وحدت نیوز (آرٹیکل) ہمیں ایک مسلمان ہونے کے ناتے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کے لئے چادر بچھا دیا کرتے تھے۔ ان کے حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے۔ان کو خاص اہمیت دیتے تھے، ان سے مشورہ فرماتے ، ان کی رائے کو خاص اہمیت دیتے، غرضیکہ عزت، حمیت، عصمت اور حقوق جیسے سارے الفاظ دین اسلام نے عورت کے لئے مخصوص کر دئیے ہیں، جو بد قسمتی سے ہمارے ہاں نا پید ہو تے جارہے ہیں ۔بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے، آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں (Reception) رسپشن کی زینت بنادیا ہے، دینی تعلیمات سے صرفِ نظرنے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلادیے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں، نہ ہونا پائیں گے،خواتین کو بازاروں ، دفتروں اور ہوٹلوں کی زینت بنا کر ان کا جائز اور فطری حق چھین لیا گیاہے ۔
تعلیمات اسلامی کے مطابق ان کی دو ذمہ داریاں ہیں: ایک اپنےشوہر کی تابع داری اور دوسری اپنے بچوں کی پرورش۔ لیکن ان اسلامی اصولوں پر پابندی کا موقع آئے تو کہتے ہیں سلب آزادی ۔
اسلام نے عورت کو شہزادی کی حیثیت دی ہے پورا معاشرہ باپ ،بیٹا ،شوہر ، بھائی اور دیگر احباب اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دنیا کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ،موسم کا بدلاؤ، دنیا کی تلخ وسخت باتیں اور بہت کچھ برداشت کرتے ہیں تاکہ اپنی شہزادی کی خواہشات کو پورا کر سکیں اور اسکو دنیا کی تلخی کا اندازہ بھی نہ ہو۔ لیکن کتنا بڑا المیہ ہے! کہ آج کی عورت چاہتی ہے کہ نوکر بن کر کام کرنے لگے اور جو مشکلات مرد اٹھاتا ہے وہ وہ اٹھانے لگے اور اسی کو آزادی کہتی ہے ۔
ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ فاطمی کردار و گفتار کا پیکر ہو، ایک عورت، مرد کے لیے شریکِ حیات کی شکل میں، روحِ حیات اور تسکینِ خاطر کا سبب اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا دل سیرتِ خدیجہ سے سرشار ہو، وہ ایک مشفق اور ہر درد کادرماں، مصائب کی گرم ہواؤں میں، نسیم صبح کی صورت میں ”ماں“ اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جب کہ اس کی گود بچے کے لیے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو۔
مغربی تہذیب و تمدن کی تقلید نے پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیا ہے اور بےحیائی عورت سےعزت اور مرد سےغیرت چھین لیتی ہے،جب غیرت نہ رہے توقوم تباہ ہوجاتی ہےمغربی طاقتیں پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان پرہر طرف سے تہذیبی ،تمدنی ،معاشرتی ، سیاسی اور معاشی حملے کر رہے ہیں اور ہمارے دانشمند اسے Modern Age کے تقاضے سمجھ کر چشم پوشی فرما رہے ہیں ۔آج بے حیائی نے ہمارے بچوں کے دلوں سے ادب و احترام کا جذبہ ختم کر دیا ہے۔آج بچے اپنے والدین کا احترام نہیں کرتے تو کہاں کسی بزرگ کا احترام کرے گا ۔ یورپ اور مغربی کلچر کا یہ بھوت اور ناسور ہمارے معاشرے کے اندر اتنی تیزی کے ساتھ سرایت کر رہاہے کہ اس پر قد غن لگانا نا ممکن تو نہیں پر مشکل ضرور ہے۔
آج گلگت بلتستان کے معاشرے میں بھی مغرب کی طرح ہماری بیٹیوں کا لباس، ان کی مخلوط تعلیم، ان کا آزادانہ پارکوں کی سیر کرنا، موبائل فون اور نیٹ کا غلط استعمال، نیم عریاں لباس زیب تن کرنا ، بازاروں اور دوکانوں میں آزادانہ گھومنا عام ہوچکا ہے۔
آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے، عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں، وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی معلم اوّل ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بناسکتی ہے، اولاد کو دولت ایمان سے سرشار کرسکتی ہے۔
اگرچہ دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی 18 فیصد سیٹیں خواتین کے ساتھ مختص ہیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر اسمبلی نشستوں پر براجمان خواتین کو معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا کوئی علم نہیں ہے ۔خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بلند و بانگ نعرے لگانے والے جا کر حلقہ نسوان میں ان کے ساتھ ہونے والے بد سلوکیوں کا کم از کم جائزہ تو لیں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ ایوانوں میں نشستیں مختص کرنے سے عام عورتوں کو کوئی فائدہ نہیں ملتا ۔
سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ انہیں آزادی کے نام پر گھروں سے بے گھر کر دیا گیاہے۔عورتوں کے ذہن میں بٹھا دیا گیاہے کہ نوکری کرنا زندگی کا اعلی معیار ہونے کی دلیل ہے اور یوں عورت نام نہاد آزادی کی حصول کے لیے سرگردان ہوچکی ہے۔
اس سلسلے کی ابتدا ۱۷۶۰ء میں برطانیہ کے صنعتی انقلاب سے ہوئی ۔جب برطانیہ کا صنعتی انقلاب اپنےعروج پر پہنچا تو انہیں جس بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا وہ تھی افرادی قوت کی کمی۔اب ان کے پاس مشینیں بھی بےحساب تھی اور وسائل بھی مگر انکو چلانے اور ان وسائل کو بروئےکار لانے کے لئے لوگ موجود نہ تھے۔انہوں نے اپنی پیدا وار کی طلب کو پورا کرنے کے لئے گھروں میں بیٹھی اولاد کی تربیت میں مصروف خواتین کو آزادی نسواں کے نام پر گھروں سے باہر لا کر فیکڑیوں میں کام پے لگا دیا۔
مغرب اپنی خواتین کو گھروں سے نکال کر جنسی حیوان بنا چکا ہے اور ااج ہم بھی مغرب کی تقلید میں اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم واپس پلٹ جائیں۔بصورت دیگر شاید آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
تحریر۔۔۔۔۔قمر عباس حسینی