وحدت نیوز (آرٹیکل) وطنِ عزیز پاکستان ہمیں جان سے بھی عزیز ہے اور یہ بہت سی منفرد خصوصیات کا حامل بھی ہے. بالخصوص اپنے محل وقوع ، باصلاحیت ومحنت کش 23 کروڑ عوام ، تجربہ کار ومضبوط آرمی و دفاعی پوزیشن اور ایٹمی طاقت ہونے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے. اس لئے ہمیشہ جارح استکباری طاقتیں اور خطے کے بعض مفاد پرست ممالک اس کے خلاف سازشوں کے خطرناک جال بُنتے رہتے ہیں. اور گذشتہ کئی دھائیوں سے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان متعدد بحرانوں کی لپیٹ میں آچکا ہے. جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہوکر اور اپنے قومی مفاد کو پہلی ترجیح قرار دیکر ان بحرانوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی اشد ضرورت ہے. ہمیں دنیا کی سپر پاورز ہوں یا خطے کے ممالک ان سب کی مداخلت اور نفوذ سے نجات حاصل کر کے دوطرفہ احترام، اپنے قومی مفاد وملکی وعوامی مصلحت و سلامتی واستقلال کی ضمانت کے ساتھ آبرومندانہ و متوازن تعلقات بنانے کی ضرورت ہے.
دانشور طبقے اور اہلِ اقتدار کو چاھیے کہ وہ دنیا بھر اور بالخصوص خطے کے بدلتے حالات سے ہر وقت آگاہ رہیں اور پاکستانی عوام کو بھی حقائق جیسے ہیں ویسے ہی بتائیں. تاکہ عام لوگوں کی سیاسی وفکری شعور کی سطح بلند ہو اور ہم ایک با شعور وآگاہ قوم بن کر کسی کے دھوکے میں نہ آئیں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے. اور حکمرانوں کو بھی اجازت نہ دیں کہ وہ دوسروں کے وکیل بن کر انکے وسیع تر مفادات اور اپنے عارضی و گروہی و ذاتی مفادات کی خاطر وطنِ عزیز کو کسی نئے بحران کی دلدل میں دھکیل سکیں.
ترکی دنیائے اسلام کا ایک اہم ملک ہے اور ہمیشہ سے ہمارے درمیان تعلقات برادرانہ اور دوستانہ رہے ہیں. بالخصوص مسئلہ کشمیر پر ترکی، ملائشیا، ایران اور چین کا دو ٹوک موقف قابل قدر ہے. پاکستان کو چاھیے کہ اپنی سفارت کاری کو مزید بہتر بنا کر انڈیا واسرائیل کے علاوہ دنیا بھر کے تمام ممالک سے مسئلہ کشمیر پر حمایت و تائید حاصل کرنے کی مزید کوشش کرے. اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ پہلے سے بہتر اور متوازن دو طرفہ تعلقات قائم کرے.
پاکستانی میڈیا وسوشل میڈیا پر جو ترکی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے. اور کچھ بے بنیاد مواد بھی نشر ہوتا ہے. ہم نے گذشتہ کالم میں بغیر تحلیل وتجزیہ کے ” ترک اسرائیل تعلقات تاریخ کے آئینے میں” اس میں صرف ان حقائق کو بیان کیا جو ذرائع ابلاغ میں موجود ہیں اور کوئی بھی محقق ان حقائق کو تلاش کرکے ان کی تصدیق کر سکتا ہے. انہیں بیان کرنے کا مقصد ہرگز ترکی کی مخالف نہیں بلکہ وہ حقائق جو ساری دنیا جانتی ہے ان سے اپنے ملک کے عوام کو بھی آگاہ کرنا ہے. اور قوم کو جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے بچانا ہے. تاکہ تعلقات شعوری طور پر آگے بڑھیںاور ترکی کیونکہ اس وقت یونان ، شام اور لیبیا کے ساتھ جنگ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہیں مسئلہ کشمیر کی حمایت کے بیان کے بدلے ہمیں کسی پرائی جنگ میں الجھا نہ دے. پھر چالیس سال بعد کہنا پڑے کہ ہم نے غلطی کی تھی.
سعودی وخلیجی شاہی خاندان ہمیں اپنی کرسی اقتدار کو بچانے کے لئے امریکہ افغانستان میں اور اپنے شریک خلیجی ممالک ہمیں یمن وبحرین و اردن وغیرہ میں ٹریننگ ومعلومات کا تبادلہ ودیگر عسکری تعاون لیتے رہے ہیں. اور ہمیں کرائے کے قاتل کا لقب ملتا رہا ہے. جب ہماری جنگ ہوتی ہے تو ہم تنہا لڑتے ہیں اور امید بھی نہیں کہ اگر خدانخواستہ نئی جنگ چھڑ گئی تو کوئی ملک انڈیا کے مقابلے میں اپنے فوجی ماہرین یا ہمارے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے فوج بھیجے گا. ممکن ہے کوئی بیان ہمارے حق میں دیدے یا کوئی ہمیں قرض دیدے لیکن خون ہمیں خود ہی دینا ہوگا.
اس لئے ہمیں بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہیں .جب گذشتہ صدی کے نوے کے عشرے کی ابتداء میں سوویت اتحاد ٹوٹا اور سویت یونین کے ممالک ٹکڑوں میں بٹ گئے اور امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا تو انقرہ کی سیاست میں بھی ایک نوعی تبدیلی آئی. ترکی امریکہ کا اتحادی تھا، ترکی نے بھی سوویت یونین کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے اور اپنے نفوذ کو خطے میں بڑھانے کا فیصلہ کیا. ترک سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ ، بلقان اور قوقاز کے ممالک پر انکا حق ہے. تو اس لئے اپنے ان توسیع پسندانہ عزائم کے لئے انہیں ایک طاقتور فوج کی ضرورت تھی.
امریکہ اور یورپ نے ترکی کو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا. تو ان حالات میں ترکی کی نگاہیں اسرائیل پر پڑیں کہ جو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے.دوسری طرف اسرائیل کو بھی خطے میں ایک مضبوط شراکت دار کی ضرورت تھی. ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال نے ترکی کی تاریخ میں پہلی بار 1992 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو دو ملکوں کے مابین سفراء کی سطح تک بڑھایا. 1994 میں اسرائیل کے صدر عزرا وایزمین نے انقرہ کا دورہ کیا جس کے بعد ترکی کی خاتون وزیراعظم تانسوچیلر نے تل ابیب کا دورہ کیا. اور دونوں ممالک کے مابین ” امن وسیکورٹی ” معاھدے پر دستخط ہوئے. تاکہ دونوں آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکیں اور ترک فضائیہ کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جائے.
1996 میں ترکی نے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافے اور جدید ترین اسلحہ کی خریداری کے لئے بڑی مقدار میں سرمایہ خرچ کیا. اور پہلے دس سال کے لئے 25 سے 30 بلین ڈالرز بجٹ طے کیا، جس کی مقدار اگلے تیس سال تک کے لئے 150 بلین ڈالرز تک بڑھانا طے پایا۔ 26 اگست 1996 کو ترکی اور اسرائیل نے اسلحہ بنانے کے معاھدے پر دستخط کئےجس کے بعد اسرائیل نے ترکی کے 54 جنگی طیاروں کے برقی نظام کو اپ گریڈ کیا. اور اس پانچ سالہ ڈیل کی لاگت 800 ملین ڈالرز تھی. اسی طرح میزائل اور رے ڈار بنائے گئے جو ترکی نے عراق اور شام کی سرحد پر نصب کئے.
اسی طرح دور مار کرنے والے میزائل بنانے کا معاہدہ بھی طے پایا جس کا بجٹ 150 ملین ڈالرز طے ہوا. اسرائیل کی جغرافیائی وسعت کم ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے ان معاہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی جنگی جہازوں کو پرواز کے لیے ترکی کی وسیع فضا استعمال کرنے کا موقع مل گیا. جس کے سبب وہ ایران کی قریب آزادانہ پرواز کرنے لگے. 1997 میں ترکی کے آرمی چیف اسماعیل حسین قرضای نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور عسکری تعلقات کو مزید فروغ ملا.
اپریل 1997 کو اسرائیلی وزیر خارجہ نے ترکی کا دورہ کیا جس کے جواب میں ترکی کے وزیر دفاع طوران طایان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اسی سال مئی میں پھر ترکی کے ڈپٹی آرمی چیف نے اسرائیل کا دورہ کیا.30 نومبر سے 4 دسمبر 1997 تک امریکہ، ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ ٹریننگ شروع ہوئی. اور طے پایا کہ یہ ہر سال ہوگی.
جون 2001 کو پھر امریکہ ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں جس میں ترکی کے 45 جنگی جہاز، اسرائیل کے 10 عدد F16 اور امریکہ کے 6 عدد F16 شامل ہوئے. 2002 جب رجب طیب اردگان کی پارٹی عدالت وترقی کی حکومت آئی تو ایک اسلامی چہرہ رکھنے والی اس پارٹی کی حکومت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ اقتدار پر آتے ہی اسرائیل کے ساتھ سارے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کریں گے. اور حماس اور فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑے ہونگے.
لیکن اردوان نے اپنے اسلاف کے راستے کا ہی انتخاب کیا. اور اسرائیل کے ساتھ امن وسیکورٹی معاہدے کو جاری رکھا. اردگان ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کے دل جیتنے کے لئے کبھی کبھار انقلابی بیانات اور خطاب کرتا رہتا ہے. 2005 میں اردگان نے اسرائیل کا دورہ کیا. اور اسرائیل کے ساتھ 687.5 ملین ڈالرز کا سودا کیا. اور اسرائیل سے 170 M60A1 جنگی ٹینک خریدے. جنہیں اسرائیلی چلتا پھرتا قلعہ کہتے تھے . اور 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی تو حزب اللہ نے ایک دن میں اسی قسم کے 40 اسرائیلی ٹینک تباہ کئے تھے.
جاری ہے ۔۔۔۔۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
اگلی قسط میں ترکی کے نظامِ حکومت، ترکی کی داخلی سیاسی صورتحال اور اسکے بین الاقوامی کردار پر روشنی ڈالیں گے.