وحدت نیوز (گلگت) سیاسی کونسل مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کا ایک اہم اجلاس سیکرٹری سیاست ایم ڈبلیو ایم جی بی و رکن گلگت بلتستان کونسل شیخ احمد علی نوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پارلیمانی لیڈر ایم ڈبلیو ایم و اپوزیشن لیڈر کاظم میثم، رکن جی بی اسمبلی شیخ اکبر رجائی، رہنما مجلس وحدت مسلمین غلام عباس،حاجی محمد علی اور عارف قنبری نے شرکت کی۔
اجلاس میں گلگت بلتستان کی سیاسی، معاشی ترقیاتی اور امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ امپورٹیڈ حکومت یکسر ناکام ہوچکی ہے اور عوام کو بجلی، پانی، انٹرنیٹ سمیت دیگر سہولیات دینے میں یکسر ناکام ہو چکی ہے۔ گلگت بلتستان کی مخلوط حکومت نہ صرف فیصلوں میں آزاد نہیں ہے بلکہ عوام دشمن فیصلے بھی ان سے کروا رہی ہے۔ پورے خطے میں ترقیاتی عمل جمود کا شکار ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کو بھی انگیج کرنے میں یہ ناکام ہوگئی ہے۔ سی ڈی ڈبلیو پی سے ہیلتھ کارڈ پروجیکٹ منظور ہونے کے باوجود اب بھی گلگت بلتستان میں ہیلتھ کارڈ بحال نہ ہونا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہیلتھ کارڈ بحال نہ ہونے کی وجہ سے غریب عوام صحت کی سہولت کے لیے انتہائی مشکلات اور پریشانی سے دوچار ہے۔ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہیلتھ کارڈ کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
اجلاس میں گلگت بلتستان کی ترقیات اور مالی معاملات کے جمود بلخصوص پسند ناپسند پر ریلیز اور ریویژنزکو خطے کو نئے بحران اور نئی تقسیم کی طرف دھکیلنے کی کوشش قرار دی گئی۔ ترقیاتی عمل میں غیرمنصفانہ رویے کو روکا نہ گیا تو نئے بحران جنم لیں گے۔ پورے خطے میں مخصوص ریجنز (REGIONS)کو محروم رکھنا ریاست کی سوتیلانہ سلوک ہے چاہے عدالت میں تقرریاں ہوں یا اعلی افیسران کی تعیناتیوں میں میرٹ سے ہٹ کر متعصبانہ روش قابل قبول نہیں۔ گلگت بلتستان میں ہونے والی بدانتظامی، حکومت کی ناکامی اور کرپشن کا بازار گرم ہونے کا اعلان حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود ذمہ داروں کا آنکھیں بند کرکے بیٹھنا اور سب ٹھیک ہے کا راگ الاپنے کی کوشش عوام میں غم و غصے میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ ذمہ داران جس طرح کے فیصلے کرچکے ہیں اس کے نتیجے میں نہ صرف جائزیت زیر سوال آتا ہے بلکہ اخلاقیات اور شریعت بھی اجازت نہیں دیتی کہ زبردستی کسی کا حق چھین کر دوسرے کو تفویض کرے جو کہ خدا کے نزدیک بھی قابل مواخذہ ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ ریاست گلگت بلتستان میں مزید تقسیم اور مزید ناانصافیوں پر مبنی فیصلے کروانے سے نام نہاد حکومت کو باز رکھیں ورنہ ان محرومیوں اور زیادتیوں کو عوام میں لے کر جانے پر مجبور ہوں گے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ رمضان کا پہلا عشرہ اندھیرے میں گزر گیا ہے۔ حکومت افطاری اور سحری پر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اجلاس میں انٹرنیٹ کی عدم فراہمی پر شدید تشویش کا اظہار کیاگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ نئی کمپنونیز کو بھی فائبر بچھانے کی این او سی جاری کی جائے۔ اس سے طلبا اور نوجوانون کے لیے تعلیم و روزگار کا نیاباب کھل سکتا ہے۔اجلاس میں ملک میں ہونے والے انتخابات کے جعلی نتائج کو یکسر مسترد کیا اور عوامی مینڈیٹ کی چوری کو ملک کے استحکام پر گہرا وار اور جمہوریت پر کاری ضرب قرار دیا گیا۔ اقلیت کو اکثریت پر زبردستی مسلط کرنے پر جہاں جائزیت نہیں ہوتی وہیں حکومتی کسی بھی فیصلے کو عوام تسلیم نہیں کرتی۔ انتخابات میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے آزادانہ ماحول نہ دینے اور جبر و تشدد کے ذریعے عوامی مینڈیٹ چھیننے کو بھی غیرجمہوری غیرآئینی اور غیراخلاقی قرار دیا گیا۔ رمضان المبارک میں ملک بھر کی جیلوں میں موجود سیاسی قیدیوں بلخصوص خواتین قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔