وحدت نیوز(آرٹیکل) ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح فلسطین کے علاقہ غزہ میں الشجاعیہ نامی علاقہ میں یکم جنوری 1958ء کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم، اسی علاقہ میں ہی حاصل کی اور پرائمری اسکول سے پاس ہونے کے بعد میٹرک بھی اسی علاقہ کے ایک اسکول سے کیا۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم مصر میں حاصل کی اور معاشیات میں گریجویٹ ہونے کے بعد غزہ میں واپس مقیم ہوگئے اور یہاں پر آپ نے غزہ کی ایک اسلامی جامعہ میں معاشیات کے مضمون کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کیں۔ یہ سنہ1981ء کی بات ہے، اس وقت فلسطین کے متعدد علاقوں پر غاصب صہیونیوں کا قبضہ تھا اور فلسطین روزانہ صہیونیوں کے مظالم سے گزر رہا تھا۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ زمانہ طالب علمی سے ہی فلسطین میں سرگرم عمل ’’جہاد اسلامی فلسطین‘‘ نامی تنظیم سے متاثر تھے، آپ خود بھی فلسطین پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط اور فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف تھے۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ اسلامی یونیورسٹی آف غزہ میں تدریس کے دوران طلباء کو حریت پسندی کا درس دیتے تھے اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور مزاحمت کی تدریس کرتے تھے۔ یہی وجہ بنی کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ کی اس یونیورسٹی میں آپ کو تدریس کا عمل جاری رکھنے سے روک دیا اور رمضان عبد اللہ کو ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔ اس زمانہ میں آپ کو شدید تکالیف برداشت کرنا پڑیں، لیکن آپ نے نوجوانوں کے لئے اسلامی مزاحمت کا درس جاری رہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ سنہ 1986ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، جہاں سے انہوں نے لندن کی مشہور جامعہ ڈرم سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لندن میں مقیم رہتے ہوئے بھی آپ نے ہمیشہ فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کرتے رہنے کی کوشش کی اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ یہاں بہت سے دوستوں کے ساتھ آپ نے قریبی تعلقات قائم کئے اور ان کو فلسطین کے حالات پر نظر رکھنے اور فلسطین کے لئے سرگرم عمل جہاد اسلامی فلسطین کی خدمات پر ان کی مدد کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ نے لندن سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کویت میں شادی کی اور اس کے بعد واپس لند چلے گئے اور وہاں سے امریکہ کا سفر اختیار کیا۔ آپ نے سنہ 1993ء اور سنہ1995ء میں جنوبی فلوریڈا میں تدریسی فرائض انجام دیئے۔ آپ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے، جن میں سے ایک زبان عبری زبان بھی ہے۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ جس زمانہ میں مصر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، اسی زمانہ میں ان کی ملاقات فلسطین کی جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک عظیم مجاہد اور جہاد اسلامی فلسطین کے بانی ڈاکٹر فتحی شقاقی سے ہوئی۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شہید فتحی شقاقی کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے، حالانکہ رمضان عبد اللہ معاشیات کے شعبہ میں تھے جبکہ فتحی شقاقی طب کے شعبہ میں تھے۔ ڈاکٹر فتحی شقاقی نے رمضان عبد اللہ کو اس زمانے کے اسلامی قائدین جن میں امام حسن البناء، سید قطب کی کتابوں سے آشنا کروایا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب تازہ تازہ رونما ہوا تھا۔ اس دوران فتحی شقاقی ایران کے اسلامی انقلاب کو بھی دقیق نگاہ سے مشاہدہ کر رہے تھے اور انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی سے بے حد متاثر تھے۔ فتحی شقاقی نے رمضان عبد اللہ کو امام حسن البنا، سید قطب اور امام خمینی کی کتب اور افکار و نظریات سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی چلی گئی اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ دونوں نے مشورہ کیا کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے لئے جہاد اسلامی فلسطین نامی تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اس زمانہ میں فتحی شقاقی اخوان المسلمون سے منسلک تھے اور طلاءع الاسلامیہ نامی ایک چھوٹے سے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ رمضان شلح بھی اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد اس تنظیم کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس میں مزید فلسطینی طلباء کی بڑی تعداد شامل ہوگئی۔ وہیں سے اسلامی جہاد کی بنیاد پڑی، مگر رمضان شلح غزہ واپسی کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر فتحی شقاقی اور ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کی دوستی گہری سے گہری تر ہوتی رہی اور دونوں کی فکر اور نظریات بھی فلسطین کو صہیونی شکنجہ سے نجات دلوانے کے لئے یکساں تھے۔ ڈاکٹر الشقاقی اور رمضان شلح برطانیہ اور اس کے بعد امریکا میں بھی ایک دوسرے سے جا ملے اور انہوں نے مل کر جہاد فلسطین کے لیے ایک تنظیم کے قیام پر کام شروع کیا۔ اس طرح باقاعدہ جہاد اسلامی فلسطین کا قیام عمل میں لایا گیا۔
غاصب صہیونی دشمن ہمیشہ سے ڈاکٹر فتحی شقاقی کی سرگرمیوں سے خوفزدہ تھا اور جہاد اسلامی فلسطین کے قیام کے بعد سے اسرائیل کو مختلف موقع پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مجاہدین کی کارروائیوں میں اسرائیل کو اکثر نقصان اٹھانا پڑتا تھا، اس ساری کامیابی کا سہرا شہید رہنماء ڈاکٹر فتحی شقاقی اور ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے سر تھا۔ سنہ 1990ء میں صہیونی غاصب اسرائیل کی بدنامہ زمانہ دہشت گرد ایجنسی موساد نے ایک بزدلانہ کارروائی میں جہاد اسلامی فلسطین کے بانی رہنما ڈاکٹر فتحی شقاقی کو مالٹا کے دورے کے دوران شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد تنظیم کی قیادت کی ذمہ داری ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے کاندھوں پر آن پڑی، جس کو انہوں نے اپنی وفات تک نبھایا۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح نے جہاد اسلامی فلسطین کے بطور سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریوں کو احسن انداز سے نبھایا اور اپنے عزیز رفیق شہید فتحی شقاقی کے چھوڑے ہوئے نقش قدم پر چلتے ہوئے صہیونی دشمن کی نیندیں حرام کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اعتراف کیا کہ فلسطینیوں کی دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران جہادی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی واصل جہنم ہوئے، جس کے لئے براہ راست اسرائیل نے ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان تمام کارروائیوں کے احکامات خود ڈاکٹر رمضان شلح نے دیئے تھے۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے لئے فلسطین کی زمین تنگ کر دی گئی اور صہیونی دشمن نے ان کے قتل کی منصوبہ بندی میں تیزی لاتے ہوئے جلد از جلد ان کو راستے سے ہٹانے کا پلان بنا لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کو اپنے وطن سے جلا وطن ہونا پڑا اور آپ دمشق تشریف لے گئے، جہاں پر آپ کو دمشق حکومت سے والہانہ انداز سے اپناتے ہوئے دمشق میں جہاد اسلامی فلسطین کا دفتر جو پہلے سے قائم تھا، اسے مزید تقویت دی گئی اور اس طرح آپ بیروت اور دمشق میں رہنے لگے اور صہیونی دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں سے خود کو محفوظ کرتے ہوئے مجاہدین کی قیادت انجام دیتے رہے۔ آپ کی فلسطین کے لئے کی جانے والی جہاد پسندانہ کوششوں کے جرم پر سنہ 2017ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے آپ کو بلیک لسٹ قرار دیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 2003ء میں امریکا کی ایک عدالت نے 53 بین الاقوامی اشتہاریوں میں ڈاکٹر رمضان شلح کو شامل کر دیا تھا۔ سنہ 2007ء کو امریکی محکمہ انصاف نے ان کی گرفتاری میں مدد دینے پر پانچ ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح نے جہاں فلسطین کے لئے مزاحمت کی قیادت کی، وہاں آپ نے فلسطین میں بعد میں قائم ہونے والی تنظیم حماس کے ساتھ بھی بھرپور تعاون جاری رکھا۔ آپ شیخ احمد یاسین کے ساتھ دلی عقیدت رکھتے تھے۔ آپ نے جہاد اسلامی فلسطین کو لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ساتھ بھی بہترین رشتہ میں جوڑ کر رکھا اور اسرائیل مخالف کارروائیوں میں ہمیشہ جہاد اسلامی اور حزب اللہ نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دشمن کو نقصان پہنچایا۔ یہ ڈاکٹر رمضان عبداللہ کی قائدانہ صلاحیت ہی کا نتیجہ تھا کہ خطہ کی دیگر اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ بہترین تعلقات اور تعاون قائم کیا گیا۔ نہ صرف مزاحمتی تنظیموں بلکہ ہر اس حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کئے، جس نے فلسطین کے لئے بھرپور حمایت اور مدد کی، اس میں سب سے زیادہ ایران اور شام سرفہرست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رمضان عبداللہ اکثر و بیشتر ایران کا دورہ کرتے تھے، وہاں اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقات کرتے اور موجودہ حالات پر گفتگو کرتے تھے۔
ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح سنہ 2018ء میں علیل ہوگئے اور آپ کی علالت کے بعد تنظیم نے زیاد النخالہ جو کہ آپ کے نائب تھے، ان کو تنظیم کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ آپ تین سال بیروت کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 6 اور 7 جون کی درمیانی شب ہفتہ کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ طویل علالت کے بعد انتقال کرنے والے اسلامی جہاد کے عظیم مجاہد رمضان شلح نے پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ، اپنے وطن اور قضیہ فلسطین کی خدمت میں گذاری۔ ان کی زندگی جود و سخا، جہاد، مزاحمت اور خدمت خلق کا مجموعہ تھی۔ آپ نے سوگواروں میں دو بچے اور دو بچیاں چھوڑی ہیں۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کی وفات صرف فلسطین کا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کا نقصان ہے اور ہر آنکھ آپ کے لئے اشک بار ہے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(اسلام آباد) فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اور ادارہ مطالعات سیاسی کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک سمینار منعقد کیا گیا جس کا مقصد فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت، عالم استکبار کی اسلام دشمن پالیسیوں اور قاسم سلیمانی و رفقا پر امریکی حملے کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔سیمینارمیں سیاسی ،مذہبی اور صحافتی شخصیات سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نامور افراد نے شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ امریکہ نے تیسری عالمی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔تیسری عالمی جنگ سرمایہ دارانہ نظام کی خواہش بھی ہے اور ضرورت بھی۔صدی کی ڈیل کا منصوبہ ناکام اور اسرائیل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
انہوں نے کہا شاہ کے دور میں ایران امریکی سلامتی و مفادات کا اہم ستون تھا۔انقلاب ایران کے بعد امریکہ کا یہ ستون کمزور ہو گیا۔قاسم سلیمانی امریکہ کے اسلام دشمن عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔امریکہ سمجھتا تھا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت لوگوں کو خوف و ہراس کا شکار کر دے گی لیکن جلد ہی اسے اپنی حماقت اور مغالطےکا احساس ہو گیا ہے ۔ قاسم سلیمانی ایک مزاحمت ایک عہد کا نام ہے جسے تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ صدی کی ڈیل کے نام پر فلسطینی عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی صدر نے قاسم سلیمانی کو شہید کرایا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کا مقصد مستقبل کے صدارتی انتخابات میں امریکی قوم کی تائید حاصل کرنا تھا۔فرحت اللہ بابر نے قاسم سلیمانی کی جرات و تدبر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک قاسم سلیمانی زندہ رہے امریکہ کو ڈیل آف سنچری پر بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔قاسم سلیمانی ایک مزاحمتی فکر و کردار کا نام ہے۔ایران وہ واحد ملک ہے جو ظلم وناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنا جانتا ہے۔عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو منظم طریقے سے پاکستان میں داخل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ارض پاک تک داعش کی رسائی روکنے میں ایران اور قاسم سلیمانی کا کلیدی کردار رہا ہے۔
سینئرتجزیہ نگار اور صحافی ایاز امیر نے کہا کہ شام میں مسلمانوں کی کامیابی اور دہشت گرد گروہوں کی شکست میں ایران نے جاندار کردار ادا کیا۔قاسم سلیمانی کے شہادت کے بعد ایران کےحوصلے اور طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔امریکی بیس پر ایرانی حملے کے نتیجہ میں کسی بھی قسم کےجانی نقصان نہ ہونے کا امریکی دعوی غیر حقیقی ہے۔حملے کے وقت بیس میں امریکی فوجی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے ریاست کے خلاف جنگ کی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں صرف مسلم ممالک ہی ہیں جنہیں شدید ترین نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ عسکری اعتبار سے حزب اللہ دنیا کی بہترین فوج ہے۔انہوں نے اسرائیل میں فلسطینی مسلمانوں کے دفاع کے لیے حماس کے کردار کی بھی تعریف کی۔
فلسطین فاونڈیشن کے رہنما صابرابومریم نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی کڑی ہے۔امریکہ ڈیل آف سنچری کی آڑ میں فلسطین کے وجود کو مٹانا چاہتا ہے۔امریکہ اور عالمی قوتوں کا یہ اقدام زمینی حقائق سے متصادم ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ریاست کے باسی اپنی جان سے زیادہ اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہیں۔فلسطین کے حوالے سے عمار مغینہ اور یاسر عرفات ہم خیال و ہم نظریات تھے۔اسرائیل نے عمار مغینہ کو شہید کر کے شام میں عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی راہ ہموار کی۔قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا مقصد "صدی کی ڈیل"کے منصوبے کو فعال رکھنے کے لیے مضبوط رکاوٹ کو راستے سے ہٹانا تھا۔۔
سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ادارہ مطالعات سیاسی کے رہنما سجاد بخاری نے کہا کہ امت مسلمہ کے خلاف استعماری قوتوں کی عسکری منصوبہ بندی چاہے کتنی ہی منظم کیوں نہ ہو مقاومتی بلاک کو کمزور نہیں کر سکتی۔امریکہ کو قطعاًاندازہ نہیں تھا کہ عالم اسلام کے نڈر مجاہد قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کی اسے کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ مشرق وسطی میں مسلم کُش پالیسیوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ قاسم سلیمانی تھے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ جس "صدی کی ڈیل" کے خواب دیکھ رہا اس کی تعبیر انتہائی گھناؤنی ہو گی۔
تنظیم اہل حرم کے رہنما علامہ گلزار نعیمی نے کہا کہ مشرق وسطی میں کوئی شیعہ سنی جنگ نہیں بلکہ اہل باطل کے خلاف اہل حق کا قیام ہے۔باوقار قوم اسے کہتے ہیں جو غلط کو غلط کہنے کی اخلاقی جرات رکھتی ہو۔قاسم سلیمانی اس اعتبار سے امتیازی شناخت رکھتے تھے۔ عالم اسلام کے لیے ان کا کردار لائق تحسین ہے
وحدت نیوز(کراچی) فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی اپیل پر ملک بھر میں یوم یکجہتی فلسطین منایا گیا۔ مرکزی پروگرام کراچی میں نرسری تا پریس کلب تک یکجہتی فلسطین سائیکل ریلی کا انعقاد کیا گیا۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے سائیکل ریلی میں سینکڑوں نوجوانوں سمیت شرکت کی اور فلسطین و کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ واضح رہے کہ انتیس نومبر کو دنیا بھر میں فلسطینیوں کا عالمی یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع اور آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت یروشلم (القدس) ہے کے قیام کا مطالبہ کرنا ہے۔
یکجہتی فلسطین سائیکل مارچ میں نوجوانوں کے ساتھ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ علامہ قاضی نورانی، محفوظ یار خان، میجر قمر عباس، اسرار عباسی، مطلوب اعوان، محمد حسین محنتی، مسلم پرویز، مولانا صدیقی قادری اور صابر ابو مریم سمیت دیگر شریک ہوئے۔
شرکاء نے کراچی پریس کلب پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔ القدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے اور دنیا کی کوئی طاقت فلسطین کی حیثیت تبدیل کرنے کا حق نہیں رکھتی ۔ انہوں نے فلسطین کی آزاد و خود مختار ریاست جو کہ سنہ ۴۸ کی سرحدوں پر محیط ہو اس کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے اور فلسطین کے باشندوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن واپس آئیں۔
انہوں نے فلسطین و کشمیر میں جاری صہیونی اسرائیلی اور بھارتی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین و کشمیر میں ہونے والی بربریت کے خلاف اقدامات کریں۔ اس موقع پر شرکاء نے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے زیراہتمام فلسطین و بیت المقدس اور مسجد اقصی کی آزادی کے لئے جیکب آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی پاکستان تحریک انصاف کے رہنما انور خان سومرو پی ٹی آئی یوتھ کے صوبائی نائب صدر راز خان پٹھان عوامی پارٹی کے چیئرمین دلمراد لاشاری ڈیلی ستارہ سندھ کے ایڈیٹر ممتاز صحافی عبدالرحمن آفریدی جمعیت علماء اسلام کے رہنما حماد اللہ انصاری اصغریہ آرگنائزیشن کے صدر سید غلام شبیر نقوی جماعت اہل سنت کے رہنما مولانا دین محمد پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما وسیم لطیف مہر استاد عبدالفتاح ڈومکی ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی سیکرٹری جنرل آغا سیف علی ڈومکی و دیگر نے خطاب کیا۔
اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہاہے کہ جمعہ الوداع عالمی یوم القدس کے موقعہ پر پاکستان کے غیور عوام مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے جسے تسلیم کرنے کی ہر سازش ناکام بنا دیں گے۔
اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما محترم انور خان سومرو نے کہا کہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی ہے چاہے وہ فلسطین کے مسلمان ہوں یا کشمیر کے۔ ہم فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے رہنما حماد اللہ انصاری نے کہا کہ افغانستان و عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد امریکہ آج بھی دھشت گردی کی علامت بن چکا ہے۔ اسرائیلی مظالم کو مکمل امریکی سرپرستی حاصل ہے۔
وحدت نیوز(کراچی) فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام کراچی کے مقامی ہوٹل میںالقدس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں سیا سی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں کی شرکت۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہناتھا کہ فلسطین کا ساتھ دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔دنیا کی بہت سی اقوام انسانیت کی خاطر فلسطینی عوام کا ساتھ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی وہ واحد قوم ہےجو ٹینکوں کے مقابلے میں پتھر سے لڑتی ہے۔ آج فلسطینی بچے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے شہادت کی خواہش رکھتے ہیں۔ سینٹر سراج الحق کاکہنا تھا کہ پاکستان ایک نظریہ اور ایک کلمہ ہے، پاکستان کا اول و آخر اسلام ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ فلسطین کا ساتھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بحیرہ عرب میں امریکی بحری بیڑہ موجود ہیاور امریکہ ایران پر حملے کے لئے پر تول رہا ہے جو مسلم امہ کے لئے نقصان دہ ہے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودیہ عرب کی ٹینشن سے اسرائیل فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ مسلم امہ کو آپس میں لڑوا کر وہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی، پاکستان اسرائیل کو تسلیم بھی کرلے تو اسرائیل اس کو اہمیت نہیں دے گا کیوںکہ اس کے لئے بھارت اہمیت کا حامل ہے، بھارت اسرائیل اور امریکہ ایک ٹرائیکا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ فلسطین کا معاملہ ہمارے دل کے قریب ہے، اسرائیل کیساتھ عرب ممالک کے تعلقات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو روکنے کے لئے مسلم امہ نے اسرائیل کیساتھ تعلقات بحال رکھے ہوئے ہیں۔ محمدزبیر کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم مسئلہ فلسطین کو اٹھائیں گے تو ہم کشمیر کے مسئلے کو بھی عالمی سطح پر بہتر اٹھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے فلسطین قبلہ اول کی وجہ سے اہم ہیاور پاکستانی دفتر خارجہ کو چاہیے کہ فلسطین کے موضوع کو عالمی سطح پر اُٹھائے۔
القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ فلسطین میں جو مظالم جاری ہیں ان پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوم القدس کو پاکستان میں سرکاری سطح پر منا نا چاہیئے۔فاروق ستار نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل کے مظالم انتہائی افسوس ناک ہیں،امریکی صدر نے فلسطین کو صہیونیوں کی جاگیر بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان واضح اور ٹھوس موقف کے ساتھ تسلسل کے ساتھ فلسطین کاز کی حمایت کرتی رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسرار عباسی کاکہنا تھا کہ حکومت فلسطین کاذ کیلئے ہر سطح پر آواز اُٹھائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے زور دیا گیا مگر وزیراعظم عمران خان نے اس کوقبول کرنے سے انکا ر کر دیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین صوبہ سند ھ کے سیکریٹری جنرل علامہ باقر زیدی، سابق رکن سندھ اسمبلی محفوظ یار خان، ڈاکٹر عالیہ امام، علامہ قاضی احمد نورانی، پیر ازہر ہمدانی، ارشد نقوی، میجر قمر عباس، نعیم قریشی، مسلم پرویز اور صابر ابو مریم نے کہا کہ آج اسرائیل محصور ہے، اسرائیل نے داعش کو بنایا کہ وہ شام کو ختم کر کے اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا مگراس کی تمام تدبیریں الٹی پڑ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا وجود اب ختم ہونے والا ہے۔ امام خمینی نے کہا تھا کہ فلسطین کے مسئلے کا واحد حل مقاومت ہے، آج فلسطین اور غزہ کے مظلومین اپنے دفاع کے لئے اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ امریکا جو 15 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے وہ عالمی ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینی مقاومت کا ہر ممکن ساتھ دیں گے، ہم فلسطین اور کشمیر کے حل کے لئے کی جانے والی ہر کوشش میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اسرار عباسی کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کے عظیم مقصد کے لئے ہم ہرلمحہ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خدا ہمیں فلسطین کے موضوع کیلئے تمام امور کی انجام دہی کرنے کی توفیق دے۔ کانفرنس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے یوم القدس کو سرکاری سطح پر منانے کی قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ نصاب تعلیم میں مسئلہ فلسطین کو شامل کیا جائے۔کانفرنس میںپاکستان میں موجود فلسطینی طلباءکے صدر محمد زیدان سمیت معروف سیاسی وسماجی شخصیات میں کرامت علی، احمد خان ملک، امتیاز فاران،، سید شبر رضا، میجر قمر عباس، ارم بٹ، الحاج محمدرفیع۔، نعیم قریشی،محمد عاقل، پروفیسر ہارون رشید، ایڈوکیٹ ملک طاہر، عبد الوحید یونس، ریحان عابدی و دیگر شریک تھے۔