وحدت نیوز (آرٹیکل) ابهی تهوڑا عرصہ پہلے جب سعودی نواز مسلم ليگ نون كی حكومت كے ايک معزز وزير نے اس حقيقت كو بيان كيا كہ پاكستان سميت پورے جهان اسلام كے مسائل كے پیچھے سعودیہ كا ہاتھ ہے تو اسوقت انكے خلاف بہت بڑا طوفان بدتميزی اٹھا تها اور ريالوں پر پلنے والے سب متحرک ہوگئے تھے، ليكن اب آخر كار قوم بيدار ہوچکی ہے اور اس ميڈيا كے دور ميں سب حقائق اپنی آنكهوں كے سامنے ديكهـ رہی ہے۔ انہیں یہ سب نظر بھی آ رہا ہے كہ سعودی عرب نے • پاكستان كی مدد كی يا اپنے غلاموں كو طاقتور كيا۔؟ • ملک ميں كارخانے فیکٹریاں لگا كر مضبوط كيا يا فقط تكفيری مدارس پر سرمایہ کاری کی۔؟ • پاكستانی قوم سے بهائيوں جيسا سلوک كيا يا غلاموں جيسا۔؟ • سعودی عرب بھارتی ملامین و مزدوروں سے اچھا رويہ ركهتا ہے يا پاکستانیوں سے۔؟ • پاكستانی معاشرے كو جوڑنے ميں مدد كرتا ہے، یا اس قوم کو توڑنے میں؟ • پاكستانی آئين کو سپورٹ كرتا ہے يا كالعدم اور غير آئینی گروہوں و آئین مخالف قوتوں کو۔؟
دنیائے جہان کے اندر ہمیشہ سے بڑی طاقتوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ چھوٹی طاقتوں کو اپنے زیر تسلط رکھیں، جس کے لئے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق جنگ کے نئے نئے حربے اپنائے جاتے ہیں۔ لیکن اصل ہدف ملتوں کو غلام بنانا ہوتا ہے، ان پر حکومت و سرپرستی کرنا ہوتا ہے اور دوسرا بڑا ہدف وہاں کے ذخائر کو لوٹنا اور اپنے زیر استعمال رکھنا ہوتا ہے، لیکن کچھ جنگی حربے ایسے ہیں جو ہر دور میں استعمال ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ جس میں استعمار و استکبار یا تسلط پسند گروہ قوموں كو اپنا مطيع اور غلام بنانے كے لئے دو حربے استعمال كرتا ہے۔
• سب سے پہلے ثقافتی يلغار كرتا ہے اور لوگوں كے ذہنوں كو تسخير كرتا ہے۔
• اور دوسرے مرحلے ميں اپنا تسلط جمانے كے لئے عسكری طاقت كو استعمال كرتا ہے۔
تحريک پاكستان كے مخالف گروہ نے بھی اس ملک كو يرغمال بنانے اور اس پر اپنا تسلط جمانے كيلئے دونوں راستے اپنائے۔ جہادی پروپیگنڈہ كے ذریعے ثقافتی يلغار كی اور عسكری گروہ بهی تشكيل دیئے۔ اس متشدد اور تكفيری سوچ كے حامل مكتب كے پیروکاروں نے بھی اپنے مفادات كے حصول اور تسلط قائم كرنے كی خاطر يہ دونوں راستے اپنائے ہیں اور انكو ہر قسم كی سپورٹ بهی اس مكتب فكر كے محور اور مركز سعودی عرب پر مسلط حكمرانوں يعنی آل سعود نے فراہم کی ہے۔ انہوں نے دينی اقدار اور احكام كی واضح طور پر مخالفت کرنے والے عالم مشرق كے ملوک اور عالم مغرب كے غلام آل سعود كو مقدس بنا كر پاكستان ميں پيش كيا۔ جن کے جرائم كي سياه تاريخ بيان كرتے ہوئے انسان شرما جاتا ہے۔ ان مغربی غلاموں نے غلامی كا طوق پاكستان اور پاكستانی عوام كے گلے ميں ڈالنے کے لئے ہر قسم كا حربہ اپنایا۔
پاكستانی عوام جنہیں جنون كی حد تک اپنے دين مبين اسلام سے عشق ہے اور يہ دهرتی اولياء وصالحين كی دهرتی شمار ہوتی ہے، يہاں مسلمانان گرامی حضرت محمد مصطفٰى صلى الله عليه وآله وسلم پر اور انكی آل اطهار عليهم السلام پر مر مٹنے کو تیار ہیں، اسی جذبے كي بدولت يہ ملک تمام دشمنان اسلام كی آنكهوں كا كانٹا بن كر دنيا كے نقشے پر نمودار ہوا تها۔ اسلامی روايات كی بدولت تمام تر سازشوں اور مشكلات كے باوجود ترقی كی راه پر گامزن ہوا تها، ابھی دو دہائياں گزری تھیں كہ حكمرانوں كی غلطيوں اور بيرونی دشمنوں کی سازش كا شكار ہو كر ايک بہت بڑا ملک عزیز كا حصہ ہم سے جدا ہوگیا، اس كے بعد ملک كو كمزور ديکھ كر متشدد اور تسلط پسند مذہبی پارٹیاں حركت ميں آگئیں، مذہبی تعصب كے سياه بادل منڈلانے لگے اور ايک مخصوص مكتب فكر كہ جس كے پيروكار شايد اس وقت 5 % سے بهی كم تهے، انہوں نے لمبے تنظيمی و سياسی تجربے كی بدولت ملک پر قبضہ كرنے كے خواب ديكهنا شروع کر دیئے۔
ابهی قيام پاكستان كی تيسری دہائی شروع ہی ہوئی تهی كہ اس مخصوص مكتب فكر جو عدد كے لحاظ سے كل بهی اقليت تها اور آج بهی اقليت ہے، انہیں امريكہ، غرب اور خطے ميں موجود خليجی اور بالخصوص سعودی غلاموں نے درینہ واقعات كی بنياد پر جهاد افغانستان كا ہیرو بنا ديا۔ ہماری اسٹيبلشمنٹ ایمرجنسی كی حالت ميں شايد اس مكتب فكر كے انتخاب اور اسكی تقويت كے خطرات سے غافل تهی، يا انہیں سفيد ہاتھی (روس) كے حملے كا خطره اور دوسری طرف ڈالروں اور ريالوں كی چمک نے اندها كر ديا تها، انہونی میں بهی انہیں جو پاليسی دی گئی کہ وہابيت و تكفيريت كا مصدر سعودی عرب اب پاكستان کا مخلص دوست ہوگا اور پاكستان ميں جو ان امريكی نوكروں كے نوكر ہونگے وه اس ملک پر حاكم ہونگے اور ان كے علاوه 90% سے زياده عوام دوسرے درجے كے شہری ہونگے۔
وہابیت کے پيروكاروں نے بهی غلامی كی حد كر دی، انہوں نے فقط پاكستان ميں نہیں بلکہ پوری دنيا ميں وہابيت پھیلانے كا بیڑا اٹھا لیا، جس كی بدولت تهوڑے سے عرصے ميں سعودی فنڈنگ سے مدارس كا جال بچھایا گیا، نفرتيں پھیلانے اور پاكستانی معاشرے كو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی جہالت كی يونيورسٹیوں نے ہمیں طالبان دينا شروع كر دیئے، جن کے لئے ابتداء ميں مجاہد اور افغانی طالبان كا پروپیگنڈہ ہوا پھر انہی سے سپاه صحابہ، لشكر جھنگوی جيسے متشدد اور دہشت گرد گروہ بنے اور بعد ميں پاکستانی طالبان بنے، جو انڈیا سميت سب وطن دشمن ممالک كو سرویسز فراہم كرتے ہیں۔ امريكہ اور سعودی عرب كی بين الاقومي ضروريات پوری کرنے كے لئے انہی سے القاعدہ، النصرہ اور داعش بنی۔ پاكستان ميں موجود ان مسلح گروہوں كو ہمیشہ بڑی سے بڑی مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ انہوں نے پاكستان اور پاكستان كی عوام پر اتنا ظلم كيا اور ملک كو بحرانوں ميں مبتلا كيا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پاكستان میں اقتصادی بحران ہو يا امن و امان کی مشكلات، يہ سب كچھ سعوديہ کی حمايت اور سپورٹ سے ہے۔
ابهی تهوڑا عرصہ پہلے جب سعودی نواز مسلم ليگ نون كی حكومت كے ايک معزز وزير نے اس حقيقت كو بيان كيا كہ پاكستان سميت پورے جهان اسلام كے مسائل كے پیچھے سعودیہ كا ہاتھ ہے تو اس وقت انكے خلاف بہت بڑا طوفان بدتميزی اٹھا تها اور ريالوں پر پلنے والے سب متحرک ہوگئے تھے، ليكن اب آخر كار قوم بيدار ہوچکی ہے اور اس ميڈيا كے دور ميں سب حقائق اپنی آنكهوں كے سامنے ديكهـ رہی ہے۔ انہیں یہ سب نظر بھی آ رہا ہے كہ سعودی عرب نے
• پاكستان كی مدد كی يا اپنے غلاموں كو طاقتور كيا۔؟
• ملک ميں كارخانے فیکٹریاں لگا كر مضبوط كيا يا فقط تكفيری مدارس پر سرمایہ کاری کی۔؟
• پاكستانی قوم سے بهائيوں جيسا سلوک كيا يا غلاموں جيسا۔؟
• سعودی عرب بھارتی ملامین و مزدوروں سے اچھا رويہ ركهتا ہے يا پاکستانیوں سے۔؟
• پاكستانی معاشرے كو جوڑنے ميں مدد كرتا ہے، یا اس قوم کو توڑنے میں؟
• پاكستانی آئين کو سپورٹ كرتا ہے يا كالعدم اور غير آئینی گروہوں و آئین مخالف قوتوں کو۔؟
سعودی نظام اپنے داخلی اختلافات اور مختلف اسلامی ممالک كے بےگناہ شہريوں، معصوم بچوں کی قتل و غارت، كئی ممالک كی تباہی و بربادی اور انہیں صديوں پیچھے لے جانے كے جرم كی الہی پکڑ كيوجہ سے نہیں بچ سكتا۔ آل سعود نے اسلام كا چہرہ مسخ كيا اور اسے بدنام كيا ہے، دوسری طرف مسلمانوں كو تقسيم كيا اور تكفيريت اور نفرتيں پھیلائی ہیں۔
آج اسی سعودی نواز حكومت كے وزير اطلاعات نے ايک دوسری حقيقت كو بيان كرنے كی جرأت كی ہے، اسكی جرأت كو سلام كرنا چاہیے، تاكہ ہماری قوم اس ڈر اور خوف كہ حالت سے نكل سکے۔ آج دہشت گردی كيخلاف جنگ اور انسداد دہشت گردی كی ترميم كے بعد بهی تكفيری انكے قتل كے فتاویٰ جاری كر رہے ہیں، انہیں سرعام قتل كی دهمكياں دی جا رہی ہیں۔ اب قانون نافذ كرنے والے اداروں كی ذمہ داری بنتی ہے كہ قانون كو ہاتھ ميں لينے اور فتوے صادر كرنے والوں كو گرفتار كريں، اور اگر انہیں انكے بيان پر اعتراض ہے تو يہ عناصر عدالت ميں شكايت كریں نہ کہ قانون كو اپنے ہاتھ ميں لے لیں، انہیں بتا ديا جائے كہ دنيا تبديل ہوچکی ہے، اب عدل و انصاف كا دور آرہا ہے اور مجرموں سے حساب لينے كا دور شروع ہوچکا ہے۔ اپنے آپ كو آئین کا پابند بنا لیں۔ نہ امريكہ وه امريكہ رہے گا اور نہ سعوديہ وه سعوديہ جو کہ انہیں بچا لے گا، کیونکہ اب جھوٹے تقدس كا شيشہ چکنا جور اور طلسم ٹوٹ چکا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی