وحدت نیوز(آرٹیکل)کل ہی کی تازہ خبر ہے کہ سماجی رابطوں کی مقبول ترین ویب ساٸٹ فیس بک کمپنی پر 5 ارب ڈالر کا تاریخی جرمانہ اور حکومتی قواعد و ضوابط کی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا۔
امریکی حکومتی ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن(FTC) نے امریکی صدارتی الیکشن 2016 کے دوران کیمبرج انالیٹیکا سکینڈل کی بنیاد پر طویل گفت و شنید اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سے امریکی قانون سازوں کے کٸی دنوں تک جرح کے ایک سال بعد بالآخر فیس پر پانچ ارب ڈالرز کا بھاری اور تاریخی جرمانہ عاٸد کرنے کے ساتھ ساتھ آٸندہ کیلٸے سخت پابندیوں کا پابند کردیا۔ یاد رہے اس اسکینڈل میں فیس بک کیجانب سے 50 ملین افراد کا ڈیٹا پراٸیویٹ فرم کیمبرج انالیٹیکا کو فراہم کرکے امریکی صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہونے کا الزام ہے۔ جس کی وجہ سے نسبتا غیر مقبول ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر منتخب ہوا تھا۔
اس تناظر میں عام افراد کی جانب سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ فیس بک نے آخر کیا کیا تھا جو اتنا بھاری جرمانہ عاید ہوگیا؟
اس زمانے کو ڈیٹا ساٸنس کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ آج کی دنیا چھے ارب سے زیادہ انسانوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ جہاں روزانہ لاکھوں افراد پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔ روزانہ کڑوڑوں افراد مختلف ملکوں اور شہروں میں سفر کرتے ہیں۔ اربوں نہیں تو کڑوڑوں افراد تعلیم ،کاروبار اور دیگر ضروریات کیلٸے ٹیکنالوجی کا استعمال یقینا کررہے ہوتے ہیں۔ اربوں کی تعداد میں لوگوں کا کاروباری معاملات سے روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اور تقریبا سبھی افراد مختلف حوالوں سے دوسروں سے روابط کیلٸے ٹیکنالوجی کے استعمال پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں روابط کیلٸے بنے ان ٹیکنالوجیز کی ہیٸت تقریبا ملتی جلتی ہے۔ اور مختلف سروے رپورٹس کے مطابق سماجی رابطے کی ویب ساٸٹ فیس بک کو استعمال کرنیوالے افراد کی تعداد بھی اربوں میں ہے۔
اب جو شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں اور جیسی بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہو، ساٸنس سے شد بد رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہر شخص ڈیٹا استعمال کرتا اور پیدا بھی کر رہا ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”ڈیٹا“ ہوتا کیا ہے ؟ نیٹ پر تصویریں، ویڈیوز، آڈیو ریکارڈز، اور مختلف زبانوں میں لکھی گٸی تحریریں؟ جی یہ بھی ڈیٹا کی مختلف صورتیں ہیں جنہیں عام افراد دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر ڈیٹا کا صرف ان چار حالتوں میں ہونا بالکل بھی ضروری نہیں۔ فیس بک پر لگی پابندیوں کے تذکرے کے بعد اگلی لاٸنوں میں ہم اس جانب نظر کریں گے۔
بزنس انساٸیڈر کیمطابق فیڈرل ٹریڈ کمیشن کی جانب سے فیس بک پر عاٸد کردہ پابندیوں میں درج ذیل اہم اور چیدہ چیدہ پواٸنٹس شامل ہیں۔
١ ۔ فیس بک ان تمام تھرڈ پارٹی اپلکیشنز کو ٹرمنیٹ کرنے کا پابند ہوگا جو ڈیٹا حاصل کرنے کیلٸے فیس بک کی پالیسیوں کی پابندی کرنے کے ساتھ مخصوص ڈیٹا کے استعمال کو واضح بیان نہیں کرتے۔
٢۔ فیس بک کسی بھی صارف کے فون نمبر کو، جو سکیورٹی کیلٸے حاصل کیاجاتا ہے، اسے کسی تشہیری مقصد کیلٸے استعمال نہیں کرسکتا۔
٣۔ فیس بک پابند ہوگا کہ وہ کسی بھی صارف کی فیشل ریکوگنیشن ڈیٹا کو حاصل کرنے کے مقصد کو بیان کرے۔ اور اسکو کسی بھی ایسے مقصد کیلٸے استعمال نہ کرے جس سے صارف کو پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا ہو۔ (یعنی صارفین کی تصاویر کو فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی میں استعمال کرنے کیلٸے بھی صارف کی اجازت درکار ہوگی۔)
٤۔ فیس بک ڈیٹا سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لٸے پروگرام بنانے ، اس پر عملدرآمد کرنے اور اسکی باقاعدگی کا بھی پابند ہوگا۔
٥۔ فیس بک صارفین کے پاسورڈز کو انکرپٹ کرنے کا پابند ہوگا۔ اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہوگا کہ کسی بھی صارف کا پاسپورڈ عام ٹیکسٹ کی شکل میں نا رہے۔
٦۔ صارف کیجانب سے کسی بھی تیسری سروس (تھرڈ پارٹی اپلکیشن) کے استعمال کرنے پر فیس بک کی جانب سے صارف سے ای میل اور پاسورڈ پوچھنے پر پابندی ہوگی۔
تلخ ٹیکنیکل حقاٸق سے صرف نظر کرتے ہوٸے سرسری طور پر دیکھاجاٸے تو یہ امریکی حکومت اور اداروں کیجانب سے سماجی رابطے کی کمپنی کے کھرب پتی مالک سے اربوں روپے بٹورنے کا بہانہ لگتا ہے۔ مگر حقیقت میں معاملہ اتنا آسان بھی نہیں۔ دراصل ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ٹرینڈ سیٹ ہونے جارہا ہے کہ کس طرح ایک عام انفرادی رابطے کی ویب ساٸٹ نظر آنیوالی کمپنی کے زیر اثر ٹیکنالوجی نے سیاسیات، اخلاقیات، پراٸیویسی اور دیگر سماجی اقدار کو کس قدر سختی کیساتھ چکرانا شروع کر رکھا ہے۔
یہ نیا زمانہ ہے۔ لوگ آج تک شناختی کارڈ کیلٸے انگوٹھے کا نشان لگانے سے واقف تھے۔ مگر کمپیوٹر ساٸنس میں ترقیوں کی مرہون منت اب آہستہ آہستہ ڈیٹا، پراٸیویسی، تھرڈ پارٹی اپلکیشنز، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلجینس) اور اسکے اپلکیشنز فیشل ریکوگنیشن، ڈیٹا ساٸنسز، انٹرنیٹ آف تھنگس، مشین لرنگ، بگ ڈیٹا، وغیرہ وغیرہ سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں۔ روزانہ اپنے سمارٹ فونز میں ہم بیشمار اپلکیشنز کو استعمال کرتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں بھی اب ایک سمارٹ فون سے ہی لوگ بجلی، گیس وغیرہ کا بل دیتے، ٹرین، جہاز، بس اور ٹیکسی تک کا کیرایہ ادا کرتے ہیں۔ یوں جیب میں بٹوا اور کاغذی رقم لیکر رکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ چند روپوں سے لیکر کڑوڑوں روپوں تک کی اداٸیگی اور منتقلی موباٸل فون اپلکیشن کے ذریعے کرتے ہوتے ہیں۔ موسم کا صورتحال کٸی مہینوں بعد تک کا معلوم کرتے اور نامعلوم شہروں میں بھی ایک اپلکیشن کے ذریعے گلی گلی چپہ چپہ کا صرف ایڈریس ہی نہیں معلوم کرتے بلکہ وہاں اردگرد مطلوبہ ریسٹورنٹ، دفاتر، اسٹور، اور دیگر ضرورت کی سروسز تک اسطرح سے رساٸی حاصل کرلیتے ہیں جیسے آپ اسی علاقے میں ہی برسوں سے رہ رہے ہوں۔ یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے سمجھ سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے کتنا بڑا معجزہ برپا کر کے ہماری زندگیوں کو آسان بنایا ہے۔ اور یہ سبھی سہولیات آپ بظاہر چند اپلیکیشن کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں جنکو بنانیوالی کمپنیوں کے پاس ان امور سے متعلق ”ڈیٹا“ موجود ہوتا ہے جنہیں ٹیکنالوجی کی مدد سے پراسس کرکے آٸندہ نسلوں تک کیلٸے بھی آسانیاں فراہم کی جا رہی ہوتی ہیں۔
آج ہم جن جن اپلکیشنز کو استعمال کرکے اپنے امور میں آسانیاں پیدا کر تے ہیں وہ دراصل صرف آپکو گزشتہ صارفین سے اکٹھے کٸے گٸے ڈیٹا سے سہولیت نہیں دے رہے بلکہ ان اپلکیشنز کے ہمارے استعمال سے بھی ان کمپنیوں کے پاس ”ڈیٹا“ جمع ہورہا ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ اپنے سسٹم کو مزید موثر بنارہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل پر کس ملک میں سب سے زیادہ کس شخص یا چیز وغیرہ کی بابت گزشتہ ایک گھنٹے، ہفتے، ایک مہینے، سال اور دس سال کے دوران کتنے لوگوں نے سرچ کیا۔ یہ جاننا گوگل کمپنی کیلٸے سیکنڈز کا کام ہے۔ اسی طرح واٹس ایپ، ٹویٹر، اور دیگر اپلکیشنز اس طرح کے کام بہ آسانی کرسکتے ہیں اور کر رہے ہوتے ہیں جنکی بنیاد پر انکا نہ صرف کاروبار پھیلتا ہے بلکہ انہیں مختلف ممالک میں لوگوں کے رجحانات، ضروریات، اور انکے معاملات سے بھی واقفیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ معاملہ صرف فیس بک اور دیگر متذکرہ اپلکیشنز تک محدود نہیں بلکہ تمام دیگر ٹیکنالوجیز میں بھی ایسے سارے کام ہورہے ہوتے ہیں مثلا اس حالیہ ایشو جس میں فیس بک ڈیٹا کے استعمال کے ذریعے سے امریکی صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہوا اور نتیجتا بھاری جرمانے عاٸد کرنے کیساتھ پابندیاں عاٸد کی گٸیں۔ یہی کام ٹویٹر، واٹس ایپ کے ذریعے بھی ہوسکتا تھا اور ہو سکتا ہے۔
ڈیٹا ساٸنسز سے مربوط فیلڈ کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کے ناطے یہ بات وثوق کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی لینے والی ہر سانس، اٹھنے والا ہر قدم بات کرنے، ہنسنے، رونے یا کسی اور وجہ سے ماتھے اور چہرے پر پڑنے والا ہر بل اور جھپکنے والی پلکیں بھی ڈیٹا میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں دن کے اٹھارہ گھنٹے لٸے سمارٹ فون، ہاتھ میں پہنی سمارٹ واچ، گاڑی میں لگی جی پی ایس، اور ہر وہ سمارٹ ڈیواٸس جو ہم اپنی آسانی کیلٸے استعمال کرتے ہیں ان میں موجود ٹیکنالوجی آپ سے لمحہ بہ لمحہ جمع ہونیوالے ڈیٹا سے معلومات اور انکے استعمال سے پوشیدہ راز طشت از بام کرسکتی ہے۔ اور بطور مسلمان جوں جوں ساٸنس اور ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے ہمارا ایمان غیر متزلزل ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ دوفرشتے ہمارے اعمال کا حساب کتاب رکھنے کیلٸے مامور ہیں۔ اور روز حشر ہمارا ہر عضو اعمال کی گواہی دے رہے ہونگے۔ اب جبکہ ہماری ہر سانس اور قدم قدم کا حساب معمولی ٹیکنیکل اپلکیشن کے ذریعے رکھا جارہا اور ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے ہیں تو اس خداٸے قادر مطلق کیلٸے ہمارے اعمال کا حساب رکھنے کا انتظام رکھنا کوٸی بڑی بات نہیں۔ البتہ کمزور ایمان والوں کیلٸے اب اس بات پر شک و شبہے کی کوٸی گنجاٸش نہیں بچتی۔
جہاں تک ڈیٹا اور اسکے استعمال کی بات ہے تو میر صاحب تو زمانہ قبل اس حقیقت کو بھانپ گٸے تھے۔ فرمایا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ
جولاٸی 25، 2019 .