وحدت نیوز (آرٹیکل) بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹیکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹیکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پرٹیکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟…
ابھی تک جو کچھ بھی کہا گیا ہے محض باتوں کی حد تک ہے اور پتہ نہیں ہے کہ شام سے کتنے فوجی نکل رہے ہیں چونکہ ابھی تک ٹرمپ انتطامیہ کے پاس اسکا جواب نہیں ہے کہ وہ نکل تو رہیں ہیں لیکن ایران کے بڑھتے اثر کا کیا کریں گے اسی لئے فیصلہ کے بعض مخالفین اسے ایران کے بڑھتے اثرات کے طور پر دیکھ رہے ہیں [۱] یہی وجہ ہے کہ فیصلہ تو ہو گیا ہے لیکن ابھی اسکے عملی ہونے کے لئے ہنوز دہلی دور است اور فی الحال امریکہ کی جانب سے بی بی سی کے مطابق اتنا ہی کہا گیا ہے کہ ” روس، ایران، شام دولتِ اسلامیہ کے مقامی دشمن ہیں۔ ہم وہاں ان کا کام کر رہے تھے اور اب گھر واپسی کا وقت ہے، البتہ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں جبکہ امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ ’مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔‘ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں ہیں ۔[۲]
گزشتہ بیان کئے گئے تمام ہی نکات وہ ہیں جنکی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مستقبل قریب میں ایک بڑا محاذ جنگ تشکیل پا رہا ہے اور اس محاذ کی تشکیل کو امریکی انتظامیہ کے بین السطور میں پڑھا جا سکتا ہے جہاں ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ” میں دنیا میں طاقت ور ترین فوج کی تعمیر میں جٹا ہوں جبکہ داعش نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا ۔[۳] شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ فوجی نقل و حرکت کو شام میں چھپی ہوئی جنگ hidden war in Syria” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے [۴] چونکہ صرف شام ہی کی بات نہیں ہے افغانستان سے بھی فوج کی واپسی کی باتیں ہو رہی ہیں [۵] جبکہ دوسری طرف عراق سے فوجیں بلانے کو یکسر مسترد کیا جا رہا ہے سب کچھ اپنے آپ میں اپنی نوعیت کے اعتبارے ایسا کہ کسی بھی صاحب فکر کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔
ایران کی ایک نیوز ایجنسی [۶]نے امریکی انخلاء کے پیش نظر کچھ خدشات بیان کئے ہیں جو گزشتہ و حال کی پیش نظر تحریر کو اگر سامنے رکھا جائے تو کافی حد تصویر کو واضح کر سکنے کا سبب بن سکتے ہیں چنانچہ ایرانی تجزیہ نگار لکھتے ہیں :
“گزشتہ چند مہینوں میں ایسے متعدد امریکی اقدامات سامنے آئے ہیں جنکے پیش نظر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعا امریکہ شام سے نکل رہا ہے کیوں کہ ایسی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ امریکہ ۴۰ ہزار مقامی فورسز کی ٹریننگ کر رہا ہے اور بھاری اسلحوں کی کھیپ انکے حوالے کی گئی ہے ، دوسری طرف وہائٹ ہاووس نے گزشتہ چند دنوں قبل یہ کہا تھا کہ جب تک ایرانی فورسز شام میں ہیں، امریکا کی فورسز بھی رہیں گی، ان تمام باتوں کے پیش نظر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے، اگر ہم امریکیوں کے شام سے نکلنے کی بات کو مان بھی لیں تو چند سوالات پھر بھی قائم ہوتے ہیں جن میں اہم سوال یہ ہے کہ امریکی بالکل آسانی سے کیوں کر اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ ہم شام سے باہر نکل رہے ہیں ؟
نمبر ۱ ۔پہلا مفروضہ یہ ہے کہ امریکی فورسز کا یہ انخلاء ممکن ہے جان بولٹن ، ٹرمپ اور مائیک پامییو کی مشترکہ پالیسی ہو اور وہ یہ چاہتے ہوں کہ ایران کے مسئلہ پر فوکس کر سکیں ، اس سناریو کے مطابق واشنگٹن اپنی فورسز کو خلیج فارس کی طرف منتقل کر رہا ہے اور دوسرے مرحلہ میں ممکن ہے ایران کے خلاف قدم اٹھایا جائے ، ممکن ہے یہاں پر یہ سوال اٹھے کہ یہ مفروضہ کس قدر حقیقت سے نزدیک اور قابل قبول ہے ؟
اس سلسلہ سے ہمیں چند اشاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے؛
الف ۔ ایک طر ف امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی توانائی کے جامع معاہدہ سے خارج ہو گیا ہے تو دوسری طرف ایران کے صبر کا پیمانہ بھی اب یورپ کے خالی وعدوں سے لبریز ہو گیا ہے اور یہ احتمال بعید نہیں کہ ایران بھی اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کر دے ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکا سیدھا سا مطلب ہے کہ ایٹمی توانائی سے متعلق سر گرمیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی ، یہاں پر ممکن ہے کہ امریکہ اس سرگرمیوں کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کر ے ،لہذا جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ب ۔ دوسرا قابل غور اشارہ امریکیوں کی جانب سے زبردست طریقے سے ایران کے باہر موجود ایرانی حکومت کے مخالف عناصر کی حمایت و پشت پناہی ہے خاص کر رضا پہلوی ، اور واشنگٹن آلٹرنیٹ کی تلاش میں ہے ،انکی کوشش ہے کہ ایک متبادل سامنے رہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔
ج۔ تیسری نشانی امریکہ کا دوبارہ خلیج فارس پر توجہ دینا ہے چنانچہ امریکی بیڑوں کا وہاں جانا اسکی ایک مثال ہے۔
نمبر ۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے انخلاء کا اعلان درحقیقت روس اور ترکی کے ساتھ امریکہ کے مشترکہ سمجھوتے کا نتیجہ ہے، جسکے چلتے کچھ نہ کچھ تو واشنگٹن کے ہاتھ آہی جائے گا اور ممکن ہے اس بارے میں روس سے ڈیل بھی ہو چکی ہو کہ ہم نکل رہے ہیں اب ایران کو بھی نکالا جائے ۔
نمبر ۳ ۔ایک اور فرض یہ ہے کہ امریکیوں کا شام سے نکلنا خاشقجی کے قتل کا خون بہا ہے ، اور امریکہ نے ترکی کے خلاف جمے کردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ روک کر ممکن ہے انہیں یہ بونس دیا ہو کہ تم سکون کی سانس لو اور سعودی شہزادے کو چین سے جینے دو باقی کردوں سے خود نبٹ لو ساتھ ہی ساتھ ممکن ہے کہ امریکیوں کے ذہن میں شام میں موجود ایرانی فورسز کے اوپر حملہ کرنے کی دھن سوار ہو اور وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا چاہیں اور ایرانی مسلح افواج کے جوا ب سے بچنے کے لئے پہلے ہی اپنی فورسز کو وہاں سے نکال لیں کہ بالمقابل ایران کے ہاتھ بہت زیادہ کھلے نہ رہیں۔
نمبر ۴۔ ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ مکمل طور پر شام سے نہ نکلے بلکہ یہ ایک طرف یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ ہم انقرہ کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر پابند ہیں تودوسری طرف بشار اسد کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل کو سجانے کی کوشش کرے ۔
نمبر ۵ ۔ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ شمالی علاقوں میں ترکی کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکے اور ایسا شگاف بنایا جا سکے جس میں ایران ، روس اور ترکی کے اتحاد میں سیندھ لگائی جا سکے اسکا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا کہ شام کے بنیادی دستور کے لئے جو کمیٹی بنی ہے وہ اپنا کام نہ کرسکے “۔
یہ سب کے سب مفروضے ہیں جن میں سے کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن جو بات یقین سی کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ میدان جنگ تبدیل ہو رہا ہے اور ہر ایک مفروضے میں ایران جھلک رہا ہے، بعید نہیں کہ مسلسل ہر محاذ پر شکست کے بعد امریکہ میں موجود یہودی لابیوں نے ایک نا ممکن ہدف کو حاصل کر نے کی چاہت ٹرمپ کے ذہن میں ڈال دی ہو اور یہاں بھی صدام کی طرح دن میں تارے دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھی ہو اور یوں ایران کو واقعی طور پر گھیرنے کی کوشش تیز ہو گئی ہو بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پر ٹکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟
(بقلم:سید نجیب الحسن زیدی)
بشکریہ ابنا نیوز