وحدت نیوز(آرٹیکل) ۔۔۔۔۔ ہم نے ہزاروں احتجاج کئے ،جلسے کیے ،مارچ کئے ،دھرنے دیئے مگر کیا ہوا؟کیا نتیجہ نکلا؟
۔۔۔۔۔ ہم نے مختلف اتحاد بنائے ۔مذہبی جماعتوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی مگر کیا ملا؟
۔۔۔۔۔ہم نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی مگر موجودہ سیاسی نظام میں وہ بھی فالج زدہ ثابت ہوئے ۔
یہ مظلوم شیعہ یہ مظلوم سنی!یہ مظلوم برادریا ں آخر کیا کریں ؟کہ یہ ملک عزیز پاکستان ان درندوں سے محفوظ ہو ؟
ایسے میں ضرورت تھی کہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے ،بیدار کیا جائے ،لوگوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف نکالا جائے ۔ایسی تحریک جس میں تشدد کا شائبہ تک نہ ہو ۔ایسی تحریک جو خالصتاٌ مظلومیت کی آواز ہو ۔ایسی تحریک جو دنیا بھر کے مظلوموں کی توجہ حاصل کرئے ۔ ایسی تحریک جس میں ہر مذہت ،مسلک اور مکتب کا مظلوم پناہ لے ۔ایسی تحریک جو مظلوموں کو آپس میں جوڑ دے ،ایسی تحریک جو ظالموں کو ہمیشہ کے لئے رسوا اور شرمندہ کر دے ، ایسی تحریک جو صبر و استقامت کی علامت بن جائے ،ایسی تحریک جس کا رشتہ کر بلا سے جڑا ہوا ہو ۔ایس تحریک جو سرفروشوں کی مختصرجماعت ہو مگر لاکھوں ظالموں کے دلوں کو دہلادے ۔
جی ہاں ! یہ وہ حالات تھے اور یہ وہ مقاصد ہیں جنکے حصول کیلئے ایک مر د مجاہد تنھامیدان عمل میں آیا ۔اس نے کسی کو امتحان میں نہیں ڈالا۔بلکہ خود اپنے آپ کو امتحان میں ڈالا۔اسکے ساتھ چند ساتھی شامل ہوئے ،عزم واستقامت کے ساتھ عہدوپیمان کے ساتھ، شہادت کے پیمان کے ساتھ ۔
اس تحریک کا نتیجہ ؟؟
یہ سرفروش جو مجاہد ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ موجود ہیں نتیجے کی پروا کئے بغیر ۔۔۔
کیونکہ ہمارا کام جدوجہد کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے
شہدائے کربلاسے عہد وپیمان کرنے والے عاشقان حسین، غلامان حیدر کرارؑ نتیجے کی پروا نہیں کرتے ہمیں نتیجہ تو مل چکا ہے ۔ آج پاکستان کے کونے کونے میں بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے آج عالمی ضمیر کروٹ لے رہا ہے ہم مرجائیں گے مگر اپنی ملت کو وقار اور عزت دے کر جائیں گے ہم مظلوم کو مر کر جینے کا سلیقہ سکھا جائیں گے آپ سے کچھ نہیں چاہتے سوائے دعا کے ،آپ ہماری ثابت قدمی کے لئے دعا کیجئے کہ ہم اپنے آقا و مولا سید وسردار حسین ؑ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر جائیں ،دعا کیجئے کہ ہمارے وقت کا امام ؑ اپنی غلامی میں قبول کر لے ،دعاکیجئے کہ دنیا بھر کے مظلوم متحد ہو جائیں دعا کیجئے کہ اس مٹی کا جو قرض ہم پر ہے ہو ادا کر جائیں دعا کیجئے کہ ہمار ے پاک شہداء کی اروح ہم سے راضی ہو جائے ، دعا کیجئے کہ اپنے شہداء کے ورثا کے سامنے ہم سرخرورہیں ۔اے آسمان و زمین گواہ رہنا ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ہمیں کسی سے کوئی صلہ نہیں چاہئے سوائے اپنے رب سے مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہیں ۔
ہے کوئی مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے والا؟؟
اب نہیں تو کب
شیعان حیدر کرار!
یہ ملک عزیز پاکستان جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ۔پاکستان کی آزادی کے حصول میں جتنی جانی اورمالی قربانی آپ نے دی کسی اور نے نہیں دی ۔
پاکستان کی آزادی کی پوری تحریک راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کی مرہون منت ہے پاکستان بننے کے بعد جب خزانے میں ایک ٹکہ بھی نہ تھا یہ ہماری حبیب فیملی تھی جس نے پورے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی تھیں ۔
الغرض اگر گنوانا شروع کریں تو ہزاروں صفحات درکار ہوں گے ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ اس پوری جدوجہد میں ہمارے اہل سنت بھائی اور ان میں بھی بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اکثریت اس آزادی کی جنگ میں ’’دام درھم سحن قدم ‘‘قائداعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ رہی ۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں جب پاکستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور مسلمانان ھند برٹش اور ہندو تسلّط سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خون کے دئے جلا رہے تھے ۔ایک خاص طبقے نے انگریز اور کانگریس کی حاشیہ نشینی اختیار کی اور پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا ۔
لیکن الحمداللہ مذہب و ملت کے ان غداروں کو مسلمانان برصغیر نے رد کر دیا ۔اور چودہ اگست 194ء کو لہو میں ڈوبا ہوا آزاد ی کا سورج طلوع ہوا ۔اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی ۔تاریخ بشریت کی سب سے بڑی اور کربناک ہجرت وجود میں آئی ۔تین ہزار کلومیٹر کے راستو ں میں کہیں خون میں لتھٹری ہوئی لاشیں تھیں ۔کہیں جلی ہوئی آبادیاں تھیں،کہیں مظلومیت کا نوحہ پڑھتی سوختہ مساجد ۔قوم کی بے شمار بیٹیوں کی عصمت دری اور بے حرمتی کا درد ناک باب جسے نقل کرنا تو کجاسوچ کر انسانیت پر لرزہ طاری ہو جاتاہے ۔لیکن ان تمام مصائب اور آلام کے سمندر میں بھی ہم خوش تھے کہ ہمیں آزادی نصیب ہوگئی ہے ۔
آزادی کی خوشیوں میں ایک بات بھول گئے تھے کہ انگریزوں اور کانگریس کا زر خرید غلام بھی کالی بھیڑوں کی صورت اس کاروان میں شامل ہو چکا ہے ۔تحریک آزادی کے اس غدّار ٹولے کو جب اپنے پہلے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ یعنی پاکستان بن گیا تو اب اس غدّار ٹولے کو دوسرا ہدف دیا گیا کہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے اور بدترین تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے ۔
تحریک آزادی کے یہ شکست خوردہ اورزخم خوردہ سانپ اب پاکستانی بن کر ہماری صفوں میں داخل ہوگئے ۔اِنہیں غداروں
نے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے اسباب فراہم کئے ۔انہی دہشت گردوں نے بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے اور
ان کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے جو بعد میں نفرت کی ایک پور ی فصل کی صور ت میں سامنے آئی ۔
تاریخ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ سب سے پہلے دہشت گرد ٹولے کن لوگوں کے وجود میں آئے ۔جی ہاں یہ وہی جماعتیں اور
گروہ تھے جو قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان قرار دیتے تھے ۔جی ہاں ! یہ وہی انتہا پسند مذہبی گروہ تھے جنھوں نے پاکستان
کے تعلیمی اداروں میں اسلحہ متعارف کروایا اور بہترین تعلمی اداروں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا ۔
امریکی سامراج جو برطانوی سامراج کی جگہ سنبھال چکا تھا یہ گروہ اس کے غلام بے دام بن گے کیونکہ انہیں پاکستان سے بدلہ لینا تھا ۔ان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے ۔آدھا پاکستان توڑنے کے بعد یہ گروہ کوشش کرتے رہے ،جدوجہد کرتے رہے کہ کس طرح باقی پاکستان کو ٹھکانے لگایا جائے (نعوذباللہ )یہ جانتے تھے کہ انتخابات کے ذریعے یہ کبھی بھی پاکستان پر اپنا تسلّط قائم نہیں کرسکتے
کیونکہ 1970ء سے لے کر آج تک کے انتخابی تنائج گواہ ہیں کہ پاکستان کی عوام نے ہمشہ انہیں بری طرح رد کیا ۔
1977ء میں ضیاء الحق کی صورت میں انھیں ایک سرپرست میّسر آیا ۔ضیاء الحق کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے عوام کے ان رد شدہ
عناصر کی ضرورت تھی ،اور امریکہ کو بھی ایک ایسے ہی اقتدار کے بھوکے حکمران کی ضرورت تھی جو خطے میں اس کے سامراجی عزائم میں اسکا
مددگار ہو ۔
روس (اس زمانے کا U.S.S.R)کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی مذہب و ملّت کے ان غداروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں
دوسری طرف ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکہ کو جس صدمے سے دوچار کر دیا تھا اُس کا تقاضا تھا کہ وہ عناصر جن کا پاکستان اور تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا ۔انہیں منظم کیا جائے ۔اور عالم اسلام کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا جائے ۔
ان حالات کے پس منظر میں امریکہ نے اپنے پٹھو ضیاء الحق کے ذریعے ایک طرف پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا شروع کی
دوسری طرف افغانستان مین نام نہاد جہاد کے نام پر تاریخ بشریت کے سفاک ترین درندوں کو پروان چڑھانا شروع کردیا ۔اسی ضیاء الحق کے دور میں لسّانی ،مذہبی ،علاقائی ،صوبائی نفرتیں اپنے عروج پر پہنچیں ۔
کلاشنکوف اور ہیروئن متعارف ہوتی ہے ۔1980 ء شیعوں کے خلاف بھیانک کھیل کا آغاز ہوتا ہے ۔منظم اور بھرپور طریقے سے ریاست کی سرپرستی میں شیعیان حیدر کرار ؑ کے خلاف تحریک شروع کی جاتی ہے ۔قتل وغارت کا آغاز ہوتا ہے ۔ ہر شہر کو ہمار ی قتل گاہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے
ہم چلاتے رہے ۔شور مچاتے رہے ،حکمرانوں کو خبردار کرتے رہے کہ اس آگ سے
مت کھیلو ،پاکستان سے دشمنی نہ کرو،جن عناصر کو تم ہمارے خلاف استعمال کر رہے
ہو ،وہ تمھارے دوست نہیں بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں
ہم ہوشیارکرتے رہے کہ جو آگ تم ہمارے لئے جلا رہے ہو ایسا نا ہو کہ ایک دن سارا ملک اس میں جل رہا ہو ،مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے ۔ہم بتاتے رہے کہ ہم صدیوں سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ،ظالم حکمرانوں کے لئے تختِہ مشقِ ستم بنے رہے ہیں ۔مگر ہمیں مٹانے کاخواب دیکھنے والے خود مٹ گئے ۔ بنوامیّہ اور بنی عباس کا بھیانک اور عبرت ناک انجام دنیا کے سامنے ہے ۔
ہمارے ہی وطن میں ہم پر ہی زمین تنگ کر دی گئی ۔عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا پارہ چنار سے کوئیٹہ ،خیبرسے کراچی اور گلگت بلتستان سے لے کر پاکستان کے کونے کونے میں ہمارا قتل عام کیا گیا ۔ہمارے ڈاکٹرز ،ہمارے انجینئرز،ہمارے افسران ہمارے علما، ہمارے ذاکرین ہمارے رہنما۔ہمارے بوڑھے ،معصوم بچے یہاں تک کہ ہماری خواتین کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا اور کیا جارہا ہے ۔
’’ اور یہ سب کچھ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہوتا رہاپوری دنیا میں
ہماری حمایت میں آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔
بالاخرجب افغانستان میں امریکہ کا مقصد پورا ہو گیا اور روس وہاں سے نکل گیا تو امریکہ نے حسب دستورشیطانی وہ سارا ملبہ
پاکستان پر گرادیا ۔وہ امریکہ جس نے ضیا ء الحق کی مددسے پاکستان میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کی نرسریاں قائم کی تھیں اور ساری دنیا کے دہشت گرد یہاں پروان چڑھ رہے تھے ۔اسی امریکہ نے انھیں فسادیوں کو پاکستان پر یلغار کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
عرب ممالک کی دولت جو عالم اسلام کی یکجہتی اور ترقی کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھی وہ پاکستان میں مدارس کے نام پر دہشت گردوں کی تربیت اور برین واشنگ کے لئے استعمال ہونے لگی اور تاحال ہور رہی ہے ۔افغانستان میں وہ تباہی نہیں ہوئی جو افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد پاکستان میں شروع ہوگئی،
پاکستان کے تمام دفاعی اور سول اداروں میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا راج ہو گیا ۔اور دہشت گرد ۔پورے ملک میں کھلم کھلادندناتے ہوئے انسانوں کے قتل عام میں مصروف ہو گئے ۔عدالتیں سزادینے سے قاصر ،پولیس کی کالی بھیڑیں سرپرستی میں مصروف
سول اداروں میں اہم عہدوں پر دہشت گردوں کے کمانڈورں کا قبضہ تعلیمی اداروں میں نفرت انگیزتعلیم ،گھر گھر نفرت انگیز لٹریچر کی تقسیم ۔
اور بدنصیبی تو دیکھئے کہ جہاں عوام نے دہشت گردوں کو اپنی قوت بازوسے شکست دی جیسے کہ پارا چنار اور گلگت بلتستان ،وہاں
ریاست نے انتقامی کاروائیاں شروع کر دیں ۔اور جو کام دہشت گرد نہ کرسکے وہ ریاستی اداروں نے کیا اور یہاں کے مظلوم عوام پر ظلم وستم
کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے ۔اور بالاخروہی ہوا۔جسکی طرف ہم برسوں سے اشارے کررہے تھے ۔پاکستان کے نام نہاد مذہبی شدت پسندگروہوں نے پورے ملک پر اپنا تسلّط جمانے کے لئے ہر طبقے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔
اہم سنت بھائی خاص طور پر بریلوی مسلک ان کا دوسرا بڑا نشانہ بنے پھر سکھ ،عیسائی ۔ہندواور دوسری اقلیتی برادریا ں ان کا ہدف قرار پائیں اور پھر
’’مساجد ،مزرارت ،دربار،بارگاہیں ،پارک ،بازار،مندر ،چرچ ،گردوارے کچھ بھی محفوظ نہ رہا ‘‘
اور پھر ہمارے دفاعی اداروں کو اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا ۔اب تک 8000 کے لگ بھک ہمارے وطن کے سپوت ہماری سرحدوں کے محافظ ماضی کی پالیسیوں کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔معصوم بچے اسکولوں میں قتل کر دیئے گئے
مختلف ناموں سے وہی سپاہ،وہی لشکر ۔کہیں طالبان ، کہیں القاعدہ اور اب داعش کی صورت میں گلی گلی ،محلہ محلہ ،شہر شہر انسانوں کی شکل میں چھپے بیٹھے ہیں ۔اور جب موقع ملتا ہے بلکہ ہر روز کہیں نہ کہیں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔
موجودہ حالات میں کیا کیا جائے ؟ ازقلم :علامہ حسن ظفرنقوی