وحدت نیوز (آرٹیکل) آئینی حقوق مانگتے مانگتے کئی نسلیں گزر گئیں ۔گلگت بلتستان کے عوام 68سالوں سے کچھ اور نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستانی باشندہ ہونے کے ناطے اپنا قانونی حق مانگ رہے ہیں۔ لیکن حکومت نہ صرف انہیں ان کی آئینی حقوق سے محروم رکھی ہوئےہے بلکہ جب بھی آئینی حقوق کی بات زور پکڑتی ہے کشمیری حریت پسند رہنماوں کو درمیان میں لاکر اس علاقے کو متناز ع بناتے ہوئے عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ ڈوگروہ دور حکومت سے پہلے بھی یہ علاقہ حکومت کشمیر کے ماتحت نہیں تھا ،جب ڈوگرہ حکمران ان علاقوں پر مسلط ہوگئے تو انہوں نے کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر اس پر حکومت شروع کی جو 108 سال پر محیط تھی اس طویل عرصے میں کبھی بھی گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کو دل سے قبول نہیں ۔
تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ماضی میں بھی گلگت بلتستان اور کشمیر کا کوئی سیاسی اور انتظامی الحاق نہیں رہا ہے۔ ماسوائے کہ دونوں کسی دو ر میں ڈوگرہ راج کے زیر عتاب رہے۔ اس طرح تو پاکستان اور انڈیا بھی انگریز سامراج کے زیر تسلط رہے تھے ۔ تو کیا انہیں بھی ایک ہی خطہ سمجھا جائے۔پس یہ دلیل دونوں حصوں کی شناخت کو باہم ضم کرنے کیلئے کافی نہیں۔ اگر گلگت بلتستان کشمیر ہی کا حصہ ہوتا تو یہاں بھی SSR( اسٹیٹ سبجکٹ رول) لاگو ہوتا۔ یوں بیرونی عناصر کے نفوذ ، لاقانونیت اور شرپسندی کے مضر اثرات سے یہ خطہ محفوظ رہتا۔
یاد رہے کہ یکم نومبر 1947ء کو یہ خطہ آزاد ہوا ۔اتنا بڑا عرصہ یہاں کے عوام جس کمپرسی کی حالت سے دوچار ہ رہے ہیں اس کا ان حریت پسند رہنماوں کو علم ہی نہیں، کبھی یہاں کے عوام کی مسائل اور مشکلات کو انہوں نے درک ہی نہیں کیا ،کبھی ان کی حقوق کی بات کسی ایک پلٹ فارم پر بھی نہیں کی اورکبھی ان کی مشکلات میں اظہار ہمدردی تک نہیں کی لیکن جب بھی اس علاقے کے بیچارے عوام کو حقوق ملنے کی بات آتی ہے تو یہ رہنما روڑے اٹکاتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اگر اس علاقے کو اپنا ہی سمجھتے ہیں تو اتنا عرصہ کہاں غائب تھے کبھی کسی ایک رہنما نے اس علاقے کے حق میں کوئی بات نہیں کی باوجود ان تمام باتوں کی گلگت بلتستان کے عوام نے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ کشمیری عوام کے حق میں جلسے جلوس نکالتے رہے یہاں کے رہنما آزادی کشمیر کے حق میں بیانات دیتے رہے ہیں کیا ان تمام احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ اس علاقے کو آئینی حقوق سے محروم رکھنے میں اہم کردار ادا کریں ۔
دوسری طرف حکومت پاکستان بھی گزشتہ کئی سالوں سے برائے نام اصلاحات اور آئینی پیکجز کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے ۔جنرل ضیاء نے اپنے طویل دور حکومت میں کئی بار گلگت اور بلتستان کو آئینی حقوق دینے کا عزم ظاہر کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان علاقوں کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ اس وقت بھی کشمیری لیڈروں نے یکے از دیگرے خطوط ارسال کرکےمطلق العنان جنرل کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ 23اگست 2007ء کو جنرل پرویزمشرف حکومت کی جانب سے GB Reforms Packageکا اعلان ہوا۔یہ محض ایک تصوراتی اعلانات کا مجموعہ تھا اور اب یہ ماضی کا ایک قصہ بن چکا ہے۔
2009ء میں زراداری حکومت نے Self Goverence Order کے نام پر ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس پیکیج کے ذریعے نہ صرف اختلافات کو ہوا دی گئی بلکہ غلامانہ ذہنیت کے چند کاروباری لوگوں کو عنان حکومت عطا کرکے خطے کو بد امنی،کرپشن ،لاقانونیت کا مسکن بنا دیا گیا۔ اس کے بعد تاریخ کی بدترین کرپشن آج بھی یہاں اپنے عروج پر ہے۔
کیا انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق سے بھی محروم رکھا جائے اور اس علاقے کو کرپشن کا گڑھ بھی بنایاجائے۔
حکومت پاکستان کو اپنی اداوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے کہین ایسا نہ ہو کہ اس اضطراب اور بے چینی سے دشمن طاقتیں فائدہ اٹھائیں۔
تحریر۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی