وحدت نیوز(آرٹیکل) لفظ اطاعت کا لغوی معنی لفظ اطاعت "طوع" سے ہے اور طوع ؛ کرہ کی ضد ہے کہ جس کا معنی حکم ماننا اور اختیار کے ساتھ کسی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے۔ کلمہ والدین، اسم فاعل اور تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جس سے مراد ماں باپ ہیں۔ دینی اصطلاح میں والدین کی اطاعت دینی تعلیمات کے مطابق، والدین کی اطاعت سےمراد، اللہ تعالی کے اوامر کے ترک کرنے اور اللہ تعالی کی حرام کی گئی چیزوں کے انجام دینے کے علاوہ زندگی کے تمام مسائل میں ماں باپ کا حکم ماننا ہے۔ اطاعت والدین کا متضاد عقوق والدین یعنی والدین کے حکم کی نافرمانی۔
قرآنی آیات کی روشنی میں والدین کی اطاعتوالدین کے ساتھ نیکی اور اچھائی کےساتھ پیش آنے کا واضح ترین مصداق، ماں باپ کی اطاعت کرنا ہے۔ ہر فرزند کا وظیفہ بنتا ہے کہ پروردگارکی رضا کے حصول کے لئے والدین کی اطاعت کرے اور ان کی نافرمانی ، اللہ تعالی کے ناراض ہونے کا موجب بنتی ہے۔ ماں باپ، ہر فرد کی زندگی میں دلسوز ترین اور خیر خواہ ترین افرادہیں کہ جو اس کی بھلائی ، ترقی اور سربلندی کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔
پس اولاد کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حصول کے لئے ان کی فرمانبرداری کریں تاکہ اللہ تعالی اور والدین کی خوشنودی کے اسباب فراہم ہو سکیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت اور تکریم کو بیان کیا گیا ہے، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کا حق بزرگترین حقوق میں سے ہے اور ہر چیز پر مقدم ہے۔اللہ تعالی، والدین کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ہے:
«وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ،﴿۱۴﴾ وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛﴿15﴾ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
صاحب مجمع البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: «وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ؛ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا ۔ یہاں پر چونکہ خداتعالی نے اپنی نعمتوں کے شکر بجا لانے کا امر فرمایا ہے، اس لئے اشارہ کے ساتھ اس بات کا تذکر دیتا ہے کہ ہر منعم کا شکر واجب اور لازم ہے ، اسی وجہ سے ماں باپ( اپنے فرزند پراحسان کرتے ہیں) والدین کا ذکر کیا ہے اور ہمارے پر واجب کیا ہے کہ والدین کی اطاعت کرتے ہوۓ ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ سلوک کریں۔ اللہ تعالی نے اپنی شکر گذاری کے بعد والدین کی شکر گزاری کا شکر اس لئے کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم، انسان کا خالق ہے اور والدین اس کی خلقت اور حفاظت کا وسیلہ ہیں۔
روایات معصومین (ع) کی روشنی میں والدین کی اطاعتآئمه معصومین(علیهم السلام) نے بہت سی روایات میں مسلمانوں کو اپنے والدین کی اطاعت کی سفارش کی ہے کہ ان میں سے چند احادیث بہ طور مثال ذکر کرتے ہیں:۱ـ رسول خدا ( صلّی الله علیه و آله ) نے فرمایا: «العبدُ المطیعُ لوالدیهِ و لرّبه فی أعلی علّیین؛ وہ شخص کہ جو اپنے خدا اور والدین کا مطیع ہو گا ، (قیامت کے دن) اس کا مقام اعلی علیین میں ہوگا۔ ۲ـ امام علی ( علیه السّلام ) نے فر مایا:حقّ الوالِدِ أن یُطیعَهُ فی کلّ شئٍ الاّ فی معصیهِ اللهِ سبحانَهُ؛اولاد پر والدین کا حق ہے یہ کہ معصیت خدا کے علاوہ تمام موارد میں ان کی اطاعت کریں۔
۴ـ عَنِ النَّبِیِّ(ص) أَنَّهُ قَالَ: ثَلَاثَهٌ لَا یَحْجُبُونَ عَنِ النَّارِ الْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَ الْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَ الْمَانُّ بِعَطَائِهِ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ قَالَ یَأْمُرَانِ فَلَا یُطِیعُهُمَا؛ ترجمہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا: تین قسم کے لوگ جہنم سے نہیں بچ سکتے 1۔ والدین کے عاق 2۔ دائمی شراب خور 3۔ صدقہ دے کر جتلانے والا، کہا گیا : یارسول اللہ! عاق والدین سے کیا مراد ہے؟
رسول خدا (ص) نے فرمایا: والدین اپنے فرزندکو کسی کام کرنے کا حکم دیں اور وہ ان کی اطاعت نہ کرے۔۵ ـ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ فَقِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَهِ فَقَالَ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَیَّامَ الدُّنْیَا قَامَ بَیْنَ یَدَیْهَا مَا عَدَلَ ذَلِکَ یَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا؛ پیامبر اکرم (ص)سے کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ! باپ کا کیا حق ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا:جب تک تم زندہ ہو اس کی اطاعت کرو۔ پھر سؤال کیا: ماں کا کیا حق ہے؟حضرت (ص) نے فرمایا: ھیہات، ھیہات ؛ بہت دور ہے ، بہت دور ہے(کہ اس کا کوئی حق ادا کرے! پھر فرمایا: اگر کسی شخص کی عمر بیابان اور ریگستان کے ذروں اور بارش کے قطروں کے برابر ہو اور وہ اپنی ماں کی خدمت کرتا رہے تب بھی یہ تمام خدمت، حمل کے دوران ایک دن کی اٹھائی گئی تکلیف کے برابر نہیں ہو سکتی۔
صحیفہ سجادیہ میں اطاعت والدینامام سجاد (ع) نے صحیفہ سجادیہ کی 24ویں دعا کی ابتدا میں درود وسلام کے بعد اپنے ماں باپ کے حق میں دلنشین اور بہت پیارے انداز میں اللہ تعالی سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ان کا مطیع اور فرمانبردار بنادے: : «أللَّهُمَّ اجْعَلْنی أهَابَهُما هَیبَهَ السُّلْطانِ العَسُوفِ وَ أبوَّهُمَا بِوَّ الأمَّ الرَّؤوفِ، وَاجعَلْ طَاعَتِی لِوالدَی وَ بِرّی بِهِما أقرَّلعَینی مِنْ وَقدهِ الوَسنانِ، وَأثْلَجَ لِصَدری مِنْ شَوبَهٍ الظَّمْآنِ حَتَّی أوثِرَ عَلَی هَوای هَواهُمَا، وَأقدَّمَ عَلَی رضای رَضاهُمَا، وَأسْتَکثَرَ برَّبَهُمَا بِی وَ إنْ قَلَّ وَأسْتَقِلَّ بِرّی بِهِما وَ إنْ کثُرَ؛
خدایا! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ماں باپ سے اس طرح ڈروں جیسے کسی جابر سلطان سے ڈرا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اس طرح مہربانی کروں جس طرح ایک مہر بان ماں اپنی اولاد کے ساتھ مہربانی کرتی ہے۔ اور پھر میری اس اطاعت کو اور میرے اس نیک برتاؤ کو میری آنکھوں کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار بنا دے جتنا خواب آلود آنکھوں میں نیند کا خمار خوشگوار ہوتا ہے اور اس سے زیادہ باعث سکون بنا دے جتنا پیاسے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ باعث سکون بنتا ہے تاکہ میں اپنی خواہش کو ان کی خواہش پر مقدم کروں اور ان کی رضا کو اپنی رضا پر ترجیح دوں۔ ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات کو زیادہ سمجھوں، چاہے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہوں اور اپنی خدمات کو قلیل تصور کروں چاہے وہ کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرت امام زین العابدین(علیه السلام)ایک دعا میں خداوند متعال سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کو اپنے والدین کا مطیع قرار دے دے اور فرمایا: « وَ اجْعَلْهُمْ لِی مُحِبِّینَ، وَ عَلَیَّ حَدِبِینَ مُقْبِلِینَ مُسْتَقِیمِینَ لِی، مُطِیعِینَ ، غَیْرَ عَاصِینَ وَ لَا عَاقِّینَ وَ لَا مُخَالِفِینَ وَ لَا خَاطِئِین ؛ ترجمہ: خدایا! انہیں میرا چاہنے والا اور میرے حال پر مہربانی کرنے والا اور میری طرف توجہ کرنے والا اور میرے حق میں سیدھا اور اطاعت گذار بنا دے ، جہاں نہ معصیت کریں نہ عاق ہوں ، نہ مخالفت کریں اور غلطی کریں۔
تحریر: ساجد محمود
جامعہ المصطفی العالمیہ قم