی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں مگر یہی ادارہ اگر یمن جنگ پر تحقیقات کرنا چاہ رہا ہے تو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں ہیں پاکستان کے اس موقف سے مسئلہ کشمیر پرپاکستانی موقف کمزور اور متاثر ہوا ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب ملک یمن کے خلاف جنگ فوری طور پر روکی جائے اور وہاں فوری طورپر امدادی پیکچ فراہم کئے جائیں۔انفرسٹکچر کی بحالی کے لئے امداد کی جائے یمن جنگ کے تمام فریقین جب تک برابری کی سطح پر آکر بات چیت نہیں کریں گئے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اس مسئلے کا سب سے اہم فریق خود یمنی عوام ہے یمنی عوام کی رائے کے برخلاف کوئی بھی لا ئحہ عمل یا منصوبہ کسی صورت مسئلے کا حل اور پائدار امن کی ضمانت نہیں دے سکے گا ۔

تحریر :شجاعت علی بلتی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree