وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کا ناسور اس خطہ ء ارضی سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا،بس تھوڑا وقفہ ہوتا ہے اور پھر کوئی بڑی واردات سب کو ہلا بلکہ جگا دیتی ہے،پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کو اضلاع میں بدل دیا گیاہے مگر ابھی تک اس پہ بہت کام ہونا باقی ہے ابھی تو ابتدائی مراحل ہیں،اسی لیئے ہم ان کو ایجنسی کے طور پہ ہی لے رہے ہیں،اورک زئی ایجنسی جو ضلع کوہاٹ اور ہنگو سے منسلک ہے اس میں میں اہل تشیع کے ایک مدرسہ و مرکز کے ساتھ جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے نے ایک بار پھر یہ بتلا دیا کہ دہشت گردی کا جن ابھی تک بوتل سے باہر ہے اور جو دعوے کیئے جاتے ہیں وہ بس اخباری و کاغذی کاروائی سمجھی جائے،اورک زئی ایجنسی واحد قبائیلی ایریا ہے جس کی سرحد افغانستان سے نہیںملتی،عمومی طور پہ ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی قبائلی ایریامیںہونے والے بم دھماکوں سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد ہمسایہ ملک یعنی افغانستان سے حملہ آوار ہوئے ،یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ،یہاں کسی بھی طرف سے سرحد افغانستان سے نہیں ملتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس ایجنسی میں بھی دوسری ایجنسیز کی طرح اس مائنڈ سیٹ کی حمایت اور سہولت کاری موجود ہے جو پاکستان بھر میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے،ہماری مراد طالبان ہیں جو کسی بھی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں کبھی طالبان تحریک کے نام سے تو کبھی کسی اور گروہ کے نام سے ،حقیقت میں ان کا کام ہی ان کی پہچان ہے اور وہ ہے بے گناہوں کا قتل عام اور اس ملک کے در و دیوار کو ہلا کے رکھ دینا،اس کے اداروںکو کمزور ثابت کرنا اور ریاست پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پہ سامنے لانا تاکہ دنیا اس ایٹمی ملک کو پریشرائز کر سکے کہ وہ ایک کمزور اور غیر ذمہ دار ریاست ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کاہونا دنیا کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے ۔
اورک زئی ایجنسی کے علاقے کلایہ کے جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 35کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں دو ہندو بھی شامل ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی پچاس کے لگ بھگ ہے جن میںکچھ کی حالت نازک بھی ہے ،یاد رہے کہ کلایہ کی اس جگہ جہاں بم دھماکہ ہوا ہے ایک مدرسہ انوار اہلبیت ؑ ہے جہاں جمعہ کا اجتماع ہوتا ہے اور جمعہ کے بعد بڑی تعداد میںلوگ خریداری کرتے ہیں،یہ بازار اور مدرسہ کافی قدیم ہیں،راقم الحروف کو پہلی بار یہاں 1988ء میں جانے کا اتفاق ہوا تھا اور ہم ایک ماہ تک ادھر ایک دینی تربیتی ورکشاپ کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے اس وقت صرف مدرسہ ہوتا تھا اور بعد ازاں تو مدرسہ سے منسلک اسکول بھی بنایا گیا،یہ شیعہ اکثریتی علاقہ ہے ،اور یہیں سے علامہ عارف الحسینی کے بزرگوں نے ہجرت کی اور کرم ایجنسی میں جا کے آباد ہوئے ،اب بھی یہاں ان کا خاندان نمایا ںمقام و احترام رکھتا ہے ،جبکہ اورک زئی کے اسی علاقے میں علامہ عارف الحسینی کے بڑے بزرگ معروف عرفانی و ادبی شخصیت میاں انورشاہ کا بھی مزار ہے جو اہلسنت کی آبادی والی طرف ہے ،شائد اس وقت اس کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔اورک زئی ایجنسی میں اس سے قبل بھی شدت پسند عناصر کی طرف سے مختلف حملے کیئے جاتے رہے ہیں اور دیگر ایریاز کی طرح یہاں پر بھی طالبان نے اپنے قبضہ کی پوری کوشش کی ہے یہاں سے سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو اغوا اور بے دخل کیا گیا جو یہاں کے قدیمی رہائشی تھے،اسی طرح اہل تشیع پر بھی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اہل تشیع کی گاڑیوں کو روڈ سائیڈ بم دھماکوں سے اڑایا گیا۔جبکہ انہی عناصر نے کوہاٹ اور ہنگو میں بھی دہشت گردی کے ذریعے اہل تشیع کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ،مگر یہاں کے غیرت مند قبائل نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں ان کے ارادوں میں ناکامی سے دوچار کیا۔
جس دن اورک زئی ایجنسی میں نمازیوں اور غریب قبائلیوں کو نشانہ بنایا گیا اسی دن کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھی ایک دہشت گردانہ حملہ کیا گیا،فائرنگ اور بم دھماکوں میں دو پولیس اہلکار،دو کوئٹہ سے آئے باپ بیٹا اور تین مسلح دہشت گرد مارے گئے،یہ حملہ اس حوالے سے ہولناک اور خطرناک رہا کہ پہلی بار بلوچ علیحدگی پسندوں نے فدائی سٹائل میں کاروائی کی ،اور دہشت گردوں کی باقاعدہ فلم بنا کر نشر کی بالکل داعش اور طالبان حملہ آوروں کی طرح انہیں تیار کیا گیا اور ان کی ٹریننگ کی ویڈیو بھی جاری کی گئی،کسی کو شک نہیں ۃونا چاہیئے کہ اس حملے کے مقاصد کیا تھے اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہو سکتی ہیں، بلوچ علیحدگی پسند بھارت اور مغربی ممالک میں کھلے عام پھرتے ہیں ،کچھ افغانستان میں بھی پناہ لیئے ہوئے ہیں ان کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنا اور سی پیک جس سے پاکستان کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں کو نقصان پہنچانا ہے،بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی این ڈی ایس اس وقت پاکستان کے خلاف مشترکہ منصوبوں پہ کام کر رہی ہیں ،یہ کاروائی بھی دراصل انہی کی کارستانی ہے جو کسی بھی صورت میں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔
کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں دہشت گردی اسلحہ و منشیات کی ریل پیل دراصل اٖفغان پناہ گزینوں کی دین ہیں جن کی بدولت پاکستان گذشتہ چالیس برس سے عذاب بھگت رہا ہے،پاکستان نے روسی حملے کے بعد اسی کی دہائی کے شروع میں افغانوں کو برادر ہمسایہ مسلم ملک کے مہاجرین کے طور پہ قبول کیا چالیس لاکھ افغان پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور آج تک ہمارے حکمران انہیں اپنے ملک اور وطن بھیجنے میں ناکام نظر آتے ہیں ان افغانوں نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر کاروبارا ور شادیاں کر رکھی ہیں اور اب ان کی اگلی نسلیں یہاں کی شہریت کی حامل ہو چکی ہیں،ان کو واپس بھیجنا تقریبا ناممکن ہو چکاہے ،کے پی کے اور بلوچستان کے پختون قبائل کو ان کے ووٹس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے لہذا وہ کسی بھی طور ان کو واپس بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں ان کا تعلق دینی جماعتوں سے ہو یا قوم پرستوں سے اس مسئلہ میںسب کی ایک ہی بات ہے اس مسئلہ میں سب یک جان ہیں،لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے ان افغانوں سے جان چھڑوانے کا مطالبہ اب زور پکڑ چکا ہے،پاکستان کے گوش و کنار میں ہونے والی دہشت گردی کے پس پردہ بھی انہی عناصر کا ہاتھ ہے ہمارے خفیہ اداروں نے کتنے ہی کیسز میں ان کی نشاندہی کی ہے اور دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ملا ہے،چاہے وہ آرمی پبلک سکول پشاور کی دلخراش داستان ہو یا پاکستان کے خلاف برسر پیکار نام نہاد کمانڈرز اور طالبان قیادت کے قیام و طعام کا بندوبست ہو،سب ہی افغانستان میں بیٹھ کے پاکستان پہ حملہ آوار رہے،اس وقت بھی عالمی طاقتیں پاکستان اور اس خطے کو سبوتاژ کرنے کیلئے داعش کی سرپرستی کر رہی ہیں،داعش کو افغانستان میں لا کے بٹھایا اور بنایا گیا ہے اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ ان کے کیمپ قائم کیئے گئے ہیں ،اورک زئی ایجنسی میں ہونے والے حملے کو بھی داعش کے نام سے قبول کیا گیا ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کاروائی عالمی ایجنڈے کا حصہ تھی،وہ قوتیں جو داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں انہی کی طرف سے کلایہ بم دھماکہ( جسے خود کش کہا جا رہا ہے )کیا گیا ہے اور کراچی میں ہونے والی چینی قونصلیٹ کی دہشت گردی سے بھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلح بلوچ علیحدگی پسند اور نام نہاد مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گرد اپنے اصل آقا کی چھتری تلے جمع ہو چکے ہیں اور پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں،ہمارے سیکیورٹی اداروں اورحکمرانوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے پس پردہ در اصل ایک ہی دشمن ہے جو کہیں بلوچوں کو استعمال کر رہا ہے تو کہیں اسلام کے نام پر بد ترین دھبہ سفاک دہشت گردوں کو ،انکا نام بی ایل اے ہو یا داعش،لشکر جھنگوی ہو یا طالبان سب ایک ہی تھالی کے کچے چھٹے ہیں ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے اور ملک کو ان کے شر سے بچایا جائے،ہمارا پیارا ملک اور اس کے باسی ایک عرصہ سے امن،شانتی،سکون اور شادمانیوں کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں،ان بجھے چہروں پر خوشی و مسرت کی علامات نظر آنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں،اب اس پاک دھرتی سے شر اور فساد کا خاتمہ ہو جانا چاہیئے اس کیلئے ردالفساد کے نام سے میدان سجایا جائے یا ضرب عضب کے نام سے،دہشت گردی کا خاتمہ ہمارے اداروں اور حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے ورنہ ہم اسیطرح مارے جاتے رہینگے۔
تحریر: ارشادحسین ناصر
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.