وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نےاپنی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد کی تمام ماتمی انجمنوں ، ملی تنظیموں اور شخصیات کے اعزاز میں دی گئی دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کو دانستہ طور پر ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ملک میں اسی ہزار بے گناہ انسانی جانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والی کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی سست روی کا شکار ہے جس سے اس پلان کی افادیت ماند ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔سانحہ پشاور، راولپنڈی بم دھاکہ،شکارپور اور ملک میں ہونے والے دیگر ان گنت سانحات کے ذمہ داران کی تاحال عدم گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کی یہ جنگ تنہا فوج پر چھوڑ رکھی ہے اور خود زبانی دعووں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اس تذبذب میں مبتلا ہیں کہ نون لیگ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالے سے آخر کیوں گریزاں ہے۔ہمار ا مطالبہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو کھوکھلا نعرہ بنانے کی بجائے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس وقت تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاک کی لازوال قربانیاں لائق تحسین ہیں۔ ملک میں جاری دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان ملت تشیع اور پاکستان کی فوج کو اٹھانا پڑا۔ اس نقصان کا ازالہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں موجود آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ رہے۔انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کے لیے ضروری ہے تا کہ دہشت گردعناصر کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ ان پشت پناہوں پر بھی مضبوط ہاتھ ڈالیں جائیں جو دہشت گردی کی کاروائیوں کو کامیاب بنانے کے لیے ان عناصر کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ملک میں موجود تکفیری گروہوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ملک کی سلامتی و بقا کو داو پر لگا رکھا ہے۔اگر فوج طالبان اور دیگر شیطانی قوتوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ نہ کرتی تو آج پاکستان کے گلی کوچے وزیرستان کی تصویر پیش کر رہے ہوتے۔دہشت گردوں کے خلاف کسی حتمی فیصلے کے اظہار میں حکومتی پس و پیش اس حقیقت کو ثابت کرتا رہا کہ اس ملک کے نااہل حکمرانوں میں اتنی ہمت نہیں کی کہ وہ قومی وقار کو پیش نظر رکھ کر کوئی جرات مندانہ فیصلہ کرسکیں۔غاصب حکمرانوں کی ناکارہ پالیسوں نے وطن عزیز کو اقتصادی معاشی طور پر تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے جس سے قوم کا ہر فرد مشکلات کا شکار ہے۔اس حکومت نے ہمیشہ عوامی مفادات کے برعکس ایسے فیصلوں کو ترجیح دی جس سے شخصی اور سیاسی فوائد حاصل ہوتے ہوں ۔