جابر بن حیان

وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر ابن حیان دنیا کے عظیم دانشمندوں میں سے ایک ہے جو علم کیمیاء میں نہ فقط عالم اسلام میں بلکہ غیر مسلموں کے درمیان بھی مشہور  ہے۔وہ نہ فقط علم کیمیاء میں فوق العادہ تھے بلکہ فلسفہ ،منطق اور طب ،نجوم ریاضیات اور فلکیات اور دوسرے علوم میں بھی صاحب نظر تھےلیکن انہیں زیادہ شہرت علیم کیمیاء میں ملا۔برتعلیموجابر کے بارے میں کہتے ہے: جابر بن حیان کا علم کیمیا میں مقام وہی ہے جو مقام ارسطو کو منطق میں ہے ۔سارتون ان کو ایک عظیم دانشمند قرار دیتے ہے جس کی شناخت قرون وسطی میں علم کے میدان میں ہوئی  ۔جابر نے علم کیمیا میں جدید اسلوب استعمال کر کے نئے علوم میں اضافہ کر دیا اور اس کو علم موازین کہلائے ۔ بہت سارے اختراعات اور کشفیات کی جابر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔جابر کی ولادت اوررحلت کی تاریخ جابر کے زندگی کے دوسرے زاویوں کی طرح مبہم رہ گیا ہے۔لیکن 158 سے 198کے درمیان جابر اس دنیا سے چلے گئے جو نقل ہوئی ہے ۔جابر کی محل ولادت اور وہ جگہ جہاں جابر نے بچپن گزاری ہے اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض اس کو کوفی اوربعض خراسانی سمجھتے ہے۔ابن ندیم کہتے ہے: کہ جابر ذاتا خراسانی تھا ۔ویل دورانت کہتے ہے:جابر کوفہ کے کسی داروساز کا بیٹا تھا اور وہ طبابت میں مشغول رہتا تھا اور اپنے اکثر اوقا ت تجربہ گاہ میں گزار تا تھا۔مذہب کے اعتبار سے جابر مکتب تشیع سے تعلق رکھتا تھااور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے خاص روابط رکھتے تھے۔ہولیمارد اس کے بارے میں کہتے ہے:جابر امام صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد اور قریبی دوستوں میں سے تھے اور انکی راہنمائی میں  جابر نے علم کیمیا کوجو اسکندریہ کے زمانے میں ایک افسانے کی طرح مقید تھے آزاد کرا دیے۔اور اس راستے میں کماحقہ اپنے مقصود تک پہنچ گئے اسی لئے جابر کانام ہمیشہ اس فن کے بزرگان جیسے بویل،پریستلی،دلاویز اور دوسرے مشہور دانشمندوں کے ساتھ لئے جاتے  ہے۔جابر اپنے اکثر کتابوں میں اس بات کی یقین دہانی کی ہے کہ  اس نےاپنے علوم  امام صادق علیہ السلام سے حاصل کئے ہیں۔چوتھی صدی کی ابتداء ہی میں جابر کے وجود کے بارے میں شک و تردید کرنے لگے اور بعض نے سرے سے جابر کی وجود سے انکار کرنا شروع کیا۔ابن ندیم جو چوتھی صدی کے درمیانی عرصے میں زندگی کی ہے جابر کے بارے میں کہتے ہے:بعض اہل علم اور کتاب بیجھنے والے [جو اہل علم تھے]کہتے ہیں کہ جابر کا  کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر جابر کا وجود فرض بھی کر لیں تو کتاب  الرحمۃکے علاوہ اور اسکی کوئی تصنیف نہیں ہے اوردوسرے جتنے بھی تصنیفات ہے وہ دوسروں نے لکھی ہے لیکن جابر کی طرف کی نسبت دی گئی ہے۔لیکن  وہ خود ایک استدلال کے ذریعے ان باتوں کو رد کر تاہے۔وہ لکھتےہیں : کون  حاضر ہے کہ سخت محنت و کوشش کرے اور  دو ہزار صفحوں  پر مشتمل ایک کتاب لکھے جس کے لئے وہ اپنی ساری توانائی صرف کرے اور تمام زحمتیں اٹھائے اور اس کے بعد کتاب کی نسبت کسی اور شخص کی طرف دے ۔چاہے دوسرا شخص وجود رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔بہر حال یہ عمل ایک قسم کی جہالت ہے اور کوئی بھی  عاقل اس کام کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔جیسے پل کرواس مستشرق ا تریشی جابر کے وجود کے میں بارے میں شک کرتے ہے۔لیکن جابر کا نام قدماء کے کتابوں میں آیا ہے جیسے ابن ندیم ،حسن بن بسطام بن شاپور،ابوبکررازی،محمد بن علی شلمغانی،ابوحیان توحیدی وغیرہ۔ان سب کے کتابوں میں جابر کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو خود جابر  کے وجود کی دلیل ہے ۔ کہ جابر نامی ایک شخص موجود تھا جوفاضل اور دانشمند تھا۔جس نےدوسری صدی میں حکومت عباسی کے عہد سلطنت میں زندگی کی ہے ۔مکتب تشیع میں سے دوازدہ امامی جابر کو دوازدہ امامی قرار دیتے ہے جب کہ اسماعلیہ اسے اسماعیلی سمجھتے ہے ۔
سید ابن طاووس[م664]کتاب مفرج المہموم میں بعض شیعہ افراد کا نام لیتے ہے جو علم نجوم سے آگاہی رکھتے تھے لکھتےہیں: کہ ان میں سے ایک جابر ابن حیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام کاخاص صحابی تھا۔شیعوں کے درمیان مسلمات میں سے ہے کہ جابر شیعہ اور دازدہ امامی تھا۔سید امین اعیان الشیعہ و آقای بزرگ تہرانی کتاب الذریعۃ فی تصانیف الشیعۃ میں جابر کا باقاعدہ نام لیتے ہیں اور انکی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے شواہد بھی ہے جو جابر کو اسماعیلی قرار دیتاہے۔جیسے سید ہبہ الدین شہرستانی کتاب الدلایل و المسائل میں کہتے ہے کہ جابر اسماعیل کی امامت کا قائل تھا۔لیکن انہوں نے اپنے اس ادعا  پر دلیل پیش نہیں کیا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ جابر نے اپنے کتابوں میں ظاہر وباطن اور عدد سات کا استعمال کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جابر اسماعیلی تھالیکن اسماعیلیہ مذہب اپنے مبانی کو جابر کی وفات سے نصف صدی بعد آغاز کیا ہے ۔بنا برین یہ بات صحیح نہیں ہے۔اندیشہ اسماعلیان دوسری صدی ہجری میں یعنی عصر جابر میں ایک سادہ اندیشہ تھا۔لیکن یہ بات کہ ان کے کلام میں ظاہر و باطن موجود ہے اس طرح کے تاویلات سے اس کے عقیدہ کو اسماعیلی قرار نہیں دے سکتا چونکہ ان میں سے بعض تعابیر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔
جابر کی بہت ساری تصانیفات ہے جو تقریباتین ہزار نو سو کے لگ بھگ ہے ۔جابر کی کتابوں میں سے کتاب الجمع،کتاب الاستتمام کتاب الاستیفاد وکتاب التکلیس کا لاتین میں ترجمہ ہو اہے اور مغربی مفکرین اس سے استفادہ کر رہے ہیں اور بعض کتابیں جو چھپ چکی ہے وہ یہ ہے کتاب الاسطقس،الکمال،البیان،النور الاوجاء،الشمس ،الایجاح،اور کتاب الملک وغیرہ ہے۔
ابتداء میں مسلمانوں کی توجہ الکیمی یعنی مصنوعی سونا بنانے یا سونے کے لئے اکسیر حاصل کرنےکی طرف تھی۔اس میں جدید کیمیاء کا علم ظاہر ہوا ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کیمیاء گری محض سونا بنانے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ادویہ سازی ،معدنیات ،ارضیات اور دفاعی صنعتوں میں علم کیمیاء کے استعمال کی سخت ضرورت لاحق ہوتی تھی ۔اس لئے مسلمان کیمیاء دان زیادہ تر زورعموما علم کیمیاء پر دیتے تھے۔
لاطین میں جس کیمیاء دان کو گیبر کہا گیا ہے وہ یہی جابر ابن حیان  ہے اسے تجربی کیمیاء کا بانی مانا جاتا ہے ۔وہ کیمیاء کے تمام تجرباتی عملوں سے واقف تھے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ کیمیاء میں سب سے زیادہ ضروری شئے تجربہ ہے جوشخصاپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا  ہے ۔پس اگر کیمیاء کا صحیح علم حاصل  کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اورصرف اس علم کو صحیح جانو جو تجربے سے سچ ہو جائے ۔ایک کیمیاء دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے ثابت کیا ہے ۔
اس لحاظ سے جابر پہلا کیماء دان ہے جس نےمادے کو عناصر اربعہ کے نظریے سے نکالا ۔قدیم عرب میں گندھک پارہ اور نمک تین بنیادی عناصر قرار دئے جاتے تھے ۔گندھک مادے کی ایسی خصوصیت مانی جاتی تھی جن سے اس میں بارودی کیفیات پیدا ہو جاتی ہے ۔نمک
سے عربوں کے ذہن میں عناصرکی وہ خصوصیت تھی جس کی بنا پر چیزیں آگ سے محفوظ رہتی تھی ۔نمک اس شئے کو بھی کہتے تھے جو مختلف عناصر کوپھونکنے ،جلانے اور کشتہ بنانےکے بعد پاقی رہ جاتی ہے یعنی نمکیات موجودہ سالٹس تھے ۔پارہ دو دہاتوں کی انفرادی خصوصیت کو واضح کر نے کے لئے استعمال ہو تا تھا ۔مثلا سونےمیں انتہائی خالص پا رے کی مقررہ مقدار شامل ہوتی ہے ۔
جابر ابن حیان  نے اس کے متعلق کہا کہ تمام دھاتوں کے بنیادی اجزاء وہی ہے جو جس کی مناسبت سے سونا وجود میں آتا ہے۔اگر کسی معمولی دھات کو سونے میں تبدیل کرنا ہو تو یہ ضروی ہے کہ اسے غیر مطلوبہ آمیزشوں سے پاک کیا جائےاور چند جزی اجزاء کو شامل کیا جائے تو سوناوجود میں آتا ہے ۔جابر کے اس نظریے کا تصور اس زمانے میں خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ نظریہ آج بھی اسی طرح تابندہ ہے کہ تمام دھاتوں کے بنیا دی اجزاء جوھر یا ان کے ذرات وہی ہے جو سونے کے ہیں ۔اگرچہ اس زمانے میں کیمیاء دان سونا بنانے کےجنون میں مبتلا تھے لیکن جابر اس حقیقت کاقائل تھے کہ تجرباتی طور پر تانبے کو سونے میں تبدیل کرنا محض وقت ضایع کرانا ہے ۔اسی کا عقیدہ تھا کہ مادی دنیا میں ایک ضابطہ کار فرما ہے اس لئے ہر شئے کی نوعیت ایک مخصوص مقدار کی تابع ہے ۔چنانچہ اس نے ایک کتاب المیزان لکھی ہے۔
جابر ابن حیان پہلا شخص تھا جس نے موادکے تین حصوں میں درجہ بندی کی،نباتات ، حیونات اور معدنیات ۔بعد از آں معدنیات کو بھی تین گروہوں میں تقسیم کیا پہلے گروہ میں بخارات بن جانےوالی اشیاء رکھیں اور انہیں روح یا عرق کا نام دیا ۔دوسرے گروہ میں آگ پر پگھلنے والی اشیاء مثلا دھاتیں اور تیسرے گروہ میں ایسی اشیاء جو گرم کرنےپر پھٹک جائیں اور سرمہ بن سکتی تھی ۔ پہلے گروہ میں گندھک ،سنکھیا ،پارہ،کافور اور نوشادر شامل ہے ۔عربی میں نوشادر[امونیم کلورائیڈ]کا نام پہلی بار جابر کی تصنیفات میں دیکھا گیا ہے۔جابر کیمیاء کے متعدد امور پر قابل قدر نظی و تجربی معلومات رکھتے تھے ۔اس کا  یہ نظریہ کہ زمین پر وجود میں آنے والی اشیاء ستاروں اور سیاروں کے اثر کا نتیجہ ہے ،آج بھی نیا اور اچھوتا ہے ۔جابر نے کئی کیمیائی مرکبات مثلا بنیادی لیڈکار بونیٹ،آرسینگ سلفائیڈ اور انیٹیمینس سلفائیڈاور الکحل کوخالص کرنا ،شورے کے تیزاب[نائیٹرک ایسڈ]نمک کے تیزاب[کلورک ایسڈ]اور فاسفورس سے دنیا کو پہلی بار روشناس کرایا اوراس نے دو عملی دریا فتیں بھی کیں  ایک تکلیس کشتہ کرنا یعنی آکسائیڈ بنانا اور دوسرا تحلیل یعنی حل کرنا ۔
کیمیاء کے فنی استعمالات پر اس کے بیانات بہت اہم ہے ۔مثلا فلزات کی صفائی ،فولاد کی تیاری ،پارچہ بافی اورجلد  کی رنگائی ،وارنش کے ذریعے کپڑے کو ضد آب بنانا ،لوہے کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھنا ،شیشے کو مینگا نیز ڈائی آکسائیڈ  سے رنگین بنانا ،آئرن پائرٹ سے سونے پر لکھنا اورسرمے سے ایسٹک ایسڈبنا نا وغیرہ ۔
امریکی سائنس دان پروفیسر فلپ جابر ابن حیان کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہے: کیمیاء گری کے بے سود انہماک سے جابر نے اپنی آنکھیں خراب کر لی لیکن اس حکیم اور عظیم دانشور نے کئی چیزیں ایجاد کی اور اصل کیمیاء کی بنیاد رکھی ۔اس کا گھر تجربہ گاہ بنا ہو اتھا ۔


حوالہ جات:
۱۔ کتاب الخلدون العرب،ص ۱۶،۱۷۔
۲۔ایضا،ص۱۹۔
۳۔اعیان الشیعہ  ج۱۵،ص۱۱۵۔تاریخ تمدن ،ج۱۱،ص۱۵۹۔تاریخ الاسلام السیاسی،ص ۲۶۱، الفھرست ص۵۰۰۔
۴۔ الفہرست،ص ۵۰۔تاریخ تمدن،ج۱۱،ص۱۵۹۔
۵۔ ملھم الکیمیاء،تلخیص ص ۳۳،۴۲۔
۶۔الفہرست،ص ۴۹۹
۷۔ایضا
۸۔معجم الادبار،ج۵،ص۶۔
۹۔  اعیان الشیعہ،ج۱۵،ص۱۱۸۔الذریعہ ج۵،ص۲۰۔
۱۰۔تاب الامام صادق[ع]،ابو زھرہ،ص ۱۰۱۔
۱۱۔تناظرات اسلامی ساءنس۔ڈاکٹر عطش درانی.
۱۲۔ اسلام کے عظیم سائنس دان۔حفیظ  اللہ منظر.


تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(کراچی) اہلیان یوسی 11جعفرطیار آزمائے ہوئوں کو آزماکر اپنا ووٹ ضائع نا کریں، تینوں بڑی برسراقتدار جماعتوں نے یہاں سے مختلف الیکشنز میں کامیابی حاصل کی لیکن عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا، عوامی کھوکھلے نعروں اور دعووں سے دھوکا نا کھائیں، ہم نے بغیر اقتدار واختیار کے علاقے میں بلاتفریق انسانی خدمت کے مختلف منصوبوں پر کام کیا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدواربرائےوائس چیئرمین یونین کونسل 11جعفرطیار ملیر سید عارف رضا زیدی نےرابطہ مہم کے سلسلے میں مسجد خدیجتہ الکبریٰ سروے نمبر 417جعفرطیار سوسائٹی میں کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے ایم این اے ، پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اور متحدہ قومی موومنٹ کے ناظم نے اب تک یوسی 11کے عوام کی مشکلات اور مسائل کے حل کیلئے کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام نہیں دیا، ٹوٹی سڑکیں، گندگی کے ڈھیراور سیوریج کا تباہ حال نظام 40برس سے یوسی 11کے عوام کام مقدر بنا ہواہے، یونین کونسل کا دفتر پیدہ گیری کا مرکز بناہواہے، عوام کو بنیادی سہولیات کی آسان فراہمی کے ادارے میں رشوت خوری کا بازار گرم ہے،ہم انشاءاللہ کامیاب ہو کر اس ظالمانہ طرز سیاست کا خاتمہ کریں گے اور یونین کونسل 11کو مثالی علاقہ بنائیں گے۔

قبل ازیں مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدواربرائےوائس چیئرمین یونین کونسل 11جعفرطیار ملیر سید عارف رضا زیدی نےرابطہ مہم کے سلسلے میں وفد کے ہمراہ خطیب وپیش امام مسجد وامام بارگاہ خدیجتہ الکبریٰ جعفرطیار سوسائٹی علامہ سید ذوالفقار جعفری اور پرنسپل جامعتہ الاطہار علامہ شیخ مہدی علی دانش سے ملاقات کی اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کےمرکزی رہنما سید علی احمر زیدی، ڈویژنل رہنمااحسن عباس رضوی، ضلعی رہنما شعیب رضا، سعید رضا ، رضا علی ودیگر بھی موجود تھے، ایم ڈبلیوایم کے رہنماؤں نے علامہ سید ذوالفقار جعفری اورعلامہ مہدی علی دانش کے ساتھ علاقائی صورت حال اور آمدہ ضمنی انتخاب برائے یوسی 11جعفرطیار پر تفصیلی گفتگو کی اوروائس چیئرمین کی نشست پر ایم ڈبلیوایم کے امیدوار عارف رضا زیدی کی حمایت کی اپیل کی، علامہ ذوالفقار جعفری اور علامہ مہدی علی دانش نے ایم ڈبلیوایم کے نامزدمیدوار عارف رضا زیدی کی نافقط حمایت کا اعلان کیا بلکہ اپنے مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا، انہوں نے ایم ڈبلیوایم کے سوسائٹی کے عوام کے لئےخدمات کو سراہا اور عارف رضا زیدی کی کامیابی کیلئے تہہ دل سے دعا کی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے مرکزی رہنما و نامزد امیدوار برائے صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی 26 میں مختلف کارنر میٹنگ میں شرکاء سے خطاب کے دوران آغا رضا نے کہا کہ ہزاروں شہداء دینے کے بعد بھی مکتب تشیع اتحاد کی واحد دینی سیاسی جماعت ہے۔  ایم ڈبلیو ایم اتحاد امت کے داعی جماعت ہے۔  انہوں نے ہزارہ ٹاون بروری بلاک 1 کرنل یونس روڑ اور بشیر ٹاون میں اہلیان محلہ کی طرف سے بلائی گئی کارنرز میٹنگ سے خطاب کیا۔

آغا رضا نے کہا کہ ہزارہ قوم صوبہ بلوچستان میں تقسیم پاک و ہند سے پہلے آباد تھے، برٹش دور کے ہزارہ پائنئرز سے لیکر اب تک اس دھرتی کی دفاع میں پیش پیش ہے۔اب بھی دفاع وطن میں اپنے دیگر برادر اقوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہے اور ہر وقت حاضر رہینگے۔انہوں نے کہا کہ ہزارہ قوم کی خدمات تمام شعبہ جات زندگی میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی ایک شخص کی ذاتی فکر و خیال یا فاشست پارٹی پالیسی کو پوری قوم سے منسوب کرنا ناانصافی اور خلاف منطق ہے۔

شرکانے گزشتہ دور حکومت کے دوران سابق وزیر قانون سید محمد رضا صاحب کی بہترین کارکردگی، مجموعی عوامی افکار کی نمائندگی اور ترقیاتی خدمات کے اعتراف میں بھر پور حمایت کا اعلان کیا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) گلگت بلتستان عوام گزشتہ سات دہاٸیوں سے پاکستانی حکومت کیطرفسے نافذ مرضی کے غیر آٸینی قوانین تلے ظاہرا پاکستانی شہری کے بطور زندگی گزار رہی ہیں۔ ہمیں پاکستان کی عدلیہ، فنانس اور قانون سازی کے اداروں میں نماٸندگی کا کوٸی حق نہیں، جنہیں مہذب دنیا بنیادی شہری حقوق سے تعبیر کرتے ہیں۔ جدید دنیا میں ان بنیادی حقوق سے محروم خطے بالادست ملک کی کالونی اور عوام کی راٸے کے برخلاف مسلط شدہ نظام کو کالونیل سسٹم کہا جاتا ہے۔ کالونیل سسٹم اس زمانے کا معیوب ترین نظام ہے۔ عالمی اصولوں کے مطابق مسلط شدہ کالونیل سسٹم کی دنیا نفی کرتے ہوٸے ہر خطے کے باسیوں کو حق خود ارادیت کی مسلّم شدہ آزادی حاصل ہے۔ جبکہ گلگت بلتستان کی بیس سے باٸیس لاکھ عوام اس آزادی کے برخلاف ستر اکہتر سال بیتا چکی اور ایک بار پھر نٸے زاویٸے سے عوام کی منشا ٕ کے برخلاف وفاق کیطرفسے ”ریفارم پیکیج“ تیار ہونے جارہا جو کہ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا کے طے شدہ انسانی بنیادی حقوق پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

گزشتہ سال آج کے ہی دن یعنی نو دسمبر 2017 کو ”فاٹا کنونشن اسلام آباد“ میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چئیر مین اور موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب  فاٹا والوں کی مظلومیت پر خوب روشنی ڈال رہے تھے۔  خان صاحب کے بقول فاٹا والوں کیلئے آواز بلند کرنے والا نہیں تھا، ان کے لوگوں کو مارا جاتا رہا۔ ان کو حقوق نہیں دیئے گئے۔ بہت ساری دیگر باتوں کیساتھ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا اس وقت 73 فیصد فاٹا کی عوام غربت کی لکیر سے نیچےزندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جس کی ذمہ داری پاکستانی حکمرانوں کی تھی۔ فاٹا والے پاکستان کو اپنا سمجھتے رہے لیکن پاکستانی حکمرانوں نے ان کو اپنا نہیں سمجھا۔

اپنی تقریر میں خان صاحب کہتے ہیں کہ 2018 میں اگر فاٹا کو قومی دھارے میں نہیں لایا جاتا تو 2023 تک چلا جائیگا، تب تک وہاں کا نظام کیسے چلے گا؟ فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی وجہ سے تمام تر معاملات طے ہونے کے باوجود حکومت اسکو موخر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انکی طرفسے ڈیمانڈ کی گٸی کہ 2018 کی الیکشن میں فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کریں۔  اگر گورئمنٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، تو پیر کے روز متوقع حکومتی فیصلے کے بعد تحریک انصاف فاٹا عوام کو لیکر ان کے حق میں سڑکوں پر آئیں گے۔ سوئیٹزرلینڈ کی مثال کیساتھ خان صاحب کا کہنا تھا کہ جن کو بھی انصاف نہیں ملتی ہم ان کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔

یہ گزشتہ سال کی بات ہے جب  خان صاحب اپوزیشن میں تھے۔ تمام تر حکومتی پالیسیوں پر وہ گھن گرج کر بولتے اور ملک میں انکے انصاف اور تبدیلی کے نعروں عروج پر ہوتا۔ اس وقت جبکہ انکی تقریر کے دوران انکے ہر جملے اور ہر مثال پر سوچتا رہا کہ خان صاحب اتنا کچھ فاٹا کے بارے میں جانتے، سمجھتے اور ان کیلئے سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہیں، تو کیا وہ کئی بار گلگت بلتستان میں آنے، الیکشن مہم چلانے، پوری ایک سیٹ جیت جانے اور ایک سیٹ پر ایک دو ووٹ سے ہار جانے کے باجود بھی اس علاقے کیلئے نہ ہی کوئی ذاتی طور پر پالیسی بیان سامنے لاتا ہے، نہ پارٹی کی کوئی سرگرمی نظر آتی ہے، نہ اخباری بیانات سے نکل کر کچھ کرنے والی مقامی قیادت کو سامنے لاتا ہے۔ نہ زبردستی ٹیکس کے خلاف کئی کئی دنوں کی ہڑتال تک میں ان کی پارٹی کو فعال بناتا ہے۔ تب بھی یقینا خان صاحب کی آواز ملک کی طاقت ترین آوازوں میں سے تھی۔ جو کسی بھی معاملے میں ملک بھر کے عوام اور حکومت کو اس بے آئین علاقے کے مسائل کی جانب متوجہ کرسکتے تھے مگر نہیں کیا۔ قبائلی علاقوں کے حقوق میں ہم ان کی کوششوں کو شاباشی بھی دیتے ہیں۔ وہ کامیاب بھی ہوٸے اور فاٹا کا مرجر ہوگیا۔ پاکستان کو لوٹ لوٹ کر قرض کے دندل میں پھنسانے والوں کو رسوا کرنے پر ہم خان صاحب کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے خاندانی آمریتوں کو پاکستان میں جس طرح سے بے نقاب کیا اس کی مثال پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ فاٹا کے عوام کو انصاف نہ ملنے پران کے حق میں کھڑے ہونے کو وہ دینی فریضہ سمجھتا ہے وہ یقینا گلگت بلتستان کے عوام کے بارے میں بھی سوچتا ہوگا، کیونکہ یہاں پر ان کی جس طرح سے مہمان نوازی کی گئی، جسطرح ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا، ان سب کا ذکر وہ اپنی تقریروں میں بھی بارہا کرتے رہے۔ اب سال گزر گیا۔ وفاق میں خان صاحب کی حکومت ہے۔ مدینے کی ریاست کی بات اور تبدیلی کے نعرے اب بھی گونج رہے ہیں۔ انکے مدمقابل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کرپشن کے الزامات پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے کا سابق وزیر اعلیٰ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہٸے تھا کہ وزیر اعظم سب سے پہلے حقوق سے محروم علاقوں کی عوام کو سنتے۔ ان کے حقوق دیکر تبدیلی کا سفر شروع کرتا۔ انصاف کی فراہمی کا آغاز محروم خطے کو حقوق دیکر کرتا۔ مگر ایسا شاید صرف نعروں میں اچھا تھا انہی کی حد تک رہ گیا۔

ملک کی اعلی عدلیہ میں گلگت بلتستان کے حوالے سے کیس چل رہا ہے۔ چیف جسٹس سمیت لارجر بنچ حکومت اور پارلیمان کو جی بی ایشو پر مقتدر ہونے کی حقیقت کا ببانگ دہل کہہ چکے۔ ابتداٸی طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان عبوری صوبے کی خبریں بھی چلیں۔ عوام سمیت سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماوں نے بھی اس خبر کو خوش آٸند قرار دیا۔ امید کی ایک کرن نظر آنے لگی۔ اخبارات میں بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ مگر ایک بار کابینہ میٹنگ میں جی بی حقوق سے متعلق پواٸنٹ کو بوجوہ معطل کرنے کے بعد گزشتہ دنوں کی کابینہ میٹنگ کے حوالے سے خبریں سامنے آٸیں کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی مخالفت خود وزیر اعظم سمیت ارکین کابینہ نے کی۔ اس کے اگلے روز اٹارنی جنرل نے اعلیٰ عدلیہ میں حکومتی موقف میں واضح کیا کہ گلگت بلتستان کو کوٸی صوباٸی اور آٸینی حیثیت نہیں دینے جارہی۔

اب گلگت بلتستان کی عوام، جوان اور سیاسی قیادت خان صاحب کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہے ہیں۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ کونسی تبدیلی ہے ؟ یہ کہاں کا انصاف ہے جو تحریک انصاف اکیسویں صدی میں بھی بنیادی حقوق دینے میں پس و پیش کرکے نٸے انداز میں کالونیل نظام کو جاری کرانے جارہی۔ ہم سوال کرنے میں حق بجانب ہیں۔ آخر یہ کونسی مدینے کی ریاست ہے جو خان صاحب ایاک نعبد و ایاک نستعین سے شروع کرکے کرنیوالی تقریروں میں بیان کرتے نہیں تھکتے تھے۔

قباٸلی علاقوں کی محرومیوں پر تحریک چلانیوالے اور زبردست تقاریر کرنیوالے خان صاحب کو یاد دہانی کراتے چلیں کہ گلگت بلتستان کے حقوق پر اب تک آپ نے کچھ بھی نہیں کیا۔ آپ کی تبدیلی اور انصاف کے نعرے ہم ٹی وی پر ہی سنتے رہے اور آپ نے ہمارے ساتھ انصاف کرنے کی بجاٸے نٸے گورننس ریفرمز آرڈر کی خبریں چلوا کر نہ صرف احساس محرومی کو مزید بڑھا دیا ہے بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح آٸندہ آپ کی کسی بات پر یقین کرنے اور مورال سپورٹ کیلٸے بھی کوٸی وجہ نہیں رہنے دے رہے۔ آپ شاید بھول رہے کہ یہ زمانہ اکیسویں صدی کا ہے۔ اگر آٸینی حقوق دیکر اسمبلیوں میں نماٸندگی نہیں دیتے، عدلیہ تک رساٸی نہیں دیتے، مالیاتی اداروں میں شامل نہیں کرتے اور مقبوضہ کشمیر جتنے حقوق دینے میں بھی آپکی ”بڑی مجبوریاں“ ہیں تو خطے کو متنازعہ علاقہ ڈکلیٸر کردیں۔ دنیا پر واضح کریں کہ ایک متنازعہ خطے میں ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم رینجز ہیں۔ کے ٹو، سیاچن اور ننگا پربت کی چوٹیاں ہیں۔ سی پیک اور دیامر ڈیم متنازعہ خطے میں بننے جا رہی ہے۔ چین پاکستان کے درمیان گلگت بلتستان نامی متنازعہ خطہ ہے جہاں کے باسیوں کو آٸین کے مطابق شہری نہیں کہلاسکتا۔ خان صاحب کی حکومت گلگت بلتستان کو متنازعہ خطے کے حقوق فراہم کریں۔ یہاں دوسرے صوبوں سے آکر مقیم اور زمینیں خریدنے والوں پر پابندی عاید کریں۔ شاید یہی مدینے کی ریاست کے بھی اصولوں کے مطابق قرار پاٸے اور انصاف کا تقاضا بھی ہو۔ ہمارے لٸے اتنی ”تبدیلی“ کافی ہوگی۔ ہمارے لوگ آپ کے شکرگزار رہیں گے۔ آپ چاہے تو ملک کو سوٸٹزرلینڈ بنا دیں یا اس پر بھی یوٹرن لے لیکر اپنی مدت حکومت پوری کرلیں۔ ہمیں مکمل آٸینی حقوق نہیں دے سکتے تو متنازعہ علاقے کے حقوق ہی دیدیں۔


شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ

9 دسمبر ،2018

وحدت نیوز (کراچی) ضمنی انتخاب برائے وائس چیئرمین یونین کونسل 11 جعفرطیار کیلئے عارف رضا زیدی مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار نامزد، پارٹی ٹکٹ جاری کردیا گیا، ایم ڈبلیو ایم اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے عوامی خدمت کا سفر جاری رکھے گی۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے ایم ڈبلیو ایم ضلع ملیر کی کابینہ کے اجلاس میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم نے ماضی میں بھی بغیر اقتدار اور اختیار کے عوام کی خدمت کیلئے مختلف میدانوں میں بھرپور کردار ادا کیا ہے، انشاء اللہ یوسی 11 کے ضمنی انتخاب میں عارف رضا زیدی کی کامیابی کی صورت میں یہ سفر مزید بہتر انداز میں آگے بڑھے گا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نامزد امیدوار عارف رضا زیدی نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کا خود پر اعتماد کیلئے مشکور ہوں، ضمنی انتخاب میں پارٹی کا حصول خوش قسمتی سمجھتا ہوں، خدا نے کامیاب کیا تو یونین کونسل کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے بھرپور کوشش کروں گا، ایم ڈبلیو ایم صحت، تعلیم اور روزگار کے میدان میں اپنی مدد آپ کے تحت اپنے قیام سے لیکر آج تک خدمات انجام دے رہی ہے، یونین کونسل 11 کے عوام نے اگر ایک مرتبہ مجھ پر اور ایم ڈبلیو ایم کا اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے 23 دسمبر کو خیمہ کے نشان پر مہر لگائی تو میں ان کے اعتماد پر پورا اترنے بھرپور کوشش کروں گا۔

ضلع ملیر کی کابینہ کا اجلاس ضلعی سیکریٹری جنرل سید عارف رضا زیدی کی زیر صدارت ضلعی سیکریٹریٹ جعفرطیار سوسائٹی ملیر میں منعقد ہوا، جس میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات علی احمر زیدی، صوبائی پولیٹیکل سیکریٹری سید علی حسین نقوی، ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ مبشر حسن نے خصوصی شرکت کی، اس موقع پر صوبائی پولیٹیکل سیکریٹری سید علی حسین نقوی نے ضمنی بلدیاتی انتخاب برائے وائس چیئرمین یوسی 11 جعفرطیار کے نامزد امیدوار سید عارف رضا زیدی کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا۔ اجلاس میں الیکشن کیمپین کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں سے رابطے کے حوالے سے اہم فیصلہ جات ہوئے۔ اجلاس میں ڈویژنل سیکریٹری اطلاعات احسن عباس رضوی، ضلعی کابینہ کے اراکین علامہ غلام محمد فاضلی، علامہ گلزار شاہدی، شعیب رضا، نیاز کاچو، کاظم نقوی اور جعفرطیار یونٹ کے سیکریٹری جنرل رضا علی زیدی و دیگر بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) ہزارہ ٹاون بروری میں جناب علامہ افضلی کی رہائش گاہ میں علماء کرام سمیت اہلیان محلہ اور اکابرین نے مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے نامزد امیدواربرائے صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی 26 سید محمد رضا ( آغا رضا) کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ۔علامہ افضلی نے کہا کہ سیاسی عمل میں شرکت ہماری اجتماعی ذمہ داری کیساتھ ساتھ شرعی ذمہ داریوں میں بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ جن جن شخصیات کو عوامی خدمت کا شوق ہیں، بے شک خدمت کریں، لیکن ہم نے ان تمام امیدواروں میں سے جناب آغا رضا کو اسلئے انتخاب کیا ہے کیونکہ آپکی شخصیت، شجاعت اور بہترین کارکردگی روز روشن کی طرح عیاں اور کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔لہذا ہم نے باہمی مشاورت سے ضمنی الیکشن حلقہ پی بی 26 کوئٹہ 3 سے امیدوار جناب سید محمد رضا (آغارضا)کی بھر پور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔سید محمد رضا (آغا رضا ) نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ ٹاون کے مسائل کے حل کیلئے کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کیں۔ اگر اللہ نے چاہا اور آپ ستم دیدہ عوام نے اعتماد کا اظہار کیا تو ترجیحی بنیادوں پر بنیادی ضروریات جیسے پانی، بجلی، اسکول، ہسپتال سپورٹس گراونڈ و دیگر ادارے بنائیں گے، جسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ضمنی انتخابات سے پہلے ہی شہداء کے پسماندہ گان کیلئے رہائشی فلیٹس کی تعمیر ہے۔آغا رضا نے کہاکہ انشاءاللہ دین مقدس اسلام اور ملی تشخص پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

Page 18 of 266

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree