وحدت نیوز (آرٹیکل) عراق انبیا کی سرزمین ہے۔قدیم تہذیب و ثقافت، مناسب محل وقوع اور تیل کے وسیع ذخایر کے حامل ہونے کے سبب عراق کا شمار ایشیا کے انتہائی اہم ممالک میں ہوتا ہے ۔اس کے مشرق میں ایران، جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال میں ترکی اور شمال مغرب میں شام میں واقع ہے۔عراق نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے اور اکثر انبیاء نے یہاں اپنی زندگی گزاری ہے جس کی وجہ سے فلسطین کی طرح اسے بھی انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔
اس سرزمین پر متعدد حکومتیں گزری ہیں، تاہم ہم زیادہ ماضی میں نہیں جانا چاہتے بلکہ گذشتہ ایک دہائی میں عراق کے سیاسی حالات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
۲۰۰۳ ء میں بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد ۲۰۰۵ ء کے عام انتخابات میں شیعوں کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تو سعودی عرب اور انکے حواریوں پریہاں کے شیعوں کا اقتدار میں انا سخت ناگوار گزرا۔کیونکہ ایران، حزب اللہ اور بشار اسد کی حکومت پہلے ہی سے خطے میں انکی پالیسیوں کی راہ میں رکاؤٹ تھےاور اب پڑوسی ملک عراق میں شیعوں کے مؤثر طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد تو سعودی حکام کی نیندیں ہی اڑ گئیں اور انہیں خطے میں اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آئی۔
لہذا ۲۰۱۱ ء میں امریکہ اور صہیونیزم کے ایماء پر ترکی اور چند دیگر اتحادیوں کے تعاون سےدہشت گرد تنظیم "داعش" کی بنیاد رکھی جس کا مقصدابتدائی مرحلے میں شام اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ تاہم ان دونوں ملکوں میں انہیں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جدید ترین جنگی ساز و سازمان سے لیس ہونے کے باوجود پانچ برسوں کی تگ و دو کے بعد شام میں وہ نہ صرف بشار اسد کی حکومت کا حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ زیرِ قبضہ علاقے بھی انکے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ جبکہ عراق میں بھی ابتدائی چند کامیابیوں کے بعد آقای سیستانی (دام ظلہ العالی) کی جانب سےداعش کے خلاف اعلانِ جہاد سے نہ صرف انکی پیش قدمی روکی گئی بلکہ وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے ۔
اب جب سعودی عرب اور ترکی کی یہ مشترکہ پالیسی کارساز نہ ہوئی تو وہ عراق کو تقسیم کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۵ برسوں سے بند سفارت خانہ دوبارہ بغداد میں کھول دیا ہے اور وہاں سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے صوبہ نینوا کو "داعش" کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے رضاکار فورس "حشد الشعبی" کی شرکت کی مخالفت کی ہے اور عراق کے سرحدی علاقے کردستان کی خود مختاری اور استقلال کی کھول کر حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عراق میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر یہاں داخلی انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ انکا اگلاہدف عراقی شیعوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی نسبت بدظن کرکے عراقی شیعوں کو ایران سے دور رکھنا ہے۔
دوسری جانب ترک حکومت نے بھی اپنی فوج تمام تر جنگی ساز و سامان کے ساتھ موصل کے شمال مشرق میں واقع "باشقیہ" نامی قصبہ روانہ کر دی ہے جس کا مقصد عراقی فوجیوں کی جنگی تربیت بتائی گئی ہے۔ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عراقی فوجیوں کی کمانڈینگ صوبہ نینوا کے سبکدوش گورنر اثیل النجیفی کے سپرد گی گئی ہے جواس سے پہلے موصل میں داعش کے ساتھ ہمکاری کے الزام میں اپنے عہدے سے فارغ کیا جا چکا ہے۔
در حقیقت ترکی ہمیشہ موصل ا ور صوبہ نینوا کو اپنی آبائی سرزمین سمجھتی ہے۔ ۲۰۰۹ ء میں ترکی کے اس وقت کے وزیر خارجہ احمد داود اغلو نے موصل کے دورہ کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا جب ہمارے آباء و اجداد گھوڑوں پر یہاں آیا کرتے تھے اور ایک وقت آئے گاجب ہم جدید ترین جنگی وسائل کے ساتھ یہاں قدم رکھیں گے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ترکی ماضی کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو زندہ رکھتے ہوئے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ نینوا کو داعش کے کنٹرول سے خارج ہونے کی صورت میں اس صوبے کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا یہ ایک خود مختار ریاست بنے گی؟ یا یہ علاقہ ترکی کے زیرِ انتطام آئے گا؟ اور یا اس علاقے کے امور عراق کے مرکزی حکومت کے تحت چلائے جائیں گے؟
ادھر عراق کے پارلمانی رکن اور قومی سیکیورٹی کونسل کے رکن بھی فارس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اسے عراق کو تقسیم کرنے کی سامراجی سازشوں کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا علاقہ جو مالی اور دفاعی حوالے سے مرکزی حکومت سے لا تعلق ہو وہ آخر کار ہی مرکزی حکومت سے کٹ ہی جائے گا اور اس کے جدا ہوتے ہی کردستان بھی الگ ہو جائے گا کیونکہ وہاں پہلے ہی آزادی اور خود مختاری کی تحریکیں جاری ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی عراق میں امریکی پسند پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زمینہ ہموار کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے عراق سے دہشت گردوں کے صفایا میں تعاون کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی کی صورت میں ملکی نظام ایک فیڈرل حکومت کے تحت چلایا جائے گا جو تین حصوں میں تقسیم ہوگی اور اس کی مرکزی حکومت بغداد میں ہوگی۔ اور داعش کے خلاف گذشتہ چند برسوں سے برسرپیکار رضاکار شیعہ فورسز کو منحل کیا جائے گا۔
اب عراق میں فیڈرل حکومت تشکیل ہوتی ہے تو اس سے عراق کی تقسیم کے لیے راہ ہموار ہو جائے گا اور مرکزی حکومت ہمیشہ کمزور رہے گی جس سے امریکہ، اسرائیل اور خطے میں امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ملکوں کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور وہ آسانی کے ساتھ خطے میں من پسند پالیسیاں لاگو کر سکیں گے۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ساجد مطہری