وحدت نیوز(آرٹیکل)خطے کی موجودہ صورتحال اور بالخصوص شام و یمن اور عراق میں صہیونی محاذ کی شکست کے بعد ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں غاصب صیہونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی قابض افواج سے تعلق رکھنے والے میجر جنرل تامیر ھایمن ایک فوجی بریفنگ میں ایسے انکشافات کر رہے ہیں جس سے مغربی ایشیائی ممالک میں جاری جنگ و جدل اور صہیونیوں کی ناپاک سازشوں کا پردہ چاک ہو گیا ہے ۔
صہیونی قابض افواج کے میجر جنرل تامیر ھایمن اسرائیل کے ایک اعلی سطح کے فوجی اہلکاروں میں شمار ہوتے ہیں اور اس وقت اسرائیل کی انٹیلی جنس کے چئیر مین کے عہدے پر کام کر رہے ہیں ۔
اسرائیلی فوج کے ایک اعلی سطحی اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے تامیر ھایمن نے کہا ہے کہ اسرائیل کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسرائیل کی شام اور عراق میں شکست کی سب سے بڑی وجہ ایران کی حکمت عملی اور اسرائیلی پالیسیوں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کر نا ہے ۔ اپنی اسی بریفنگ میں فوجیوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کی فکراسرائیل کے شام اور عراق سمیت خطے میں منصوبوں کی ناکامی کا باعث بن رہی ہے اور فکر سے منسلک لوگ خاص طور پر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا چاہتے ہیں ۔
تامیر ھایمن اس ویڈیو فوٹیج میں اپنے ماتحت فوجی افسران کوشا م اور عرا ق کی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ عراق ہمارے اور امریکہ کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔ عراق اب اسرائیل کے لئے آج سے بیس سالے پہلے والا عرا ق نہیں رہا ۔ عرا ق اور شام یہ دونوں ایران کے ساتھ مربوط ہو چکے ہیں اور ایران ان کی پشت پناہی کر رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے منصوبوں پر عمل درآمد میں اکثر وبیشتر ناکامی کا سامنا ہے ۔
یمن میں سعودی عرب کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ھایمن نے کہا ہے کہ ایران سمندری حدود میں یمن کے راستے باب مندب تک آ چکا ہے اور باب مندب بھی ہمارے منصوبوں کے تحت اسرائیل کے ہاتھ سے نکل چکی ہے حالانکہ اسرائیل یمن میں سعودی قیادت میں جاری جنگ میں مسلسل یمن کے خلاف سرگرم عمل ہے لیکن یہاں بھی ایران کی یمن کے ساتھ ہم آہنگی نے نہ صرف یمن کے حوثیوں کو کامیاب قرار دلوا یا ہے بلکہ ہمارے تمام منصوبے یہاں پر ناکام ہو رہے ہیں ۔اسی طرح ایک اور عنصر جو کہ اسرائیل کے پڑوس میں موجود ہے وہ لبنان میں حزب اللہ کا وجود ہے ۔
حزب اللہ کے بارے میں ھایمن نے اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ ہمارے پڑوس میں ایک ایس اگروہ موجو دہے کہ جو اسرائیل کے لئے انتہائی خطر ناک ثابت ہو اہے ۔ حزب اللہ اپنے قیام سے اب تک مسلسل طاقت میں اضافہ کر رہی ہے اور حزب اللہ میں موجود شیعہ عناصر جو براہ راست ایران کو اپنا مرکز و محور مانتے ہیں اسرائیل کے لئے خطر ناک ہیں کیونکہ اسرائیل کی دفاعی طاقت کو حزب اللہ کئی مرتبہ سوالیہ نشان پر لا چکی ہے ۔ ھایمن کے اعتراف کے مطابق حزب اللہ کے پاس جد ید اسلحہ اور ایسے اسلحہ موجود ہیں جو اسرائیل کے ٹینکوں اور توپوں کا آسانی سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔
اسی بریفنگ میں ھایمن نے اعتراف کیا ہے کہ عراق، یمن اور شام سے ایسے میزائل داغے جا سکتے ہیں جو براہ راست تل ابیب پر گر سکتے ہیں اور بڑے نقصانات کا خدشہ موجو دہے ۔اسرائیلی انٹیلی جنس کے اعلی عہدیدار ھایمن نے اپنی اسی فوجی بریفنگ میں فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کے اند ر فلسطینیوں کا وجود دہشت گردی کے وجود کے مترداف ہے اور یہ فلسطینی بھی ایران کے ساتھ منسلک ہیں اور ایران سے اسلحہ اور ٹریننگ لیتے رہے ہیں اور اب اسرائیل کے خلاف برسر پیکار ہیں ۔
ھایمن نے اعتراف کیا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس اب ایسی ٹیءکنالوجی موجود ہے جو اسرائیل کے ڈرون طیاروں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے اور فلسطینی مزاحمت کار اس عنوان سے کئی مرتبہ ا سکا عملی نمونہ دکھا چکے ہیں ، ھایمن نے یہاں تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے جونیئر فوجی افسران کو بتایا کہ فلسطینی مزاحمت کار ڈرون مار گرانے میں تو مہارت رکھتے ہی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ دیسی ساختہ ڈرون طیار کر رہے ہیں اور اسرائیل کے حساس مقامات کی جاسوسی بھی کرتے ہیں ۔ھایمن نے گفتگو کے اختتام پر اپنے فوجی افسران کو بتاتے ہیں کہ فلسطین، یمن، عراق، شام اور لبنان میں حزب اللہ یہ پانچ عناصر ایسے عناصر ہیں جو اسرائیل کے سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اور اسرائیل کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہوئے اسرائیل کی نابودی کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔
ان تمام پانچ عناصر کی پشت پناہی میں ایران کی انقلابی سوچ اور تفکر کے ساتھ ساتھ انقلاب کے وہ قائدین ہیں یعنی ھایمن کا اشارہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف ہے کہ جنہوں نے فلسطین کی آزادی کو حتمی قرار دیا ہے اور اسرائیل کی نابودی کو یقینی اور وعدہ الہی قرار دیا ہے ۔
خلاصہ اب یہ ہے کہ اگر ان تمام پانچ کے پانچ عناصر کی جد وجہد کا مختصر جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر ایک بات یہ ثابت ہوجاتی ہے کہ یمن کے عوام اپنی آزادی اور اپنے استقال و عزت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہوں نے امریکہ و اسرائیل کے سامنے سرتسلم خم ہونے سے انکار کر دیا ہے یہاں پر یقینا ایران کا کوئی ایسا فائدہ موجود نہیں ہے کہ جس کے لئے ایران کو مورد الزام ٹہرایا جاتا رہے ۔ یمن کے حوثی اپنی آزاد حیثیت میں موجود ہیں اور اپنے مستقل اور حال کے فیصلے وہ خود کر رہے ہیں ۔ یہاں پر جنگ استقلال کی جنگ ہے ۔
شام کی بات کریں تو یہاں بھی شامی حکومت اپنے وطن اور سرزمین کو ان دہشت گردوں سے نجات دلوانے کی جنگ لڑ رہی ہے جن دہشت گردوں کو امریکہ، اسرائیل اور عرب حواریوں نے شام کی حکومت کو گرانے کے لئے بھیجا تھا جس کا ذکر کود اسرائیلی انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیدار تامیر ھایمن نے بھی اپنی گفتگو میں کیا ہے ۔
لہذا شام اپنی بقاء اور خود مختاری کی جنگ لڑ ررہا ہے ۔لبنان کی حزب اللہ بھی لبنان کے دفاع میں مصروف ہے ۔ اسرائیل کو نکال باہر کر چکی ہے اور حزب اللہ کی طاقت کا ذکر بھی ھایمن اپنی گفتگو میں کر چکے ہیں ۔ عرا ق کی صورتحال بھی اسی طرح کی ہے کہ جہاں داعش جیسی امریکی وا سرائیلی حمایت یافتہ دہشت گرد حکومت اور تنظیم کو ختم کرنے کے لئے عرا ق نے مزاحمت اور استقامت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لی ہے ۔فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی جنگ نہ تو ایران کی آزادی کی جنگ ہے اور نہ ہی ایران کے لئے ہے بلکہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور فلسطین کی آزادی فلسطینیوں کا حق ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک ایران کی جانب سے ان پانچ عناصر کی مدد و تعاون کی بات ہے تو یقینا ایران نے عرا ق و شام کی درخواست پر ان دونوں ممالک کا ساتھ دیا تا کہ دونوں خود مختاری قائم رہے ۔ ایران نے لبنان میں حزب اللہ کا ساتھ اس لئے دیا کہ حزب اللہ لبنان کو اسرائیل کے قبضہ سے آزاد کروائے اور ایسا ہوا ۔ اسی طرح ایران یمن کے عوام کے حقوق کے دفاع کی حمایت کرتا ہے اوراسی طرح فلسطین کے لئے ایران نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے مسلسل مالی ومسلح مدد بھی کی ہے اور جد ید ٹیکنالوجی سے بھی فلسطینیوں کو آراستہ کیا ہے جس کا ذکر خود صہیونی دشمن کے انٹیلی جنس ٓفیسر تامیر ھایمن نے نشر ہونے والی ویڈیو میں کیا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسرائیل کمزور ہو چکا ہے اور نابودی کی طرف گامزن ہے ۔ عنقریب وہ وقت آنے ہی والا ہے کہ مظلوم ملت فلسطین کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے چنگل سے نجات حاصل ہوگی اور دنیا بھر سے فلسطینی اپنے وطن واپس آ کر سرزمین مقدس فلسطین پر آباد ہوں گے اور یہ حتمی ہونا ہے اگرچہ ہم اس واقعہ کو دیکھ پائیں یہ نہ دیکھیں ۔
تحریر: صابرابو مر یم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی