وحدت نیوز(آرٹیکل) جب ڈرون تباہ شدہ بلڈنگ میں داخل ہوا شھیدیحییٰ سنوار بجائے خود کو مردھ حالت میں ڈھالنے یا تسلیم ہوجانے کے انتہائی اطمینان سے اس کی طرف نظریں جما لیتے ہیں۔
? سیدھا ہاتھ شدید زخمی ہوچکا تھا لیکن الٹے ہاتھ میں اب بھی ایک لکڑی تھی۔
? اس عظیم مجاہد کو معلوم تھا کہ اب اسی کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔
? اگر چہرے پر جو مفلر لپیٹا ہوا تھا اس کو اتار لیتے تو شاید ڈرون کا آپریٹر شہید سنوار کو پہچانتے ہوئے ان پر گولی نہیں چلاتا لیکن شہید نے طے کرلیا تھا۔
? اب شہید کے بدن میں سکت نہیں رہی تھی لیکن ان آخری لمحات میں بھی اپنی سرزمین کے بچوں کو یہ پیغام دینا چاہا کہ سنوار کے پاس جب کوئی اسلحہ نہیں بچا تھا تو ایک لکڑی کے ٹکڑے سے آخری دم تک جنگ لڑی اور اس کو ڈرون کی طرف پھینکا۔ شاید کچھ سیکنڈوں بعد ہی زندگی اختتام پزیر ہوگئی لیکن ڈرون کے آپریٹر کو نہیں پتہ تھا کہ وہ کس پر گولیاں چلا رہا ہے لیکن سنوار کو پتہ تھا کہ اس کی زندگی کے آخری لمحات ریکارڈ ہورہے ہیں!
? زندگی کے آخری لمحات میں بھی لکڑی کے ٹکڑے سے حملہ کرکے قوم کے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے پاس لڑنے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں چاہے مسلح ڈرون کا مقابلہ ایک لکڑی کے ٹکڑے سے ہی کیوں نہ کرنا پڑے؟!
? ایک تباہ شدہ عمارت میں اپنی شہادت کو انتخاب کرکے یہ پیغام دیا کہ آخری دم تک تسلیم نہیں ہونا ہے۔
? شہید یحیی سنوار نے اس طریقے سے اپنی شہادت کو انتخاب کرکے تاریخ میں اپنا نام امر کردیا۔ وہ نہیں ہارا؛ 23 سال زندان میں رہنے کے باوجود اس نے یاسر عرفات کی طرح یہ نہیں کہا کہ میں تھک گیا ہوں! جنگ کو ختم کرتے ہیں! اس کے لئے جنگ کا اختتام اس وقت تھا کہ جب اس سرزمین کے حقیقی باسی اپنی آبائی زمینوں پر واپس چلے جائیں۔
? سنوار 7 اکتوبر 2023 سے 17 اکتوبر 2024 تک غزہ میں رہے۔ نکل سکتے تھے لیکن ڈٹے رہے۔ جنگ لڑی بلکہ قیادت کی اور پھر ۔۔۔
? اس نے فلسطینی بچوں کو زندگی گزارنے کے گُر سکھا دیئے۔ ڈرنا نہیں ہے، تسلیم نہیں ہونا ہے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑنا ہے۔
? یحیی سنوار ختم نہیں ہوا۔ غاصبوں نے اس ویڈیو کو چلا کر فلسطینی نوجوانوں کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ ان کو اب پتہ چل گیا کہ جو سنوار کے بارے افسانوی باتیں کی جاتی تھیں وہ سب حقیقت تھیں!
? تاریخ اس ویڈیو کو یاد رکھے گی کہ کس طرح ایک لکڑی سے آخری سانس تک فلسطینی مجاہوں نے جنگ لڑی؟ اور جب ان شاء اللہ قدس آزاد ہوگا تو قضاوت کرے گی کہ کس کس نے ساٹھ سالہ زندگی کو اس آزادی کیلئے قربان کیا؟!