وحدت نیوز(آرٹیکل)[شہید سید قیام الدین غازی تاجکستان کی تحریک آزادی کے بانی رہنما اور تاجکستان کے محبین اہلبیت کے ہردلعزیز رہبر تھے]میرا نام سید قیام الدین غازی ہے. میں 21 مارچ 1952 کو تاجکستان کے ضلع حصار کے گاؤں قلم توغَی کے ایک عالم گھرانے میں پیدا ہوا. میرا نسَب حضرت سید موسی مبرقع علیہ السلام سے ہوتا ہواحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اور وہاں سے حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے. میرے سب اجداد اپنے اجداد کے دین کے عارف, عالم, مبلغ اور مروج (رائج کرنے والے) تھے. وہ سب اپنے زمانے کے مجاہد, مبارز اور سیاستدان تھے. میرے والد بزرگوار سید امام الدین غازی(رح) ایک عارف, شاعر, فقیہ اور اپنے زمانے کے مشہور متکلم تھے. انہوں نے چند قلمی اثر بطور میراث چھوڑے ہیں. میرے دادا سید غازی (رح) ایک معروف عارف, شاعر, خطاط, حافظ کل قرآن, مجاہد اور ظالم کمیونسٹ حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں میں سے تھے. میرے پڑدادا سید شاگَرد علی ختلانی (رح) ایک عارف, شاعر, خطاط, حافظ کل قرآن کریم, مفسر اور مشہور سیاستدان تھے۔
آپ نے لڑکپن میں ہی ابتدائی علوم اپنے والد گرامی سے پڑھ لیے تھے جس کہ بعد آپ مزید تعلیم کی غرض سے افغانستان اور پھر وہاں سے برصغیر پاک و ہند چلے گئےتھے جہاں آپ نے 10 سال تک مشہور اساتید زمان سے کسب فیض کیا. آپ نے 1888 میں تاجکستان کے صوبے ختلان میں بخارا کی ظالم اور مستبد حکومت کے خلاف عوامی اور دینی قیام کی سربراہی کی. یہ قیام تاریخ میں "قیام واسع" کے نام سے مشہورہے.میں نے ابتدائی اسلامی علوم اپنے والد گرامی کے پاس پڑھے جس کے بعد اس وقت کے مشہور اساتید سے کسب فیض کیا. بعدازاں مزید تعلیم کی غرض سے میں جمہوریہ ازبکستان کے شہر نمنگان چلا گیا جہاں میں نے عظیم استاد, عارف, محدث, اس زمانے کے مشہور معارف پرداز جناب قاری اکرام الدین نمنگانی سے مختلف علوم میں کسب فیض کیا. میں ان حضرت کی وفات سے پہلے واپس وطن آچکا اور یہاں مولوی قاری محمد جان ھندوستانی, قاضی عبدالرشید اور ملا احمد بخاری اصفہانی (ملا مراد) جیسے اساتید کی خدمت میں مشرف یاب ہوا اور ان سے کسب فیص کیا۔
سیاسی بیداری کے عنوان سے میں نے استاد مرحوم ملا مراد احمد بخاری اصفہانی سے مکمل کسب فیض کیا ہے. مُلَّا مراد از لحاظ نسب والد کی طرف سے بخاری جبکہ والدہ کی طرف سے اصفہانی تھے. اس وجہ سے آپ ملا مراد ایرانی مشہور تھے. آپ کے والد اماراتِ بخارا کے وزراء میں سے تھے اور آپ (ملا مراد) بخارا کے انقلابی جوانوں کی تحریکِ جدت کے سرگرم رکن تھے. میں نے استاد ملا مراد سے علوم سیاسی, جغرافیا, عوامی تحریکوں اور اسلامی و دنیا کی انقلابی شخصیات کا تعارف, فن خطابت اور لغت جیسے علوم کی تعلیم حاصل کی. دینی اور سیاسی جدوجہد کے حامل گھرانے میں پرورش اور ملا مراد ایرانی جیسے انقلابی اساتذہ کے سامنے زانو تلمذ طے کرنے نے اوائل لڑکپن سے ہی میری سمت معین کردی اور میں کافرکیش شوروی حکومت کی مخالف اور مسلمانوں کی بیداری اور روشن گری میں لگ گیا۔ایک سیاسی اسلامی تحریک کے آغاز کا خیال اسی زمانے سے میرے ذہن میں خطور کرچکا تھا کہ الحمدللہ مسلمان جوانوں کی تحریک پر منتہی ہوا جو بعد میں اسلامی تحریک کہلائی.
اکیڈمک تعلیم:
میں نے سنہء 1996 میں کابل یونیورسٹی سے سیاست اور قانون کے شعبے میں گریجوایشن مکمل کی اور اپنے پیارے بھائی شہید احمد شاہ مسعود کے ہاتھ سے ڈگری وصول کی. میں ان ایام میں مجمع علمائے افغانستان کا رکن بھی تھا. اسی سال (1996) میں علامہ محمد اقبال یونیورسٹی اسلام آباد میں داخل ہوا اور سنہء 2000 عیسوی میں فارسی ادب میں ایم فل مکمل کیا.
جو چند سال میں ایران میں رہا اس دوران آیت اللہ مکارم شیرازی, آیت اللہ جوادی آملی, آیت اللہ نوری ھمدانی اور چند دیگر اساتید سے مستفید ہوتا رہا۔
اسلامی تحریک کی بنیاد:
70 کی دہائی کے اوائل میں میں نے کافی غور و خوص, تحقیق و تجزیے اور متعدد پہلوؤں کا جائزہ لیکر تلخ و شیرین ادوار کے اپنے دیرینہ دوست مرحوم سعید عبداللہ نوری سے ایک اسلامی تحریک کی تشکیل کا آئیڈیا بیان کیا. آخرکار بہت زیادہ تبادلہ خیال کے بعد سنہء1972 عیسوی میں ہم نے تحریک اسلامی تاجکستان کی بنیاد رکھ اور اس کے چار مختلف شعبے تشکیل دئیے. اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل و موضوعات سے مربوط استاد مراد ایرانی کے افکار سے جو چیز بھی ہمیں ملی اور جو کچھ میں نے روس و دیگر نقاط عالم کے مسلمان مجاہدین سے کتب یا دیگر صورت میں جمع کیا اس سب کو ایک ازبک زبان برادر شہید قاری علامہ رحمت اللہ کو بھی منتقل کیا اور انہوں نے انہی سالوں میں اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کے ساتھ ملکر تحریک اسلامی ازبکستان کی بنیاد رکھی۔
سنہء1986 عیسوی میں میں نے استاد نوری کی کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں گرفتاری پر چند افراد کے ساتھ ملکر دین مخالف شوروی حکومت کے خلاف سب سے پہلے اور بڑے احتجاجی مظاہرے کو منعقد کیا جو 3 دن تک جاری رہا اور ہزاروں لوگ اس میں شریک ہوئے۔
میں اپنی سرگرمیوں کے دوران متعدد بار گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہوں. لیکن الحمدللہ ہر بار میری گرفتاری لمبی نہیں ہوتی تھی. سب سے پہلے 1979میں مجھے گرفتار کیا گیا. بالکل اس وقت کہ جب شوروی حکومت افغانستان پر حملہ کرنا چاہتی تھی. انہوں نے نوجوانوں میں یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا ہے پس آپ اپنے دینی بھائیوں کی جان و مال و ناموس کی حفاظت کے لیے وہاں جائیں. یہ سفید جھوٹ تھا. میں اس زمانے میں مسئلے کی وضاحت اور شوروی فوجیوں و رضاکاروں سے معلومات کے حصول کی غرض سے ازبکستان کے شہر ترمیز گیا. میں ایک ہفتہ ترمیز میں رہا اور ترمیز اور اس کےمضافات میں تقریروں کے ذریعے روشن گری کرتا رہا اور لوگوں کو بتایا کہ آپ کو امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے نہیں لے جایا جارہا بلکہ برادر کشی کی جنگ میں دھکیلا جارہا ہے. خلاصہ یہ کہ مجھے وہاں گرفتار کرلیا گیا۔
سنہء1992 میں تاجکستان کی عوام کے آزادی کے حق میں مظاہروں کے وقت تحریک اسلامی نہ چاہتے ہوئے اس میں شامل ہوگئی کہ جس میں تاجک قوم کا برا چاہنے والے چند ممالک کے آلہ کاروں اور داخلی نوکروں کی سازش کا بنیادی کردار تھا. اسی سازش کے ساتھ ان مظاہروں کو جنگ و خونریزی کا رخ دے دیا گیا. جس کے سبب تقریبا 5 سال مستضعف تاجک قوم پر جنگ مسلط رہی.5 ستمبر 1992 کو تحریک اسلامی کی قیادتی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق میں پہلے مہاجر اور خصوصی مہمان کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے تاجکستان میں قائم سفارتخانے کی وساطت سے ایران میں داخل ہوا. اس سفر کے دوران میں نے ایران کے مسؤولین اور اسلامی جمہوریہ کے بزرگان سے گفت و گو کے بعد اور ان کی افغانستان کے مہاجرین کے لیے بہت زیادہ مالی تعاون کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو۔
میں اپنی پانچ سالہ ہجرت کے دوران اسلامی تحریک کی طرف سے متعدد ذمہ داریوں کے ساتھ مہاجرین کی خدمت کے لیے کوشاں رہا ہوں. میں نے مہاجرین کے لیے امداد جمع کرنے کی غرض سے متعدد ممالک کا سفر بھی کیا ہے. سنہء1997 میں "صلح تاجکستان" کے اعلی رکن کی حیثیت سے میں تقریبا 3 سال قومی صلح کمیٹی میں بھی خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں. سنہء2006 میں مرحوم سعید عبداللہ نوری نستا کی وفات کے بعد میں نے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے خاندانی کام یعنی تبلیغ, نشرِ معارفِ اسلامی اور اسلام و وطنِ عزیز کے لیے شاگرد تربیت کرنے میں مشغول تھا اور ہوں.
والسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاته
سید قیام الدین غازی