وحدت نیوز(آرٹیکل) مسلمان بالکل تہی دست تھے، 1936ء و 1937ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مکمل طور پر شکست ہو چکی تھی، ۱۱ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع نہیں ملاتھا، اس شکست سے مسلم لیگ کا یہ دعوی بھی خطرے میں پڑ گیا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آج کل کی طرح انفارمیشن اور رابطے کے وسائل بھی نہیں تھے، مسلمانوں کی سیاسی تربیت ،اجتماعی شعور اور نظریاتی سدھار کے سامنے ہزار طرح کی رکاوٹیں تھیں۔
سیاست ،وطن، جمہوریت، آزادی، خودمختاری اور ملت کی ایک تعریف ہندو حضرات اور کانگرسی علما اور دوسری تعریف مسلم لیگ کے رہنما کر رہے تھے۔اگر بظاہر دیکھا جائے تو انتخابات میں شکست کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا، اپنے موقف سے عقب نشینی کر لینی چاہیے تھی اور اپنے نظریے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
بلکہ اس کے برعکس کانگرس کو دو سال اور چند ماہ کے بعد مستعفی ہونا پڑا اور مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 22 دسمبر 1939ء کو یوم نجات منایا۔اس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تین دن کے لئے 22 مارچ۱۹۴۰ کو لاہور میں شروع ہوا۔اجلاس کے ابتدائی سیشن سے قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی خطاب کیا، 23 مارچ کو مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس کے بعد اس قرار داد کے حق میں تقاریر جاری رہیں اور 24 مارچ 1940ء کو رات کے ساڑھے 11 بجے یہ قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد لاہور کو اس وقت کے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے قراردادِ پاکستان کا نام دیا اور یوں یہی قراردادِ پاکستان ہی حصولِ پاکستان کے لئے مشعلِ راہ بن گئی۔
۱۹۴۰ سے ۱۹۴۷ تک کے سات سالوں کے اندر مسلم لیگ نے مسلمانوں میں مطلوبہ سیاسی بیداری بھی پیدا کی اور انہیں اس قرارداد کے مطابق ایک آزاد وطن بھی حاصل کر کے دیا۔ قائداعظم کی وفات کے چھے ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو دستور کے مقدمے کے طورپر قراردادِ مقاصد منظور کی گئی اس قرارداد کےمطابق پاکستان نے ایک اسلامی جمہوریہ بننا تھا اور پہلا پاکستانی آئین 29 فروری 1956 کو منظور اور 23 مارچ 1956 کو اسے نافذ العمل ہوا۔چنانچہ ۱۹۵۶ سے تئیس مارچ کو سرکاری سطح پر منانے کا سلسلہ شروع ہوا اوراس روز کوآج تک کبھی ہم نے یومِ جمہوریہ اور کبھی یوم پاکستان کے نام سے منایا تاہم اس دن کے ساتھ ہم آج تک انصاف نہیں کرپائے، ہم نے نہ ہی تو اسلامی جمہوری اقدار کی پابندی کی اور نہ ہی پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی آبیاری کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم پاکستان کی کسی بھی سیاسی تنظیم کو پاکستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نہیں کہہ سکتے، اور آج ہم پاکستان بننے کے ۷۲ سالوں کے بعد بھی ایک قومی سطح کی قیادت کے حوالے سے بحران کے شکار ہیں۔
قراردارِ پاکستان کی روشنی میں پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو غیرِ خدا کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پناہ اور امان میں لانا اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا اور یہی قراردادِ مقاصد کا بھی لبِ لباب ہے لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا پاکستان ہے ،جس میں آج بھی قائداعظم کے مخالف کانگرسی علما کا قبضہ ہے،سیاسی پارٹیاں انگریزوں اور یورپ کی کاسہ لیس ہیں اور سیاسی لیڈر یوٹرن لینے پر عمل پیرا ہیں۔آج کا پاکستان ، اسلام اور مسلمانوں کا پاکستان نہیں بلکہ فرقوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا پاکستان ہے، ہم بحیثیت قوم، قراردادِ پاکستان سے منحرف ہو چکے ہیں۔یہ انحراف اس قدر زیادہ ہے کہ ہم اب مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو نظریاتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے علاقائی مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں، ہم اب یہ سوچتے بھی نہیں کہ ہم کس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اور کس کوچے میں کھڑے ہیں۔ہم اب تک اپنے ریاستی و نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں بھی فرق نہیں کر سکے، کہنے کو تو ہم نے ریاست ِمدینہ اور مدینہ فاضلہ کا خواب دیکھا تھا لیکن یقیناً ہم نے اپنی منزل کھو دی ہے۔
منزل کھونے کا احساس بہت اہم ہے ،اس احساسِ زیاں کی حفاظت ضروری ہےلیکن فقط حالات کا نوحہ لکھنے، ماضی کا ماتم کرنے، کانگرس نواز مولویوں پر تنقید کرنے اور حکمرانوں کو کوسنے سے تاریخ بدل نہیں سکتی اور مستقبل سنور نہیں سکتا۔اگر ہم نے تاریخ کے دھارے کو بدلنا اور قومی مستقبل کو سنورنا ہے تو ہمیں اپنے حال کو قراردادِ پاکستان کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ہماری قومی ، سیاسی اور دینی تنظیموں کو قرارداد پاکستان کو سامنے رکھ کر پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا بصورت دیگر اس کھوئی ہوئی منزل کو تلاش کرنا اور بھی دشوار ہو جائے گا۔جس طرح بیماری کے علاج کے لئے بیماری کا احساس ضروری ہے اسی طرح کسی بھی طرح کے زیاں کے جبران اور تلافی کے لئے اس زیاں کا احساس بھی ضروری ہے۔ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ جو قراردادِ پاکستان ہمارے اجداد نے پیش کی تھی ہم عملاً اس کو کھو چکے ہیں اب اس زیاں کی تلافی کا وقت ہے،قراردادِپاکستان سے لئے گئے ہر یو ٹرن نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں خزانوں کا خالی ہونا، تہی دست ہونا اور انفارمیشن و رابطے کی سہولتوں کا فقدان اتنا ضرررساں نہیں جتنا سیاسی رہنماوں کا اصولوں اور نظریات سے یو ٹرن لینا ہے، خصوصا ایسا یوٹرن جس کے بعد احساسِ زیاں بھی نہ رہے۔
تحریر:نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.