تنظیمی کنونشن میں علامہ ساجدنقوی اورعلامہ جوادنقوی سمیت تمام شخصیات اور تنظیموں کو دعوت دینگے، اقرار حسین ملک

25 March 2016

وحدت نیوز (انٹرویو) اقرار حسین ملک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری روابط ہیں، اس کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم کے سالانہ تنظیمی کنونشن کے چیئرمین بھی ہیں اور وہ اس وقت تنظیمی کنونشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، بنیادی تعلق دینہ سے ہے۔ آئی ایس او راولپنڈی ڈویژن میں 1990ء میں بطور ممبر رہے ہیں، اس کے علاوہ  دو سال شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے زیرتربیت بھی رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی کی شہادت کے بعد سے ابتک ملی اور قومی سفر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اقرار حسین ملک سے تنظیمی کنونشن کی تیاریوں اور ایم ڈبلیو ایم کے 6 سالہ تنظیمی سفر پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

سوال : ایم ڈبلیو ایم اپنی تاسیس کی باضابطہ طور پر دوسری ٹرم مکمل کرنے جا رہی ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ اب مجلس وحدت مسلمین کہاں کھڑی ہے، متعین کردہ اہداف میں کامیابی کا گراف کیا رہا ہے۔؟

اقرار حسین ملک: میں بہت مشکور ہوں کہ اسلام ٹائمز نے مجھے اس موضوع پر لب کشائی کا موقع دیا۔ آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، دیکھیں میں سمجھتا ہوں کہ قومیات چند سالوں یا برسوں کا نام نہیں ہے، قوم بنتے بنتے کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں، اس کیلئے کوئی ایک دو ٹرم کافی نہیں ہوتیں کہ آپ قوم کے تمام مسائل حل کرسکیں یا ہو جائیں، ہاں ہم نے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا اس سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں، کئی امور میں کامیابی سمیٹی ہیں۔ مجلس کی کارکردگی اور کامیابیوں کا تجزیہ کرنے سے قبل اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس کی تاسیس سے پہلے کیا صورتحال تھی، پاراچنار کا 3 سالہ محاصرہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ اور کراچی سمیت کوئٹہ کے حالات ایسے بن گئے تھے کہ یہ جماعت وجود میں آگئی، اس سے پہلے کوئی ایسی منظم سوچ موجود نہیں تھی کہ ہم نے کوئی جماعت بنانی ہے، تشیع کیخلاف ہونے والے مظالم کے خلاف جمع ہوئے، ریاست اور ریاستی اداروں کی چشم پوشی اور طالبان کو فری ہینڈ دینے کے خلاف ہم اکٹھے ہوئے، اس کے بعد سب اس نتیجے پر پہنچے کہ مکتب کی حفاظت اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے اجتماعی سفر ناگزیر ہے، تب جا کر مجلس کے قیام کا فیصلہ ہوا۔

آپ نے دیکھا کہ گلگت بلتستان کے غیور فرزندوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو اور سانحہ چلاس یا دوسرا سانحہ، اسی طرح ڈیرہ اسمعیل خان کے حالات ہوں یا پارہ چنار کی صورتحال، کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری کا قتل عام ہو یا پھر کراچی اور اندرون سندھ میں ہونے والے سانحات، ہر معاملے پر مجلس میدان میں نظر آئی ہے، مجلس نے سیاسی میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تو عام الیکشن میں تجربات نہ ہونے کے باوجود ہم نے کوئٹہ سے ایک ایم پی اے کی نشست حاصل کی اور اس ممبر صوبائی اسمبلی کے کام دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک وزیر بھی اتنے کام نہیں کرسکتا، جتنے اس اکیلئے بندے نے کئے ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں الیکشن میں گئے، تمام حکومتی اور ریاستی مخالفت کے باوجود ہماری نمائندگی اسمبلی میں موجود ہے، اسی طرح مخدوم امین فہیم جہاں سے ہر بار جیتتے تھے اور ان کی رحلت کے بعد مجلس نے ضمنی الیکشن لڑا تو مخدوموں کو پہلی بار کسی جماعت سے پالا پڑا۔ ایم ڈبلیو ایم نے ضمنی الیکشن میں 17 ہزار ووٹ لیکر سب کو حیران کر دیا اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

یہ یاد رکھیں کہ اس ضمنی الیکشن میں نون لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سمیت کسی قوم پرست جماعت نے حصہ لینے کی جرات تک نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفر جاری ہے اور مخلص رہنما اس فیلڈ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور انشاءاللہ ایک دن ایک قوت بن کر دکھائیں گے۔ یاد رکھیں کہ جب مجلس کا قیام عمل میں آیا تھا تو ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ قوم کو مایوسی سے نکالیں گے، اس کی دبی ہوئی آواز کو بلند کریں گے، اس قوم نے یہ صورت حال بھی دیکھی کہ چالیس پچاس جنازے اٹھے، لیکن کسی سیاسی جماعت نے تعزیت تک کرنا گوارہ نہ کی، کوئی ہمیں پوچھتا تک نہ تھا، حتیٰ میڈیا پاراچنار کے ایشو پر کوئی خبر چلاتا تھا تو اسے دوگرہوں کی لڑائی کرکے چلاتا تھا، کوئٹہ کے واقعات پر خبریں دبا دیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے سب کچھ کر لیا ہے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ بہت حد تک ہم نے ایسے کام کئے ہیں، جس کی بنیاد پر قوم میں امید کی کرن جاگی ہے۔ اس لحاظ سے آپ کامیابیوں کے گراف کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

سوال : ان چھ برسوں میں فلاحی اعتبار سے مجلس کہاں کھڑی ہے؟

اقرار حسین ملک: جی مجلس وحدت مسلمین نے اپنی تاسیس کے بعد خیرالعمل فاونڈیشن کا ادارہ بنایا ہے، جس نے ابتک اسپتالوں کے قیام، ڈسپنسریاں، سیلاب زدگان کیلئے گھروں کی تعمیر اور مساجد نیٹ ورک پر کام کیا ہے۔ الحمد اللہ یہ ادارہ اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے، اس وقت یہ ادارہ ایک اچھی خاصی رقم اپنے فلاحی منصوبوں پر صرف کرچکا ہے، ان منصوبوں پر ابتک کتنی رقم صرف ہوئی ہے، اس کے صحیح اعداد و شمار خیرالعمل فاونڈیشن سے مل سکتے ہیں۔

سوال : آپکی جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ ہم شہید قائد کا علَم لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، شہید کی فکر پر کتنا کام کیا ہے؟

اقرار حسین ملک: جی میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت تک ایم ڈبلیو ایم کی جتنی بھی فعالیت ہوئی ہے، اس کا رخ اور جہت شہید قائد کی فکر پر مشتمل ہے۔ شہید قائد نے مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس کے موقع پر جو جہت دی تھی، ہم اسے لیکر آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے سفر کی جانب گامزن ہیں، اہداف کا گراف کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوسکتا ہے، اس کی وجہ حکومتوں کی تبدیلی، سکیورٹی صورتحال اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ یقیناً یہ چیزیں آپ کی تنظیمی سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں، اس کے علاوہ شہید قائد نے اتحاد و وحدت کیلئے جو علَم بلند کیا تھا، اسی وجہ سے انہیں شہید وحدت بھی کہا جاتا ہے، ہم اس کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، ہم جہاں اتحاد بین المومنین کیلئے کوشاں ہیں، وہیں ہم نے اتحاد بین المسلمین کیلئے بھی کام کیا ہے، ہم نے تمام مذہبی جماعتوں سے رابطے بڑھائے ہیں، پاکستان میں پہلی بار عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر شیعہ سنی مشترکہ اجتماعات کا انعقاد کیا گیا، ہماری طرف سے سنی بھائیوں کے استقبال کیلئے استقبالیہ کمیپ لگائے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک مختصر تکفیری ٹولہ ہے، جو دونوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ سیاسی حوالے سے شہید نے قرآن و سنت کانفرنس میں ایک دستور دیا، ہم اس پر بھی گامزن ہیں۔

سوال : اس بار کنونشن کو کیا نام دیا گیا ہے اور اسکے کیا اہداف مقرر کئے گئے ہیں؟

اقرار حسین ملک: جی اس بار ہم نے کنونشن کو ’’پیام وحدت‘‘ کا عنوان دیا ہے، ہم نے یہ نام مقامی اور عالمی حالات کے تناظر میں دیا ہے اور یہی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی فکر ہے اور ان کی تقاریر میں ملتا ہے، پیام وحدت سے مراد کہ اس ملک کے باسی ملکر رہنا چاہتے ہیں، ہم کسی تفرقے کے قائل ہیں اور نہ ہی کسی کو اجازت دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے امن کو تہہ و بالا کر دے۔ ہماری جماعت کا نام بھی وحدت مسلمین ہے تو ہم وحدت کے داعی ہونے کے ناطے اس پر عمل پیرا ہیں۔ کنونشن میں فوکس داخلی وحدت کو کیا گیا ہے، اس حوالے سے تمام شیعہ جماعتوں کو مدعو کرنیکا سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے تمام مدارس کو بھی اس حوالے سے مدعو کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کنونشن اتحاد و وحدت کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

سوال: دعوتی عمل کہاں تک پہنچا ہے اور کونسی بڑی شخصیات کی شرکت متوقع ہے؟

اقرار حسین ملک: آئی ایس او، آئی او اور شیعہ علماء کونسل سمیت دیگر کئی جماعتوں کو دعوت دے رہے ہیں، اسی طرح شخصیات کی بات کریں تو شیخ محسن نجفی اور علامہ سید جواد نقوی صاحب ہیں۔ اسی طرح مدارس دینیہ سے تعلق رکھنے والے احباب ہیں، سب کو مدعو کر رہے ہیں، تقریباً 80 فیصد دعوتی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ باقی اسی ہفتہ تک مکمل کرلیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ تمام شیعہ اسٹیک ہولڈرز کو کنونشن میں لائیں اور انہیں مدعو کریں، اس سے اتحاد بین المومنین کے حوالے سے اچھا پیغام جائیگا اور یہی قوم کے ہر فرد کا مطالبہ ہے۔ یہ کنونشن 8، 9 اور 10 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔ اس کا پروگرام مکمل کر لیا گیا ہے اور انتطامات اپنی حتمی شکل کی طرف جا رہے ہیں۔

سوال : شیعہ علماء کونسل کو بھی دعوت دے دی ہے یا ابھی دینا باقی ہے؟

اقرار حسین ملک: جی ہماری شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی صاحب سے دو مرتبہ ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے، آجکل میں انہیں باضابطہ طور پر کنونشن کی دعوت دیں گے، کیونکہ وہ لاہور میں جامعۃ المنتظر میں ہونے پروگرام میں شریک تھے، جیسے ہی راولپنڈی پہنچیں گے تو ہم وفد کی صورت میں انہیں اور ان کی جماعت کو دعوتی کارڈ دیں گے۔

سوال: کنونشن کا بڑا ایونٹ کیا ہے؟

اقرار حسین ملک: دیکھیں، بنیادی طور پر یہ ایک تنظیمی کنونشن ہے، جس میں ملک بھر کے تمام اضلاع سے مرکزی شوریٰ کے ارکان شرکت کریں گے، اس بار کنونشن کی خاص بات یہ ہے کہ نئے سیکرٹری جنرل کا انتخاب عل میں لایا جائیگا۔ تین روزہ کنونشن کے اختتام پر ہماری عمومی نشست ہوگی، جس میں ہم نے ’’پیام وحدت‘‘ کانفرنس رکھی ہے، جس میں تمام تنظیموں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے اور اسی نشست میں ہی نئے سیکرٹری جنرل کا باضابطہ طور پر اعلان کیا جائیگا۔

سوال: کیا اس بار مجلس وحدت مسلمین نئی قیادت یا نیا چہرہ سامنے لائے گی؟
اقرار حسین ملک: دیکھیں یہ ایک جمہوری عمل ہے، مجلس کے ادارے موجود ہیں، دستور موجود ہے، جس میں نئے سیکرٹری جنرل کے چناو کا مکمل طریقہ کار موجود ہے، تمام صوبوں سے اور مرکزی کابینہ سے نئے سیکرٹری جنرل کے لئے نام شوریٰ عالی کو بھجوا دیئے گئے ہیں، اب یہ شوریٰ عالی کا اختیار ہے کہ وہ ان ناموں میں سے دو اور اپنی طرف سے ایک نام شامل کرکے تین نام مرکزی شوریٰ کو پیش کرے، اس کے بعد یہ اختیار شوریٰ مرکزی کے پاس چلا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے سیکرٹری جنرل کو چنیں۔ تو اس تمام صورتحال میں اس بارے میں کچھ بھی کہنا غلط اور قبل ازوقت ہوگا۔ ہم کہتے ہیں انتظار کیجئے اور دیکھیے کہ مجلس کے ادارے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، اچھا فیصلہ کریں گے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree