وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ نواز شریف پارلیمانی جماعتوں کے اجلاسوں کے نام پر طالبان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں خلل پیدا کررہے ہیں، تکفیری دہشت گردوں کے خلاف ملک فوجی کاروائی قوم کا فیصلہ ہے جس پر فوری عملدرآمد کیا جائے، لال مسجد سے امت کو تقسیم کرنے اور دہشت گردوں کی سپورٹ کا پیغام عام کیا جارہا ہے حکومت مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کرے اور لال مسجد میں کسی معتدل پیش امام کو رکھا جائے اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو لال مسجد کو گرا دیا جائے، عدلیہ دہشت گردوں کی پھانسی کو روک کر دہشت گردوں کو حوصلہ فراہم کررہی ہے،تکفیری دہشت گردوں کی پھانسی رکوانے کا مطلب ان خونخوار قاتلوں کا ساتھ دینا ہے، ان کی پھانسی پر فوری عملدرآمد کرکے ان کے وجود سے پاکستان کی سرزمین کو پاک کیا جائے، پارلیمانی جماعتوں اپنی صفوں سے تکفیریوں کی حمایت کرنے والے عناصر نکال باہر کریں، ایسی سیاسی و مذہبی جماعتیں جو طالبان کی کھلم کھلا حمایت کررہی ہیں ان کیخلاف بھی آپریشن کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاک محرم ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ علی احمر زیدی،علامہ مبشر حسن، علامہ عقیل موسیٰ، علی حسین نقوی، علامہ علی انور جعفری اور علامہ احسان دانش بھی موجود تھے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ معصوم بچوں اور خواتین اساتذہ کا قتل عام کرنے والے سفاک تکفیری درندوں کے حامی اب بھی پاکستان میں آزاد ہیں۔ سزا یافتہ تکفیری دہشت گردوں کی سزائے موت کو معطل کرنے کے لئے نام نہاد عدلیہ بھی میدان میں اتری ہے،جو عدلیہ عدل سے کام نہ لے اسے عدلیہ کہلانے کا حق نہیں ہے، انصاف میں تاخیر کرکے انصاف کا انکار کرنا عدل نہیں بلکہ ناقابل معافی ظلم ہے، یہ پاکستان کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، تکفیری دہشت گردوں کی پھانسی رکوانے کا مطلب ان خونخوار قاتلوں کا ساتھ دینا ہے،یہ نام نہاد عدلیہ عدل و انصاف کو سبوتاژ کررہی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے عدالتی فیصلوں کے بعد صرف شہر کراچی میں شیعہ مسلمانوں پر 3مقامات پر حملے ہوئے۔ 2 شیعہ شہید ہوچکے ہیں اور 4زخمی شیعہ زندگی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ملک بھر میں شیعہ نسل کشی کا سلسلہ اس لئے جاری ہے کہ دہشت گردوں کو اس نام نہاد عدلیہ کی سرپرستی پر مکمل ایمان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے غیرت مند انسانوں اور خاص طور پر شہداء کے ورثاء سے اپیل کرتے ہیں کہ جس طرح لال مسجد کا گھیراؤ کیا گیا اسی طرح ان نام نہاد ججوں کا بھی عوامی احتساب کیا جائے،ان کا بھی گھیراؤ کیا جائے۔پاکستان کی مقننہ ایسے ججوں کا احتساب کرے اور مستقبل میں ایسے عدالتی ظلم کو روکنے کے لئے فوری قانون سازی کرے۔دہشت گردوں کے حامی قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کمیشن بھی ان نام نہاد ججوں کی عدالتی دہشت گردی کا از خود نوٹس لیں۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ہم عوام و خواص ، ذرائع ابلاغ اوردہشت گردوں کے مخالف سیاستدانوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ان درندہ صفت دہشت گردوں سے مذاکرات کے حامیوں کے بارے میں نرم رویہ ترک کردیں،ان پر مکمل پابندی عائد کردیں، ان کا مکمل بائیکاٹ کردیں، میڈیا بھی بائیکاٹ کرے۔،ان کا سوشل بائیکاٹ کریں،ان کو اور تکفیری دہشت گردوں کو کسی صورت میں ذرائع ابلاغ تک رسائی نہیں ہونی چاہئے ،اگرذرائع ابلاغ چاہیں تو ان تکفیریوں کی انسانیت دشمنی کے بھیانک رخوں کو بے نقاب کرکے رائے عامہ کو گمراہ ہونے سے بچاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان تکفیری قاتل دہشت گردوں کی سرپرستی کا مرکز مدارس ہیں، ہمیں ماننا ہوگا کہ پاکستان میں ایسی کئی مساجد و مدارس ہیں جو مسجد ضرار کا کردار ادا کررہے ہیں،ان سب کو بند ہونا چاہئے ، حکومت یہ ڈرامہ بند کرے کہ دس فیصد مدارس ہیں ، نام لے کر بتائے کون کون سی مساجد اور مدارس نے آج تک تکفیریت کو پھیلایا اور تکفیری دہشت گردوں کی سرپرستی کی۔نام لے کر بتایا جائے کہ کون کون سے دہشت گرد ہیں جنہوں نے ملاؤں کا روپ دھار رکھا ہے اور نام لے کر بتائیں کہ کون کون سے تکفیری دہشت گرد گروہوں نے ہمارے بچوں کو ، ہماری خواتین کو ہماری فوج ، پولیس اور رینجرز کو قتل کیا اور یہ کہہ کر قتل کیا کہ وہ کافر ہیں۔یہ زبانی مذمت کافی نہیں۔ کوئی عملی قدم اٹھایا جائے، ہم پوری پاکستانی ملت کو مودبانہ تاکید کرتے ہیں کہ سانحہ پشاور کو ہرگز فراموش نہ کریں۔یہ ایسا زخم ہے جو مدتوں بھرا نہیں جاسکے گا۔یہ عہد کرلیں کہ اس سانحہ سمیت ہر سانحہ کے ذمے دار تکفیری دہشت گرد قاتلوں کے کیفر کردار تک پہنچنے تک قومی سطح پر اجتماعی طور پر ہمارا سوگ جاری رہے گا۔ ہم شہدائے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سوگوار رہیں گے۔یہ عہد کرلیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم معتدل علماء ، سیاستدانوں اور دانشوروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ تکفیریت کے خلاف متحد ہوں۔وہ فتنہ تکفیریت کے خاتمے کے لئے میدان عمل میں آئیں۔فوجی آپریشن اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس گمراہ فتنہ انگیز نظریے کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے معتدل علماء اسلام کے روشن و انسانیت دوست نظریات کو برملا بیان کریں۔انسانیت کے قاتلوں ، مسلمانوں کے قاتلوں کے انتہاپسند تکفیری نظریات کو ختم کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ ان معتدل علماء کو عوام کے سامنے پیش کریں۔پاکستان کی پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ تکفیریت کے خاتمے کے لئے اس فتنہ انگیز آئیڈیالوجی کو قابل تعزیر جرم قرار دے۔اس نظریہ کے پیروکاروں کو سزائیں دی جائیں۔تکفیریت انسانوں کے قتل عام پر اکسانے والا انتہا پسند نظریہ ہے جس کا اسلام سے کوئی ربط و تعلق نہیں کیونکہ اسلام اعتدال کی ہدایت کرنے والا انسانیت دوست دین ہے۔یہ قانون سازی بھی جلد ہونی چاہئے۔
حکمران اور سیاستدان کمیٹیوں کے ذریعے تاخیری حربوں سے گریز کریں۔عملی اقدامات اور فوری ایکشن پر توجہ مرکوز کریں۔ یہ حکومت شروع سے انسداد دہشت گردی کے لئے فوجی آپریشن سے گریز کرتی رہی اور ان کی تکفیریت دوست پالیسیوں سے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھے اور سانحہ پشاور رونما ہوا۔اگر انہوں نے بروقت عملی اقدامات سے ماضی کی طرح گریز کیا تو مزید سانحات پیش آسکتے ہیں۔اس لئے آپریشن ضرب عضب کو پورے ملک میں پھیلائیں تاکہ پورے ملک میں بیک وقت تکفیریوں کا صفایا کیا جاسکے۔شیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گرد گروہوں کے خلاف تاحال کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔آج پاکستان کا عام شیعہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا شیعہ مسلمانوں کے قاتل دہشت گردوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے؟ ہم اس تعصب کی بھی مذمت کرتے ہیں۔شیعہ شہداء بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اپنے شہداء ہیں اور ان کا غم بھی پاکستان کا غم ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ شیعہ نسل کشی میں ملوث دہشت گردوں اور تکفیری نظریے کا پرچار کرنے والے ان کے سرپرستوں کو بھی سرعام پھانسی دی جائے۔ہم شیعہ شہداء کے خانوادوں کی خدمت میں بھی تعزیت پیش کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ ان شہداء کا مقدس خون رائیگاں نہیں جائے گا۔