وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک/ تحریر و ترتیب: عمران خان) مولانا عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بنتوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے، جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لئے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے تا زندگی ان کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر سی ڈسپنسری کھولی، جنہوں نے ایدھی صاحب کو طبی امداد کی بنیادی چیزیں سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے، تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر دوسروں مدد کو پہنچ سکیں۔
1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی، جس پر ایدھی نے فوری طور پر ردعمل دیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت مدافعتی ادویات فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لئے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لئے سکول کھول لیا اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔ آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی، جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی، جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لئے وہ خود روانہ ہوتے تھے اور ایدھی فاؤنڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لئے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے، تاکہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی، اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
ایسے وقت میں جب شیعہ نسل کشی پاکستان میں بام عروج پر تھی، سیاسی رہنماء، مذہبی زعما، حکومت اور وزراء محض خاموشی سے تماشا دیکھ رہے تھے، اس وقت ایک 80 سالہ بزرگ لبیک یاحسین (ع) کی تحریر والا سفید کفن پہن کے شہر قائد کی شاہراہوں پر نکل آیا۔ یہ وہی بزرگ تھا، جو اپنے لیے نہیں دوسروں کیلئے بھیک کا کٹورا لے کر گلیوں میں پھرتا، جس کی سوچ سے ہزاروں جانیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا حصہ بننے کے بجائے جھولوں تک آن پہنچی، وہی کہ جس نے دوسروں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے ہاتھ پھیلانے میں عار محسوس نہیں کی۔ یہ اسی سوچ کا ثمر ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے لاوارث سمجھے جانیوالے شہر میں کوئی لاوارث لاش بے کفن نہیں دفنائی گی۔ عبدالستار ایدھی کی خدمات کا کسی طور احاطہ ممکن نہیں، وہ یتمیوں کے لئے ایک شفیق باپ، غریبوں کیلئے ان داتا، بیماروں کیلئے مسیحا، لاوارثوں کیلئے وارث، معذوروں کیلئے مددگار، بیواؤں کیلئے سرپرست، بھوکوں، کمزورں، لاچاروں کیلئے کفیل تھے۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی پوری زندگی انسانوں کو بچانے، سدھارنے، سنوارنے میں خرچ کر دی اور بدلے میں صرف ایک ہی خواہش ظاہر کی کہ ایک دوسرے سے محبت کرو، ایک دوسرے کے کام آو۔
بلاشبہ عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان کی پہچان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں۔ انہیں قائداعظم کے پاکستان کا حقیقی چہرہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ناسور نے وطن عزیز کے دامن کو بٹہ لگایا ہے تو مولانا ایدھی بھی ان چند گنی چنی شخصیات میں سے ایک ہیں، جو اپنے مفادات کے بجائے دوسروں کی ضروریات کو مقدم رکھ رہے تھے۔ یہ بات نہیں کہ انہیں قصر شاہی تک رسائی کے مواقع نہیں ملے، ضیاء دور حکومت میں انہیں وزارت بھی ملی اور ایوان اقتدار میں ان کی پذیرائی ہوئی، مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ عوامی نمائندگی کے مصنوعی ایوانوں میں ہر شے مقدم ہے، ماسوائے عوام کے، ماسوائے پاکستان کے، یہی وجہ ہے کہ وہ ضیاء دور میں حکومتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے معذرت کرکے واپس آگئے، یاد رہے یہ وہی وقت تھا جب عصر حاضر کی نمایاں حکومتی شخصیات جنرل ضیاء کی ایک نظر کرم کے منتظر رہتے تھے۔ انہوں نے خلوص نیت سے عوام کی انسانیت کی بنیاد پر خدمت کا بیڑا اٹھایا، یہ ان کے خلوص، ان تھک محنت، جذبات کی صداقت کا ہی ثمر ہے کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسے سے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔ عبدالستار ایدھی کو دو مرتبہ نوبل ایوارڈ کیلئے بھی نامزد کیا گیا۔ انسانی خدمت، اخلاص و محبت کا یہ باب آج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔
عبدالستار ایدھی چاہتے تو دنیا کے بہترین سے بہترین ہسپتال میں اپنا علاج کراسکتے تھے۔ یورپی، مغربی و دیگر ممالک نے خود انہیں مفت علاج کی پیش کش کی۔ یہاں تک کہ پاکستان کے حکمران خانوادوں نے بھی انہیں آفر کی کہ وہ علاج کی غرض سے بیرون ملک جائیں، مگر ان کی حمیت و غیرت نے یہ گوارا نہ کیا اور وہ آخری حد تک پاکستان میں ہی عوامی ہسپتال میں اپنے علاج کی کوشش کرتے رہے، کافی عرصہ بستر علالت پر گزارنے کے بعد وہ آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی خدمت و زندگی کو سامنے رکھا جائے تو ان کی وفات پر ایسے حکمرانوں کے تعزیتی بیان کھلا فریب، ڈھونگ اور منافقت محسوس ہوتے ہیں، جو بیرون ملک پرتعیش علاج سے روبصحت ہونے کے بعد شاہی انداز میں پاکستان واپس تشریف لائے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو موجودہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ ایدھی جیسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے۔ کاش کہ اس شدید ضرورت سے متعلق پاکستان کے عوام کی خواہش رب کے حضور بھی مستجاب ہوتی تو مولانا عبدالستار ایدھی آج بھی ہم سب میں موجود ہوتے۔