وحدت نیوز(آرٹیکل )اسلامی تعلیمات کے مطابق نعمت پر شکر ادا کرنا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے، کیونکہ شکر نعمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اور پہلے سے عطا شدہ نعمتوں کی بقاء کی ضمانت بھی ہے
اس وقت اللہ تعالی کے فضل لامتناہی سے ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت وجود رکھتی ہے جو بہت سی خوبیوں کا ایک حسین مرقع ہے۔
اگر ان کی علمی زندگی پہ نظر کریں، تو انہوں نے قم المقدسہ سرزمین قیام وانقلاب پر تحصیلات علوم آل محمد کے لئے تقریبا اٹھارہ سال کا عرصہ گزارا اور حوزہ علمیہ کے عظیم علماء وفقہاء سے کسب فیض کیا. صرف بحث خارج جیسے عمیق، مفید اور انتہائی اہم درس میں تقریبا دس سال مسلسل شرکت کی، اور جن مجتہدین سے کسب فیض کیا، وہ اپنے زمانے کے بہترین استاد شمار ہوتے ہیں، جن میں آية الله العظمى المرحوم مرزا الشيخ جواد تبريزي قدس سرہ ، آية الله الشيخ وحيد خراساني، آیۃ اللہ العظمی الشیخ مکارم شیرازی اور العلامة استاذ الشیخ اعتمادی (جو درس وتدریس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) شامل ہیں۔
جبکہ عرفان وتفسیر جیسے عظیم علوم میں، آیة اللہ العظمی الشیخ جوادی آملی و آیۃ اللہ العظمی حسن زادہ آملی سے فیض حاصل کیا جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔
عربی ادب جو دینی تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس علم کو اپنے زمانے کے بہترین استاد علامہ الشیخ مدرس افغانی سے حاصل کیا، اور بلا شبہ مدرس افغانی صاحب، عربی ادب میں ید بیضا کے مالک تھے
اور جب تک قم میں رہے، ہمیشہ درس وتدریس میں مشغول رہے، اور یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ علمیہ قم کے ایک نمایاں محصل واستاذ اور مدیر حوزہ تھے.
بلاشبہ اگر اجتماعی ذمہ داری کی وجہ سے پاکستان نہ آتے، تو آج درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے
۔جہاں تک محور مقاومت سے وابستگی کا تعلق ہے، تو یہ وابستگی پچھلے 35 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، یہ اس زمانے میں قم رہے، کہ جب محور مقاومت کے اعلی سطح کے رہنما وہیں قم میں موجود تھے، اور ان سے ہمیشہ رابطہ میں رہے، سید حسن نصر اللہ اور شہید محراب آیۃ اللہ السید باقر الحکیم ان رہنماؤں میں سرفہرست ہیں، یہ نعمت ان کے علاوہ شاید بہت کم پاکستانی علماء کو میسر ہوئی ہے۔امام خمینی ، فرزند امام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینى اور رھبر معظم انقلاب اور ان کے خط سے وابستگی انقلاب کی ابتداء سے رہی اور آج تک قائم ودائم ہے۔قائد شہید کے زمانے میں تحریک کے ایک فعال اور نہ تھکنے والی شخصیت کے طور پر سامنے آئےاور شہید مظلوم بھی ان سے کافی لگاؤ رکھتے تھےاور انکی قیادت کے زمانے میں تحریک قم کے روح رواں تھے۔
معاشرے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا امام علی (علیہ السلام) کے ان ارمانوں میں سے ہے، جن کی خاطر آپ کوفہ کے ویرانوں میں روتے رہے، اس مقدس فریضے کے انجام دینے کے لئے ان کی خدمات کسی سے چھپی نہیں۔ان کے تربیت یافتہ طلبہ اس وقت حوزہ قم، نجف اشرف اور دمشق (راقم الحروف کے علاوہ) کے بہترین طلبہ شمار ہوتے ہیں، ان میں سے کئی ایک اسلامک یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں، یہ طلبہ اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عالمی حالات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ جو کہ ایک دینی طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے
عزاداری جو کہ ہمارے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے وہ خود ایک بہت بڑے عزادار اور مجالس عزاء کے بانی ہیں. اس کے علاوہ اس کے معیار کو بلند کرنا، اسے صحیح جہت دینا، اس سلسلے میں ان کی کوششیں قابل قدر ہیں، باقی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اچھے، پڑھے لکھے اور درد رکھنے والے خطباء تیار کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی ہمیشہ صف اول میں نظر آئے
ذاکرین امام حسین (علیہ السلام) کی تاثیر معاشرے پر کسی سے چھپی ہوئی نہیں، ان سے رابطہ رکھنا، انہیں صحیح جہت دینا، انہیں قریب کرکے ان کی بعض غلطیوں کی انتہائی اچھے انداز سے اصلاح کرنا ہمیشہ سے ان کی ترجیح رہی، اور پڑھے لکھے نئے ذاکروں کی تربیت (جو ذاکری کو ہدایت خلق کا وسیلہ سمجھتے ہیں) بھی کر رہے ہیں۔
جس زمانے میں اجتماعی وسیاسی امور کی قیادت سنبھالی وہ ایک پر آشوب اور تشیع پاکستان کے لئے ایک کٹھن دور تھا. سب ذمہ دار افراد جانتے ہیں کہ وہ زمانہ اندورنی اور بیرونی دونوں حوالوں سے انتہائی مشکل اور حساس زمانہ تھا، مشکلات کے پہاڑ اور انہیں حل کرنے کے لئے ایک ایسے رستے سے گزرنا جہاں سوائے خاردار جھاڑیوں کے کچھ بھی نہ ہولیکن جہاں صرف بھروسہ اللہ پہ ہو، اور عزم و ارادے کی پختگی انتہاء پہ ہو، اخلاص اور بصیرت وفہم و فراست کی بیساکھی ہاتھ میں لئے، انہوں نے قوم کی بکھری ہوئی طاقت کو اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی تسبیح کے دانوں کی طرح پھر سے یکجا کرکے، بہت سارے قومی مسائل حل کرنے میں مدد کی، جس کے نتیجے میں ہم ایک دفعہ پھر ایک سیاسی اور اجتماعی قوت کے طور پر سامنے آئیں، اور جیسے پہلے آپ کو یکسر نظر انداز کیا جاتا تھا، اب نہیں کیا جاتا
اس زمانے میں انہوں نے قوم کی آواز کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش کی جہاں ایک طرف بیرونی مخالفین کی جانب سے سخت دباو اور مشکلات کا سامنا تھا، تو دوسری جانب اندورنی طور پر انتخابات اور دیگر مسائل کو کچھ اس طرح سے پیچیدہ کرکے پیش کیا گیا کہ اس میں شرکت گویا دین خدا کے خلاف اعلان جنگ کی مانند ہے، لیکن ان سب مشکلات کے باوجود، سب طعن وتشنیع کے باوجود انہوں نے بھر پور انداز میں، انتخابات میں شرکت کی، اور حالیہ حکومت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کے بعد جو کہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا آپکی جماعت ایک پر امن، سنجیدہ، قومی مسائل پر حل اور مشورہ دینے والی اور ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی
بعض دفعہ مذہبی جماعتیں یا مذہبی رہنما اپنے مذہبی ہونے اور وطن سے محبت کرنے میں توازن نہیں پیدا کر پاتے، لیکن یہ ان کی فہم وفراست اور حکمت و دانشمندی کی وجہ ہے کہ خود بھی وطن سے محبت کرنے والوں میں سرفہرست رہے، اور وطن کی ترقی کو بھی ہمیشہ اولین ترجیح سمجھا۔
اتحاد بین المسلمین جہاں ہمارا انسانی، اخلاقی، دینی اور مذہبی فریضہ ہے وہاں یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس سلسلے میں ان کی کوششیں آپ سب کے سامنے ہیں، چاہے وہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جماعت کے ساتھ دھرنوں میں شرکت ہو، یا دوسرے اہل سنت رہنماؤں اور پارٹیوں کے ساتھ انتہائی اچھے انداز سے تعلق قائم رکھنا ہو۔
بین الاقوامی سطح پر ان کی وابستگی اور تعلق ایسے افراد یا جماعتوں سے ہے جو اس وقت نہ صرف عالمی استکبار اور ظلم و ستم کے علمبرداروں سے نبرد آزما ہیں بلکہ ہمارے مملکت خداد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے متمنی بھی ہیں۔(طوالت کے لئے معذرت چاھتا ھوں لیکن یقین رکھیں اس وقت ہمارے اندر بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والے ایک انتہائی مخلص شخصیت موجود ہیں، جو علم وعمل کے ساتھ ساتھ، عالمی حالات سے نہ صرف باخبر بلکہ گہری نظر رکھنے والے ایک مضبوط سیاسی بصیرت کے حامل وطن سے محبت کرنے والے اپنی قوم کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں،میں اپنے مربی واستاد اور ایک شفیق روحانی باپ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی بات کر رہا ہوں، اللہ ان کی توفیقات خیر میں اضافہ کرے اور انہیں صحت وسلامتی کے ساتھ طولانی عمر عطا کرے۔)
محمد اشفاق۔23/7/2019۔