وحدت نیوز(پشاور)مجلس وحدت مسلمین خیبرپختونخواہ کے جنرل سیکریٹری شبیر حسین ساجدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خرلاچی بارڈر پر فائرنگ کی اصل وجہ باڑ کے دوسرے طرف طوری قبیلے کی 44 ہزار کنال زمینیں ہیں جو باڑ لگاتے وقت فوج نے افغانستان کی طرف چھوڑ دی تھیں ۔ مقامی زمینداروں نے باڑ لگاتے وقت بھر پور احتجاج کیا لیکن باڑ لگانے والے محافظ مسلسل تسلی دے رہے تھے کہ یہ باڑ حفاظت کیلئےہے ۔ اپ کی زمینوں کیلئےراستہ بھی چھوڑ دیں گے اور ریاست حفاظت بھی کرے گی ۔ بھر پور احتجاج کیا گیا لیکن کسی کی بھی نہیں سنی گئی ڈنڈے کے زور پر باڑ لگا دی گئی ۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں افغان فورسز جس کا کنٹرول اینڈ کمانڈ طالبان کے ہاتھوں میں ہے نے طوری بنگش قوم کے زمینوں میں ڈیفینس روڈ بنانا شروع کردیا ۔ ریاستی ذمہ داروں سے رابطہ کیا گیا تو نہ باڑ لگاتے وقت وعدوں کی پاسداری کی گئی نہ افغان ڈیفنس روڈ کے روکنے کی کوشش کی گئی ۔ ذمینداروں نے جاکر اپنے زمینوں پر احتجاج کیا ۔ افغان طالبان نے عوام اور پاکستانی گاوں بوڑکی اور خرلاچی پر اندھادھند فائرنگ کردی۔ رات گئے فائربندی کروادی گئی۔ 20 نومبرکو افغان فورسز طالبان اور مقامی افغانی آبادی نے ملکر بارڈر پر پاکستانی گاوں فوجی چھاونیوں اور چیک پوسٹوں پر حملہ اور ہوکر ایک بار پھر اندھا دھند فائرنگ کی ۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی چوکیوں میں موجود جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور درجن بھر فوجی اور سویلین زخمی ہوچکے ہیں ۔ ایک بار پھر جنگ بندی ہوگئی ۔ کمانڈر نے مقامی مشران سے کہا ہے اب مذاکرات اسلام آباد میں ہونگے ۔ریاست اور ریاستی ادارے جنگ روکنے اور دھرتی کے انچ انچ کی حفاظت کریں ۔ مذاکرات حل نہیں اینٹ کا جواب اینٹ سے دیں گے تو زمینیں واگزار ہونگیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان فورسز کی آبادی اور چیک پوسٹوں پر فائرنگ پاکستان کے سالمیت پر حملہ ہے ۔ ریاست 44 ہزار کنال زمین جان بوجھ کر باڑ کے پیچھے افغانستان کی طرف کیسے چھوڑ سکتا ہے ۔ جب کہ ریوینیوریکارڈ میں ان زمینوں کے انتقالات گاوں بوڑکی اور خرلاچی والوں کے ہیں۔ یہ بد نیتی عوام دشمنی ملک دشمنی تھی ۔ اب اس کا خمیازہ بھی ان ہی طاقتوں کو بھگتنا پڑے گا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ کرم کے طول وعرض میں تنازعات کا پرامن تصفیہ ہو رہا تھا ۔ جس میں پیواڑ کا تنازعہ جرگے نے حل کردیا ۔ مٹھائیاں بھی محکمہ مال نے تقسیم کئے ۔ اگلے دن نشاندہی کرنی تھی کہ جرگہ ممبران بمعہ ریوینو سٹاف پیواڑ گئے تو ریاست کے کچھ ذمہ داروں نے چیک پوسٹ پر روک کر آگے نشان دہی کرنے سے روک دیا گیا ۔ شام کو جرگے ممبران کو اٹھا کر ڈرایا دھمکایا گیا ۔ اگلے دن تصفیہ شدہ قبول شدہ فیصلے سے روگردانی کرائی گئی، شام کو مذکورہ بارڈر کا واقعہ پیش آیا۔ جس کو ہم سوچھی سمجھی سازش سمجھتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری زمینیں باڑ کے اندر لےکر آئیں اور ہمارے علاقے پر طالبان حکومت کی دراندازی کا جواب مانگا جائے۔