وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)قائد شہید کے گاوں پیواڑ سے تعلق رکھنے والے مجاہد عالم دین کا اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ریاستی لبادے میں یہ بربریت پہلی بار نہیں ہے، پاراچنار شروع دن سے ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، بارہا ہم وہاں موجود تھے، خود دیکھا کہ انہی ایف سی والوں نے ہم پر گولیاں چلائیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، دسیوں افراد شہید ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہم نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، دو ماہ قبل ہمیں طالبان اور داعش کے آنے کی دھمکیاں دی گئیں اور حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ فلاں گاوں کو خالی کرو، داعش آنے والے ہیں، ہم بے بس ہیں۔
مجلس علمائے اہل بیت (ع) کے راہنما حجۃ الاسلام مولانا ہلال حسین طوری کا تعلق قائد شہید کے گاوں پیواڑ پاراچنار سے ہے۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ہمسائیگی کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان دنوں قم المقدسہ میں مدرسہ امام خمینی (رہ) سے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار اور موجودہ تشیع تحریکوں کے بارے میں مولانا ہلال طوری کی رائے جاننے کی کوشش کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: آپ نے قائد شہید کو قریب سے دیکھا، نئی نسل کیلئے قائد شہید کی زندگی نمونہ عمل ہے، کیا بیان کرنا چاہیں گے۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: ہم نے قائد شہید کو قریب سے دیکھا تھا، قائد شہید کے افکار سب کے سامنے ہیں، قائد شہید اتحاد امت کے سب سے پہلے داعی تھے، اتحاد بین المومنین و اتحاد بین المسلمین، وہ جہاں بھی جاتے تھے "وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ" کے مصداق اتم بن جاتے تھے اور وہ لوگ جو دور ہوتے، وہ بھی نزدیک آجاتے۔ قائد شہید نے کبھی بھی یہ نہیں کہا، یہ پٹھان ہے، یہ پنجابی ہے، یہ گلگتی ہے، یہ بلوچ ہے، ہر وقت کہا کرتے تھے کہ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ فلاں فلاں ہے، ہم ایک ہیں، حتیٰ کہ شیعہ سنی کے معاملہ میں بھی اتحاد کے قائل تھے، کسی نے قائد شہید سے پوچھا کہ آپ ہر وقت کہتے ہیں اتحاد اتحاد تو آپ کا اتحاد سے مقصد کیا ہے، قائد شہید نے فرمایا اتحاد سے میری مراد یہ نہیں کہ شیعہ سنی ہوجائے اور سنی شیعہ ہو جائے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، ایک دوسرے کو تحمل کریں اور دشمن کے خلاف باہم ایک ہو جائیں۔
اسلام ٹائمز: قائد شہید کی آرزو تھی کہ پیروان ولایت باہم متحد ہوں، اسی طرح آیت اللہ اختری نے بھی اسی درد دل کا اظہار کیا کہ شیعہ قوم یکجا ہوجائے، شیعہ ووٹ بینک کو تقسیم نہ کیا جائے، آپ اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: قائد شہید کی ہر وقت یہ کوشش رہتی تھی کہ سب ایک ہوں، اگرچہ تنظیمیں تحریکیں مختلف ہوں، مسئلہ نہیں ہے، لیکن وہ ایک نقطہ پر جمع ہوسکیں۔ پاکستان کے اہل تشیع کے لئے آج وہ وقت آچکا ہے کہ وہ باہم متحد ہوجائیں اور قائد شہید کی امیدوں کو پورا کریں، آج ایک شخص جسے ناصر ملت کہیں یا قائد ملت کہیں، میدان میں آچکا ہے، سب اہل تشیع ملکر اس کا ساتھ دیں، اس تحریک پر لبیک کہہ دیں، ہمارے لئے یہ ایک اہم موقع ہے، دشمن کو بہانہ نہ دیں، دشمن کو میدان میں داخل نہ ہونے دیں، اس تحریک کے بعد جو افراد راجہ ناصر سے دور تھے وہ بھی نزدیک آچکے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ راجہ ناصر کی بدولت شیعہ اور معتدل سنی بیدار ہوچکے ہیں اور راجہ ناصر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن وہ افراد جو ابھی تک خاموش ہیں، ہمارے بزرگان ہوں یا ہم جیسے چھوٹے ہوں، ان سے بھی التماس ہے کہ اللہ کی خاطر، امام زمانہ (عجل) کی خاطر، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی خاطر اور دیگر شہداء کے ورثا کی خاطر، سب مل کر راجہ صاحب کی اس تحریک میں شامل ہوں اور اس کی حمایت کریں۔
اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ پارا چنار کو مسلسل ریاستی بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی وہاں بیرونی لشکر حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی راستے بند کر دیئے جاتے ہیں، اس مرتبہ بھی پیروان ولایت پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، قیمتی جانیں ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنیں، کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: ریاستی لبادے میں یہ بربریت پہلی بار نہیں ہے، پاراچنار شروع دن سے ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، بارہا ہم وہاں موجود تھے، خود دیکھا کہ انہی ایف سی والوں نے ہم پر گولیاں چلائیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، دسیوں افراد شہید ہوئے، لیکن اس کے باوجود ہم نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، دو ماہ قبل ہمیں طالبان اور داعش کے آنے کی دھمکیاں دی گئیں اور حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ فلاں گاوں کو خالی کرو، داعش آنے والے ہیں، ہم بے بس ہیں، سوال یہ ہے کہ پاک آرمی جو پوری دنیا میں مشہور ہے، ہمیں اپنی آرمی پر ناز ہے، اگر وہ یہ کہہ کر چلے جائیں کہ شیعہ یہ گاوں خالی کر دیں، داعش آرہی ہے، یا اپنا دفاع خود کر لیں، ہم دفاع نہیں کرسکتے، تو یہ میرے خیال میں ایک کھیل ہے، یہ ایک منصوبہ ہے، جس کے تحت شیعوں کو کمزور کیا جا رہا ہے، تاکہ یہ اپنے ناپاک عزائم تک پہنچ سکیں۔
اسلام ٹائمز: شیعہ قوم کے جاری قتل عام کیخلاف علامہ راجہ ناصر عباس جعفری آج دو ہفتوں سے بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں، کیا اثرات مرتب ہوتے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا ہلال حسین طوری: اس اقدام کی شروع دن سے ہم نے حمایت کی ہے اور آخری دم تک حمایت کریں گے، ہم آمادہ ہیں، اگر آقا صاحب حکم دے دیں تو قم المقدسہ میں یا سفارت کے سامنے احتجاج کریں گے، اگر خروجیہ ہمیں نہ ملے تو بھی ہم نکلیں گے، اپنا اقامہ خراب کر دیں گے، اسلام آباد تک پہنچیں گے اور بھوک ہڑتال میں شریک ہو جائیں گے اور آخری دم تک وہاں بیٹھیں گے، جیسے آقا صاحب نے کہا کہ میرے بعد میرا بیٹا ہوگا، تو ہم کہتے ہیں کہ آقا صاحب آپ اکیلے نہیں ہیں، آپ کے بیٹے نہیں بلکہ آپ کے شاگرد پہلے اپنی جانیں قربان کریں گے۔