وحدت نیوز(آرٹیکل)النكبہ ايک فلسطينی اصطلاح ہے اس كا لغوی معنی ايک درد ناک مصيبت ہے۔ يہ اصطلاح اس زمانےكی طرف اشاره كرتی ہے جس دن دنيا كی استعماری طاقتوں نے كہ جنكی سربراہی امريكہ كر رها تها انهو ں نےملكر عالم اسلام كے دل سرزمين انبياء عليهم السلام فلسطين كو دنيا كے نقشہ سے مٹانے كی سازش كوعملی جامہ پہنایا. اور اربوں مسلمانوں كے قبلہ اول پر یہودی تسلط اور ظلم وبربريت اورطاقت كی بل بوتے پر نجس اسرائيلی حكومت قائم كرنيكا اعلان كيا. اور وهاں كے حقيقی باسيوں كو ہجرت پر مجبور كيا. 15 مئی 1948 كو 750000 فلسطينی مسلمانوں نے اسرائيليوں كی بربريت اور قتل وغارت كی وجہ سے بے گھر هوئے اور مهاجر بنے.اورانكے 500 گاؤں تباه كئے گئے . انہیں زبردستی اپنے وطن سے نكالا گیا اسی لئے اس يوم كو فلسطينی يوم نكبہ كے نام سے یر سال مناتے ہیں اور اس عزم كا اظهار كرتے ہیں كہ هم يقيننا ايک نہ ايک دن واپس اپنے وطن لوٹیں گے اور اسرائيلی غاصب حكومت كا خاتمہ كريں گے. اور همارا ملک نجس صهيونيوں سے آزاد ہو گا.
15 مئی يوم مرده باد امريكہ كيوں؟
شهيد قائد علامہ السيد عارف حسين الحسينی ايک جهان اسلام كی با بصيرت قائد تهے انكی نگاه فقط پاكستانی مسائل پر نہیں بلكہ وه پورے جهان اسلام اور دنيا كے مستضعفين كا درد محسوس كرتے تھے. اس لئے انهوں نے اسی يوم نكبہ 15 مئی كو پاكستان ميں "يوم مرده باد امريكہ "كانام دياتها. وه پاكستانيوں كو بتانا چاہتے تھے كہ يہ غاصب اسرائيلی وجود امريكہ كی مدد سے وجود ميں آيا . اور امريكہ كی مدد سے ہی قائم ہے. تاكہ پاكستان کی غيور مسلم عوام اور جہان اسلام كے امريكہ نواز حكمرانوں اور عوام كوبتاياجائے كہ امريكہ كتنا مسلمانوں كا مخلص اور دوست ہے. جس كی دوستی اور غلامی پر همارے حكمران فخر كرتے ہیں. اورشہید قائد یہ چاہتے تھے كہ پوری امت مسلمہ متحدہو كر امريكی ہاتھوں كو اس خطہ سے كاٹے اور اس ناپاک اسرائيلی حكومتک كا خاتمہ هو.
حق العوده سے كيا مراد ہے؟
فلسطينی مجبورا جہاں بھی جاكر آباد ہوئے انهوں نے اپنے وطن كو نہيں بهلايا. اور برملا پوری دنيا كے سامنے اظهار كرتے ہیں كہ اپنے آباءواجداد كی سرزمين پر واپس آنا ہمارا حق ہے اور اس "حق العوده" يعنی وطن واپس آنے کے حق سے ہم كسی قيمت پر بهی دست بردار نہیں ہونگے. اور ان کے اس عزم وارادے سے صهيونی اسرائيلی غاصب ہميشہ پريشان رہتے ہیں. اور چاہتے ہیں كہ انہیں كسی اور ملک ميں بسا كر انكا يہ حق ان سے چھین ليا جائے.
فلسطينيوں كی ہجرتيں:
• 1948 كی فلسطين سے هجرت اسرائيلی مظالم كی وجہ سے ہوئی۔ اور ان کے گھروں اور املاک پر يهودی قابض ہوئے. اور اپنی آبادياں تعمير كیں. اور فلسطينيوں كی ايک بہت بڑی تعداد اپنے ملک كے اندر كيمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے اور كچھ فلسطينيوں نے ہمسایہ ممالک ميں جاكر كيمپوں میں آباد ہوئے. اور كيونكہ مسلسل فلسطين ميں 67 سال سے جنگ جاری ہے تو فلسطينيوں كی ہجرت كا سلسلہ بهی جاری ہے.
• 1950 كے عشرے ميں عراق ,سعودی عرب اور ليبيا سے فلسطينی مزدوروں كو بڑی تعداد ميں ہڑتال کرنے كے جرم ميں نكالا گیا.
• 1980 کے عشرے كی ابتداء ميں جب فلسطينيوں كے تعاقب كی آڑ ميں اسرائيل نے لبنان پر قبضہ كيا تو لاكهوں فلسطينی لبنان سے ہجرت كر كے ليبيا , تيونس اور ديگر عرب ممالک ميں جا كر آباد ہوئے.
• جب 1991 ميں عراقی صدر صدام حسين كويت پر حملہ كيا تو فلسطيی رہنما ياسر عرفات نے صدام كی حمايت كی اور جس كی بدولت كويت حكومت نے 2 لاكهـ فلسطينی جو وہاں كام كرتے تھے انہیں واپس آنے كی اجازت نہیں دی۔
• 1993 جب فلسطينيوں اور اسرائيل كے مابين اوسلو معاہده ہوا تو رد عمل كے طور پر ليبا كے صدر كرنل معمر قدافی نے دسیوں ہزار فلسطينيوں كو لیبیا سے نکال دیا.
• 2003 ميں جب امريکہ نے عراق پر حملہ كيا تو 21 ہزار فلسطينی جو وہاں مقيم تھے ہجرت پر مجبور ہوئے.
• 2007 ميں جب تكفيری دہشت گردوں نے شمال لبنان کی نہر البارد فلسطينی كيمپ كو اپنی آماجگاہ بنایا اور پهر لبنانی عوام اور لبنانی فوج پر حملے كئے. تو اس جنگ كے نتيجہ ميں 32 ہزار لوگ ہجرت پر مجبور ہوئےس. ياد رہے كہ ان تكفيری مسلح دہشت گردوں كو آل سعود كے اشاروں پر سعد الحريری پارٹی شام ميں داخل كرنے كے لئے وہاں پر اكٹھا كر رہی تهی.
• شام فلسطينی عوام اور قضيہ فلسطين كا سب سے بڑا حمايت كرنے والا ملک تها . يہاں پر نكبہ 1948 سے آخری ايام تک فلسطينی عوام اور ليڈرشپ كی آمد جاری رہی. يہاں پر 6 لاكهـ سے زيادہ فلسطينی آباد تھے. اور انہیں عام شامی عوام كی طرح كے حقوق حاصل تھے. اور جب پوری دنيا جہان كے دروازے فلسطينئ جہادی وسياسی ليڈر شپ كے لئے بند ہو چکے تهے. امريكہ اور اسرائيل كی رضا اور انكے ڈر سے سب عرب حكمران انہیں اپنے ممالک ميں پناه دينے پر راضی نہیں تهے. شام حكومت نے انكے لئے اپنے دروازے كهول رکھے تھے. انہیں پناہ بھی دی اور سپورٹ بهی كی. اور يہاں سے اميد تهی كہ آزادی فلسطين كی فوج تيار ہوگی اور بيت المقدس كوآزادكراياجائيگا. اسی لئے كئی دہائیوں سے مقاومت كی پناہ گاہ اس ملک كا اقتصادی اور سياسی محاصرہ كيا گیا. پھر امريكہ اور اسرئيل نے عرب ممالک كو تيار كيا كہ وه اپنے بنائے ہوئے تكفيری دہشت گردوں كے ذريعے اس ملک كی اينٹ سے اينٹ بجا ديں اور وه فوج جو اسرائيل سے لڑنے كی تياری كر رہی ہے اسے تكفيری مسلح گروہوں سے لڑائی ميں مصروف كردیا جائے.
افسوس تو اس بات كا ہے كه ملک بھی مسلمانوں كا تباه ہو رہا ہے دونوں طرف سے قتل ہونے والے بهی مسلمان ہیں. اور جنگ پر سرمايہ بهی عرب مسلمانوں كا خرچ ہور ہا ہے۔ كاش يہ خليجی ممالک بالخصوص قطر اور سعودی عرب وه سرمايہ جو انہوں نے شام وعراق كی تباہی پر صرف كيا ہے اگر وه ان ممالک كی ترقی اور آبادی پر صرف كرتے ہوتے تو هميشہ هميشہ كے لئے ان پر حكومت كرتے اور تاريخ بهی انہیں اچھے الفاظ سے ياد كرتی.
اے کاش شام ، حزب اللہ اور فلسطینی مجاہدین کو بیت المقدس کی آزادی کی جنگ میں مدد کی ہوتی نہ ان کو انہی کی داخلی جنگ میں الجھایا ہوتا تو آج اسرائیل کا وجود اس صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا ۔ یہ وہ خیانت ہے جو عرب ممالک نے تحریک فلسطین کے ساتھ کی اور خانہ خدا یعنی بیت المقدس کو اسرائیلی کے پنجے میں ہمیشہ کے لئے دے دیا۔ لیکن تاریخ کبھی بھی خیانت کرنے والوں کو معاف نہیں کرتی۔ اور آج پوری دنیا کے سامنے وہ ممالک کہ جنہوں نے مظلوم اور بے گھر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کی آج ان کا اصل چہرہ دنیائے اسلام کے سامنے بے نقاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہمارے فلسطینی بھائی واپس اپنے گھروں کو جائیں گے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کار بھی نیست و نابود ہونگے۔ انشاءاللہ
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر شید شفقت شیرازی