وحدت نیوز(آرٹیکل) گلگت بلتستان میں انتخابات کا دنگل سجا ہر پارٹی نے اپنے اپنے کمانڈرز اور فوج ظفر فوج کے ساتھ طبل جنگ بجادیا آؤ دیکھی نہ تاؤ ہر ممکن طریقے سے الیکشن کمپین چلائی اور فریق مخالف کو ٹف ٹائم دینے کی بھر پور کوشش کی- الیکشن کے قریب پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن جناب بلاول بھٹو زرداری کے بائیس روزہ دورہ جات اوردھواں دار تقریریں , ن لیگ کی مرکزی قیادت محترمہ مریم نواز کے رکیک حملوں اور عوام کے بڑے بڑے اجتماعات سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ اب پی ٹی آئی الیکشن کے دنگل میں غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوجائیگی-
پارٹی میں موجود ناقابل تردید درھاڑیں ،ٹکٹ کے لئے کارکنوں کی کھینچاتانی ستم بالائے ستم پارٹی قیادت مرحوم جعفر شاہ کے سانحہ ارتحال نے حالات کو اور بھی نازک بنادیا-
لیکن قابل داد ہے تحریک انصاف کے مرکزی قائدین جن کی طائرانہ نگاہوں نے الیکشن 2015 کی رو سے دوسری بڑی ووٹ بنک مجلس وحدت مسلمین کو تاڑ لیا تھا کیونکہ باقی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ملکی سطح پہ تحریک انصاف کے خلاف پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پہ متحد ہوچکی تھیں- جی بی میں ایم ڈبلیو ایم ہی وہ واحد جماعت تھی جسے اتحاد کے زریعے کرپٹ مافیا سے مقابلہ ممکن تھا کیونکہ گلگت بلتستان میں ایم ایم ڈبلیو ایم جہاں اکثریتی مسلک کی نمائندہ جماعت ہے وہاں گزشتہ ایک عشرے سے مزاحمتی سیاست کی رہبری بھی اسی جماعت کے ہاتھوں میں ہے-
عوامی ایکشن کمیٹی ہو یا انجمن تاجران یا پھر قوم پرستوں کی تحریک عوامی حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز میں شریک رہنے کی وجہ سے یہ جماعت قلیل عرصے میں پورے گلگت بلتستان میں دوسری بڑی ووٹ بینک جماعت کی حیثیت سے الیکشن 2015 میں ابھر کر سامنے آئی- جبکہ تمام دانشور حضرات اور غیر جانب دار تجزیہ نگار اس بات پہ متفق ہیں کہ اس وقت گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ مقبول عوامی لیڈر بھی آغا علی رضوی کی شکل میں اسی جماعت کے پاس موجود ہیں جو صوبائی سطح پر اس جماعت کو لیڈ کر رہے ہیں-
آغا علی رضوی اور مجلس وحدت چونکہ شروع سے سیٹ کے بجائے اقدار اور عوامی حقوق کی بنیاد پر مزاحمت کے راستے پر گامزن ہیں لہٰذا گلگت بلتستان کی آئینی شناخت اور دیرینہ عوامی حقوق کے وعدہ وعید اور شرائط کے ساتھ پی ٹی آئی سے اتحاد پر راضی ہوگئے-
یہی وہ شرائط تھیں جو 2015 کے الیکشن میں ن لیگ کے سامنے رکھی گئی تھیں لیکن ن لیگ کی عوامی مسائل اور آئینی حقوق سے عدم دلچسپی کی بنا پر اتحاد قائم نہیں ہو سکا تھا-
تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کی ملکی سطح پہ گزشتہ الیکشن میں مشترکہ الائنس اور قومی و بین الاقوامی امور میں اتفاق رائے اور مشترکہ ورکنگ کمیٹی پہلے سے موجود تھی یوں گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی اور مجلس وحدت مسلمین کی سابقہ رفاقت نے تحریک انصاف کو درپیش چیلنجز سے مقابلے کو آسان بنا دیا- مجلس وحدت کے مرکزی قائدین کی وفاقی وزراء کے دو بہ دو بھر پور الیکشن کمپین اور آغا علی رضوی کی بھر پورعوامی مقبولیت کی وجہ سے گیم کا کایا پلٹ گیا-
مجلس وحدت نے اپنے زیر اثر حلقوں سے اپنے نمائندوں اور ووٹرز کو نہ صرف تحریک انصاف کے حق میں بٹھایا بلکہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سمیت دیگر مرکزی قائدین نے قریہ قریہ جاکر تحریک انصاف کے حق میں بھرپور کمپین چلائی یہی وجہ ہے کہ اتحادی جماعت نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا مکمل صفایا کرکے بھاری مینڈیٹ حاصل کیا-
الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کے مضبوط سٹانس ،بہترین تعاون اور عوام کے بھر پور مطالبات کے پیش نظر وزیر اعلیٰ کا معاون خصوصی اور وزیر زراعت کا قلمدان بھی مجلس وحدت کو سونپ دیا ۔
یوں ایم ڈبلیو ایم کے قائدین کی سیاسی بصیرت اور فہم فراست کی بدولت ایم ڈبلیو ایم اسمبلی کی تین سیٹوں اور ایک مشیر و وزیر کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی-
ایڈوائزر ٹو سی ایم سید سہیل عباس ،سینئر وزیر راجہ زکریا مقپون ،وزیر تعلیم راجہ اعظم خان ، سپیکر اسمبلی سید امجد زیدی اور نو منتخب وزیر اعلیٰ سمیت مرکزی قائدین تقریب حلف برداری سے لیکر نجی محافل اور سوشل میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا تک مجلس وحدت مسلمین کا شکریہ ادا کرتے رہے اور تقریب حلف برداری کے بعد وفد کی شکل میں ایم ڈبلیو ایم سیکریٹریٹ گلگت جاکر تعمیر و ترقی کے عمل کو بھی مل کر آگے بڑھانے کے حوالے سے تجدید عہد کیا-
ایک دلچسپ نتیجہ جو اس اتحاد سے حاصل ہوا وہ گنے چنے افراد کے علاوہ نئے چہروں پر مشتمل بے داغ ماضی کے حامل کابینہ کی تشکیل ہے-
الیکشن کے جوڑ توڑ سے آشنا افراد بخوبی جانتے ہیں کہ اس دفعہ مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف نے مل کر الیکشن کی میتھ میں ایک نیا فامولا ایجاد کیا جس کے نتیجے میں ایک طرف کرپٹ مافیا سمیت بڑے بڑے سیاسی برج زمین بوس ہوگئے تو دوسری طرف دونوں جماعتیں منصفانہ انداز میں سیاسی اہداف کی حصول کے زریعے اپنی مینڈیٹ اور بہترین امیج کو بچانے میں کامیاب ہوئے-
تحریر : رسول میر