وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مجلس وحدت مسلمین کے پارلیمانی لیڈر محمد کاظم میثم نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ استور سیلاب متاثرین بے یارومددگار ہیں، حکومت عوام سے بیگانہ ہوچکی ہے۔
نگر سیلاب متاثرین کی بھی داد رسی کے لیے کوئی تیار نہیں ہے،۔سکردو کواردو کتپناہ کو تو پہلے ہی دریائی کٹاو کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔گلگت بلتستان میں جاری سیلابی تباہ کاریوں پر وفاق کو انگیج کرنے کی ضرورت ہے۔
استور حلقہ ایک کے عوام اور سیلاب متاثرین کو دیوار سے لگایا گیا ہے۔استور کا جرم یہ ہے کہ اس خطے نے خالد خورشید جیسا بہادر بیٹا دیا۔خالد خورشید کے دوبارہ جیتے ہوئے حلقے کے رزلٹ کو تاحال روکے رکھنا بدترین عوام دشمنی ہے۔
ایک طرف بجٹ میں امتیاز، ظلم وزیادتی، ایف آئی آر اور استحصال کرتے ہوئے دوسری طرف چاہتے ہو عوام قصیدے پڑھیں یہ ممکن نہیں ہے۔گانچھے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اقدامات نہیں ہو رہے۔
گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو رام کہانی سناکر مطمئن نہیں جاسکتا، وہ ایک ایک ظلم کا حساب لیں گے۔عوام اور جوانوں سے تعریفیں سنیں ہیں تو اس خطے کے مذاق اور مظالم بند کرنا ہوگا۔ہم جھوٹی تسلی دینے والے نہیں بلکہ عوام کے نمائندہ ہیں اور سچ یہی ہے کہ عوام کو مطمئن کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
میک اپ سے مسائل حل نہیں ہوتے اصل مدعا یہ ہے اس عوام پر فیصلے تھوپتے ہیں اور ڈرا کر وقت نکالنا چاہتے ہیں۔جی بی کے عوام کو ہانکنے کی کوشش نہ کرے، عوام یہاں ہونے سے مظالم سے ان کے صبر کے پیمانے لبریز ہو رہے ہیں۔
شغرتھنگ روڈ کے ٹینڈر کو منسوخ کرانے والے قوم کے مجرم ہیں، ابھی تک اسے فورم سے نہیں گزارا گیا ہے۔ان سب کو خطہ دشمنی کا نام نہ دے تو کیا کہا جائے۔
امجدایڈوکیٹ شغرتھنگ روڈ کی ٹینڈر منسوخی پر جواز دے رہے تھے ایک سال ہوگئے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔اتحادی حکومتیں بھی اس منصوبے کو روکنے کے ذمہ دار ہیں اور عوام معاف نہیں کریں گے۔
شغرتھنگ روڈ پہ حکومتی وزرا نے کہا تھا ایک ماہ بعد دوبارہ ٹینڈر کرانے کا چیلنج کیا تھا وہ سب کدھر چھپے ہیں۔عوام ان تمام ریجنز کے پروجیکٹس اور عوامی مفاد کے ساتھ کھیلنے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔
بلتستان میں سیکنڑوں ایف آئی آرز کے بعد اب نگر میں بھی متعدد افراد پر ایف آئی آر ہوچکی ہیں۔گندم سروے میں جسطرح کی ہیرا پھیری ہو رہی ہے اسکے نتائج آنے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام سڑکوں پہ ہوں گے۔چالیس فی صد دیہی ابادی کے پاس ب فارم نہیں ہے اور پروسز اتنا پیچیدہ بنایا ہوا ہے کہ دنوں میں حل نہیں ہوسکتے۔
ہم ڈیجیٹائزیشن کے خلاف نہیں بلکہ اسکی آڑ میں جو خطے میں بے چینی ہونی ہے وہ کسی کی سوچ ہوگی۔حالیہ سروے کرانے کا مقصد واضح ہے کہ یہ حکومت 2023 کی مردم شماری کو تسلیم نہیں کرتی۔گندم کی فراہمی حالیہ مردم شماری کے تحت نہ کرنا پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس پر عدم اعتماد ہے۔
مردم شماری کے عارضہ پتے سے واضح ہوتا ہے کہ کونسا گھرانہ کہاں رہائش پذیر ہے مزید تسلی کے لیے خاندان کوڈ سے ایک دفعہ ویریفائی کیا جاسکتا ہے۔گندم کا حالیہ بحران خودساختہ بحران ہے اور یہ گندم گلبر کی حکومت نے نہیں عوام نے چھین کے لی تھی۔
گلگت شہر، نگر سکردو، غذر کے بعد اب چلاس میں بھی احتجاج کی تیاری ہو رہی ہے۔جس انداز میں مختلف علاقوں میں سات کلو گندم کا جھانسہ دیکر سروے کرایا جا رہا ہے تماشہ اس وقت ہوگا جب یہ ڈیٹا نادرا سے ویرافائی نہیں ہوگا۔
محکمہ خوراک یہ ساری کاوشیں، انتظامیہ کی دھمکیاں اور گلبر سرکار کی ایف آئی آر الٹی ہونگی جب سسٹم اسے ریجکٹ کرے گا۔
ایسی سرویز کے لیے شناختی کارڈ اور ب فارم سو فی صد مکمل ہونا ضروری ہے ورنہ وہ تمام افراد گنتی میں شامل نہیں ہوں گے جن کے شناختی کارڈ ایکسپائر ہو، کارڈ نہ بنا ہو یا جن بچوں کے ب فارم نہ ہو۔
ہم ایک بار پھر واضح کرتے ہیں کہ عوامی تحفظات درست جبکہ حکومت ہٹ دھرمی کا شکار ہے۔