وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبرپختواہ کے صدر علامہ جہانزیب علی جعفری نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پشاور پریس کلب میں میڈیا کے نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کرم کے صدر مقام پارہ چنار سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر 4 مئی 2023ء کو ایک ناخوشگوار سانحہ پیش آیا۔ پہلے شریف نامی خروٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والےڈرائیور پر فائرنگ ہوئی جس میں وہ شدید زخمی ہوئے اور جانبر نہ ہو سکے،اور شہید ہوگئے اس کے چند منٹ بعد کچھ شرپسند عناصر نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اہل تشیع کے علاقے میں ہمارے استاد کو مارا کیا گیا۔ تقریبا 30 منٹ کے اندر لوگ تری مینگل سکول میں جمع ہوئے اور شیعہ اساتذہ کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ اساتذہ نے اسی اثناء میں اپنے قریبی رشتہ داروں، کچھ ہی میٹر پر واقع قریبی چیک پوسٹ اور اپنے ڈیپارٹمنٹ سمیت سب سے رابطے کئے کہ ہمارا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور ہماری جانوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے خدارا ہماری جان بچائیں، چند میٹر کے فاصلہ پر چیک پوسٹ پر بڑے رینک کے افسران موجود تھے اس ساری صورتحال کا افسران کے علم میں آنے کے باوجود بھی اس پر انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کسی قسم کے کوئی حفاظتی اقدامات اٹھائے، حالانکہ سرکاری اہلکار پولیس اور فوجی جوان ان اساتذہ اور مزدوروں کو بچا سکتے تھے۔ مگر انکی عدم توجہی اور بے حسی پر افسوس کہ انہوں نے کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ان اساتذہ کو ایک ایک کر کے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر انہیں پکڑ کر اسٹاف روم میں اکٹھا کر کے سب کو ایک دوسرے کے سامنے گولیاں مار کر بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور میتوں کی کی بے حرمتی پر مبنی توہین آمیز ویڈیوز بجاتے رہے۔تقریباً 2 بجکر 30 منٹ پر جب شہادت کی خبر پارہ چنار شہر میں پہنچی تو قومی سطح پر انتظامیہ نے فوج سے رابطے شروع کیئے کہ جنازے لائے جائیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پولیس اور فوج کے جوان جب جنازے لینے گئے تو ان پر بھی فائرنگ کی گئی اور اس دوران ان لاشوں کی بنائی گئیں ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیرکرتے رہے۔ جس سے متاثرہ خاندانوں اور علاقے میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی مشران و عمائدین بشمول مجلس وحدت مسلمین کے میئر آغا مزمل حسین فصیح نے جوانوں کے جذبات کو کنٹرول کرنے کی حتی الامکان کوشش کی تاکہ کوئی اور سانحہ رونما نہ ہو حالانکہ پارہ چنار کے ہر علاقے میں کنسٹریکشن، ہوٹلینگ اور دیگر کام عروج پر ہیں جس میں زیادہ تر کام کرنے والے افراد کا تعلق دوسرے مکتب فکر سے ہے، مگر ان کا مسئلہ صرف پارہ چنار کے ایک قبیلہ مینگل سے تھا لہذا ان کو کسی نے نقصان نہیں پہنچایا،آگ کو مزید بھڑکانے کے لئے ان دہشت گردوں نے لاشیں دینے سے بھی انکار کیا۔ پولیس اور فوجی جوانون پر بھی فائرنگ کی ۔جب 3 گھنٹے سے زائد کا وقت گزرنے کے بعد جنازے اٹھانے 1122 کے اہلکار گئے تو تب تک جنازوں پر کلہاڑیوں اور چاقوؤں سے وار کر کے گلے اور دیگر اعضاء کو کاٹے گئے تھے۔سید مہدی حسن جو ایم فل استاد تھے انکی آنکھوں کو نکال دیا گیا تھا، ایک استاد کی لاش کو آگ کو آگ لگائی گئی تھی۔ لاشوں کو ناقابل بیاں حد تک بے حرمتی کی گئی تھی۔
ان کامزید کہنا تھا کہ اس سارے واقعے کا مختصر سا پس منظر آپ کے سامنے رکھا ہے جس سے آپ حکومت اور تری منگل قبیلے کی بے حسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، طوری قوم میں 7 بے گناہ پامال شدہ جنازے آئے تو تو ایک لاکھ سے زایدکی تعداد میں لوگوں نے اجتماعی جنازے اور پرامن آجتجاج ریلی میں شریک ہوئے ضلع بھر استایزہ اور دیگر سرکاری ملازمین نے بھی احتجاجی جلسے اور ریلی نکالی۔کسی قسم کے پبلک پراٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا مگر وہاں کے عوام کی جانب سے امن کو قائم رکھنے کے لئے کچھ مطالبات رکھیں ہیں جو کسی بھی حکومت سے ایسے پرامن مطالبات کرنا حق بھی اور حکومت کی آئنی زمہ داری بھی ہے کہ وہ ان کے جائز مطالبات پر عمل کرے۔
1۔ وہ کونسے عناصر تھے جہنوں نے خروٹی قبیلے کے فرد کو منگل قبیلے کا استاد ظاہر کرکے دہشت گردوں کو جمع کیااور اپنے مہمان اساتذہ کو قتل کروایا۔
لہذا اس سارے واقعے کے متعلق جوڈیشل کمیشن بنا کر شفاف اور بغیر کسی دباؤ کے تحقیقات کروا کر حقائق کو سامنے لایا جائے۔
2۔ ان اساتذہ کو اس دن سختی سے پرنسپل سید محمد نے فون کرکے بلایا اور چھٹی بھی لیٹ کی گئی، پرنسپل سید محمد کو شامل تفتیش کرکے مطلوبہ حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں۔
3۔ جب اساتید کو محاصرے میں لے لیا گیا تب ہر جانب رابطے ہوئے سکول ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار و دیگر چوکیداروں نے اپنی زمہ داری بروقت کیوں نہیں نبھائی لہذا ان سب کو بھی گرفتار کرکے شامل تفتیش کیا جائے۔
4۔ چند میٹر کے فاصلے پر چیک پوسٹ موجود ہے، فوج کو جہاں بھی حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ڈی سی کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ آخر انہوں نے ٹیچرز کو ریسکیو کیوں نہیں کیا، پولیس تھانے کا کردار بھی مشکوک رہا، لہذا سب افسران کو معطل کرکے وسیع انکوائری کرائی جائے اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔
5۔ قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا اور ایف ائی آر بھی نامعلوم کے خلاف درج کی گئی ہے، ڈیوٹی پر موجود پرنسپل، اساتذہ، کلاس فور کے ملازمین، پولیس اہلکار سمیت اسٹوڈنٹس کو بھی شامل تفتیش کرکے معلوم دہشتگردوں کے خلاف ایف آئی آر وارثین کی مدعیت میں درج کی جائے۔
6 ۔ پارہ چنار کے اساتذہ کو جو دوسرے علاقوں میں ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں انکی سیکورٹی کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں۔
7۔ محکمہ تعلیم کے ڈی او نے ابھی تک جس غفلت اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے خلاف بھی تحقیقات کرکے ضلع بدر کرتے ہوئے فوری طور پر معطل کیا جائے۔
8۔4 مئی کو سانحہ تری منگل کے بعد آج تک ٹل پاراچنار روڈ ہر قسم کے امد رفت کے لئےبند ہے۔ پاراچنار میں غذائی قلت غزا جیسے ماحول بن چکاہے۔ پاراچنار سے روزانہ ہزاروں لوگ جس میں مریض۔مخلتف جگہوں پر ڈیوٹی دینے والے جاب ہولڈرز یا دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد جو ہمشہ سفر کرتے تھے۔پھنس کررہے گئے۔یہاں سے پاراچنار اور پاراچنار سے پشاور سفر تقریبا بند ہوچکا ہے۔ ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹل پاراچنار روڈکو ہر قسم کے آمد رفت کے لئے کھول دیا جائے۔ پہلے کے طرح ہر کلومیٹر پرچیک پوسٹ بناکر روڈ کو محفوظ بنایا جائے۔