وحدت نیوز (آرٹیکل)  ۱۹۴۷میں ہمارے ہاں سے برطانیہ تو چلاگیا لیکن غلامی نہیں گئی۔ہماری ملت مسلسل فوجی غلامی میں یا پولیس اسٹیٹ میں زندگی گزارتی چلی آرہی ہے۔آزادی کے بعد سے ہمارے ہاں  پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔پولیس اسٹیٹ  یامارشل لا کا سلسلہ چل رہاہے۔

آج  اس وقت نیشنل ایکشن پلان ڈی ٹریک ہوچکا ہے،علامہ  شیخ محسن نجفی اورمولانا امین شہیدی جیسی شخصیات کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جاچکے ہیں،گلگت بلتستان میں یوم حسینؑ پر پابندی عائد ہوچکی ہے،تفتان روٹ پر ایف سی کی لوٹ مار جوں کی توں ہے ،کتنے ہی نوجوانوں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے اٹھا لیا گیا ہے،ایسے میں یہ خبر آپ تک یقینا پہنچ چکی ہے کہ ۲۵ اکتوبر بروز منگل کو کوئٹے میں  پولیس ٹریننگ کالج پر دہشتگردوں نے حملہ کرکے 60 اہلکار شہید اور 117 زخمی کردئیے ہیں۔

اس حملے کے بارے میں آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل شیرافگن کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا، جنہیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان میں افغانستان کی مداخلت کی بات کی گئی ہے۔پاکستان میں افغانستان ،ہندوستان ،امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت پاکستانی حالات حاضرہ کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔

یہ ہے ملک کی  بگڑی ہوئی صورتحال کا نقشہ۔

اب اگر آپ اس نقشے کو درست کرنے کی کوشش کریں اور نیشنل ایکشن پلان کو اس کے اصلی مقاصد کی طرف لوٹانے کی کوشش کریں،فورتھ شیڈول سے محب وطن اور پر امن  شخصیات کے نام کے اخراج کی بات کریں،گلگت بلتستان میں یومِ حسینؑ سے پابندی ہٹانے کے لئے آواز اٹھائیں،تفتان روٹ پررشوت خور ایف سی کو لگام دینے کی ضرورت پر زور دیں،بے گناہ نوجوانوں کو بغیر کسی ثبوت کے اٹھائے جانے پر احتجاج کریں،پاکستان میں امریکہ ،سعودی عرب،افغانستان اور ہندوستان کی مداخلت کو چیلنج کریں  تو آپ کو ایف سی ،پولیس اور فوج کے جوانوں کے آمنے سامنے لاکر کھڑا کردیا جائے گا۔پھر لاٹھی چارج ہوگا،پرچے کٹیں گے،آنسو گیس کی شیلنگ ہوگی،گرفتاریاں ہونگی  اور اصل مسائل دب جائیں گے۔

ہمارے ملک کی کلیدی پوسٹوں پر کئی سالوں سے ایسا مافیا قابض ہےجو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سرکاری مشینری کو استعمال کرتا چلا آرہاہے۔

یہ مافیا عوامی قیادت،جمہوری رہنماوں اور سیاسی افراد کے سامنے فوج ،پولیس،ایف سی اور دہشت گرد ٹولوں کو لاکر کھڑا کردیتا ہے۔حالانکہ افغانستان اور ہندوستان کے حمایت یافتہ اور سعودی عرب کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھوں کتنے ہی فوج،پولیس اور ایف سی کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔

جو مافیا عوام کو دہشت گردوں سے قتل کرواتا ہے وہی اصل میں فوج،پولیس اور ایف سی کے قاتلوں کی پشت پناہی بھی کررہا ہے۔

جوسرکاری ٹولہ  رشوت اور لوٹ مار کے لئے  ایف سی اور رینجرز جیسے اداروں کو چھوٹ دیتا ہے وہی دہشت گردوں کو بھی ایف سی اور رینجرز نیز فوج کے خلاف محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے۔

آج مختلف حکومتی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے  استعماری آلہ کار آرام سے اپنے آقاوں کے  ایجنڈے پر مسلسل کام کررہے ہیں اورہر جگہ  عوام کو فوج،ایف سی اور رینجرز کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔جبکہ خود فوج،ایف سی اور رینجرز کو دباو میں رکھنے کے لئے دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن کو ڈی ٹریک کردیا گیاہے۔

ملک عملا ایک پولیس اسٹیٹ میں بدل چکا ہے ،چند لوگ حکومتی پوسٹوں پر بیٹھ کر انتظامی اداروں کے ذریعے  پوری قوم کو دائیں مُڑ۔۔۔با ئیں پھر۔۔۔ہوشیار۔۔۔آسان باش کی پریڈ کروا رہے ہیں۔

جب تک ہم پریڈ کرتے رہیں گے ہمارے نام فورتھ شیڈول میں جاتے رہیں گے،ہمیں بلاجواز گرفتار کیا جاتا رہے گا،یوم حسینؑ پر پابندیاں لگتی رہیں گی،ملک میں امریکہ ،سعودی عرب ،افغانستان اور ہندوستان کی مداخلت نہیں رکے گی  اورہمارے ہاں فوج، پولیس، رینجر، ایف سی اور عوام پر دہشت گردوں کے حملے جاری رہیں گے۔

ہمیں اس پریڈ کی صورتحال سے باہر نکلنا ہوگا۔اپنے ملکی اور قومی مسائل کے حل کے لئے ایک گرینڈ الائنس تشکیل دینا ہوگا،ملک کی جمہوری اور سیاسی تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔

ملک کا پولیس اسٹیٹ میں بدل جانا صرف ایک مذہب ،فرقے،مکتب یا پارٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت پاکستان کا مسئلہ ہے۔جب تک باشعور اور مخلص لوگ آپس میں مل کر نہیں بیٹھیں گے اس وقت تک یہ ملک  مسلسل فوجی اسٹیٹ سے پولیس اسٹیٹ میں بدلتا رہے گا۔دائیں مڑ اور بائیں پھر کا سلسلہ چلتا رہے گا۔اس سلسلے کو روکنے کے لئے ہم سب کو پریڈ کی صورتحال سے نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔

ہم پہلے اس پریڈ سے تو جان چھڑائیں،آپس میں تمام فرقوں اور پارٹیوں سے بالاتر ہوکر مشترکات کی خاطر مل بیٹھیں،اتحاد اور بھائی چارے کے لئےتھنک ٹینکس تشکیل دیں،محب وطن شخصیات،تنظیموں اور اداروں کے درمیان رابطوں کو بڑھائیں اور مشترکات پر ایک ہوجائیں  پھر دیکھا جائے گا کہ جمہوری اصول کیا ہوتے ہیں اور عوامی مینیڈیٹ کسے کہتے ہیں!؟پھر الیکشن کی طاقت اور انسانی حقوق کی بات موثر ہوگی۔پھر احتجاج رنگ دکھائیں گے اور نعرے درویوار میں شگاف ڈالیں گے،پھر قانون کی بالادستی اور حب الوطنی کا بول بالا ہوگا،پھر پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لاالہ الاللہ کی طرف سفر شروع ہوگا۔

ہمیں اب بحیثیت قوم مل کر سب سے پہلے اپنے ملکی اداروں کی کلیدی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے افراد کا جائزہ لینا ہوگا ،عوام کے خلاف سرکاری اور انتظامی مشینری استعمال کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اورفوج ،ایف سی،پولیس اور رینجر پر دہشت گردانہ حملے کروانے والوں کو پہچاننا ہوگا۔

جب ہم ان لوگوں کو اچھی طرح  پہچان کر اپنے قومی،سیاسی و ملکی  فیصلے کریں گے تو تب ہمارے ہاں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی ورنہ ہمارے ہاں تو  مسلسل پاکستان کا مطلب کیا،پولیس اسٹیٹ یا مارشل لا کا سلسلہ ہی  چل رہاہے اور یہی چلتا رہے گا۔

ہمیں کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج میں شہید ہونے والے  جوانوں کی لاشوں کو دفناتے ہوئے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ  جو لوگ بابائے طالبان کے مدرسے کو صرف ایک قسط میں تیس کروڑ کی گرانٹ دیتے ہیں وہ فوج ،ایف سی اور رینجرز کے کیسے مخلص ہوسکتے ہیں!؟

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

دہشت گردی اور ہم

وحدت نیوز (آرٹیکل) وطن عزیزپاکستان مسائل کے بھنور میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اگر چہ ضرب عضب اپریشن نے ملکی استحکام میں بہتری پیدا کی ہے اور مزید بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں امن ہونا پاکستانیوںکی فلاح کی ضمانت ہے اور پاکستانیوں کے حالات اس وقت ہی بہتر ہو سکتے ہیں جب ملک میں دہشت گردی نہ ہو لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں ،لوگوں کا روزگار بہتر ہو لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں جس طرح ایک فالج کے مریض کو صحت مندکرنے کے لئے علاج کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح مملکت خداداد پاکستان کی ترقی مختلف شعبہ جات میں استحکام کی وجہ سے نصیب ہوسکتی ہے۔
    
دہشتگردی اگرچہ سب سے بڑا ناسور ہے اور یہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے اس لئے قومی ایکشن پلان اور ضرب عضب موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں لیکن یہاں میں ایک بات کی نشاندہی بھی کرنا چاہتا ہوںاُمید ہے میرے قارئین میری بات کو اہمیت دیں گے اور اگر یہ بات سچ ہوئی اور ویسے ہی ہوئی جیسے میں کہوں گا تو مجھے اُمید ہے اس پر ڈسکشن کا راستہ کھولا جائے گا اور ہر فورم پر اس بات کو موضوع بنایا جائے گا ۔

بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک دہشت گردی صرف یہ نہیں کہ بم پھوڑ دیا جائے اور بے گناہ معصوم لوگوں کو قتل کردیاجائے،یا پھر گولیوں سے لوگوں کو بھون دیا جائے یہ دہشت گردی کی ایک قسم ہے یہ اتنی خطرناک قسم ہے کہ اس نے عرضِ وطن کا ہر چپہ لہولہان کردیا اس کے فروغ میں جہاں ہمارے دوسرے اداروں کی سستی ہے وہاں سب سے بڑی ذمہ داری سیکورٹی ایجنسیز سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کی تھی جس میں تساہل سستی کرپشن پسند نا پسند اور ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد کی سرپرستی اور ان کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا شامل رہا جس کے باعث دہشتگردوں اور دہشتگردی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔
    
میں جنرل راحیل شریف اور تمام سیکورٹی اداروں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے دہشت گردی کی گردن دبوچ لی اور آج سسکیاں لیتی دہشت گردی افواج پاکستان کی عظیم کامیابی ہے لیکن یہ کامیابی دائمی ہوگی یا نہیں اس پر ابھی سوالیہ نشان باقی ہے ۔کچھ ایسے بھی محسوس ہورہا ہے کہ دہشت گرد مناسب وقت تک انتظار کریں گے اور پھر دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوں گی اس کی تفصیل میں بس یہی کہوں گا کہ عام پبلک کی یہ رائے ہے اصل دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں ہو رہابلکہ کسی نہ کسی سہولت کار کی مدد سے وہ محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ۔
    
اب میں وہ بات کرنے جارہا ہوں جس کے لئے یہ ساری باتیں کیں تاکہ مجھے بات کرنے میں آسانی رہے ۔
    
اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ بات سچ ہے کہ دہشتگرد مناسب وقت کا انتظار کریں گے اور پھرسر اٹھائیں گے تو پاکستان مسائل کے بھنور سے کیسے نکلے گا ،جبکہ ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ انصاف کی گردن بھی دبوچ لی ہے اور انصاف بھی سسکیاں لے رہا ہے میں اپنی تمام عدلیہ کا اخترام کرتا ہوں اور میری یہ بات عدلیہ کے لئے ہے یہی نہیں کیونکہ عدلیہ کے بھی کچھ مسائل ہیں کہ آج ہمارے چیف جسٹس محترم جناب انور ظہیر جمالی ملک کی ابتر حالت پر صرف یہ کہہ پاتے ہیں کہ اب عوام کو باہر نکل آنا چاہئیے یعنی یہاں بادشاہی نظام ہے جناب والا !آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس ہیں کوئی سوموٹو ایکشن لیں، اور عوام کے ساتھ جوجو زیادتی کررہا ہے اس ملک کو جو جولوٹ رہا ہے اس کی نہ صرف نشاندہی کریں بلکہ اس کو تختہ دار پر لٹکائیں ، یہ بے کس، نا اُمید، خوف زدہ، بے سہارا، عوام آپ کو بہت دعائیں دے۔یہ کبھی سڑکوں پر نہیں آئے کیونکہ ایک طرف تو ان کے مقدر میں غربت ہے اور دوسری طرف اداروں کا خوف جو بادشاہ اپنی رعایا کے لئے کرتے ہیں وہ ہو رہا ہے۔
    
اس ظلم سے آپ ہی ہمیں نجات دلا سکتے ہیں لیکن ایک اور قابل توجہ چیز جس پر غور فکر کرنے کے لئے تمام محب وطن اداروں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بے گناہ معصوم لوگوں کو دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کیا جا رہا ہے نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کو ناکام کرنے کے لئے بے گناہ افراد پر FIR'S ہو رہی ہیں فورتھ شیڈول میں ڈالا جا رہا ہے تین تین ماہ جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ذکر نواسہ رسول کرنا مشکل ہو رہا ہے ذکر مصطفےٰ کے جلوسوں کو روکنے کی پیش بندیاں ہورہی ہیں یہ ریاستی دہشت گردی اور نا انصافی کی بدترین مثال ہے لہذا آج اگر ہم ملک عزیز پاکستان سے مخلص ہیں تو ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا ۔جو مجرم ہے اسے سزا دی جائے جو بے گناہ ہیں ان کو تحفظ دیا جائے میری دانش میں پاکستان کو ایک سیکولرسٹیٹ کی طرف لے جایا جارہا ہے جس پر کم ازکم مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس ملک کے مذہبی طبقات نے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا لیکن نیک دیندار صالح وطن پرست مخلص اتحاد بین المسلمین کے داعی اس ملک کی خدمت کرنے والے لوگوں کو ملک دشمن نہ بنایا جائے ،ان کی شہریت معطل نہ کی جائے، وہ پاکستانی ہیں ،دل وجان سے پاکستان کو چاہتے ہیں اس نا انصافی سے کہیں پھر کوئی نئی دہشت گردی وجود میں نہ آئے، اگر امن کی خواہش ہے، تو انصاف کرو! انصاف کرو! انصاف کرو!۔


تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) موت کی حقیقت مومن کے لئے بڑی دلکش ہے۔خصوصاًاگرمرنے والا راہِ حق پر ہوتو موت کا ذائقہ شہد سے بھی زیادہ شیرین ہے۔موت کافر کے لئے مفید ہے چونکہ اسے دنیا کے فریب سے نجات دیتی ہے اور مومن کے لئے سودمند ہے چونکہ اسے کمالِ مطلق سے وصل کرتی ہے۔آج ہی مجھے قبلہ مولانا عبدالحسین ناطق  کی وفات کی خبر ملی۔مولانا کسی زمانے میں جامعۃ الرضا اسلام آباد میں تدریس کرتے تھے اور میں نورالھدیٰ کارسپانڈس کورس کے پروجیکٹ پر کام کررہاتھا۔وہیں سے ان سے میری سلام دعا ہوئی،درس و تدریس ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،ہفتہ بھر جامعۃ الرضاؑ میں تدریس کرتے تھے اورجمعرات کو ان کا خصوصی درس اخلاق ہواکرتاتھا ، ایک فاضل شخصیت ہونے کے ناطے ان کے دروس اور مجالس بھی لوگوں میں مقبول تھیں۔

مولانا موصوف کاشمار یقینا ایسے لوگوں میں ہوتا ہے کہ ان سے عالم ِ باعمل ہونے کی مہک آتی تھی،ان کی طبیعت میں صاف گوئی،لباس میں سادگی،باتوں میں گہرائی گفتگو میں عمق ہواکرتاتھا۔انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں کئی شاگردوں کی تربیت کی اور کئی لوگوں کے افکارو عقائد کی اصلاح کی۔

آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی قدردانی  ہم سب پر واجب ہے۔علما کی قدردانی کی ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں علما کی اہمیت کو اجتماعی طور پر محسوس کیاجائے۔ہمارے ہاں کسی ایسے  مصدقہ ادارے کا وجود انتہائی ضروری ہے جو عالمِ دین  کے عنوان کا معیار طے کرے اور پھر اس معیار کے اوپر جولوگ پورے اتریں ان کی تمام تر رفاہی و فلاحی ضروریات کو بطریق احسن پورا کیاجائے۔

مثلا ایک مرکز جب کسی کو عالمِ دین کا عنوان دیدے تو اس عالم دین کے بچوں کے تعلیمی اخراجات،بیمار ہونے کی صورت میں بیمہ پالیسی،فوتگی یا حادثے کی صورت میں خصوصی امداد،بچوں اور بچیوں کی شادی کے لئے سپورٹ،حج و زیارات کے لئے کوٹہ،ریٹائر منٹ کی عمر میں باعزت مدد،بلاجواز گرفتاری کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ،شر پسند عناصر کی طرف سے تحفظ،کسی عالم دین کی فوتگی کی صورت میں اس کی علمی میراث کو منظر عام پر لانا۔۔۔وغیرہ وغیرہ

ان سارے مسائل کےحل کے لئے ایک قومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا ادارہ جو دین و ملت کی خدمت کرنے والے علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنے فریضے کو انجام دے۔

جس طرح دینی مدارس اور اداروں  کو چلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے اسی طرح دینی مدارس اور اداروں  کو چلانے والے علما کی مشکلات کو سمجھنا اور حل کرنا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔

ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ علمائے کرام بھی ہماری طرح کے انسان ہیں،وہ بھی بیمار ہوتے ہیں،حادثات کے شکار ہوتےہیں،انہیں بھی اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں،انہوں نے بھی بچوں کی شادیاں کروانی ہوتی ہیں۔۔۔اُن کی یہ ساری ضروریات بھی  ایک منظم سسٹم کے تحت باعزت طریقے سے پوری ہونی چاہیے۔

جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ سب کچھ انتہائی احسن انداز میں انجام دیاجارہاہے۔ایران کی طرح اس وقت ہمارے ہاں کے تمام دیندار اور فعال حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ  اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اس سلسلے میں بھی سوچیں اور علمائے کرام سے مشورہ کرکے کسی ایسے ادارے کی بنیاد رکھیں جو علمائے کرام کی سرپرستی میں ہی علمائے کرام کی مشکلات کو حل کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔

ہمارے معاشرے میں انسانیت اور دینداری کی جوشمع بھی ٹمٹما رہی ہے وہ علمائے کرام کی جدوجہد اور خلوص کا نتیجہ ہے۔علمائے کرام نے اپنی زندگیاں صرف کرکے ہمیں انسان اور دیندار بنایاہے اب یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم لفظی تعزیت اور ظاہری اظہار ہمدردی کے بجائے حقیقی معنوں میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی سوچیں۔

یاد رکھئے !علماکرام ہمارے محسن ہیں اور سمجھدار لوگ اپنے محسنوں کو بھلایا نہیں کرتے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) دوسری عالمی جنگ کے بعد استعماری طاقتوں کی پشت پناہی سے جہانِ اسلام کو ہمیشہ بحرانوں میں مبتلا کرنے اور ناامن رکھنے کیلئے عالم اسلام کے دل اور براعظم ایشیا اور افریقہ کے سنگم میں اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی، دوسری طرف خطے کے ممالک میں ملٹری اور سول ڈکٹیٹرشپس (پولیس اسٹیٹس) قائم کی گئیں۔ عراق، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ میں ملٹری نظام جبکہ خلیجی ریاستوں (سعودیہ، امارات، قطر و غیرہ) اردن اور مراکش میں پولیسی نظام قائم کیا گیا۔ استعماری قوتوں کے لئے ملٹری نظاموں اور پولیسی نظاموں ہر دو نے استعماری منصوبوں کی تکمیل کے لئے بڑی بڑی خدمات انجام دیں۔ ان دونوں استعماری نظاموں یعنی ملٹری نظام اور پولیسی نظام میں مندرجہ ذیل چند فرق تھے۔

1۔ ملٹری کا طاقتور ہونا اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی علامت تھا، جبکہ اس کے برعکس پولیسی نظام فقط اپنے عوام کو دبانے پر مامور تھے۔
2۔ ملٹری نظام نسبتاً طاقتور ہونے کی وجہ سے بآسانی کنٹرول میں نہیں آتے تھے، جبکہ کمزور پولیسی نظاموں کا کنٹرول آسان تھا۔
3۔ ملٹری نظاموں سے جنگ، مقاومت و مقابلہ، وطن کا دفاع اور سرزمین سے تعلق جیسے مفاہیم نکالنا ناممکن تھا، جبکہ ایسی ادبیات اور ایسے مفاہیم پولیسی نظاموں کے لئے ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔

مندرجہ بالا افتراقات کی بنا پر پولیسی نظام نے ثابت کیا کہ وہ استعماری مقاصد کے لئے بہت مناسب ہے۔ اس نظام سے استعمار کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ اسی پولیسی نظام کی حامل ریاستوں سعودیہ، قطر اور امارات کی خطے کے امن کی تباہی اور اسرائیل کی بقاء اور دفاع کے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے وہ نظام جو کسی وقت بھی اسرائیل کے وجود اور استعماری مقاصد اور تسلط کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، انہیں پولیسی نظاموں کی مدد سے یا تو ختم کر دیا گیا یا کمزور اور مفلوج کر دیا۔

جب خطے میں تبدیلیاں آتی ہیں تو سب ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان بھی خطے میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوا۔ وجوہات جو بھی ہیں، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کا کنٹرول ہمیشہ سے ملٹری کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ انڈیا جیسے پاکستان کے وجودی دشمن کا بارڈر پر ہونا ایک مسلسل جنگی پالیسی کا متقاضی ہے، خواہ سافٹ جنگ ہو یا کولڈ وار یا ہاٹ وار یہ پاکستان کا مقدر ہے۔ اس لئے ملٹری کا طاقتور ہونا پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہونے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا مقروض ہونے کے ناطے غاصب اسرائیل کو قبول نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہاں پر ملٹری کا طاقتور ہونا استعماری طاقتوں اور خطے میں انکے ایجنٹوں کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لئے مشرف حکومت کے خاتمے اور آئندہ کے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا گیا، وہ ملٹری ڈیکٹیٹرشپ کی جگہ سول ڈکٹیٹرشپ کو مضبوط کرنا ہے، پاک آرمی کو کمزور کرنا انڈیا اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں ہے اور یقیناً اسرائیل کا پشت پناہ مغربی بلاک اور خطے میں انڈیا اور اسرائیل کے دوست اسکی حمایت کریں گے۔ مذکورہ مقصد کے حصول کے لئے اس وقت پاکستانی ملٹری کو بیرونی محاذوں کے علاوہ تین اہم داخلی محاذوں پر الجھا دیا گیا ہے۔ ملٹری کے پروردہ اور ماضی و حال کے حلیف، دشمن نے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔

ان تین محاذوں کو یوں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1۔ تسلط پسند اور خود غرض سیاستدان:
ملک کی بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری اقدار اور جمہوری نظام کی رٹ لگا کر سول ڈیکٹیٹرشپ کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ انہیں امریکہ و مغربی بلاک، سعودیہ و خلیج اور انڈیا کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، دوسری طرف بااثر اور بانفوذ ہونے کی وجہ سے قانون اور عدالت سے ماوراء کی منزل تک پہنچ چکے ہیں اور انکی پوری توجہ سول فورسز کی مضبوطی، دہشتگردوں اور اسمگلروں کی سرپرستی اور اپنی اپنی بادشاہتوں کے قیام کی طرف ہے۔

2۔ وطن کی غدار طاقتیں:
ملٹری کے لئے دوسرا چیلنج وطن کے وہ غدار ہیں، جو دشمنوں کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ برملا پاکستان دشمن قوتوں سے مدد مانگ رہے ہیں کہ پاکستان اور پاک آرمی سے جنگ میں انکا ساتھ دیں اور انکا ایجنڈا ملک کی تقسیم اور بلوچستان اور دیگر علاقوں کی علیحدگی ہے۔ الطاف حسین اور براہمداغ بگٹی اور کئی ایک دیگر غدار اسکی مثالیں ہیں۔

3۔ تکفیری و دیوبندی دہشتگرد:
یہ دہشتگرد مغربی بلاک یعنی امریکہ، یورپ اور سعودی و خلیجی ممالک کی مدد اور پشست پناہی سے بننے والے ہمارے ماضی اور حال کے اسٹریٹجک اثاثہ جات اس وقت سب سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں شہید ہونے والوں سے زیادہ تعداد میں پاکستانی عوام کو قتل کیا ہے۔ انہی کے ہاتھوں سے سپاہی سے جنرل رینک کے آفیسرز شہید ہوئے۔ انہوں نے ملک میں خانہ جنگی کروانے کے لئے کبھی مذہب اور فرقہ اور کبھی دین کے نام پر عوام پر برملا حملے کئے۔ منظم طریقے سے بے بنیاد الزامات کی بنا پر 30 سال سے ایک فرقہ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے سڑکوں پر، جلسہ گاہوں میں کافر کافر کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے اندھے قانون میں نہ تو نقض امن کا مسئلہ بنتا ہے اور نہ کسی شہری کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس تکفیری فکر نے ایٹم بم سے خطرناک لاکھوں انسانی بم پیدا کئے ہیں، جو مساجد، امام بارگاہوں، ہسپتالوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، پولیس، آرمی کی چھاؤنیوں اور مراکز میں ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر پھٹتے ہیں۔

پاکستان کے تمام بحران امن و امان کے حوالے سے ہوں یا سیاسی، اقتصادی ہوں یا معاشی، اجتماعی ہوں یا ثقافتی، اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ان سب کا اصل سبب تکفیریت اور تنگ نظری ہے۔ جس ملک میں جان و مال اور ناموس خطرے میں ہو، وہاں نہ امن ہوگا نہ سرمایہ کاری، وہاں قربتوں کی جگہ نفرتیں جنم لیں گی۔نفرتوں کے ماحول میں قومی وحدت اور اتحاد ناممکن ہے اور دشمن بھی یہی چاہتا ہے۔ انہی تکفیری گروہوں نے جہانِ اسلام کی افواج کو کمزور کیا اور یہی تکفیری گروپ ہماری آرمی سے لڑ رہے ہیں۔ ہم ضرب عضب کے ذریعے دو سال سے جن تکفیری گروہوں کو ختم نہیں کرسکے، آج اگر سعودی عرب چاہے تو جس طرح الجزائر سے امریکہ کے کہنے پر تکفیری گروہوں کو حکم دیا اور وہ چلے گئے، پاکستان سے بھی انکا خاتمہ کرسکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی اگر آج امداد ختم کرنے اور پشت پناہی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لیں تو ہماری یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔

ملٹری مذکورہ بالا تینوں محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ دوسری طرف سول اسٹیبلشمنٹ استعماری منصوبے یعنی ملٹری نظام کو سول ڈکٹیٹرشپ سے تبدیل کرنے کی ریہرسل میں مشغول ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اس ریہرسل کے لئے بہترین میدان فراہم کرتا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ناقص پالیسی استعماری منصوبہ سازوں کی مزید مدد کرتی ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں جب چاہتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں کارروائی کر دیتی ہیں۔ دہشتگرد اور انکے سہولت کار ہمارے فرسودہ نظام کا حصہ ہیں۔ سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں انہیں مدد کرتی ہیں اور جو قانون سازی انکے خلاف ہوتی ہے، اسے انکی دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں یا مجبوراً دفاع کرنے والوں کے خلاف نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پولیس کی پرانی روش ہے اور بعض اندھے قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے جب کہیں قتل ہوتا ہے تو ہماری پولیس قاتل اور مقتول خاندانوں اور ان سے تعلق رکھنے والے دونوں طرف کے افراد کو بند کر دیتی ہے اور عموما اصل قاتل گرفتار نہیں ہوتے یا مفرور ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ تھانوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ انفرادی جرائم کو روکنے والی یہی ناقص پالیسی آج اجتماعی جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی اپنائی گئی ہے۔

سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی یا طالبان کے سربراہان اور راہنماؤں کہ جنھوں نے 80 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا اور ان تنظیموں نے دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی، آج انکی جب فہرستیں بنیں تو قاتل و مقتول سے مساوی رویہ اختیار کرنے والی پولیس اسٹیٹ نے اجتماعی طور پر یہی ظالمانہ پالیسی اختیار کی اور ملک میں رواداری اور وحدت کی ترویج کرنے اور بلا تفریق دین و مذہب، اجتماعی و فلاحی خدمات انجام دینے والے علماء کو بھی ان فہرستوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول دنیا بھر کے دہشگرد عراق و شام میں تباہی کے بعد ذلیل ہو کر پاکستان و افغانستان کا رخ کر رہے ہیں اور پاکستان کے مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انڈیا اور دوست ممالک کے رویئے بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں اور ھبہ اور ھدیہ میں دی گئی اربوں ڈالرز کی خطیر رقم کی واپسی کا تقاضا ہوچکا ہے، جسے حکمرانوں نے ھدیہ اور ھبہ کہہ کر اپنی مرضی سے قومی انٹرسٹ کو دیکھے بغیر خرچ کیا اور کرسی کو مضبوط کیا اور اب پاکستانی غربت میں پسی ہوئی عوام کے بجٹ اور ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا۔ تکفیریت اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا ملک کے غداروں کے خلاف یا ہوس پرست اور خود غرض سیاستدانوں کی حوصلہ شکنی، یہ سب کچھ عوامی حمایت کے بغیر ممکن نھیں۔ معتدل اہل سنت اور اہل تشیع کی حمایت اور قومی وحدت سے چیلنجز کا مقابلہ ممکن ہے، لیکن اگر ایک طرف دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ اور دوسری طرف حکمران طبقہ تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا رہا تو نتائج انتہائی خطرناک ہونگے۔
 


تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

محرم اور حکومتی خوف

وحدت نیوز(آرٹیکل) آئین پاکستان پاکستان کے ہر شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے اور اس کو مذہبی رسومات ادا کرنے کی ضمانت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے مناظر ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کی شادی ہو تو وہ روڈ کے بیچوں بیچ شامیانے لگا کر شادی کی رسومات ادا کرتا ہے  اور بارات کاجلوس لے کر کسی بھی روٹ پر جاسکتا ہے  چاہے اس میں کتنی ہی ہائی ٹیون اسپیکر کیوں نہ لگے ہوئے ہوں  ناچ گانے گاتے ہوئے جلوس آپ نے بھی بارہا دیکھے ہونگے ، اگر خدا نا خواستہ کسی کے ہاں میت ہو جائے تو وہ بھی کسی بھی جگہ صفیں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں  اور جنازہ لے کر کسی بھی روٹ یا راستے سے گذر سکتا ہے ،  اور عید قرباں پر قربانی کا جانور لے کر کہیں بھی گھما سکتا ہے دوسرے مذاہب کے جلوس جس میں ہولی وغیرہ کے جلوس بھی اسی طرح نکالے جاتے  ہیں اور شادی یا فوتگی میں آنے والے مہمانوں  کوکسی بھی جگہ پانی پلایا جاتا ہے اور ان تمام معاملات میں کسی پرمٹ یا پیشگی اجازت کی ضرورت نہیںاور نہ ہی اس قسم کے انتظامات میں کسی کمی یا زیادتی کے لئے حکومت سے اجازت کی ضرورت ہے   یہ ہر پاکستانی کو آئین حق دیتا ہے اور اس حق کے تحفظ کی ضمانت بھی آئین پاکستان دیتا ہے ۔

لیکن پاکستان مین کچھ عناصر ہیں جو پاکستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں وہ کبھی سیاستدانوں کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی  عالم دین کے روپ میں آتے ہیں حالانکہ ان کا تعلق نہ دین سے ہوتا ہے نہ سیاست سے وہ فقط اپنے لالچ اور ہوس کے بندے ہوتے ہیں البتہ نہروپ دھار کر ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو اپنے سیاستدان یا عالم دین ہونے کا دھوکہ دے چکے ہوتے ہیںاور سادہ لوگ انہیں اسی روپ میں قبول کرلیتے ہیں  جبکہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے یزداں فروشی اور کشورفروشی کرتے ہوئے سادہ عوام کو دین اور سیاست کے نام پر دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور ایسے ایسے معاہدے کرتے ہین کہ انسانیت دنگ رہ جاتی ہے  شیطانیت شرماجاتی ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان معاہدوں کے نتیجے میں کسی پر کوئی پابندی نہیں حتیٰ کہ کالعدم تنظیموں پر بھی پابندیاں نہیں وہ بھی نئے نئے جلو س نکالتی ہیں  اور نیشنل ایکشن پلان کا منہ چڑاتی ہیں  مگر آئین کی اجازت کے باوجود اگر پابندی ہے توصرف پاکستان کی اس قوم پر جو جوقیام پاکستان سے لیکر آج تک ہزاروں لاشوں کو اٹھانے کے باوجود کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایابلکہ ہمیشہ ملکی سلامتی کو پیش نظر رکھا اور ضبط کا مظاہرا کیا ملک کو بچانے کے لئے جس قوم نے نیشنل ایکشن پلان کو وجود بخشا آج اسی پلان کا سہارا لے کر اسی قوم کو مزید پابندکیا جارہا ہے۔اورصرف ایک قسم کے  جلوس اورمجلس یا پانی پلانے پر حکومت کی جانب سے پابندی ہے اور وہ ہے حسین علیہ السلام کے لئے کیا جانے والا کوئی بھی پروگرام چاہے جشن کی صورت میں ہو یا غم کی صورت ہواگر لوگ زیادہ آئیں تو ان کو پانی پلانے کے لئے بھی جتنی حکومت اجازت دے اتنا  پانی پلایا جائے ورنہ حکومتی رٹ کا مسئلہ ہوجاتا ہے ، اس بحث کو چھوڑکر کہ یہ ایک مکتب فکر کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے اس کی وجہ پر غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے ۔
تو اس کے لئے حسین ؑ کو غور سے سمجھنا پڑے گا کہ حسین ؑ نے ایسا کیا کیا تھا کہ ہر حکومت سب کو تو اجازت دے دے مگر حسین ؑ کو یا اس کی یاد منانے والوں کو ان پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے ۔ تو ہم اس تحریر میں پوری تاریخ تو نہیں لکھ سکتے مگر دیکھتے ہیں کہ حسین ؑ کا راستہ اس وقت کی حکومت نے روکا تھا اور روٹ پرجانے کی اجازت نہیں دی تھی  اور فکر حسین ؑ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی تھی پانی پینے  پربھی حکومت نے پابندی لگائی تھی  تو حکومت کو کیا ضد تھی حسین ؑ سے
تومجموعی طور پر ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت نااہل لوگوں کی تھی اورحکمرانوں نے دین فروش علماء  ، ضمیرفروش راویوں اور لاکھوں کی تعداد میں سپاہ اپنے ساتھ رکھنے کے باوجود اس خوف سے نہیں نکل پائے تھے کہ اگر حسین ؑ پرپانبدیاں نہ لگائیں تو ہماری یہ حکومت نہیں رہے گی لہذا حسین ؑ پر پابندیاں لگائی گئیں۔تب سے لیکر آج تک کے نااہل حکمرانوں کے دل سے وہ خوف ختم نہ ہو سکااور نہ ہی یہ خوف قیامت تک ختم ہوگا یہ چاہے جتنے بھی  حکومتی پروٹوکول میں رہیں یا ادوار جتنے بھی ترقی یافتہ ہوں یا آئین کیسے ہی  جدید کیوں نہ بنا لیں  ۔حسین ؑ اور حسینیوں پر وہی پرانی پانی ،  روٹ  اورحسینی  آواز پر  پابندیا ںلگاتے رہیں گے  ان کی نااہلی ان کے دلوں میں خوف بن کر ہمیشہ رہے گی اور یہ اپنے پیش روئوں کی طرح ہر دورمیں  پابندیاں لگاتے رہیں گے ۔ اور دین فروش علما ء ، ضمیر فروش راویوں  اور بااثر معاشرے کے افراد کو خرید کر مختلف معاہدے کرکے حسینیوں کو پابند کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے ابھی تو انہوں نے صرف خیرپور اور سکھرکے ضمیر اور دین فروشوں کو خریدا ہے ابھی سندھ بھر میں  اور منڈیاں لگیں گی   حکمرانوں کے خوف کو دیکھ کر تھوڑا سا اندازہ ہو رہا ہے کہ حسین ؑ نے کتنا شدید حملہ کیا تھا ان ظالموں پر کہ یزید کل کا خوفزدہ حکمران تھا اور یہ آج کے خوفزدہ حکمران ہیں ۔
 
جوظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جوجبر کا منکر نہیں وہ منکردیں ہے


تحریر ۔۔۔۔۔عبداللہ مطہری

دوطرح کے لوگ

وحدت نیوز(آرٹیکل) گندگی تو گندگی ہے۔ہمارے ہاں گندگی کے ساتھ جینے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اگر کسی شہر میں   ہر طرف گندی نالیاں ہوں، جگہ جگہ   گندگی کے ڈھیر لگے ہوں اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو تو لوگ ہرروزاپنی  ناک اور منہ لپیٹ کرخاموشی کے ساتھ  وہاں سے گزر جائیں گے۔اکثر اسے اللہ کی مرضی سمجھتے ہوئے تھوکیں گے بھی نہیں۔

بے شک کئی سال گزرجائیں ،کوئی بات نہیں لوگ اسی طرح ناک اور منہ لپیٹ اور پائنچے اوپر اٹھا کر گزرتے رہیں گے۔ایسے میں اگر کوئی شخص اس گندگی کو صاف کرنے کے لئے کمر ہمت کسے اور متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑ کر صفائی کروانا چاہے تو لوگوں کا ایک طبقہ فورا اپنی ناک سے رومال ہٹاکر کہے گا کہ یہ سب تو ایجنسیوں کو خوش کرنے ،میڈیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہورہاہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ جو ناک اور منہ پر رومال لپیٹ کر اس گندگی میں سانس لیتے رہے ۔آپ نے کس وجہ سے گندگی کے ساتھ کمپرومائز کئے رکھا!؟

ہمارے ہاں ماحول کی آلودگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی آلودگی اور لاقانونیت کی بھی بھرمار ہے۔لوگوں کی ایک اکثریت اخلاقی اور قانونی مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتی ،لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مسائل کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے کیسے حل کیاجاتاہے۔

اکثریت بس ناک منہ لپیٹ کر وقت گزارنے والوں کی ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے ناک منہ لپیٹ کر کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرتی رہی۔

اس دوران قم کے ایک عالم دین نے اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف آواز بلند کی۔بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے خود تفتان روٹ پر سفر کیا،لوگوں کی مشکلات سنیں اور اعلی سطح پر یہاں کے مسائل کوحل کروانے کے لئے مہم چلائی۔

ابھی ان کا دورہ جاری ہی تھا کہ  طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں،میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ہم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ہوجائیں،کیا ناک اور منہ لپیٹ کراور پائنچے اوپر اٹھا کرنسل در نسل اسی طرح گزرتے رہیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افائی کریں۔

لوگ دو طرح کے ہی ہیں کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کر کے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

اب  دوسروں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں ،یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم کس طرح کے لوگوں میں شمارہونا پسند کرتے ہیں۔ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضاکی  خاطرجدوجہد کرنے والوں کے ساتھ۔

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree