وحدت نیوز(آرٹیکل)گلگت بلتستان میں داخلی خارجی دشمنوں کی سازشیں ,مقابلہ کی ضرورت اور راہ حل
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ يٰقَوۡمِ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ كُنۡتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّىۡ وَرَزَقَنِىۡ مِنۡهُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُخَالِفَكُمۡ اِلٰى مَاۤ اَنۡهٰٮكُمۡ عَنۡهُ ؕ اِنۡ اُرِيۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ ؕ وَمَا تَوۡفِيۡقِىۡۤ اِلَّا بِاللّٰهِ ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَاِلَيۡهِ اُنِيۡبُ ۞
ترجمہ: (شعیب علیہ السلام) بولے اے میری قوم بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی جانب سے دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھ کو اپنے پاس سے ایک عمدہ دولت دی ہو ۔ اور میں نہیں چاہتا کہ تمہارے برخلاف ان کاموں کو کروں جن سے میں تمہیں روکتا ہوں ۔ میں تو بس اصلاح ہی چاہتا ہوں جہاں تک میں کرسکوں اور مجھے جو کچھ توفیق ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں (سورۃهودآیت88)
درپیش چلنجز:
1: زمینوں پر قبضہ۔بذریعہ :
1: بیوروکریسی
2: گرین ٹورزم یعنی ریاستی ادارے اور حکومت
2: زمینوں کی خریداری
تین اھداف
1: بعض لوگ خالص کاروباری ہیں۔
2: بعض لوگوں ریاست اور ایجنسیز کے آلہ کار ہے جو خطے میں نفوز چاہتے ہیں۔
3: بعض لوگ تکفیری ذہنیت (سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی )کے لوگ ہیں جو مذھبی اھداف رکھتے ہیں
ان میں سے 2اور 3 کی پشت پناہی ریاست کرتی ہے۔ جس کے شواہد یہ ہیں:
کور کمانڈر اور وزیر اعلی کا سکردو میں ڈیرہ جمانا
عاشورا کے دن ریجنر تعینات کی سازش۔
عین محرم کے قریب چلاس اپریشن۔
نیز سٹبلشمنٹ، عدلیہ،بیوروکریسی۔وفاقی حکومت،
لوکل گورنمنٹ سنیت تمام اداروں میں مسلکی تعصب اس کی واضح دلیل ہیں۔
مقابلہ :
1: آئینی قانونی طریقہ:
ہماری زمینوں کے مالک ہم ہیں۔اس حقیقت کو تسلیم کروایا جائے۔
کمشنر بلتستان ٹو چیف سیکرٹری ٹو وزیر اعظم یہ باور کرایا جائے۔گورنر، وزیر اعلی،ایف سی این اے جنرل کو باور کرایا جائے کہ ہماری زمین ہمارا ریڈ لائن(سرخ لکیر) ہے اس سے چھیڑنا خطہ کی سکیورٹی کےلئے مسائل بن سکتاہے۔
2: تہذیبی مراکز کے ذریعے عوامی شعور بیدار کرنا:
مساجد،مدارس،سکول کالج،یونیورسٹی ،امام بارگاہ۔محافل و مجالس کے پلیٹ فارمز سے استفادہ کرتے ہوئے اس شعور کو بیدار کرنا کہ یہاں کی زمین، پہاڑ،میدان،جنگلات اور معدنیات ہماری ہی ہے جو مختلف طریقوں سے چھیننے جا رہے ہیں ۔
3: میڈیا وار: درج ذیل طریقوں سے شعورِ پیدا کرنے اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے عوام کو تیار کرنا۔ میڈیا بریفننگ،پریس کانفرنس، پریس ریلیز، مضامین، مقالات، نیشنل میڈیا تک رسائی۔
3: سیاسی اثر رسوخ : حقوقِ حاصل کرنے اور غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے وفاق حکومت ، قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہاں کی مظلومیت پر آواز اٹھانا۔
4: قومی بینایہ کی تشکیل اور ترویج ؛
تمام مسالک کے علماء کا مشترکہ بیانیہ کہ زمین ہم سب (علاقے کے پشتینی باشندوں کی مشترکہ میراث ہے۔ اس پر حکومت اور غیر مقامی لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے ۔
5: احتجاج دھرنے عوامی رد عمل:
جمعہ کے اجتماع میں خطاب، عوامی جلسہ جکوس، دھرنے اور احتجاجی مظاہروں کا اہتمام ۔
6: بڑے اداروں اور شخصیات کو خط۔
اہم نکتہ:
کھربوں کی زمین پر قبضہ اور ٹورسٹ کے ذریعے سالانہ اربوں ڈالر کمانے کے لئے ریاست اور سازشی ادارے سارے حربے استعمال کرسکتے ہیں ان اھداف کے حصول کے لئے اگر کچھ لوگوں کو مار بھی دیا جائے تو ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ لہذا ہماری نجات کا واحد راستہ مزاحمت، مقاومت اور غلط کاموں کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے۔
مقابلہ :
1: آئینی قانونی طریقہ:
ہماری زمینوں کے مالک ہم ہیں۔اس حقیقت کو تسلیم کروایا جائے۔
کمشنر بلتستان ٹو چیف سیکرٹری ٹو وزیر اعظم یہ باور کرایا جائے۔گورنر، وزیر اعلی،ایف سی این اے جنرل کو باور کرایا جائے کہ ہماری زمین ہمارا ریڈ لائن(سرخ لکیر) ہے اس سے چھیڑنا خطہ کی سکیورٹی کےلئے مسائل بن سکتاہے۔
2: تہذیبی مراکز کے ذریعے عوامی شعور بیدار کرنا:
مساجد،مدارس،سکول کالج،یونیورسٹی ،امام بارگاہ۔محافل و مجالس کے پلیٹ فارمز سے استفادہ کرتے ہوئے اس شعور کو بیدار کرنا کہ یہاں کی زمین، پہاڑ،میدان،جنگلات اور معدنیات ہماری ہی ہے جو مختلف طریقوں سے چھیننے جا رہے ہیں ۔
3: میڈیا وار: درج ذیل طریقوں سے شعورِ پیدا کرنے اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے عوام کو تیار کرنا۔ میڈیا بریفننگ،پریس کانفرنس، پریس ریلیز، مضامین، مقالات، نیشنل میڈیا تک رسائی۔
3: سیاسی اثر رسوخ : حقوقِ حاصل کرنے اور غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کے ذریعے وفاق حکومت ، قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہاں کی مظلومیت پر آواز اٹھانا۔
4: قومی بینایہ کی تشکیل اور ترویج ؛
تمام مسالک کے علماء کا مشترکہ بیانیہ کہ زمین ہم سب (علاقے کے پشتینی باشندوں کی مشترکہ میراث ہے۔ اس پر حکومت اور غیر مقامی لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے ۔
5: احتجاج دھرنے عوامی رد عمل:
جمعہ کے اجتماع میں خطاب، عوامی جلسہ جکوس، دھرنے اور احتجاجی مظاہروں کا اہتمام ۔
6: بڑے اداروں اور شخصیات کو خط۔
اہم نکتہ:
کھربوں کی زمین پر قبضہ اور ٹورسٹ کے ذریعے سالانہ اربوں ڈالر کمانے کے لئے ریاست اور سازشی ادارے سارے حربے استعمال کرسکتے ہیں ان اھداف کے حصول کے لئے اگر کچھ لوگوں کو مار بھی دیا جائے تو ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ لہذا ہماری نجات کا واحد راستہ مزاحمت، مقاومت اور غلط کاموں کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے۔
: سماجیات اور معاشرتی اقدار پر توجہ:
یہ جو گھر گھر چھوٹے یڑے،سامان،قالین لیکر آنے والے لوگ ،نیز مزدوری کے نام پر آکر اب تک بلتستان میں عزت وناموس کے جومسائل ہوئے ہیں۔ ان کے علاؤہ تہذیبی ٹکراؤ کے حامل افراد، اقوام ،گروہوں اور اداروں کا مختلف طریقوں سے مقامی اسلامی تہذیب کو بدلنے کی کوششوں کی وجہ سے بلتستان سماجی بحران سے دوچار ہوئے والا ہے ۔
راہ حل:
ان کاروباریوں کا بازار سے باہر یعنی محلات اور گلی کوچوں پر جانے پر پابندی لگنی چاہئے۔
ساتھ میں پولیس کے تعاون سے انکے ڈیرے رہائش اور انکے رہن سہن چال چلن پر بہت زیادہ توجہ ضروری ہے۔ تاکہ سماجی مسائل پیدا نہ ہو۔
اس حوالے سے محلہ جات میں پابندی سمیت انکا استقبال کرنے والی خواتین پر توجہ اور انکی تربیت ضروری ہے۔
5: گرین ٹوریزم کی آخری منزل پر توجہ اور ہمارے کاروبار پر فاتحہ خوانی:
گرین ٹوریزم کی آخری منزل کسی ایک مخصوص ریاستی ادارے اور بعض ارباب اختیار کو (آئی پی پیز بجلی گھروں کی طرح) گلگت بلتستان کے ٹورسٹ پوائنٹ کے مالک بنا کر ان کی نسلوں کو بھی مالا مال کرنا ہے انکی آخری منزل یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے ٹورسٹ کا پورا کاروبار نال لوکل کچھ بڑوں کے پاس ہو اور اس علاقے کو مقبوضہ فلسطین اور کانگو بنا دے۔ جس کے لیے وہ ایسے قوانین وضع کرین گے کہ ٹورسٹ بائی ائیر ہو یا بائی روڈ اسلام آباد سے ہی ڈائریکٹ گرین ٹوریزم کے انڈر میں ہو انہیں کی گاڑی گائیڈ، ہوٹل اور سسٹم میں رہے۔ وہاں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ نتیجہ میں اگلے چند سالوں میں گلگت بلتستان کے تمام ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسس، ٹرانسپورٹ مالکان سوفیصد بیروزگار ہونگے وہ نہ کیس کرسکین گے کیونکہ کمپنی گورنمٹ رجسٹرڈ ہے نہ کمپنی سے چھیڑ سکیں گے ورنہ فوری فور شیڈول اور ایف آئی ار۔
6: ملی یک جہتی اور اتحاد کو ختم کر کے اختلافات ، انتشار اور فسادات پھیلانا:
اس مقصد کے لیے وہ "لڑاؤ اور حکومت کرو " کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے اور گھر گھر ، گاؤں گاؤں جھگڑے کرائیں گے۔لسانیت ، علاقائیت اور
قومیت کو پروان چڑھایا جائے گا اور عصبیت کی بنیاد پر فساد عام کریں گےاور ہمیں لڑا کر خود عیاشی کے ساتھ حکومت کریں گے۔
7: ناموس کی حفاظت :
سکولوں، کالجوںاور یونیورسٹی میں مختلف طریقوں خصوصا مخلوط طریقہ تعلیم کی وجہ سے بگاڑ بہت زیادہ ہے۔
ہاسٹلوں کے بھی مسائل ہیں۔ علاؤہ ازیں غیر مقامی پنجاب اور پختون خواہ میں شادی کرکے وہاں عزت وناموس کے مصائب بھی زیادہ پیش آ رہی ہیں۔ کاروبار اور کام کے نام پر آنے والے درندوں کے ہاتھوں پیش آنے والے مسائل بھی کم نہیں۔
سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے مضر اثرات اپنی جگہ،اساتید کے ہاتھوں سادہ لوحی سے اداروں میں متاثرہ بچیوں کا غم ایک طرف ،پیسوں کے ریل پیل سے عزت وناموس کی خریداری کا مسئلہ اپنی جگہ۔
خلاصہ ہر طرف سے عزت وناموس خطرے میں ہے
اس حوالے سے گھر گھر محلہ محلہ پروگرام رکھنے، ہاسٹلوں کی نگرانی،
مخلوط نظام تعلیم والے یونیورسٹی کالج سکول اکیڈمی سمیت تمام اداروں پر نظر رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
8: حساس وقت اور اہم ذمہ داری:
اس وقت ہم گلگت بلتستان کی تاریخ کے حساس ترین وقت سے گزررہے ہیں۔
مقام افسوس کہ ہم شھید ضیاء الدین کے شعوری تحریک سے بیدار نہ ہوئے ۔
آج ہر عالم دین مبلغ مدرس محقق دانشور کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اپنی ذات فیملی خاندان رشتہ دار محلہ گاؤں شہر ضلع صوبہ اور پورے خطے میں گھر گھر سکول سکول،مدرسہ مدرسہ ،دینیات سنٹر دینیات سنٹر،پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک، چاہے وہ گورنمنٹ کا اداری ہو یا پرائیوٹ شعور عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سازشوں سے ہوشیار رہے۔
آگاہ رہے بیدار رہے۔ اور اپنی عزت وناموس کو بچانے کےلئے گھروں سے نکلیں قربانی دیں ورنہ قیامت تک غلامی کے زندان میں گرفتار ہونا پڑے گا۔
9: معدنیات اور انفراسٹرکچر پر حملہ:
معدنیات پر کام کرنے والے مقامی لوگوں کے لیے درکار بارود کو مارکیٹ سے غائب کرنا اس لئے ہے کہ ادارے معدنیات کا مکمل کام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تمام معدنیاتی پوائنٹس پر انکی نظریں ہیں یہ بلوچستان کی طرح وہاں کے لوگوں کو ان پڑھ بھوکے،بےگھر رکھ کر پوری دولتِ لوٹ کر لے جائیں گے ۔
سکردو گلگت روڈ کو موت کا کنواں بنانے کے بعد اب شغرتھنگ پروجیکٹ کو برباد کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ انفراسٹرکچر کو برباد کرکے اپنی معیشت بنانے کا ٹھیکہ، کچھ مخصوص ادروں کی کمپنیوں نے لیا ہواہے۔
10: خلاصۃ مطلب:
امریکہ , تکفیری قوتیں، مختلف اداروں میں گھسے ہوئےدشمن کے آلہ کار اور اپنے خیانت کار مل کر بلتستان کو نابود کرنے کا نقشہ بناچکے ہیں۔
لیکن ہم لا آلہ آلا آللہ محمد رسول اللہ ہر ایمان رکھتے ہیں ۔ غدیر کے وارث ہیں، کربلا کے شاگرد ہیں۔ مہدویت کے سپاہی اور اپنے حقوق کے محافظ ہیں۔
ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ نجات کا واحد راستہ شعور، آگہی، وحدت و یک جہتی، مزاحمت ، مقاومت اور غلط کاموں کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے۔
لہذا حقوق کی حفاظت ،ظلم کے خلاف مزاحمت و مقاومت اور مظلوموں کے لیے اللہ تعالٰی کی مدد و نصرت سے مربوط قرآنی آیات اور معصومین علیہم السلام کی احادیث پر عمل کرتے ہوئے ہم ڈٹ جائیں گے۔مر جائیں گے لیکن جب تک زندہ ہیں عزت و توقیر کی حفاظت کرتے رہیں گے۔
وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ
ترجمہ:
اور نہ ہمت ہارو اور نہ غم کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن رہے ۔(سورۃ آل عمران آیت نمبر 139)
تحریر: شیخ جان حیدری