اسرائیلی ایٹمی تنصیبات نشانہ پر

04 October 2019

وحدت نیوز(آرٹیکل) صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے تجزیات گردش میں ہیں اور اندرون خانہ بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہاہے کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے کسی بھی وقت اسرائیل کے حساس مقامات کو آرامکو طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

گذشتہ دنوں یمن کی متحدہ افواج نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد خطے کی صورتحال شدید متاثر ہوئی تھی۔ شروع شروع میں سعودی حکومتی ذرائع نے ان حملوں کا الزام ایران اور عراق پر عائد کیا تاہم بعد ازاں حقائق اور شواہد نے ثابت کیا کہ یہ حملہ یمن کے اندر سے ہی کیا گیا تھا اور اس کا مقصد سعودی حکومت کو یمن میں جارحیت کو روکنا تھا۔


یمنی افواج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی افواج نے یہ کارروائی سعودی عرب کے اندر موجود کچھ خیر خواہوں اور سعودی حکومت کے قریبی ذرائع جو یمن پرامریکی و سعودی جارحیت کے خلاف ہیں، ان کی مدد سے انجام دیا ہے، انہوں نے مزید تفصیلات میں بتایا تھا کہ یمنی افواج نے اس کارروائی میں دس ڈرون طیارے استعمال کئے جو خود کش حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ٹھیک ہدف پر کامیابی کے ساتھ نشانہ بنائے گئے تھے۔

ان حملو ں کے نتیجہ میں سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل فیلڈ آرامکو کو شدید نقصان پہنچا او ر اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے تاحال امدادی ٹیمیں کاموں میں مصروف ہیں۔
یمنی افواج کے اس حملہ سے جہاں دنیا میں تیل کی آمد و رفت اور خرید و فروخت متاثر ہوئی وہا ں سب سے اہم بات امریکہ اور سعودی حکومتوں کی وہ مشترکہ سیکورٹی ہے جو اس حملہ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

ماہرین سیاسیات جہاں ایک طرف معاشی اعتبار سے اس حملہ کے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں وہاں دنیا کے دفاعی تجزیہ نگاروں کے نزدیک حقیقت میں آرامکو پر ہونے والا حملہ امریکی سیکورٹی سسٹم کو ناکام بنا کر کیا گیا ہے۔یمنی افواج نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ کی جدید ترین سیکورٹی آلات اور اربوں ڈالر ک اسلحہ برائے نام ہے اور سعودی حکومت کی حفاظت نہیں کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی حکومت نے امریکہ کے ساتھ مل کر چار سال قبل یمن کے خلاف زمینی،، فضائی اور سمندری جنگ کا آغاز کر رکھا ہے جس کے نتیجہ میں دسیوں ہزار معصوم انسانی جانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے جبکہ یمن کے بعض علاقو ں میں وبائی امراض کے ساتھ ساتھ قحط کا مسئلہ بھی درپیش رہا ہے۔ اس اثنا میں امریکی حکومت نے نہ صرف سعودی اتحادیوں کی ہر طریقہ سے مدد کی ہے بلکہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی دیا ہے جس کا بے دریغ استعمال تاحال یمن کے علاقوں میں کیا جا رہا ہے۔

آرامکو پر ہونے والے یمنی افواج کا حملہ جہاں سعودی حکومت کے لئے ایک بڑا اور واضح پیغام تھا وہاں ساتھ ساتھ دنیا کے ان تمام ممالک کیلئے بھی پیغام تھا کہ جو یمن کے خلاف جنگ میں امریکی و سعودی اتحاد کا حصہ ہیں۔اسی طرح ان حملوں نے امریکہ کے دفاعی نظام کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے بعد اب سیاسی ماہرین کاکہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان تمام پیغامات کے ساتھ ساتھ یمنی افواج کی جانب سے اسرائیل کے لئے بھی ایک سخت پیغام ہو۔

کیونکہ اگر سعودی تیل تنصیبات کی دفاعی صلاحیت کو ناکام بنا کر اتنا بڑا حملہ کیا جا سکتا ہے تو پھر اسرائیل پر بھی اس سے بڑے حملے ہو سکتے ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے قریبی کسی بھی ممالک سے انجام دئیے جا سکتے ہیں یا پھر شاید یمنی افواج ہی اس صلاحیت کی حامل ہو ں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے ایک اور بڑے شیطان اتحاد ی اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا ڈالیں۔

کچھ عرصہ قبل حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ اسرائیل لبنان کے ساتھ کسی بھی قسم کی جنگ آزمائی کرنے سے پرہیز کرے ورنہ جوابی کارروائی میں اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا یا جائے گا جس کے نتیجہ میں غاصب صہیونی ریاست میں بسنے والے صہیونی سب سے پہلے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔سید حسن نصر اللہ نے اس موقع پرصہیونی آباد کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا وزیراعظم نیتن یاہو ان کو جھوٹ بولتا ہے اور حقائق سے آگاہ نہیں کرتا ہے تاہم صہیونی آباد کاروں کو چاہئیے کہ اپنے اپنے وطن میں واپس لوٹ جائیں کیونکہ اگر اسرائیل نے لبنان یا حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمت کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی تو جواب بہت سخت ہو گا اور پھر اسرائیلی قابض ریاست کا وزیر اعظم سب سے پہلے انہی صہیونی آباد کاروں کو جنگ کا چارہ بنا دے گا۔

حالیہ دنوں یمنی افواج کی جانب سے آرامکو پر ہونے والے کامیاب حملہ کے بعد غاصب صہیونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگاروں نے اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ اگر سعودی آرامکو کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو پھر اسرائیل کی اہم تنصیبات بشمول ایٹمی تنصیبات کی سیکورٹی کو بھی توڑا جا سکتا ہے۔صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے تجزیات گردش میں ہیں اور اندرون خانہ بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہاہے کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے کسی بھی وقت اسرائیل کے حساس مقامات کو آرامکو طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل کے دفاعی ماہرین نے پہلے ہی گذشتہ دنوں حزب اللہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں سات کلو میٹر اندر داخل ہو کر کی جانے والی اسرائیل مخالف کارروائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام کمزور ترین ہو چکا ہے تاہم انہی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرامکو پر ہونے والے حملوں کے بعد اب بعید نہیں ہے کہ اسی طرز کی کاروائی اسرائیل کے حساس مقامات کے خلاف بھی کی جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام ظالم و جابر قوتیں وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کے وعدوں کے مطابق سر نگوں ہو رہی ہیں، دنیامیں جہاں کہیں بھی مظلوم ہیں اوت صبر و استقامت کا مظاہر کر رہے ہیں یقینا الہی وعدوں کے مطابق سرخرو ہو رہے ہیں۔کشمیر، یمن، عراق، افغانستان، عراق، لبنان، شام، فلسطین ہرسمت مظلوموں کا ایک اتحاد ابھرتا ہو نظر آ رہاہے جو دنیا کے سامراجی وشیطانی نظام و اتحاد کے بالمقابل سیننہ سپر ہے اور اسی پائیدار استقامت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج یمن کے پا برہنہ مجاہدین نے دشمن کے خلاف عظیم کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دی ہیں اور ان کامیابیوں کے دور رس نتائج یہ ہیں کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اپنی بقاء کے لئے سوال اٹھا یا جا رہا ہے اور صہیونیوں کے دلوں میں خوف بیٹھ چکا ہے کہ اب آرامکو کے بعد اسرائیل کے حساس مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا، اور اس بات میں کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہونا چاہیے۔

یہ الہی وعدہ ہے کہ ظالمو ں کو نابود ہونا ہے اور مستضعفین کی حکومت قائم ہونی ہے چاہے یہ بات خدا کے دشمنوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔


تحریر: صابر ابو مریم



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree