وحدت نیوز(آرٹیکل) ۔۔۔۔۔ ہم نے ہزاروں احتجاج کئے ،جلسے کیے ،مارچ کئے ،دھرنے دیئے مگر کیا ہوا؟کیا نتیجہ نکلا؟
۔۔۔۔۔ ہم نے مختلف اتحاد بنائے ۔مذہبی جماعتوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی مگر کیا ملا؟
۔۔۔۔۔ہم نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی مگر موجودہ سیاسی نظام میں وہ بھی فالج زدہ ثابت ہوئے ۔
یہ مظلوم شیعہ یہ مظلوم سنی!یہ مظلوم برادریا ں آخر کیا کریں ؟کہ یہ ملک عزیز پاکستان ان درندوں سے محفوظ ہو ؟
ایسے میں ضرورت تھی کہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے ،بیدار کیا جائے ،لوگوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف نکالا جائے ۔ایسی تحریک جس میں تشدد کا شائبہ تک نہ ہو ۔ایسی تحریک جو خالصتاٌ مظلومیت کی آواز ہو ۔ایسی تحریک جو دنیا بھر کے مظلوموں کی توجہ حاصل کرئے ۔ ایسی تحریک جس میں ہر مذہت ،مسلک اور مکتب کا مظلوم پناہ لے ۔ایسی تحریک جو مظلوموں کو آپس میں جوڑ دے ،ایسی تحریک جو ظالموں کو ہمیشہ کے لئے رسوا اور شرمندہ کر دے ، ایسی تحریک جو صبر و استقامت کی علامت بن جائے ،ایسی تحریک جس کا رشتہ کر بلا سے جڑا ہوا ہو ۔ایس تحریک جو سرفروشوں کی مختصرجماعت ہو مگر لاکھوں ظالموں کے دلوں کو دہلادے ۔
جی ہاں ! یہ وہ حالات تھے اور یہ وہ مقاصد ہیں جنکے حصول کیلئے ایک مر د مجاہد تنھامیدان عمل میں آیا ۔اس نے کسی کو امتحان میں نہیں ڈالا۔بلکہ خود اپنے آپ کو امتحان میں ڈالا۔اسکے ساتھ چند ساتھی شامل ہوئے ،عزم واستقامت کے ساتھ عہدوپیمان کے ساتھ، شہادت کے پیمان کے ساتھ ۔
اس تحریک کا نتیجہ ؟؟
یہ سرفروش جو مجاہد ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ موجود ہیں نتیجے کی پروا کئے بغیر ۔۔۔
کیونکہ ہمارا کام جدوجہد کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے
شہدائے کربلاسے عہد وپیمان کرنے والے عاشقان حسین، غلامان حیدر کرارؑ نتیجے کی پروا نہیں کرتے ہمیں نتیجہ تو مل چکا ہے ۔ آج پاکستان کے کونے کونے میں بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے آج عالمی ضمیر کروٹ لے رہا ہے ہم مرجائیں گے مگر اپنی ملت کو وقار اور عزت دے کر جائیں گے ہم مظلوم کو مر کر جینے کا سلیقہ سکھا جائیں گے آپ سے کچھ نہیں چاہتے سوائے دعا کے ،آپ ہماری ثابت قدمی کے لئے دعا کیجئے کہ ہم اپنے آقا و مولا سید وسردار حسین ؑ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر جائیں ،دعا کیجئے کہ ہمارے وقت کا امام ؑ اپنی غلامی میں قبول کر لے ،دعاکیجئے کہ دنیا بھر کے مظلوم متحد ہو جائیں دعا کیجئے کہ اس مٹی کا جو قرض ہم پر ہے ہو ادا کر جائیں دعا کیجئے کہ ہمار ے پاک شہداء کی اروح ہم سے راضی ہو جائے ، دعا کیجئے کہ اپنے شہداء کے ورثا کے سامنے ہم سرخرورہیں ۔اے آسمان و زمین گواہ رہنا ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ہمیں کسی سے کوئی صلہ نہیں چاہئے سوائے اپنے رب سے مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہیں ۔
ہے کوئی مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے والا؟؟
اب نہیں تو کب
شیعان حیدر کرار!
یہ ملک عزیز پاکستان جو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ۔پاکستان کی آزادی کے حصول میں جتنی جانی اورمالی قربانی آپ نے دی کسی اور نے نہیں دی ۔
پاکستان کی آزادی کی پوری تحریک راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کی مرہون منت ہے پاکستان بننے کے بعد جب خزانے میں ایک ٹکہ بھی نہ تھا یہ ہماری حبیب فیملی تھی جس نے پورے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی تھیں ۔
الغرض اگر گنوانا شروع کریں تو ہزاروں صفحات درکار ہوں گے ۔انصاف کی بات یہ ہے کہ اس پوری جدوجہد میں ہمارے اہل سنت بھائی اور ان میں بھی بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی اکثریت اس آزادی کی جنگ میں ’’دام درھم سحن قدم ‘‘قائداعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ رہی ۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں جب پاکستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور مسلمانان ھند برٹش اور ہندو تسلّط سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خون کے دئے جلا رہے تھے ۔ایک خاص طبقے نے انگریز اور کانگریس کی حاشیہ نشینی اختیار کی اور پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیا ۔
لیکن الحمداللہ مذہب و ملت کے ان غداروں کو مسلمانان برصغیر نے رد کر دیا ۔اور چودہ اگست 194ء کو لہو میں ڈوبا ہوا آزاد ی کا سورج طلوع ہوا ۔اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی ۔تاریخ بشریت کی سب سے بڑی اور کربناک ہجرت وجود میں آئی ۔تین ہزار کلومیٹر کے راستو ں میں کہیں خون میں لتھٹری ہوئی لاشیں تھیں ۔کہیں جلی ہوئی آبادیاں تھیں،کہیں مظلومیت کا نوحہ پڑھتی سوختہ مساجد ۔قوم کی بے شمار بیٹیوں کی عصمت دری اور بے حرمتی کا درد ناک باب جسے نقل کرنا تو کجاسوچ کر انسانیت پر لرزہ طاری ہو جاتاہے ۔لیکن ان تمام مصائب اور آلام کے سمندر میں بھی ہم خوش تھے کہ ہمیں آزادی نصیب ہوگئی ہے ۔
آزادی کی خوشیوں میں ایک بات بھول گئے تھے کہ انگریزوں اور کانگریس کا زر خرید غلام بھی کالی بھیڑوں کی صورت اس کاروان میں شامل ہو چکا ہے ۔تحریک آزادی کے اس غدّار ٹولے کو جب اپنے پہلے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ یعنی پاکستان بن گیا تو اب اس غدّار ٹولے کو دوسرا ہدف دیا گیا کہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے اور بدترین تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے ۔
تحریک آزادی کے یہ شکست خوردہ اورزخم خوردہ سانپ اب پاکستانی بن کر ہماری صفوں میں داخل ہوگئے ۔اِنہیں غداروں
نے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے اسباب فراہم کئے ۔انہی دہشت گردوں نے بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے اور
ان کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے جو بعد میں نفرت کی ایک پور ی فصل کی صور ت میں سامنے آئی ۔
تاریخ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ سب سے پہلے دہشت گرد ٹولے کن لوگوں کے وجود میں آئے ۔جی ہاں یہ وہی جماعتیں اور
گروہ تھے جو قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان قرار دیتے تھے ۔جی ہاں ! یہ وہی انتہا پسند مذہبی گروہ تھے جنھوں نے پاکستان
کے تعلیمی اداروں میں اسلحہ متعارف کروایا اور بہترین تعلمی اداروں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا ۔
امریکی سامراج جو برطانوی سامراج کی جگہ سنبھال چکا تھا یہ گروہ اس کے غلام بے دام بن گے کیونکہ انہیں پاکستان سے بدلہ لینا تھا ۔ان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے ۔آدھا پاکستان توڑنے کے بعد یہ گروہ کوشش کرتے رہے ،جدوجہد کرتے رہے کہ کس طرح باقی پاکستان کو ٹھکانے لگایا جائے (نعوذباللہ )یہ جانتے تھے کہ انتخابات کے ذریعے یہ کبھی بھی پاکستان پر اپنا تسلّط قائم نہیں کرسکتے
کیونکہ 1970ء سے لے کر آج تک کے انتخابی تنائج گواہ ہیں کہ پاکستان کی عوام نے ہمشہ انہیں بری طرح رد کیا ۔
1977ء میں ضیاء الحق کی صورت میں انھیں ایک سرپرست میّسر آیا ۔ضیاء الحق کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے عوام کے ان رد شدہ
عناصر کی ضرورت تھی ،اور امریکہ کو بھی ایک ایسے ہی اقتدار کے بھوکے حکمران کی ضرورت تھی جو خطے میں اس کے سامراجی عزائم میں اسکا
مددگار ہو ۔
روس (اس زمانے کا U.S.S.R)کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی مذہب و ملّت کے ان غداروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں
دوسری طرف ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکہ کو جس صدمے سے دوچار کر دیا تھا اُس کا تقاضا تھا کہ وہ عناصر جن کا پاکستان اور تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا ۔انہیں منظم کیا جائے ۔اور عالم اسلام کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا جائے ۔
ان حالات کے پس منظر میں امریکہ نے اپنے پٹھو ضیاء الحق کے ذریعے ایک طرف پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینا شروع کی
دوسری طرف افغانستان مین نام نہاد جہاد کے نام پر تاریخ بشریت کے سفاک ترین درندوں کو پروان چڑھانا شروع کردیا ۔اسی ضیاء الحق کے دور میں لسّانی ،مذہبی ،علاقائی ،صوبائی نفرتیں اپنے عروج پر پہنچیں ۔
کلاشنکوف اور ہیروئن متعارف ہوتی ہے ۔1980 ؁ء شیعوں کے خلاف بھیانک کھیل کا آغاز ہوتا ہے ۔منظم اور بھرپور طریقے سے ریاست کی سرپرستی میں شیعیان حیدر کرار ؑ کے خلاف تحریک شروع کی جاتی ہے ۔قتل وغارت کا آغاز ہوتا ہے ۔ ہر شہر کو ہمار ی قتل گاہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے
ہم چلاتے رہے ۔شور مچاتے رہے ،حکمرانوں کو خبردار کرتے رہے کہ اس آگ سے
مت کھیلو ،پاکستان سے دشمنی نہ کرو،جن عناصر کو تم ہمارے خلاف استعمال کر رہے
ہو ،وہ تمھارے دوست نہیں بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں
ہم ہوشیارکرتے رہے کہ جو آگ تم ہمارے لئے جلا رہے ہو ایسا نا ہو کہ ایک دن سارا ملک اس میں جل رہا ہو ،مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے ۔ہم بتاتے رہے کہ ہم صدیوں سے ان حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ،ظالم حکمرانوں کے لئے تختِہ مشقِ ستم بنے رہے ہیں ۔مگر ہمیں مٹانے کاخواب دیکھنے والے خود مٹ گئے ۔ بنوامیّہ اور بنی عباس کا بھیانک اور عبرت ناک انجام دنیا کے سامنے ہے ۔
ہمارے ہی وطن میں ہم پر ہی زمین تنگ کر دی گئی ۔عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا پارہ چنار سے کوئیٹہ ،خیبرسے کراچی اور گلگت بلتستان سے لے کر پاکستان کے کونے کونے میں ہمارا قتل عام کیا گیا ۔ہمارے ڈاکٹرز ،ہمارے انجینئرز،ہمارے افسران ہمارے علما، ہمارے ذاکرین ہمارے رہنما۔ہمارے بوڑھے ،معصوم بچے یہاں تک کہ ہماری خواتین کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا اور کیا جارہا ہے ۔
’’ اور یہ سب کچھ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہوتا رہاپوری دنیا میں
ہماری حمایت میں آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔
بالاخرجب افغانستان میں امریکہ کا مقصد پورا ہو گیا اور روس وہاں سے نکل گیا تو امریکہ نے حسب دستورشیطانی وہ سارا ملبہ
پاکستان پر گرادیا ۔وہ امریکہ جس نے ضیا ء الحق کی مددسے پاکستان میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کی نرسریاں قائم کی تھیں اور ساری دنیا کے دہشت گرد یہاں پروان چڑھ رہے تھے ۔اسی امریکہ نے انھیں فسادیوں کو پاکستان پر یلغار کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
عرب ممالک کی دولت جو عالم اسلام کی یکجہتی اور ترقی کے لئے استعمال ہونا چاہیے تھی وہ پاکستان میں مدارس کے نام پر دہشت گردوں کی تربیت اور برین واشنگ کے لئے استعمال ہونے لگی اور تاحال ہور رہی ہے ۔افغانستان میں وہ تباہی نہیں ہوئی جو افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد پاکستان میں شروع ہوگئی،
پاکستان کے تمام دفاعی اور سول اداروں میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا راج ہو گیا ۔اور دہشت گرد ۔پورے ملک میں کھلم کھلادندناتے ہوئے انسانوں کے قتل عام میں مصروف ہو گئے ۔عدالتیں سزادینے سے قاصر ،پولیس کی کالی بھیڑیں سرپرستی میں مصروف
سول اداروں میں اہم عہدوں پر دہشت گردوں کے کمانڈورں کا قبضہ تعلیمی اداروں میں نفرت انگیزتعلیم ،گھر گھر نفرت انگیز لٹریچر کی تقسیم ۔
اور بدنصیبی تو دیکھئے کہ جہاں عوام نے دہشت گردوں کو اپنی قوت بازوسے شکست دی جیسے کہ پارا چنار اور گلگت بلتستان ،وہاں
ریاست نے انتقامی کاروائیاں شروع کر دیں ۔اور جو کام دہشت گرد نہ کرسکے وہ ریاستی اداروں نے کیا اور یہاں کے مظلوم عوام پر ظلم وستم
کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے ۔اور بالاخروہی ہوا۔جسکی طرف ہم برسوں سے اشارے کررہے تھے ۔پاکستان کے نام نہاد مذہبی شدت پسندگروہوں نے پورے ملک پر اپنا تسلّط جمانے کے لئے ہر طبقے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔
اہم سنت بھائی خاص طور پر بریلوی مسلک ان کا دوسرا بڑا نشانہ بنے پھر سکھ ،عیسائی ۔ہندواور دوسری اقلیتی برادریا ں ان کا ہدف قرار پائیں اور پھر
’’مساجد ،مزرارت ،دربار،بارگاہیں ،پارک ،بازار،مندر ،چرچ ،گردوارے کچھ بھی محفوظ نہ رہا ‘‘
اور پھر ہمارے دفاعی اداروں کو اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا ۔اب تک 8000 کے لگ بھک ہمارے وطن کے سپوت ہماری سرحدوں کے محافظ ماضی کی پالیسیوں کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔معصوم بچے اسکولوں میں قتل کر دیئے گئے
مختلف ناموں سے وہی سپاہ،وہی لشکر ۔کہیں طالبان ، کہیں القاعدہ اور اب داعش کی صورت میں گلی گلی ،محلہ محلہ ،شہر شہر انسانوں کی شکل میں چھپے بیٹھے ہیں ۔اور جب موقع ملتا ہے بلکہ ہر روز کہیں نہ کہیں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔

مثالی یکجہتی

وحدت نیوز (آرٹیکل) استعماری طاقتوں اور انکے آلہ کار تکفیری شدت پسندوں کی ملی بھگت سے سرزمین پاکستان پر غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کی سازش عمل پذیر ہے۔ مدافع اسلام، محافظ وطن، ولایت فقیہ کے خط پہ قائم ملت تشیع پاکستان کو زبردست چینلجز کا سامنا ہے۔ ایک محاذ مسلمانوں کے درمیان وحدت کی فضا کو برقرار رکھنا، دوسرا وطن عزیز کی سلامتی ہے۔ ملت تشیع کی ترقی، رشد و ارتقا اور استحکام کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر استحکام پاکستان اور وطن عزیز کی نظریاتی بنیادوں کے دفاع تک ملت تشیع کا کردار تاریخ کا اہم باب ہے۔ گذشتہ دنوں پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں تکفیری دہشت گردوں کی بہیمانہ کارروائیوں میں متعدد شیعہ مسلمان شہید کئے گئے ہیں۔ پارا چنار میں متعصب ایف سی افسر کی جانب سے نہتے لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ساری صورتحال میں پورے ملک میں بے چینی کی نئی لہر پیدا ہوئی۔ تمام شیعہ تنظیموں نے پورے ملک میں مظاہرے کئے اور احتجاج ریکارڈ کروایا، سرکاری یقین دہانیوں کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احتجاج کی کال دی، پھر وفاقی دارالحکومت میں بھوک ہڑتال شروع کی، جو تاحال جاری ہے۔ بھوک ہڑتال احتجاج کا مہذب انداز اور آخری حد ہے، ورنہ پاکستان کی سڑکیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہاں ظلم کے مارے کئی لوگون نے اپنے آپ کو آگ لگائی ہے، لیکن ستمگر حکمران اشرافیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ایم ڈبلیو ایم ایک ملک گیر شیعہ تنظیم ہے، سیاسی میدان میں اپنی ساکھ رکھتی ہے، جہاں قیادت علماء کے پاس ہے، پڑھے لکھے جوان علماء کا دست و بازو ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس کی طرف سے شروع کی گئی احتجاجی تحریک کی یہ دوسری بڑی مثال ہے، اس سے پہلے سانحہ کوئٹہ کے موقع پر ملک گیر دھرنوں نے پورا نظام جام کر دیا تھا۔ ملت تشیع کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لئے ایم ڈبلیو ایم نے دس نکات پر مشتمل مطالبات پیش کئے ہیں۔ اہل سنت تنظیموں نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے۔

بھوک ہڑتالی کیمپوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ ایک بار پھر ملت تشیع پاکستان کو یکجہتی اور ٹھوس بنیادوں پہ متحد ہو کر اپنے وجود کا ثبوت دیتے ہوئے، ملک کے طول و عرض میں شہید ہونے والے معصوم پاکستانیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، آئی ایس او پاکستان نوجوانوں کا ہراول دستہ ہے، شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اس کی تصدیق کی کہ یہ نوجوان میرے پر ہیں، جن سے میں پرواز کرتا ہوں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین دو الگ الگ تنظیمیں ہیں، انکے الگ دستور، تشکیلات اور ادارے ہیں، دونوں اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں۔ مذکورہ تنظیمیں فعال اور موثر ترین تاریخ رکھتی ہیں۔ امامیہ نوجوانوں کی جانب سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اسٹینڈ کی تائید ایک اہم موڑ ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے گلگت سے کراچی تک احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

لاہور میں بھوک ہڑتالی کیمپ علماء کی سرپرستی میں جاری ہے۔ یہ وقت اعتراضات اور تحویلات کا نہیں، یہ عمل کا وقت ہے، میدان سج چکا ہے، دشمن تمام حربے آزما رہا ہے، ملک کی سلامتی کو دہشت گردی اور کرپشن کے عفریت نے گھیر رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ وحدت سے مراد ادغام اور ضم ہونا نہیں ہے، لیکن ایک سوال موجود ہے کہ کیا ایک ہی مسلک، ایک ہی فرقے اور ایک ہی خط پہ چلنے والے مختلف گروہوں کے درمیان ہم آہنگی، اتحاد اور وحدت کو کیسے ادغام اور ضم ہونا کہا جا سکتا ہے۔ دراصل زیادہ قربتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر کوئی نیا نظریہ بنانے کی ضرورت ہی نہیں، مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک غیر ضروری نکتہ ہے کہ وحدت سے مراد ضم ہونا نہیں ہے، الگ مونوگرام، تنظیمی دستور، ڈھانچہ، دفتر اور ایک دوسرے سے مختلف رنگ کے جھنڈے بنا کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینا عقل کا تقاضا ہے، اس سے الگ مسلک اور الگ مشرب نہیں بن جاتا ہے، جہاں یہ کہا جائے کہ ہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتے۔ اہل ایمان کا خمیر ایک ہی مٹی سے اٹھا ہے، وہ ایک نور سے خلق ہوئے ہیں، ایک امام علیہ السلام کے پیروکار ہیں، سب نائب امام کے سپاہی اور کارکن ہیں۔

ملت واحدہ، ملت واحدہ ہے، ایک ہی مسلک کے کارکنوں، تنظیموں اور اداروں کے درمیان وحدت ایک اصول کے طور موجود ہے، شہید باقر الصدر نے جس طرح فرمایا کہ امام خمینی میں اس طرح ضم ہو جاو، جیسے وہ اسلام میں ضم ہوچکے ہیں، امام خمینی کے پیروکار ہونے کے دعویدار کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم نہیں ہوئے، جیسے وہ اسلام میں جم ہوچکے تھے۔ مکتب اہلبیت علہیم السلام کے ماننے والے ایک ہیں، ایک جھنڈے تلے جمع ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ایم ڈبلیو ایم نے مختلف اضلاع میں بھوک ہڑتالی کیمپوں کا سلسلہ بڑھانا شروع کیا ہے اور آئی ایس او پاکستان کے نوجوان بھی انکی حمایت اور تائید سے یکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر علی مہدی کی جانب سے مرکزی کابینہ سمیت اسلام آباد کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت دو برادر تنظیموں میں مثالی یکجہتی کی دلیل ہے، یہ وقت کا تقاضا اور قوم کی ضرورت ہے۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

مٹھاس

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ سال پہلے کی بات ہے۔گاڑی چھانگامانگا سے گزررہی تھی۔  میری ساتھ والی سیٹ پر  کوئی اونگھ رہاتھا۔ اچانک اونگھتے ہوئے شخص نے  مجھے چٹکی کاٹی۔

ہوں ! میں چونک گیا۔

ابے صاحب ڈر گئے،اجنبی مسکراتے ہوئے بولا۔

نہیں تو!میں نے قدرے تکلف سے کام لیا۔

مجھے ۱۹۷۱کی ایک  بات یاد آئی ہے۔سوچا آپ کو بھی سنا دوں۔اجنبی نے یہ کہتے ہوئے کسی قسم کا تکلف نہیں کیا۔اس نے بغیر کسی وقفے کے بات شروع کردی:

اس نے بتایاکہ  میری جوانی کے دن تھے۔ایک مرتبہ  کچھ دوستوں کے ساتھ مجھےچھانگامانگا  آنا پڑا۔گھنے جنگل کے نزدیک  کچھ لوگ ایک چھپر ہوٹل میں چائے پی رہے تھے۔ہم دوست بھی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔

موسم بھی گرم تھا اور موضوع بھی لسانی اور مذہبی فسادات کا چل رہاتھا،اخباروں کی طرح چائے کے کپ میں بھی گھٹن تھی اور گھٹن سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔اتنے میں ایک ملنگ  پر ہماری نظر پڑی،لمبے لمبے بال،پھٹاہوا اور پرانا کرتا،گندھا اور بدبودار جسم،سوکھے ہوئے ہونٹ اور گردن میں خالی کشکول۔

 ہم نے اسے بھی  اپنے پاس بٹھالیا۔ملنگ خاموشی سے بیٹھ گیا،وہ  ہماری باتیں ایسے سن رہاتھاجیسے بالکل نہیں سن رہا۔وہ چائے دانی سے کپ میں مسلسل چائے پہ چائے ڈال کر پیتا جا رہے تھااور بس۔۔۔

ہم بھی فسادات اور خون خرابے پر آنسو بہائے جارہے تھے۔انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کے لئے کئی مرتبہ ٹھندی آہیں ہمارے سینے سے ابھریں اور عرش اعظم سے ٹکرائیں۔

]اس دوران کئی مرتبہ چائے میں چینی گھولتے ہوئے ملنگ کے چمچ  کی ٹھن ٹھن سے ہم تھوڑے سے بیزار بھی ہوئے۔کچھ دیر بعد ہمیں احساس ہوا کہ ملنگ صاحب ہمیں تنگ کرنے کے لئے چمچ سے ٹھن ٹھن کر رہے ہیں۔[

ایک دوست نے قدرے ناراحتی کے ساتھ ملنگ کو مخاطب کیا،باباجی آپ کچھ فرمانا چاہتے ہیں!؟

ملنگ نے چائے کی چسکی لی اور پھر بولا دیکھو بچو! انسان جب چھوٹا ہوتا ہے تو اس کی خواہشیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں اور اس کے غم بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔وہ جلدی راضی ہوتا ہے اور  جلدی ناراض لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے  اس کی خواہشیں طولانی ،ناراضگیاں لمبی ، دوستیاں کم اور انانیت زیادہ ہو جاتی ہے۔

یہ کہہ کر ملنگ نے ایک مرتبہ  پھرچینی کی چمچ کپ میں ڈالی اور ہلانی شروع کر دی اور پھر کہنے لگا  کہ اگر میں ساری دنیا کی چینی خرید کر بھی پی جاوں تو کیا میں میٹھا ہو سکتا ہوں۔جب تک میرا دل داغدار ہے تب تک میری زبان کڑوی ہے۔

اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص کے کے کاندھے تھپتھپا کر کہا تم ابھی جوان ہو  !کوشش کرکےاندر کے کڑوے پن کو ختم کرو ، یہ ہمارے اندر اور باطن کا ذہر اور کڑوا پن ہے  جو باہر کے ماحول کو مسموم کرتاہے۔

یہ کہہ کر ملنگ نے قریب کھڑے ٹرک کی طرف اشارہ کیا جس کے پیچھے بہت بڑا لکھا تھا:

آپ اچھے  جگ اچھا۔

ملنگ اشارہ کر کے ہم سے دور چلاگیا،ہم نے بہت منتیں کیں،مزید چائے پلانے کے جھانسے دیے لیکن اس نے پھر زبان نہیں کھولی۔اور ہم اپنی زبانوں پر یہ جملہ لئے واپس آگئے:

"آپ اچھے  جگ اچھا"

یہ کہہ کر  میرے ساتھ والے اجنبی نے اخبار میرے سامنے لہرایا،جس پر یہ خبر لگی تھی کہ  مشہور قوال قاری سعید چشتی کو قتل کردیا گیا۔

میں ٹھٹھک کر بولا جو قوم ،سائنسدانوں،دانشوروں،قوالوں،ذاکروں،شاعروں اور ادیبوں کو بھی قتل کردے ،کیا اُس کی اصلاح پولیس کرسکتی ہے!؟

کیا اس کا ذہر مقدموں اور جیلوں سے ختم ہوسکتاہے!؟

کیا اس کے کڑوے پن کو عدالتیں ختم کرسکتی ہیں؟

اجنبی بولا نہیں ہر گز نہیں،یہ کہہ کر اس نے گاڑی سے باہر اشارہ کیا:

باہر تیل کا ایک ٹینکر کھڑا تھا،جس کے پیچھے جلی حروف میں لکھا تھا:

آپ اچھے ۔۔۔جگ اچھا

ہم دونوں نے یہ دیکھا اور مسکرا دئیے۔

جی ہاں! آپ اچھے تو جگ اچھا ورنہ اگر ہم ساری دنیا کی چینی خرید کر بھی پی جائیں تو میٹھے نہیں ہوسکتے۔


تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں کھٹکتا رہتا تھا، جس سے میرا ذہن ہمیشہ اضطراب میں رہتا تھا، میری ہمیشہ سے کوشش یہ رہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل کو حل کئے بغیر نہیں رہوں گا۔ اس سوال نے مجھے مختلف لائبریریوں تک پہنچا دیا، مختلف دانشوروں سے سوال کرنے پر مجبور کیا، مختلف شہروں میں پھرایا، آخر کار جب مجھے قانع کنندہ جواب ملا تب مجھے اطمینان محسوس ہوا، شاید یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی موجزن ہو، وہ سوال تھا کہ جن بزرگان دین کو ہم اپنا پیشوا مانتے ہیں، ان کی ستائش اور تعریف و تمجید کو ہم اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، کیا وہ حقیقت میں ہی ان مقامات عالیہ پر فائز ہیں یا ہمارے والدین کی تربیت کے باعث ہمارے ذہنوں میں ان کا ایک ایسا مقام بن گیا ہے؟ میں نے مختلف اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا، ہر جگہ ان ہستیوں کی فضیلتوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے تھے، پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوا، شاید دینی پیشوا ہونے کی بنا پر مسلم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے حقیقت کو دیکھے بغیر اپنی ذاتی عقیدت کی بنا پر ایسا کیا ہو، اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ میں غیر مسلموں کے آثار اور کتابوں کا ذرا مطالعہ کرکے دیکھتا ہوں کہ وہ ان ہستیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیونکہ حقیقی فضیلت وہ ہوا کرتی ہے، جس کی شہادت دشمن بھی دے۔

میں نے حضور اکرم (ص) کے حوالے سے دیکھا، سبھی دوست و دشمن ان کے مداح پائے، حضرت زہرا ؑ کے حوالے سے میں نے تحقیق شروع کی۔ مسیحیوں اور دوسرے غیر مسلموں کی ان کی شان میں مستقل کتابوں اور مقالوں نے ان سے میری عقیدت میں پختگی کا سامان فراہم کیا، پھر میں نے تمام مسلمانوں کے پیشوا حضرت علیؑ کے حوالے سے دقت نظر سے تحقیق شروع کی۔ ان کے حوالے سے مختلف کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا، غیر مسلم دانشوروں اور مستشرق افراد سے ان کے حوالے سے رائے لی، "ایک مسیحی پولس سلامہ (Poul Salama) کا کہنا ہے: ہاں میں ایک مسیحی ہوں، وسعت نظر ہوں، تنگ نظر نہیں ہوں، میں خود تو مسیحی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، پاکیزگی اس کے ساتھ ہے، شاید خدا بھی ان کا احترام کرے، مسیحی اپنے اجتماعات میں ان کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، ان کی دینداری کی پیروی کرتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو سرکوب کرنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔

یتیموں اور فقراء  کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی۔ اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور گرد و نواح کا گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتا۔ وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو، وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی تھی۔ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراہٹ اور رضامندی کے ساتھ درد و الم کو قبول کرتا ہے۔" پھر میں نے  فرانس کے میڈم ڈیلفو Madame Dyalfv) کو آپ کی خصوصیات یوں بیان کرتے پایا "حضرت علیؑ کا احترام شیعوں کے نزدیک بہت زیادہ ہے اور یہ بجا بھی ہے، کیونکہ اس عظیم ہستی نے اسلام کی ترویج کے لئے بہت ساری جنگوں میں اپنی فداکاری کا مظاہرہ کیا، ساتھ ہی علم، فضائل، عدالت اور دوسری صفات حمیدہ میں بھی آپ بے نظیر تھے۔ آپ نے اپنے صلب سے ایک پاکیزہ نسل چھوڑی، آپ کے بچوں نے بھی آپ کی سیرت کو اپنایا، اسلام کی سربلندی کے لئے  مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔

حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں، جس نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا، جسے عرب یکتا خدا کے شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپ ہی وہ ہستی ہیں، جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا۔ آپ ہی وہ ہستی ہیں، جس کی خوشخبری اور دھمکی دونوں حتمی ہوا کرتی تھیں۔ اس  کے بعد مادام دیالافوائے مسیحی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے: اے میری آنکھوں! آنسو بہا لو اور میری آہ و بکاء میں اسے شامل کر لو اور اولاد پیغمبر کی جنہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ عزاداری کرو!

ان غیر مسلموں کی کتابوں کا میں جتنا مطالعہ کرتا گیا، ان کا غیر جانبدارانہ اظہار عقیدت حضرت علیؑ سے میری عقیدت میں مزید اضافہ کرتا گیا۔ میرے مطالعے کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ پھر مجھے ایک مشہور برطانوی مستشرق جرنل سر پرسی سایکس (Journal Sir Percy Sykes) کے اظہار عقیدت اور حقیقت بیانی کو پڑھنے کا موقع ملا، "حضرت علیؑ دوسرے خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے۔ آپ کے حریف، غدار اور داغدار چہرہ معاویہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ تو اپنے ہدف کو پانے کے لئے بڑے بڑے جرائم کے ارتکاب سے بھی  دریغ نہیں کرتا تھا ۔ساتھ ہی اپنے مقصد کو پانے کے لئے پست ترین چیزوں کا بھی سہارا لیتا تھا۔ امانتوں  کے معاملے میں حضرت علیؑ کی بہت زیادہ باریک بینی اور آپ کی ایمانداری  کے باعث لالچی عرب آپ سے نالاں تھے۔ جنھوں نے اتنی بڑی سلطنت کو غارت کر رکھا تھا۔ سچائی، پاکیزہ عمل، کامل دوستی، حقیقی عبادت و ریاضت، اخلاص، وارستگی اور بہت ساری صفات حمیدہ سے آراستہ ہونے کے باعث آپ کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ ایرانی جو ان کی ولایت کے قائل ہوگئے ہیں اور ان کو خدا کی طرف سے حقیقی امام اور مربی مانتے ہیں، حقیقت میں بھی ان کا یہ اعتقاد بہت ہی قابل تحسین اور اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ حضرت علیؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں بلند و بالا ہے۔"

حقائق کے دریچے کھلتے گئے، میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ایک فرانسوی پروفیسر اسٹانسیلاس (Professor Astansylas) کا ایک منفصفانہ فیصلہ میری نظروں سے گزرا، "معاویہ نے مختلف جہات سے اسلام کی مخالفت کی ہے۔ علی بن ابی طالب جو پیغمبر اسلام کے بعد سب سے باعظمت، سب سے دلیر، سب سے افضل اور عرب کے بہترین خطیب ہیں، معاویہ ان سے جنگ پر تلے آئے، اب  مسیحی میخائیل نعیمہ(Makahial Naima) نے جو علیؑ کی شجاعت کی تصویر کشی تھی، وہ مزید میری دلچسپی کا سبب بنی، "حضرت علیؑ کی پہلوانی صرف میدان کارزار تک محدود نہ تھی بلکہ آپ روشن فکری، پاکیزہ وجدان، فصیح بیان، انسانیت کی گہرائی اور کمال پر فائز ہونے کے علاوہ ایمان کی حرارت اور جذبہ ایمانی سے بھی سرشار تھے، آپ کے حوصلے بلند اور فکر وسیع تھی، آپ ظالم و جابر کے مقابلے میں ستمدیدہ و مظلوموں کی مدد اور حمایت کرتے تھے۔ حق کے لئے آپ صاحب حق کے ساتھ فروتنی سے پیش آتے اور باطل کے خلاف آپ پہلوان ہوتے تھے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جتنا بھی ذہین اور برجستہ شخصیت کا حامل اور نکتہ سنج ہی کیوں نہ ہو، اس کے لئے بھی ممکن نہیں کہ وہ 1000 صفحات میں حضرت علیؑ کی کامل تصویر کشی کرسکے، نہ ہی  آپ کی زندگی میں جو حالات رونما ہوئے ہیں، ان سب کو  مناسب انداز میں کوئی بیان کرسکتا ہے۔ بنابریں علیؑ نے جن چیزوں کے بارے میں غور فکر کیا ہے، وہ بھی بیان سے بالاتر ہے، اسی طرح عرب کی اس عظیم شخصیت نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان جو راز و نیاز کی باتیں کی ہیں اور جن چیزوں کو عملی جامہ پہنچایا ہے، یہ سب ایسے امور ہیں، جنہیں نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ جن چیزوں کو نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر اتارا گیا یا جو زبان سے ظاہر ہوا، وہ سب ان امور کے شمار سے بہت ہی کم ہے۔" مجھے نہ تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی بھوک پیاس کا احساس تھا، فضیلتوں کے باغوں کی سیر نے دنیا و مافیھا سے میری توجہ کو ہٹا دیا تھا۔

بعدازاں جب میری نظر "گبرےیل ڈانگیرے" (Gabriel Dangyry) کی تحریر پر پڑی تو مجھے ایسا لطف اور ایسا کیف محسوس ہو رہا تھا کہ جس کے بیان کے لئے میرے پاس ذخیرہ الفاظ نہیں، "حضرت علی ؑ میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آج تک کسی بھی پہلوان میں جمع نہ ہوسکی۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پہلوان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جہاں آپ میدان جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ہونے والے کمانڈر ہیں تو الٰہی علوم کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت علیؑ کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتب فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں، جبکہ ہمارے نامور مذہبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں۔ علیؑ ایک زبردست خطیب، بہترین قلمکار، بلند پایہ قاضی تھے اور مکاتب فکر کے موسسین میں آپ پہلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے۔ علیؑ شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ہو۔"

میرے سامنے فضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمودار ہوا، جن کی شمارش سے میں قاصر تھا۔ میں نے جلدی جلدی بعض اہم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔ "حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ  ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اور بہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) "حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں میں سانس لیتی  رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زنی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) "حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔" (امریکی پروفیسر فلپ کے حتی 1886-1978) "سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی، انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کر دیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918) "حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے۔" (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984) "حضرت علیؑ کا اسلام سے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔"

معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ (1930-2013) "خوش نصیب ہے وہ قوم جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰی سے حضرت ہاروں کو تھی۔" معروف مورخ چارلس ملز (1788-1826) "خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔" برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) "علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا۔" امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ (1783-1859)ٖ "میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔" بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے (1911-1974) اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیر مسلموں کے حضرت علیؑ سے اظہار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ہاتھوں نے  کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی۔ اب میں اس حقیقت تک جا پہنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائیں، تب بھی حضرت علیؑ کی فٖضیلتوں کے سمندر کے کنارے تک بھی پہنچنا ممکن نہیں۔ اب بھی اگر لوگ علی ؑ کا دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں موازنہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابہت دینے کی مانند ہے۔ اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرمؐ کے بعد سب سے افضل ہستی امام علیؑ ہیں۔
حوالہ جات:
1.www.yjc.ir
2.farsi.balaghah.net
3. Dawn News pk

تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) رواں سال اگر شرمین عبید چنائی نے آسکر جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا تو ہمارے حکمران اور کر کٹ ٹیم بھی کسی سے پیچھے نہ رہ سکی۔ ٹیم نے انڈیا سے ہارنے کا ریکارڑ بر قرار رکھا تو دوسری جانب حکمران طبقہ کرپشن میں بازی لے گیا۔ ہم اور ہمارا ملک خوش نسیب ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے انتہک محنت سے پاناما لیکس کی ٹاپ ٹن شخصیات میں اپنا نام درج کرایا۔

پاناما لیکس نے ساری دنیا میں ہنگامہ خیز انکشافات سے تہلکہ مچایا ہوا ہے دنیا بھر کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیات کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

اس کے علاوہ وزرا، جج صاحبان ناجانے کن کن لوگوں کا نام شامل ہیں جن کی اپنی ایک فہرست ہے ان سب کو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مر جانا چاہیے خصوصا حکمرانوں کو جن کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، ملک کی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہیں، عوامی حقوق کا خیال رکھتیں ہیں اور بھاری مینڈیٹ سے یہ ایوانوں میں آتے ہیں فرض کریں اگر یہ بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہوئے ہیں اور جمہوریت اور آئین و پاکستان کا ان کو اتنا ہی خیال ہے بلکہ ان کو اگر اپنی عزت کا ہی خیال ہے تو چاہیے کہ وہ مستعفیٰ ہوں یا کم سے کم اس کیس کی تحقیقات ہونے تک کنارہ کشی اختیار کریں جب تک اس معاملہ کا کوئی راہ حل نہیں نکلتا یا اس کیس کا شفاف تحقیقات مکمل نہیں ہوتا، لیکن سب اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائےصفائیاں دینے میں مصروف ہے ۔

ہمارے حکمران اور عوام یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ پاناما پیپر ز نے تو کچھ ہی شخصیات اور خاندان کا زکر کیا ہے، پاناما لیکس نے ڈاکومنٹس کی تعداد میں اب تک کی تمام لیکس کے رکارڑ توڑے ہیں لیکن اگر تحقیقاتی ٹیم صرف پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کی تحقیقات کرے تو پاناما کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔

پاکستانی عوام کے لئے پاناما لیکس کوئی نئی بات نہیں ہے یہاں کا ہر بچہ بچہ جانتا ہے کہ چپڑاسی سے لیکر اوپر تک کرپٹ ہیں، کسی اچھے ڈاکٹر سے روجوع کرنا ہو، یونی ورسٹی ،کالج اسکول میں داخلہ کرانا ہو،روزگار کی تلاش ہوچاہے وہ حکومتی ہو یا سول ادارے، بینک میں بل جمع کرانا ہو، امتحان میں نقل کرانا ہو، جعلی ڈگری نکلوانی ہو، ٹھپہ مارنا ہو غرض کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کروانا ہو تو کرپشن، رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر سب کچھ ممکن ہیں۔

ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ ہر تیسرا فرد غربت کا شکار ہے، بیروزگاری کی شرح پڑے لکھے لوگوں میں زیادہ ہے،اسکول نہ جانے والے صرف پانچ سے نو سال کے عمر کے بچوں کی تعداد ۶۸ لاکھ ہیں، صحت کا تو کوئی پرسانے حال نہیں ہے اور ۶۵ ارب دس کروڈ ڈالر کا مقروض ہے۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کو اس ملک کے باشندوں پر رحم نہیں آتا۔

ان حکمرانوں اور کرپٹ لوگوں کو عوام اور پاکستان پر رحم نہیں ہے تو ان کو اپنے آپ پر رحم کرنا چاہیے کہ روز قیامت وہ ان آف شور کمپنیوں کا حساب کتاب کہاں سے دیں گے، غریب عوام کے لوٹے ہوئے پیسوں کا حساب کہاں سے دیں گے، بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کا حساب کہاں سے دیں گے؟؟ کیا ان حکمرانوں اور کرپٹ لوگوں کو ان غریب عوام کے بارے میں خیال نہیں آتا؟ کم سے کم لوٹے ہوئے پیسوں کو ملک سے باہر تو نہ لے جائیں اگر ان کی سرمایہ کاری پاکستان میں ہی کریں تو لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے لاکھوں فاقوں سے بچ سکتے ہیں، پاکستان کا ہر بچہ تعلیم یافتہ اور ملک مستحکم ہو سکتا ہے پاکستان کی ترقی ہو سکتی ہے۔ ستم ظریفی کی حد ہے کہ یہ کرپٹ لوگ اپنے آپ کو سب سے زیادہ محب وطن اور عوامی نمائندہ تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ان ہی نام و نہاد حکمرانوں سے پہنچا ہے۔

ان سب کا یہ مقصد یا مفہوم نہیں کے پاکستان لاوارث ہے یا یہاں کوئی قانون آئین نہیں الحمد اللہ ہمارے یہاں آئین بھی ہیں قانون بھی ہے صرف ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے جس دن ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کریں اور اپنے اپنے زمہ داریوں کا احساس کرنا شروع کریں اور اپنی غلطیوں کا احساس کریں، یا کم سے کم اپنی زاتی زندگیوں کو سکون سے گزارنے کے لئے اصول و قانون کا احترام اور ان پر عمل کرنا شروع کریں تو پھر لوٹ مار، غربت، تعلیم، صحت تمام تر مشکلات حل ہو سکتیں ہیں۔ چھوٹی سی مثال اگر ہم کسی سگنل پر کھڑے ہوں اور اشارہ بتی لال ہوں تو ہمیں روکنا چاہیے سگنل پر روکنے کے دو اہم فائدے ہیں ایک زاتی اور ایک اجتماعی۔ زاتی فائدہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ حادثہ سے بچ سکتے ہیں اور اجتماعی یہ کہ حکومتی اصول و قوانین کی پاسداری یعنی کہ قانون پر عمل اور ملک کی قانون کا احترام۔ قانون پر عمل کرنے سے زاتی بھی فائدہ ہوا اور اجتماعی بھی اسی طرح ہر محکمہ میں انسان اپنے فرض کو احسن طریقہ سے نبھاے تو ملک کو درپیش مسائل چند سالوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔ ویسے تو ملک کے اندر ہزاروں اسکینڈلز، ہزاروں کیس عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں جو کھبی سیاسی نظر ہوتی ہے تو کبھی مزہبی اور کبھی شخصی بھر حال اب پاناما پیپز نے دنیا کو ہلا کر دکھ دیا ہے، آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے بھی اسعفیٰ دے دیا ہے اور برطانوں وزیراعظم کی کرسی کو بھی خطرہ ہے، ادھر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی بوکھلاہٹ میں اپنی صفائی پیش کی ہےاور اس وقت وہ بیمار بھی ہوئے ہیں اور لندن جانے کی تیاریاں ہو رہی ہے لیکن یہ نہیں معلوم وہ علاج اپنا کرائیں گے یا پاناما پیپر کا۔ لیکن اس وقت یہ انتہائی خوش آئین بات ہے کہ پاناما پیپرز پر تمام اپوزیشن ارکان بھی متفق ہیں تو قانون نافظ کرنے والے اداروں اور ان کیسیس کے ذمہ دار اداروں کو چاہیے کہ وہ اس کیس کی شفاف طریقہ سے تحقیقات کروائیں اور اس لسٹ میں موجود تمام لوگوں کو عدالت کے کٹھرے میں کھڑا کریں اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوٹیروں کے خلاف متحد ہوں اور ان پر نظر رکھیں کہی دوسرے کیسوں کی طرح کچھ دن بعد یہ کیس بھی فائلوں تلے دب نہ جائے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ناصررینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) آج کل گلگت بلتستان کے کونسل انتخابات میں بعض امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی خبرٰ گردش کررہی ہے تو چاہا کہ اس حوالے سے تاریخی صفحات پر ذرا نظردوڑائی جائے کی کس سیاسی رہنما نے کتنی پارٹیاں تبدیل کی سیاسی وپارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں

حاجی فدا محمد ناشاد: موجودہ سپیکر وسابق چیف ایگزیکٹو گلگت بلتستان اسمبلی

 انتخابات میں

1994 میں پی پی  .

۔ ق لیگ2005

2009 ن لیگ

یوں گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں پارٹی وفاداری تبدیل کرنے کاسب سے بڑا  سہرا ناشاد صاحب کے سر سجتاہے

: حجۃ الاسلام والمسلمین سید عباس رضوی ( صوبائی صدر شیعہ علماٗ کونسل ورکن جی بی کونسل

 1994   سے2005 تحریک جعفریہ

2005 ق لیگ

2015 دوبارہ تحریک جعفریہ

یوں شیعہ علماء کونسل کے موجودہ صوبائی صدر و موجودہ جی بی کونسل کے رکن  کو بھی سیٹ کی خاطر 2004اور 2015 میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا اعزاز حاصل ہے

ملک مسکین: 2005 کو ق لیگ کی ٹکٹ پر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوا 2009 میں دوبارہ ق لیگ کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ناکام ہوا جبکہ 2015 میں کونسل کی سیٹ کی خاطر ن لیگ میں شمولت اختیار کی لیکن نصیب نے ساتھ نہیں دیا

حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد علی شاہ

  1994 کو تحریک اسلامی کی ٹکٹ پر تمام تر مذہبی وسائل بروے کا لاکر کامیاب ہوا 2005 میں ق لیگ کی طرف سے رکن اسمبلی منتخب ہوا  2009 میں پی پی  اور 2015 میں ن لیگ میں جاکر مذہبی رہنماوں میں سب سے زیادہ پارٹی تبدیل کرنے والوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا

5:وزیر شکیل احمد : 1994 سے 2005تک تحریک اسلامی (تحریک جعفریہ) 2009 میں پی پی اور پھر اب قانون کے رکھوالے جج کے منصب پر( اس سے پہلے انکی خاندانی سیات کا آغاز پی پی سے ہوتا ہے جبکہ 2015 کے انتخابات میں ان کی جگہ وزیر سلیم نے مجلس وحدت کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لیا

6: غلام حسین سلیم 1994 سے 2005تک تحریک اسلامی ، 2005 ٹیکنوکریٹس کی لالچ میں ق لیگ اور وہ بھی نصیب نہیں ہوئی  اور پھر 2009  کونسل کی سیٹ کے لے پی پی میں شامل ہوے یوں لسان وترجمان ملت کے دعویدار اپنے ذاتی مفادات کے لے تمام تر حدود کو کراس کرگے

اسی طرح موجودہ گورنر غضنفر علی خان، عمران ندیم ،سکندر ، حاجی اقبال ، ابراہیم ثنائی ،اکثر سیاسی نماینوں کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے اور سیاسی خیانت کاریوں کا اعزاز حاصل ہے اسی طرح جی بی کونسل کے انتخابات میں بھی اپنے ووٹ فروخت کرنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن کسی مذہبی وسیاسی پارٹی نے پارٹی وفاداری تبدیل کرنے یا ووٹ فروخت کرنے والے کسی فرد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور صرف اخباری بیانات پر اکتفا کیا ۔

لیکن مجلس وحدت مسلمین پاکستان 1994 سے 2015 تک کی جی بی اسمبلی کی تاریخ میں واحد جماعت ہے جس نے اپنے نمایندے کو وفاداری تبدیل کرنے کی بناپر پارٹی رکنیت معطل کی اور فوری ایکشن لیا    جوکہ سیاسی تاریخ میں ایک اہم قدم ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree