وحدت نیوز(انٹرویو) ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ یمن جنگ، اس کے نتائج اور اس جنگ کے تناظر میں ایران سعودی عرب اور ایران امریکہ کشیدگی کے موضوع پہ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا، اس انٹرویو کا دوسرا اور آخری حصہ پیش ہے۔ (ادارہ)
سوال: کیا امریکہ ایران پہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران نے امریکہ اور اس کے مغربی بلاک کو بڑا موثر جواب دیا ہے، امریکہ کے کہنے پہ جب برطانیہ نے ایران کے ایک بڑے تیل بردار جہاز کو جبرالڈ میں روک کر عملے سمیت اسے اپنی تحویل میں لیا تو ایران نے کم ازکم چار جہاز جس میں ایک بڑا برطانوی جہاز شامل ہے کو خلیج کے اندر روک کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس وقت تک ایک جہاز بھی واپس نہیں کیا کہ جب تک ایران کا بحری جہاز اپنا پورا سفر مکمل کرکے واپس نہیں پہنچ گیا۔ تو ایران نے ملٹری چیلنج دیا ہے۔ آج کے دور کے اندر برطانوی جہازوں کو پکڑنا، یورپی ممالک کے جہازوں کو روکنا، امریکی جہاز کو گرانا بڑے چیلنج ہیں اور ایران نے یہ کر دیکھائے ہیں۔ امریکہ خلیج میں جو عالمی فوج تعینات کرنا چاہتا تھا تو وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف ایران کا اثرورسوخ خطے میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی جنگ ہوئی تواس کا میدان بھی ایران کا منتخب کردہ ہو گا۔
امریکہ خطے میں اجنبی ہے جبکہ اسی خطے میں ایران نے ہر حوالے سے اپنی برتری ثابت کی ہے۔ وہ ممالک جہاں امریکی بیڑے موجود ہیں، وہاں کی حکومتوں کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ جن جگہوں پہ امریکی اڈے موجودہیں وہ ایرانی ہتھیاروں کی پہنچ اور دسترس میں ہیں۔ خواہ وہ پانچواں بحری بیڑا ہو، قطر کے اندر ان کے اڈے ہوں۔ سعودی عرب، عرب امارات کے اندر امریکی اڈے ہوں تو یہ تمام ایران کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں بلکہ ایران کے میزائلز کی رینج میں اور نشانے پہ ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ باتوں میں تو کہیں آگے تک جا سکتا ہے مگر جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایرانی سفارتکاری کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یورپ کے اندر بھی امریکہ کو بدنام کیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپ اپنے اندر توانائی نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کے مقابلے میں ایران کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکا۔
سوال: امریکی پابندیوں کا ہتھیار اب کی بار کتنا کارگر ثابت ہوگا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: امریکی پابندیوں کے باوجود ایران نے سیاسی اور اقتصادی یہ فائدہ حاصل کیا ہے کہ تقریباً ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے ایران اور چین کے درمیان معاہدے طے پائے ہیں۔ یادر ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا معاہدہ ٹوٹل چھپن ارب ڈالر کا ہے جبکہ چین اور ایران کے درمیان ساڑھے چار سو ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں۔ اسی طرح ترکی نے بھی انکار کیا ہے کہ ہم ایرانی تیل کی خریداری بند نہیں کریں گے۔ اسی طرح روس نے انکار کیا ہے یعنی امریکہ جو پابندیوں کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر ایران کے خلاف تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہا تھا۔ ایران نے عملی طور پر اس ہتھیار کو بھی بیکار کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بلآخر پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ امریکہ اس خطے کے اندر رہ کر ایران کے ساتھ جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسے عراق سے بھی ردعمل مل سکتا ہے، شام سے مل سکتا ہے۔ لبنان، یمن، ایران سے جواب مل سکتا ہے۔ اس کی سمندری، زمینی فوجیں سب غیر محفوظ ہیں، وہ کوئی بڑا آپریشن لانچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
خطے میں جو امریکی اتحادی ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ وہ کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی جنگ کی صورت میں یورپ کے اوپر جو اثر پڑے گا، اس کے نتیجے میں اقتصادی بحران کا بھی خدشہ ہے، یورپ اس کے لیے تیار نہیں ہے لہذا ایک بڑی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خطے میں سیاسی جنگ جاری رہے گی، جیسی کہ ایک جنگ ابھی عراق میں جاری ہے کہ جس میں ایران ٹارگٹ ہے۔ عراق میں حکومت کے مخالف جو مظاہرے جاری ہیں، ان کے پیچھے بھی امریکہ ہے، اس میں بھی امریکہ کو شکست ہو گی کیونکہ زمینی صورتحال میں ایرانیوں کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ایرانی اتحاد خطے کے اندر روز بروز مضبوط اور پاور فل ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر زمینی حقائق آپ کے موافق نہ ہوں، تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو مخالف فریق کی قوت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو بھی بالآخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ خطے میںفیصلہ سازقوت ایران ہے۔ نتیجے میں جو پرو ایران عناصر مزید مضبوط ہوں گے اور پرو امریکہ عناصر رفتہ رفتہ کمزوری کا شکار ہوتے جائیں گے۔
مستقبل قریب میں ایران اور امریکہ کے مابین براہ راست مذاکرات کا امکان بھی دیکھائی نہیں دیتا اور ایران امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ بھی طے پاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پچھلے معاہدے کے اندر جو ایران کی کمزوری تھی اور امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کی صورت میں انہیں اس کمزوری پہ قابو پانے کا بہانہ مل گیا۔ اس وقت ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو بھی بڑھا رہا ہے اور نیوکلیئر استعداد کو بھی بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ دونوں قوتیں کسی ملک کے پاس ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس قوت کے اظہار کیلئے ان کے پاس سیاسی قوت اور عوامی تائید بھی موجود ہو تو پھر کوئی ملک ان کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ لہذا ایران نے پرامن مقاصد کیلئے اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو بھی بڑھانا شروع کیا ہوا ہے اور میزائل ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے۔ چنانچہ خطے میں امریکہ کا مستقبل زوال پذیر ہے۔ یمن نے امریکہ اور پرو امریکہ عناصر کے زوال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف انقلابی رجحان اور مزاحمت کو تقویت ملی ہے۔ یہ مزاحمت کی فتح ہے کہ اس نے اسرائیل کو اس طریقے سے ہٹ کیا ہے کہ اب اسرائیل سکڑنا شروع ہوگیا ہے۔ بالآخر اسرائیل بھی اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گا، جو کہ ایک اور بڑی امریکہ کی شکست ہو گی۔ ڈیل آف دی سنچری ناکام ہو چکی ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں اسرائیل کا پھیلاؤ رک گیا ہے۔ اس میں ایران کا کردار ہے، ایران کی کامیابی ہے اور اسی طرح خطے میں اب اسرائیلی اہداف اور آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ گولان کے اندر بھی اسرائیل کے خلاف شام کی طرف سے مزاحمت شروع ہو چکی ہے۔
سوال: امریکہ ہمیشہ سے ناقابل اعتبار ہے، مسئلہ کشمیر پہ ثالثی کا کردار کیا ایران کو سونپا جا سکتا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی: ایران اچھا ثالث ہے یا امریکہ۔ دونوں کے موثر ہونے کی قوت کو شمار کرتے ہیں۔ امریکہ ایک بڑا ملک جو کہ سپرپاور ہونے کا دعویدار ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ میں بہت موثر ہے۔ امریکہ ایک بڑی ملٹری پاور بھی ہے۔ پاکستان کے جتنے تعلقات امریکہ کے ساتھ ہیں، اس سے کہیں زیادہ امریکہ کے تعلقات انڈیا کے ساتھ ہیں۔ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک ہے اور کئی گنا بڑی اقتصادی قوت ہے۔ امریکہ اور بھارت کے دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منظر نامے میں بھی امریکہ بھارت کے ساتھ ہے، اقتصادی، سیاسی تعلقات کے لحاظ سے بھی امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے، جیسا کہ اسرائیل کا معاملہ ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں کے مفادات ،معاہدات اور تعلقات اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کرا تو سکتا ہے مگر اس مسئلہ کا حل نہیں کرا سکتا۔ جب تک کوئی ملک جارح کو جارح کہہ کر اسے پیچھے ہٹنے پہ آمادہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس وقت تک وہ ایک اچھا ثالث نہیں بن سکتا۔
دوسری جانب ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جس نے اب تک چار سطحوں پہ پاکستان کے موقف سے ہم آہنگ ردعمل دیا ہے۔ اب تک امریکہ نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو کے خاتمے کیلئے کوئی باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ہر مرتبہ یہ کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کہیں گے تو میں ثالثی کیلئے تیار ہوں، مطلب نہ بھارت کہے گا اور نہ ثالثی ہو گی۔ ایران سٹینڈ لینے والا ملک ہے۔ ایران کی جو ٹاپ لیڈر شپ ہے، نہ صرف یہ کہ انہوں نے اس کا نوٹس لیا ہے بلکہ اس پہ بات کی ہے۔ اسے عالمی مظلوم خطوں میں شمار کیا ہے۔ پوری دنیا کو کشمیر کیلئے صدا بلند کرنے کا درس دیا ہے۔ اسی طرح ایران کی وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ کے کم ازکم دو سیشن ہو چکے ہیں، جس میں بھارت کے خلاف مشترکہ قرارداد پاس ہوئی ہے۔ اسی طرح ایران میں جو آئمہ جمعہ ہیں، جو مراجع عظام ہیں، انہوں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کی ہے اور مقبوضہ کشمیر کو عالم اسلام کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں ایران یہ پوزیشن رکھتا ہے کہ اس سے ثالثی کرائی جائے۔ مسئلہ کشمیر پہ ثالثی وہی کرا سکتا ہے کہ جو جارح کو جارح کہہ سکے۔ پاکستان کو نام نہیں بلکہ موقف سوٹ کرتا ہے۔
امریکہ نہ ظالم کو ظالم کہہ سکتا ہے اور نہ مظلوم کی حمایت کر سکتا ہے، اس کے مقابلے میں ایران میں یہ چیز تو ہے۔ اب ایسا نہیں کہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں بلکہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں مگر ان مراسم کے باوجود ایران نے اپنے اصولی موقف کو غالب رکھا ہے۔ اس بات کی پروا نہیں کی ہے کہ اس اصولی موقف کے نتیجے میں اس کے معاشی یا اقتصادی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن پاکستان چونکہ امریکہ کے زیر اثر سمجھا جاتا ہے تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کے بجائے ایران کو ثالثی کا کردار دے۔ ایران کشمیر کے معاملے پہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو کم تو کر سکتا ہے مگر ثالثی کا کردار اس وقت ادا ہو سکتا ہے کہ جب دونوں ممالک اسے یہ اختیار و مقام دیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کیلئے امریکہ سے زیادہ ایران سودمند ہے۔ جب تک اس خطے میں اس مسئلہ کو گھمیر نہیں سمجھا جائے گا، اس وقت تک اس مسئلہ کا عملی طور پر حل شائد ممکن نہ ہو۔ مسئلہ کو گھمبیر بنانے سے مراد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو اتنا فلیش پوائنٹ بنایا جائے کہ عالمی برادری بھارت کو مجبور کرے کہ آو مذاکرات کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرو اورکشمیریوں کو بھی ایک فریق کے طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے حل کیا جائے۔
کشمیریوں نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ خوف بھارت کے اوپر ہے۔ بھارت کی دس لاکھ فوج خوفزدہ ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہ کرفیو ختم نہیں کرر ہے۔ یہ خوف کی علامت ہے کہ وہاں حالات کو غیر معمولی انداز میں قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح رہی تو بھارت نے جو آرڈیننس پاس کیا ہے ، یہ آرڈیننس اسی طرح اپنی مدت پہ ختم ہو جائے گا اور اسے باقاعدہ قانونی شکل نہیں دے سکیں گے۔ کشمیری اس آرڈیننس کے خلاف کھڑے ہیں۔ پاکستان اس قضیئے کا وکیل ہے، اگر پاکستان نے اچھی وکالت کی تو بھارت پہ اتنا دباؤ بہرحال آئے گا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پہ کوئی پیش رفت کر سکے۔ کشمیر ی اگر اپنے اصولی موقف پہ اسی طرح ڈٹے رہے اور انہوں نے اگر اپنی مزاحمت کو عالمی مزاحمت کے ساتھ اٹیچ کرلیا تو یقینا ان پہ بھی کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے، مگر اس کیلئے انہیں قربانی کے ایک بڑے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہو گی۔ میرے خیال میں کرفیو کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج کو کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور عالمی سطح پہ فضا ایسی بن جائے گی کہ بھارت کو بالآخر مذاکرات کی جانب آنا پڑے گا۔
سوال: مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پہ تحفظات ہیں یا نہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد مارچ پہ تحفظا ت ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اسے خود صاف ہونا چاہیئے اور اپنے ہی دعویٰ کے برعکس اس نے کوئی کام نہ کیا ہو۔ مولانا فضل الرحمان اس جگہ پہ مظاہرے اور لاک ڈاؤن کو شام غریباں قرار دیتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ بڑا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے کیونکہ ایسی چیزیں پارلیمنٹ میں ڈسکس ہوتی ہیں، مذاکرات سے ایسے معاملات حل ہوتے ہیں اور یہ خانہ بدوشوں والا سلسلہ نہیں ہے کہ جو بھی اٹھے اور آکر اپنی جھونپڑی لگا لے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمان کو آج اس جگہ آنا پڑ رہا ہے کہ جب کبھی اسلام آباد لاک ڈاؤن ہوا تھا تو کئی اپوزیشن جماعتیں یک جان تھیں اور حکومت کے خلاف اکھٹی تھیں مگر آج جب مولانا اسلام آباد کا رخ کرنے جا رہے ہیں تو اس وقت لیڈنگ اپوزیشن پارٹیوں جن میں پی پی پی ہے، پی ایم ایل نواز ہے، انہوں نے بھی مولانا کا ساتھ دینے بالخصوص مذہبی کارڈ کی بنیاد پہ ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ مولانا مسائل پیدا کر سکتے ہیں مگر ان کا ایجنڈا اس وقت عوامی نکتہ سے بالکل کلیئر نہیں ہے۔
مہنگائی و دیگر مسائل کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے نفرت کی فضا میں نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کبھی بھی عوامی مسائل پہ سیاست نہیں کی ہے بلکہ مہنگائی و دیگر عوامی مسائل جب جب ہوئے ہیں تو مولانا فضل الرحمان خود اس میں فریق رہے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ پہلی مرتبہ ایک حکومت مولانا کے بغیر چل رہی ہے، مولانا کا حصہ نہ وفاق میں ہے اور نہ خیبر پختونخوا میں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کیلئے قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کیلئے وہ متحرک ہیں، انہیں خبر ہے کہ اگر مزید کچھ عرصہ ایسا گزرا کہ جس میں وہ پاور کوریڈور میں نہ ہوئے تو وہ مزید اپنے سیاسی وجود کو بچا نہیں سکیں گے۔ یہ خوف ہے کہ جس کی وجہ سے وہ احتجاج کرر ہے ہیں مگر نہ ہی انہیں عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ سیاسی حمایت حاصل ہے۔ یہ تنہائی کسی طرح ان کیلئے مفید نہیں ہے اور ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ اس ملک کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں جو کہ معاشی لحاظ سے بھی سودمند نہیں اور عوامی مسائل میں بھی مزید اضافے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
سوال: حالیہ اربعین امام حسین (ع) پہ عراقی حکومت نے پاکستانی زائرین کیلئے ویزوں کا اجرا بند رکھا، اس پالیسی پہ کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
سید ناصر شیرازی: عراقی حکومت کی پاکستانی زائرین کیلئے ویزہ پالیسی قابل مذمت ہے۔ بدقسمتی سے دو پرانے حلیف پاکستان اور بنگلہ دیش صرف ان دو ممالک کیلئے یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ ان دو ممالک سے جو مسائل ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ امن و امان کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ عسکریت پسند زائرین کے کور میں عراق گئے ہیں، بعض لوگ جاب وغیر ہ کیلئے بھی گئے ہیں کہ یہاں سے گئے ہیں اور وہاں جاکر جاب کیلئے رہ گئے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ ہیں، ان سب کو حقیقت مان بھی لیں تو بھی اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے پالیسی ان چیزوں سے مبرا ہونی چاہیئے۔ ان کیلئے بعض دیگر اقدامات کیئے جا سکتے ہیں تاکہ دشمن عناصر اس سے استفادہ نہ کر سکیں۔ پاکستان دنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا ملک ہے کہ جہاں سے زائرین کی بہت بڑی تعداد زیارات کیلئے جاتی ہے۔ زائرین کا حق ہے کہ انہیں بروقت ویزہ ملے اور ان کے زیارات کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت کی جو منیجمنٹ ہے، اس کی صلاحیت پہ بھی بہت سارے سوالات ہیں۔ کرپشن، بیروزگاری ہے وہاں۔ یہ عراقی حکومت کی انتظامی نااہلی ہے کہ زائرین سید الشہدا کو ویزہ پابندیوں کا سامنا ہے۔ عراقی حکومت کو منفی چیزوں کی روک تھام کیلئے ضرور حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے مگر ویزوں کے جاری نہ کرنے کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔ اس پالیسی کی ہم سب مذمت کرتے ہیں۔ اس بات کی تاکید و مطالبہ کرتے ہیں کہ محرم اور اربعین کے موقع پہ زائرین امام حسین (ع) کو فوری اور آسان ویزوں کے اجرا ء کا عمل ممکن بنایا جائے۔