وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ رمضان المبارک رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا مہینہ ہے۔امت مسلمہ اپنے نفس کی پاکیزگی کے لیے اس ماہ میں عبادات کاخصوصی اہتمام کرتی ہے اس لیے سارا سال اس مقدس ماہ کا انتظار رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بار رمضان المبارک ایسی آزمائش کی گھڑی میں آ رہاہے جس میں ہماری ذمہ داریاں اور واجبات پہلے سے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئے ہیں۔لاک ڈاؤن کے باعث نادار اور مفلس افراد کو گھریلو مشکلات کا سامنا ہے۔ایسے گھرانے جو تنگدستی میں گزر بسر کر رہے ہیں انہیں ضروریات زندگی کی اشیا مہیا کر کے رمضان میں دہرا ثواب کمایا جا سکتا ہے۔ہر صاحب استطاعت کو چاہیے کہ وہ اپنے گرد و نواح میں ایسے گھرانوں کو نظر میں رکھے ۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس سے بچاؤ کا واحد حل احتیاط ہے۔ ہمیں باہمی رابطوں میں ان ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے جن کی طبی ماہرین باربار تاکید کر رہے ہیں۔عبادات اور مذہبی رسومات پر عمل ہمارے ایمان کا حصہ ہے تاہم جب انسانی زندگی کو خطرہ ہو تو مذہبی معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لچک اور گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان میں عبادات اور عزاداری کے پروگراموں کے دوران کورونا سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل کر کے اپنے آپ اور دوسروں کو اس جان لیوا مرض سے بچایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کورونا سے بچاؤ کے لئے حکومتی اقدامات کی پیروی کو تمام مراجع عظام نے واجب قرار دے رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں ملت تشیع کی کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔رمضان المبارک کے دوران سیکورٹی کے معاملات بھی غیرمعمولی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک کو ایک ہی وقت میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ وطن عزیز میں موجود منفی عناصر شرپسندی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ایسی صورتحال میں سیکورٹی اداروں کو چوکس رہنا ہو گا۔

سلام یا حسین {ع}

وحدت نیوز (آرٹیکل) جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجوداہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کاآغازکردیا اور دیکھتے ہی دیکھتےناصبی اپنے اوپر اسلام کالیبل لگاکر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے،یزید کو رضی اللہ اور امام حسین کو نعوذباللہ باغی اور سرکش کہا جانے لگا۔ایک سروئے کے مطابق اس صدی میں ناصبیوں کی فکری تحریک سے سینکڑوں سادہ لوح مسلمان متاثر ہوئے اور جولوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے،ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلاکو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے ۔ گویاجوزہررشدی کے قلم نے رسولِ اکرم ۖ کے خلاف اگلاتھا وہی نواسہ رسول ۖ کے خلاف اگلاجانے لگا۔پوری دنیا میں خصوصاً عراق،افغانستان ،سعودی عرب،ہندوستان اور پاکستان میں ایسےتجزیہ نگار،مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی ،انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کر کے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا یزید کی تعریف اور امام حسین[ع] پر تنقید کی جانے لگی،اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی وہ مجموعی طورپراس بات سےغافل تھے کہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھارہے ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین پر تنقید کرتا ہے،کوئی چینل یزید کی تعریف کرتاہے،کوئی صحافی دہشت گردوں کو امام حسین{ع} کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں تک نامِ حسین{ع} تو پہنچا ہے پیغامِ حسین{ع} نہیں پہنچا۔اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ ناصبیّت کو بے نقاب کر نے کےلئے پیغام کربلا کو عام کریں۔تحریک ِکربلا پر لکھیں،کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں،تنہائی کے لمحات میں کربلا سوچیں،اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصدکربلا سے ہم آہنگ کریں۔۔۔ آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہوجانے کا اہم سبب وہ دانشمند،خطباء اور ادباء ہیں جنہیں حسین ابن علی [ع]کی چوکھٹ سے علم کارزق،افکار کا نور،قلم کی بلاغت،زبان کی فصاحت اوربیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلاکو عوام تک نہیں پہنچاتے،اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو پورا سال حصولِ علم کے لئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔ اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب،جمال وجلال،عشق و عرفان اورخون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تودنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہرمنصف مزاج انسان جب دہشت گردوں اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوجاتے کہ دہشت گردوں کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اس لئے کہ کربلا تو وہ ہے۔۔۔ جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں،جس نے دین ِ اسلا م کو لازوال کردیا،جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کردیا،جس نے سنّت کو زندہ کردیا،جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کردیا،جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا،جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا،جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنادیا،جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطاکیا،جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا،جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کردیا،جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کردیا،جس کے علم کا پھریر ا آفاقِ عالم پر چھایا ہواہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہے گی۔۔۔ کربلاتو وہ ہے۔۔۔جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہوتو شہکارِ رسالت ہے،اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے،اگرآغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے۔ کربلاتو وہ ہے ۔۔۔جس کے امیرنے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جمادیا،جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کردیا،جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلادیا۔ بھلا کیا ربط ہے کربلا کا دہشت گردوں کے ساتھ۔۔۔ یہ ہمارے واعظین ،خطباء،ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کرکربلا پر تحقیق کریں،کربلا لکھیں،کربلا پڑھیں،کربلاخود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔۔۔ اس لئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے دنیاکے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلاجارہاہے،اہدافِ کربلاکی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔

اگر ہم یہ ذمہ داری ادا نہ کرسکیں تو پھرہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سلبِ توفیق کے پیچھے ضرور کوئی بات ہے:

ہراسِ شب میں اب کوئی جگنو بھی سانس تک نہیں لیتا

رات کے سنّاٹے میں فاختہ کی کوک باربار ڈوب جاتی ہے

جواِک آنکھ دنیا پر اور اِک آنکھ دین پر رکھتے ہیں

شہادت کی گھڑی ان کی زباں سوکھ جاتی ہے جھوٹ کے چشمے سے سچ کا پیاسا سیراب نہیں ہوسکتا

مرمرکاپتھر پھونکوں سے آب نہیں ہوسکتا راوی کی موجوں پہ مورّخ چین ہی چین نہیں لکھ سکتا

جومصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑجائے

وہ ہاتھ سلام یا حسین {ع} نہیں لکھ سکتا

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) کربلا توحید کی فتح کا نام ہے۔ امام حسین نے کربلا میں قربانی دے کر توحید، نبوت ،ولایت  اور جرات و شجاعت کو ابدی حیات بخشی اور کربلا کے بعد کوفہ و شام کے بازاروں و درباروں میں جاکر ثانی زھراء حضرت زینب ؑاور امام سجادؑ نے قربانی و مقصد امام حسینؑ کو حیات جاوید انی عطاءکی ۔

جی چاہتا ہے کہ آج بات کچھ یزید کے مکروفریب کی ہاجائے، یزید کے مکر پر بات کرنے سے پہلے ہم تھوڑی سی بات مادہ “مکر “پر  بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی اردو زبان میں  مکر ،دھوکہ و  فریب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور عربی میں مکر کا معنی چال ،چالاکی ، دوراندیشی ، منصوبہ بندی اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں۔

 قرآن میں بھی اللہ نے مادہ مکر کو خفیہ تدبیر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ “کافروں نے بھی مکر کیا اور اللہ نے بھی “اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے[1] .

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کربلا کی جنگ کے بعد یزید نے کیا مکر کیا اور اللہ نے کیا خفیہ تدبیر کی۔ اس کو ہم اس مثال سے واضح کرتے ہیں کہ  تاریخ کے اوراق میں بات درج ہے کہ نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا، ایک بندے کو جلانے کے لیے کتنی لکڑیوں کی ضرورت ہے ،بیس کلو ،چالیس کلو، زیادہ سے زیادہ دو من ،دومن لکڑی کے کر نمرود حضرت ابراہیمؑ کو جلا دیتا ،کیوں اس نے اعلان کیا کہ میری سلطنت میں رہنے والا ہر شخص لکڑیاں لے کے آئے ۔۔۔

دراصل  نمرود ایک چال چل رہا تھا وہ یہ کہ نمرود دنیا والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ میں توحید کو جھٹلا کر اپنے مقابلے میں آنے والے نمائندہ توحید کو جلانے جا رہا ہوں۔گویا میں اعلانِ توحید  کا مقابلہ کرنے جا رہا ہو ں ،لوگو! آکر دیکھو میرے مقابلے میں آنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے  ۔ لوگ گھوڑوں ، اونٹوں، کدھوں پر لکڑی لاکر جمع کرنے لگے لکڑیوں کا ایک بہت بڑا ڈھیر لگ کیا آگ جلائی گی آگ کی شدت اتنی تھی کہ کئی کلو میٹر تک اس کی تپش جارہی تھی ایک منجنیق کے ذریعے سے حضرت ابراہیمؑ کو اس آگ میں ڈالا گیا ،اب نمرود نے انتا بڑا انتظام کیا ،لکڑی جمع کی ،لوگ بلائے ۔۔۔لیکن پروردگار نے صرف آگ کوحکم دیاکہ گلزار ہو جا !

آگ گلشن میں تبدیل ہوگی اور نمرود کی ساری کی ساری منصوبہ بندی پر پانی پھر گیا۔ اسی طرح اللہ نے اپنی خفیہ تدبیر کے ذریعے سے اپنے نبی کو امتحان میں کامیاب فرما کر توحید کو فتح عنایت فرمائی ۔

 دوسری طرف یزید نے بھی واقعہ کربلا کے سلسلے میں ایک چال چلی،اس وقت عرب میں یہ قانون تھا کہ جنگ کے بعد بچ جانے والوں کو قیدی بناکر قید خانے میں رکھتے تھے ،یا کچھ رقم لے کر چھوڑ دیتے تھے، لیکن یزید نے اپنے منصوبے کے مطابق کربلا کی جنگ کے بعد زندہ رہ جانے والے بچوں و خواتین کو قیدی بنا کر بازاروں میں لے جانے کا حکم دیا اور کوفہ و شام میں منادی کرا دی کہ فلاں دن سارے لوگ بازاروں میں جمع ہو کر خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے والے قیدیوں کا تماشا دیکھیں۔

 یزید اور ابن زیاد یہ چاہتے تھے کہ جونہی یہ قیدیوں کا قافلہ بازار میں داخل ہو گا ہم اعلان کریں گے کہ لوگو! دیکھو جس خدا کے بارے میں یہ بنو ہاشم کہتے تھے وہ کہاں ہے ،اگر خدا ہوتا تو اپنے ان  بندوں کی مدد کرتا پس ان کی بیچارگی و بے بسی سے ثابت ہوا کہ کوئی خدا نہیں ہے ۔

یہ یزید کا مکر تھا کہ اس نے اتنا بڑا انتظام کیا، لوگوں کو جمع کیا ،بازار سجائے۔۔۔لیکن اب خدا کی خفیہ تدبیر دیکھیے ،جونہی قافلہ بازار میں داخل ہوا تو اللہ تعالی نے امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر اقدس سے قرآن جاری فرما کر لوگوں میں یہ ثابت کر دیا کہ کوئی ایسی طاقت ہے جو اس کٹے ہوئے بغیر جسم کے سر سے قرآن پڑھوا رہی ہے اور اس صاحب سر کا اس ہستی سے گہرا تعلق ہے کہ مر کر بھی زبان پر ذکر صرف خدا کا ہے۔

 اسی طرح سے اللہ تعالی نے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان مقدس ہستیوں کے ذریعے اپنی توحید کو فتح عطاء کی  خصوصاًجب کوفہ کے دربار میں یہ قافلہ پہنچا تو ابن زیاد نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا خدا کہا ں ہے بلکہ کہا کہ دیکھو اللہ نے تمھیں کتنا ذلیل کیا ہے اس پر حضرت زینب ؑ نے ایک خوبصورت جملہ کہا کہ مارایت الّا جمیلا یعنی میں نے اللہ کے جمال کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ۔

اور یوں یزید کی بچھائی ہوئی بساط الٹ گئی،توحید کو فتح اور کفر و شرک کی حیلہ کاروں کو دائمی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اب ہر سال محرم الحرام آکر اعلان کرتاہے۔۔۔مکروا ومکراللہ واللہ خیرالماکرین

[1] ومکروا و مکر اللہ واللہ خیر المٰکرین (آل عمران آیت 54 )


تحریر۔ سجاد احمد مستوئی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree