وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) یورپ خاص طور پر فرانس میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور عالم اسلام کو درپیش موجودہ مسائل کے تناظر میں یورپی جوانوں کے نام رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم ! یورپی جوانوں کے نام ! فرانس میں اندھی دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر مجھے آپ جوانوں سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ میرے لئے یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات آپ جوانوں کے ساتھ گفتگو کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دردناک واقعات باہمی مشاورت اور چارہ جوئی کا راستہ ہموار نہ کریں تو بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان کا غم بجائے خود بنی نوع انسان کے لئے رنج و اندوہ کا باعث ہے۔ ایسے مناظر کہ جن میں بچہ اپنے اعزاء و اقرباء کے سامنے موت کو گلے لگا رہا ہو، ماں کہ جس کی وجہ سے اس کے اہل خانہ کی خوشیاں غم میں تبدیل ہوجائیں، شوہر جو اپنی بیوی کے بے جان جسم کو تیزی کے ساتھ کسی سمت لے جا رہا ہو، یا وہ تماشائی کہ جسے یہ نہیں معلوم وہ چند لمحوں کے بعد خود اپنی زندگی کا آخری سین دیکھنے والا ہے، یہ وہ مناظر نہیں ہیں کہ جو انسان کے جذبات و احساسات کو نہ ابھارتے ہوں۔ ہر وہ شخص کہ جس میں محبت اور انسانیت پائي جاتی ہو۔ ان مناظر کو دیکھ کر متاثر اور رنج و الم کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاہے اس طرح کے واقعات فرانس میں رونما ہوئے ہوں، فلسطین یا عراق، لبنان اور شام میں۔ یقینا ڈیڑھ ارب مسلمان اسی احساس کے حامل ہیں اور وہ اس طرح کے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے بے زار ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے رنج و الم ایک اچھے اور زیادہ محفوظ مستقبل کی تعمیر کا سبب نہ بنیں تو وہ صرف تلخ اور بے ثمر یادوں کی صورت میں باقی رہ جائیں گے ۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ صرف آپ جوان ہی ہیں جو آج کی مشکلات سے سبق حاصل کر کے اس بات پر قادر ہو جائيں کہ مستقبل کی تعمیر کے لئے نئي راہیں تلاش کر سکیں اور ان غلط راستوں پر رکاوٹ بن جائیں کہ جو یورپ کو موجودہ مقام تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس بدامنی اور اضطراب کا حالیہ واقعات کے دوران آپ لوگوں کو سامنا کرنا پڑا ہے ان مشکلات میں اور برسہا برس سے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے لوگوں نے جو مشکلات برداشت کی ہیں ان میں دو اہم فرق پائے جاتے ہیں۔ پہلا فرق یہ ہے کہ اسلامی دنیا مختلف زاویوں سے نہایت ویسع اور بڑے پیمانے پر اور ایک بہت لمبے عرصے تک تشدد کی بھینٹ چڑھی ہے۔ دوسرے یہ کہ افسوس کہ اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے مختلف اور موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئي ایسا فرد ہوگا جو القاعدہ، طالبان اور ان سے وابستہ منحوس گروہوں کو وجود میں لانے، ان کی تقویت اور ان کو مسلح کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے کردار سے آگاہ نہ ہو۔ اس براہ راست حمایت کے علاوہ تکفیری دہشت گردی کے جانے پہچانے حامی پسماندہ ترین سیاسی نظام کے حامل ہونے کے باوجود ہمیشہ یورپ کے اتحادیوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے میں آگے کی جانب گامزن جمہوریت سے جنم لینے والے ترقی یافتہ اور روشن ترین نظریات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچلا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں بیداری کی تحریک کے ساتھ یورپ کا دوہرا رویہ یورپی پالیسیوں میں پائےجانے والے تضادات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس تضاد کی ایک تصویر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اگر یورپ کے عوام آج چند دنوں کے لئے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اور وہ عوامی مقامات اور پرہجوم علاقوں میں جانے سے گریز کر رہے ہیں تو فلسطینی خاندان دسیوں برسوں سے حتی اپنے گھروں میں بھی غاصب صیہونی حکومت کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کی مشینری سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ آج کونسے تشدد کا موازنہ صیہونی بستیوں کی تعمیر کے شدت ظلم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے؟ یہ حکومت روزانہ فلسطینیوں کے گھروں کو ویران اور ان کے باغات اور کھیتوں کو نیست و نابود کر رہی ہے لیکن اس کے بااثر اتحادی یا کم از کم بظاہر آزاد بین الاقوامی ادارے موثر انداز میں اور سنجیدہ طور اس کی مذمت بھی نہیں کرتے حتی فلسطینیوں کو اپنا ساز و سامان دوسری جگہ منتقل کرنے اور غلہ جات کو اکٹھا کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی اور یہ سب کچھ وہ ان دہشت زدہ ، سہمی اور روتی ہوئي خواتین اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیتی ہے کہ جو اپنے گھرانے کے افراد کو زد وکوب ہوتا ہوا اور بعض اوقات ان کو خوفناک ٹارچر سیلوں میں منتقل کئے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیا آج کی دنیا میں آپ کو کوئی اور ایسا ظلم نظر آتا ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر یا اتنے زیادہ عرصے تک کیا گيا ہو؟ سڑک کے درمیان میں ایک ایسی خاتون کو گولی مار دی جائے جس کا جرم صرف یہ ہو کہ اس نے سر سے پاؤں تک مسلح فوجی کے خلاف احتجاج کیا ہے تو یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس بربریت کا ارتکاب چونکہ ایک قابض حکومت کے فوجی کرتے ہیں تو کیا اسے دہشت گردی نہیں کہنا چاہئے؟ یا یہ تصاویر صرف اس لئے ہمارے ضمیر کو بیدار نہیں کرتیں کہ چونکہ ساٹھ برسوں کے دوران بارہا ان کو ٹیلی ویژن سے دیکھا جا چکا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا پر کئے جانے والے متعدد حملے بھی ، کہ جن کے دوران بے شمار جانی نقصان ہوا، یورپ کی متضاد منطق کا ایک اور نمونہ ہے۔ جن ممالک پر یلغارکی گئی ہے ان کو جہاں انسانی جانوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں وہ اپنی بنیادی اقتصادی اور صنعتی تنصیبات سے بھی محروم ہوچکے ہیں، ان کی ترقی و پیشرفت کا سفر یا تو رک چکا ہے یا اس کی رفتار کم ہوگئي ہے اور موارد میں وہ دسیوں سال پيچھے چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود نہایت گستاخانہ انداز میں ان سے کہا جاتا ہےکہ وہ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ کسی ملک کو ویرانے میں تبدیل کردیا جائے، اس کے شہروں اور دیہاتوں کو کھنڈرات میں بدل دیاجائے اور پھر ان سے کہا جائے کہ برائے مہربانی آپ لوگ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ کیا انہیں اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھنے یا المناک واقعات کو بھلا دینے کی تلقین کرنےکے بجائے ان سے سچے دل سے معافی مانگنا بہتر نہیں ہے؟ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا کو جارحین کے بناوٹی چہروں اور منافقت سے جس الم و رنج کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ مادّی نقصانات سے کم نہیں ہے۔
اے عزیز جوانو! مجھےامید ہے کہ آپ لوگ موجودہ اور آنے والے زمانے میں جھوٹ سے آلودہ اس ذہنیت کو بدل دیں گے وہ ذہنیت کہ جس کا بڑا فن دور رس مقاصد کو چھپانا اور نقصان دہ اغراض و مقاصد کی آرائش کرنا ہے۔ میرے نزدیک امن و امان کی برقراری کا پہلا مرحلہ تشدد پیدا کرنے والی اس فکر کو بدلنے سے عبارت ہے۔ یورپ کی پالیسی پر جب تک دوہرے معیارات چھائے رہیں گے اور جب تک دہشت گردی کے طاقتور حامی اسے اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرتے رہے گے اور جب تک حکومتوں کے مفادات کو انسانی اور اخلاقی اقدار پر ترجیح دی جاتی رہے گی تب تک تشدد کا سبب کسی اور چیز میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ افسوس کہ برسہا برس سے یہ علل و اسباب تدریجا یورپ کی ثقافتی پالیسیوں میں بھی رسوخ کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک نرم اور خاموش یلغار شروع کر رکھی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی مقامی اور قومی ثقافت پر فخر کرتے ہیں۔ ایسی ثقافتیں کہ جو ثمر کا حامل اور بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں برسوں سے انسانی معاشروں کی بطریق احسن پرورش کر رہی ہیں۔ اسلامی دنیا بھی اس امر سے مستثنی نہیں ہے۔ لیکن عصر حاضر میں یورپی دنیا جدید ترین آلات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر ایک جیسی ثقافت اور کلچر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ میں مغربی ثقافت کو دوسری قوموں پر مسلط کرنے اور آزاد ثقافتوں کو حقیر سمجھنے کو ایک خاموش اور بہت ہی نقصان دہ تشدد سمجھتا ہوں۔ ایسی حالتوں میں مالا مال ثقافتوں کو حقیر سمجھا جا رہا ہے اور ان کے قابل احترام ارکان کی توہین کی جا رہی ہے کہ جب ان کی متبادل ثقافتوں میں ان ثفافتوں کی جگہ لینے کی اہلیت نہیں ہے۔ مثلا جارحانہ رویہ اور اخلاقی بے راہ روی پر مبنی دو عوامل کی وجہ سے ، کہ جو یورپی ثقافت کے دو بنیادی ترکیبی عناصر میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس ثقافت کا مقام خود اپنے اصلی مقام میں بھی گھٹ کر رہ گیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم معنویت سے عاری، جنگ پسند اور فحش ثقافت کو تسلیم نہ کریں تو کیا ہم گناہ گار ہیں؟ اگر ہم فن و ہنر کے نام پر مختلف اشیاء کی صورت میں اپنے جوانوں کے طرف امنڈ کر آنے والے تباہ کن سیلاب کی روک تھام کریں تو کیا ہم قصور وار ہیں؟ میں ثقافتی رابطوں کی اہمیت کا انکار نہیں کرتا ۔ جب بھی مطلوبہ معاشروں کے احترام کے ساتھ اور طبیعی حالات میں یہ رابطے قائم کئے گئے تو ان کا نتیجہ ترقی و پیشرفت اور بالیدگی کی صورت میں برآمد ہوا ہے اور اس کے برعکس زبردستی مسلط کئے گئے اور ناموزوں رابطے ناکام اور نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ داعش جیسے پست گروہ درآمد شدہ ثفافتوں کے ساتھ اسی طرح کے ناکام رابطوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر واقعی اعتقاد کے اعتبار سے کوئي مشکل ہوتی تو سامراجی دور سے قبل بھی اسلامی دنیا میں اس طرح کے واقعات پیش آتے حالانکہ تاریخ اس کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔ مسلمہ تاریخی حقائق سے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک مسترد کی گئي انتہا پسندانہ فکر کے ساتھ سامراج کے رابطے نے، وہ بھی ایک بدو قبیلے میں، اس خطے میں انتہا پسندی کا بیج بویا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دینے والے دنیا کے سب سے زیادہ انسانی ترین اور اخلاقی ترین دینی مکتب سے داعش جیسی گندگی جنم لے سکے؟ دوسری جانب یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ یورپ میں پیدا ہونے والے اور اسی فکری اور روحانی ماحول میں پرورش پانے والے افراد اس طرح کے گروہوں میں کیوں شامل ہوتے ہیں؟ کیا یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ افراد ایک دو مرتبہ جنگی علاقوں کا دورہ کر کے اس حد تک انتہا پسند بن جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں پرگولیاں برسا دیں؟ یقینا آلودہ اور تشدد کو وجود میں لانے والے ماحول میں عرصۂ دراز تک نامناسب ثقافتی غذا سے پرورش پانے کے اثرات کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کا ایک ایسا جامع جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ جو معاشرے کی آشکارا اور خفیہ گندگیوں کی نشاندہی کر سکے۔ شاید صنعتی اور اقتصادی ترقی کے برسوں کے دوران عدم مساوات اور بعض اوقات قانونی اور اسٹرکچرل امتیازی سلوک کے نتیجے میں مغربی معاشرے کے بعض طبقات میں بوئي جانے والی شدید نفرت کی وجہ سے ایسا کینہ پیدا ہو گیا ہے کہ جو وقتا فوقتا ایک مرض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔بہرحال یہ اب آپ لوگ ہیں کہ جنہیں معاشرے کے اس ظاہری خول کو اتار پھینکنا ہے اور دشمنی اور کینے کا پتہ لگا کر اسے ختم کریں۔ شگافوں کو گہرا کرنےکے بجائے پر کرنا ہے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے سلسلے میں سب سے بڑی غلطی عجلت پر مبنی وہ رد عمل ہے کہ جو موجودہ مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تشکیل پانے والے مسلمان معاشرے کو، کہ جو کئي ملین سرگرم اور فرض شناس انسانوں پر مشتمل ہے ، تنہائی اور اضطراب میں مبتلا کرنے پر منتج ہونے والا ہر ایسا اقدام جو جذبات کی رو میں بہہ کر اور عجلت پسندی سے کام لے کر انجام دیا گيا ہو اور جو اس معاشرے کو اضطراب ، تنزلی اور خوف و ہراس میں مبتلا کردے اور پہلے سے زیادہ انہیں ان کے اصلی حقوق سے محروم کر دے اور انہیں میدان عمل سے دور کردے۔ اس سے نہ صرف مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اس سے فاصلے مزید بڑھیں گے اور کدورتوں میں وسعت آئے گی۔ سطحی تدابیر اور رد عمل میں انجام دیئے جانےوالے اقدامات کا ، خاص کر اگر ان کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے، سوائے موجودہ دھڑے بندیوں میں اضافہ کرنے اور آئندہ بحرانوں کا راستہ ہموار کرنے پر منتج ہونے کے علاوہ کوئي اور نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو شہریوں کو مسلمانوں کی جاسوسی پر اکساتے ہیں۔ یہ ظالمانہ رویہ ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم لامحالہ ظالم کی طرف پلٹنے کی خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان اس ناقدری کے سزاوار بھی نہیں ہیں۔ مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بہت اچھی طرح پہنچانتی ہے۔ اس دن سے کہ جب یورپ والے اسلامی سرزمینوں میں مہمان تھے اور ان کی نظریں میزبانوں کی دولت پر جمی ہوئي تھیں۔ اور اس دن بھی کہ جب وہ میزبان تھے انہوں نے مسلمانوں کے کام اور ان کے افکار سے فائدہ اٹھایا ان کو مسلمانوں میں مہربانی اور صبر کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ بنابریں میں آپ جوانوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ آپ لوگ درست شناخت اور غور و خوض کی بنیاد پر اور تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی دنیا کے ساتھ عزت پر مبنی اور صحیح اشتراک عمل کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں۔ اس صورت میں وہ دن دور نہیں کہ آپ لوگ یہ دیکھ لیں گے کہ آپ جن بنیادوں پر اس عمارت کو استوار کریں گے وہ اپنے معماروں کے سروں پر اطمینان اور اعتماد کا سایہ کرے گی، ان کو امن و سکون کی گرماہٹ کا تحفہ دے گی اور صحفہ ہستی میں تابناک مستقبل کی امید کی کرن روشن کرے گی۔
سید علی خامنہ ای
8 آذر 1394