عید سعید غدیر، سیرہ معصومین علیھم السلام کی روشنی میں

24 اکتوبر 2013

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) افسوس صد افسوس کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض قریبی افراد کی جاہلانہ کینہ توزی اور جاہ طلبی کے سبب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت ادھوری رہ گئی اور اس پر عمل نہ کیا گیا اور وہ فیصلہ جو خداوند متعال نے امت مسلمہ کیلئے کر رکھا تھا اسے عملی جامہ پہننے سے روک دیا گیا۔
خبرگزاری Mehr News

وحدت نیوز- عید غدیر محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اسے ایک اسلامی دن قرار دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس دن خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا (سورہ مائدہ، آیہ 3)
"آج کے دن ہم نے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں مکمل کر دیں اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو چن لیا"۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمام ائمہ معصومین علیھم السلام نے عید سعید غدیر کے دن خوشی منانے اور اس دن کی یاد تازہ رکھنے پر خاص تاکید کی ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام نے عید سعید غدیر کو "عید الاکبر" یعنی بڑی عید کے طور پر یاد کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ بلافصل کے طور پر تعیین کیا گیا بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور الہی کے تحت اپنے بعد آنے والے تمام جانشینوں یعنی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی علیہ السلام کے گیارہ فرزندان کا نام لے کر انہیں لوگوں کو پہچنوایا اور آخر الزمان میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خوشخبری بھی سنائی۔


 
اس میں کوئی شک نہیں کہ غدیر کے واقعے نے اسلام کے مستقبل پر انتہائی گہرا اثر ڈالا ہے اور اسلام کی تقدیر میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ واقعہ غدیر کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ایک اہم ترین الہی فریضہ انجام دیا۔ وہ فریضہ جس کا انجام دینا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام رسالت کے برابر تھا اور نعوذباللہ اس فریضے کو انجام دینے میں کوتاہی کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گذشتہ تمام محنتوں پر پانی بہ جانے اور اسلام کے آغاز سے جدوجہد کرنے والے تمام مسلمانوں کی فداکاریاں اور قربانیاں ضائع ہو جانے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ وہ فریضہ جس کی ادائیگی کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف اپنے جانشین یعنی حضرت علی علیہ السلام بلکہ ان کے بعد والے جانشینوں یعنی حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کی نسل سے باقی 9 اماموں میں سے ہر ایک کا نام لے کر لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ یہ افراد میرے جانشین اور خلیفہ ہیں۔


 
لیکن افسوس صد افسوس کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض قریبی افراد کی جاہلانہ کینہ توزی اور جاہ طلبی کے سبب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت ادھوری رہ گئی اور اس پر عمل نہ کیا گیا اور وہ فیصلہ جو خداوند متعال نے امت مسلمہ کیلئے کر رکھا تھا اسے عملی جامہ پہننے سے روک دیا گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام اور مسلمین کو ان کے حقیقی راستے سے منحرف کر دیا گیا جس کے بھیانک نتائج عالم اسلام آج بھی بھگت رہا ہے۔ خداوند متعال سورہ مائدہ کی تیسری آیہ میں فرماتا ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا (سورہ مائدہ، آیہ 3)
"آج کے دن ہم نے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں مکمل کر دیں اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو چن لیا"۔
اسی طرح سورہ مائدہ کی آیہ 67 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
یا ایها الرسول بلغ  ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل  فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس
"اے رسول، جو کچھ تمہاری جانب تمہارے خدا کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے اپنی رسالت کو کوئی کام انجام نہ دیا اور یاد رکھو خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا"۔


 
سب مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب یہ آیہ نازل ہوئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ تھام کر اسے ہوا میں بلند کیا اور فرمایا:
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ
"جس جس کا میں مولی ہوں یہ علی اس اس کا مولا ہے، اے خدا جو علی سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر اور جو علی سے دشمنی اختیار کرے تو بھی اس سے دشمنی کر"۔
شیعہ اور سنی مورخین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی موجود تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد عرض کی اور کہا:
بخ بخ یا ابن ابیطالب صرت مولای و مولا کل مومن و مومنہ

"مبارک کو اے ابوطالب کے بیٹے، تو ہمارا بھی ولی بن گیا اور ہر مومن مرد اور عورت کا بھی ولی بن گیا ہے"۔
 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ انتہائی اہم اور مشکل دینی فریضہ انجام دینے کے باوجود پریشان تھے اور فرماتے رہتے تھے کہ خداوند متعال نے مجھے ایسا کام انجام دینے کا حکم دیا تھا جس کو انجام دینے میرے لئے انتہائی مشکل تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ لوگ اس بارے میں مجھے جھٹلا دیں گے۔ لیکن خداوند متعال نے مجھے دھمکی دی کہ اگر اس فریضہ کو انجام نہیں دیا تو میرے عذاب کا شکار ہو جاو گے اور یہ آیہ نازل فرمائی:
یا ایها الرسول بلغ  ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل  فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس (سورہ مائدہ، آیہ 67)۔


 
واقعہ غدیر ائمہ معصومین علیھم السلام کے کلام اور سیرت کی روشنی میں:
جب ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ طاہرین علیھم السلام نے روز غدیر کو ایک عید کے طور پر منایا ہے اور اس دن دوسرے مسلمانوں کو مبارکباد پیش کیا کرتے تھے اور انہیں تاکید کرتے تھے کہ وہ اس دن ایک دوسرے کو عید مبارک کہیں۔


 
حجہ الوداع کے دوران جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خم کے میدان میں غدیر کا معروف خطبہ دیا تو اس کے آخر میں تین بار فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ تاکہ یہ جملہ تاریخ میں اور مسلمانوں کے کانوں میں ہمیشہ کیلئے باقی رہ جائے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو اپنے جانشین اور خلیفہ کے طور پر اعلان کر چکے تو اسی دن اس دن کو عید قرار دیا اور ایک خیمے میں تشریف لے گئے اور ہر آنے والے کو انتہائی خوشی کے عالم میں مبارکباد دینے لگے اور ان سے فرمایا:
 

"مجھے بھی مبارکباد دیں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے نبوت سے اور میرے اہلبیت کو امامت سے مخصوص کر دیا ہے"۔
 
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک اور موقع پر یوں فرماتے ہیں:
"غدیر خم کے دن (18 ذی الحج) میری امت کی سب سے بڑی عید کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب خداوند متعال نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی ابوطالب کے بیٹے علی کو اپنی امت کی ہدایت کا پرچم عطا کروں اور یہ اعلان کروں کہ میرے بعد ہدایت کا راستہ صرف اس کے ہاتھ میں ہو گا۔ غدیر خم وہ دن ہے جب خداوند متعال نے دین اسلام کو کامل کر دیا اور میری امت پر اپنی نعمتوں کو مکمل کر دیا اور ہمارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا"۔


 
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا خطبہ غدیریہ:
خود امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے 18 ذی الحج کو عید کا دن قرار دیا کرتے تھے۔ امام علی علیہ السلام کے دورہ خلافت کا واقعہ ہے کہ ایک دن عید سعید غدیر جمعہ کو آ گئی۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز جمعہ میں شریک ہونے کیلئے مسجد میں جمع تھی۔ امام علی علیہ السلام خطبہ جمعہ کیلئے منبر پر تشریف لائے۔ امام حسین علیہ السلام اس دن کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
"دن شروع ہوئے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے جب میرے والد محترم نے جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثنا انجام دی اور اس کے بعد خدا کی صفات بیان کیں اور فرمایا کہ حاکمیت اعلی خداوند متعال کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے بعد خدا کی نعمتوں کا ذکر کیا اور لوگوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے آج کے دن آپ کیلئے دو بڑی عیدیں اکٹھی کر دی ہیں (عید غدیر اور عید جمعہ)۔ ایسی دو عیدیں جو ایک دوسرے کے فلسفہ وجودی کی تکمیل کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک عید دوسری عید کے ذریعے ہدایت حاصل کرنے میں موثر ہے۔ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے اس کے بعد فرمایا: توحید اور خدا کی وحدانیت پر ایمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کو مانے بغیر درگاہ خداوندی میں قبول نہیں کیا جائے گا اور دین و شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس شخص کی ولایت کو مانے بغیر قبول نہیں ہو گا جس کا حکم خدا نے دیا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اہل ولایت کے ساتھ توسل اور تمسک پیدا نہ ہو جائے"۔


 
اس کے بعد امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "خداوند متعال نے غدیر کے دن اپنے منتخب شدہ افراد کے بارے میں اپنا ارادہ اپنے رسول پر نازل کر دیا اور اپنے رسول کو دستور دیا کہ ان کی ولایت اور جانشینی کا اعلان کر دو تاکہ کفار اور منافقین کا راستہ بند ہو جائے۔ اور اس کام میں اپنے دشمنوں کی جانب سے کسی خطرے کی پرواہ نہ کرے۔ غدیر کا دن انتہائی شان و منزلت والا دن ہے۔ اس دن خدا کی جانب سے مسلمانوں کیلئے آسانیاں نازل ہوئی ہیں اور سب افراد پر اتمام حجت ہو چکی ہے۔ آج کا دن حقائق کو فاش کرنے اور اعلی عقائد کے اظہار کا دن ہے۔ آج کا دن دین کی تکمیل اور وعدہ پورا کرنے کا دن ہے۔ غدیر کا دن شاہد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور مشہود (علی ابن ابیطالب علیہ السلام) کا دن ہے۔ آج کا دن کفر و نفاق کے زیرسایہ انجام پانے والے معاہدوں کے ٹوٹنے کا دن ہے۔ آج کا دن حقیقی اسلام سے متعلق حقائق کے آشکار ہونے کا دن ہے۔ آج کا دن شیطان کی ذلت اور خواری کا دن ہے۔ آج کا دن دلیل اور استدلال کرنے کا دن ہے۔ آج کا دن ایسے افراد کی صف الگ ہونے کا دن ہے جو اس کا انکار کرتے ہیں اور آج کا دن وہ عظیم دن ہے جس سے آپ میں سے کچھ لوگوں نے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے۔ آج کا دن ہدایت اور خدا کے بندوں کی آزمائش کا دن ہے۔ آج کا دن دلوں اور سینوں میں چھپے ہوئی نفرتوں اور دشمنیوں کے آشکار اور واضح ہونے کا دن ہے۔ آج کا دن مومن اور جان نثار افراد کیلئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی واضح باتوں کے بیان کا دن ہے۔ غدیر حضرت شیث پیغمبر کا دن ہے، حضرت ادریس پیغمبر، حضرت یوشع پیغمبر اور حضرت شمعون پیغمبر کا دن ہے۔


 
عید غدیر کی مناسبت سے منشور علوی علیہ السلام:
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام خطبہ غدیریہ کے آخر میں فرماتے ہیں:
"اے مسلمانو تم پر خدا کی رحمت نازل ہو، آج کے اس عظیم اجتماع سے واپسی پر آج کے دن کو عید کے طور پر منائیں (اور مندرجہ ذیل اعمال انجام دیں): اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کیلئے زیادہ سے زیادہ تحائف خریدیں اور ان کے ساتھ نیکی سے پیش آئیں اور عفو و درگذر سے کام لیں۔ اپنی دینی بھائیوں کے ساتھ جہاں تک ہو سکے نیکی کریں اور انہیں مال عطا کریں۔ خدا نے جو نعمتیں آپ کو عطا کر رکھی ہیں ان کی بابت اس کا شکر ادا کریں۔ آپس میں متحد ہو جائیں اور ایک جگہ جمع ہوں تاکہ خداوند متعال آپ کے اجتماع میں برکت ڈالتے ہوئے آپ کی تعداد بڑھا دے۔ ایکدوسرے کے ساتھ بھلائی کریں تاکہ خدا آپ کے دلوں میں زیادہ محبت اور الفت ڈال دے۔ ایکدوسرے کو الہی نعمتوں کی خاطر مبارکباد دیں جیسا کہ خداوند متعال بھی آپ لوگوں کو دوسری عیدوں کی نسبت زیادہ ثواب اور اجر دے کر مبارکباد دے رہا ہے"۔


 
اس کے بعد امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:
"آج کے دن ایکدوسرے کی مالی مدد کرنا آپ کے اموال میں برکت اور عمر میں اضافے کا باعث بنے گا۔ دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا خدا کی رحمت اور عنایت کا سبب بنے گا۔ آج کے دن مسکراتے چہروں اور اظہار مسرت کرتے ہوئے ایکدوسرے سے مصافحہ کریں۔ اپنی توفیقات پر خدا کا شکر ادا کریں۔ ایسے فقیر اور کمزور افراد کے پاس جائیں جنہوں نے آپ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے کھانے میں شامل ہوں۔ عید غدیر کے دن کسی فقیر کی ایک درھم سے مدد کرنا عام دنوں میں 2 لاکھ درہم مدد کے برابر ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ جب ایکدوسرے سے ملاقات کریں اور ایکدوسرے کو گلے لگائیں، ایکدوسرے کو مبارکباد پیش کریں کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ایسا ہی دستور فرمایا ہے۔


 
جنگ صفین کے دوران حدیث غدیر کو بیان کرنا:
مولای متقیان امام علی علیہ السلام جنگ صفین کے دوران ایک دن اپنے سپاہیوں کے درمیان بیٹھے تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی اپنے فضائل بیان فرما رہے تھے۔ آپ علیہ السلام نے سورہ مائدہ کی آیہ 55 "انما ولیکم اللہ و رسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلاۃ و یوتون الزکوۃ و ھم راکعون" اور اسی طرح سورہ توبہ کی آیہ 16 "و لم یتخذوا من دون اللہ و لا رسوله و لا المومنین ولیجه" کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: لوگوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول کیا ولایت سے متعلق آیات کچھ خاص مومنین کے ساتھ مخصوص ہیں یا سب مسلمانوں کیلئے ہیں؟ اس موقع پر خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ نماز، روزہ، زکات اور حج کی مانند ولایت اور حکومت سے متعلق امور بھی لوگوں کو بیان فرمائیں۔ لہذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم میں مجھے لوگوں کا ولی قرار دیا اپنے خطبے کے دوران فرمایا: ان اللہ ارسلنی برساله ۔۔۔۔۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔۔۔۔


 
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اور غدیر:
حضرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیھا سے پوچھا گیا:
آیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل امیرالمومنین علی علیہ السلام کی امامت اور جانشینی کے بارے میں کچھ فرمایا تھا؟
آپ سلام اللہ علیھا نے جواب دیا: وا عجبا، کیا تم لوگ روز غدیر خم کو بھول گئے ہو؟
اسی طرح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ایک اور موقع پر فرمایا:
خداوند متعال نے غدیر خم کے ذریعے سب پر اپنی حجت تمام کر دی ہے اور کسی کے پاس کوئی بہانہ باقی نہیں بچا۔


 
ایک دن حضرت زہرا سلام اللہ علیھا احد کے مقام پر اپنے والد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا سید الشھداء حضرت حمزہ کے مزار پر گریہ کناں تھیں۔ اسی دوران محمود بن لبید کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ باہر ہی بیٹھ گیا اور جب حضرت زہرا سلام اللہ علیھا عزاداری سے فارغ ہوئیں تو اس نے آپ سلام اللہ علیھا سے پوچھا:
اے دختر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کیا علی ابن ابیطالب کی امامت اور جانشینی کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے کوئی حدیث دلیل کے طور پر پیش کر سکتی ہیں؟
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
"وا عجبا، کیا تم غدیر خم جیسے عظیم واقعے کو فراموش کر چکے ہو؟ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ: علی وہ بہترین انسان ہے جسے میں نے آپ لوگوں کے درمیان اپنا جانشین قرار دیا ہے، علی میرے بعد آپ کا امام اور خلیفہ ہے۔ میرے دو فرزند حسن اور حسین اور ان کے بعد حسین کی نسل سے 9 افراد پاک اور نیک امام اور پیشوا ہوں گے۔ اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کی تو وہ تمہیں ہدایت کی جانب لے جائیں گے اور اگر ان کی مخالفت کی تو قیامت تک تم لوگوں میں اختلافات اور تفرقہ موجود رہے گا"۔


 
امام حسن و امام حسین علیھما السلام اور غدیر:
امام حسن اور امام حسین علیھما السلام ہر سال عید سعید غدیر کے موقع پر شہر کوفہ میں بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ یہ دعوتیں اور جشن حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے دوران بھی برگزار کئے جاتے تھے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل کوفہ میں عید غدیر منانے کا رواج پڑ گیا۔ اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح نامہ لکھتے وقت واقعہ غدیر خم کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ وہ حق پر ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی ایک سال حج کے موقع پر بنی ہاشم قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد اور دوسروں کو جمع کیا اور انہیں غدیر خم کا واقعہ یاد دلایا۔


 
امام حسن مجتبی علیہ السلام کا خطبہ اور غدیر خم کو بیان کرنا:
امام حسن علیہ السلام نے اہل کوفہ کو خطبہ دیتے ہوئے ان کی توجہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کی حاکمیت جیسی عظیم نعمت کی جانب مبذول کروائی جو اب ان سے چھینی جا چکی تھی۔ امام مجتبی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے برحق اور جائز ہونے پر تاکید فرمائی اور غدیر خم کے عظیم واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"آپ لوگوں کو میرے جد امجد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ فرمائشات یاد ہوں گی جن میں وہ کہا کرتے تھے کہ: جب بھی لوگ ایسے شخص کو اپنا حکمران چن لیں جس سے زیادہ بہتر اور باصلاحیت شخص ان میں موجود ہو تو اس کا نتیجہ ان کی بدبختی کی صورت میں ظاہر ہو گا اور اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے کہ وہ جس شخص کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اسے بھول چکے ہیں اس کی جانب واپس لوٹ آئیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اے علی میرے بعد تمہاری مثال موسی کے بعد ہارون جیسی ہے، وہ اپنے بھائی موسی کا جانشین تھا جبکہ تم میرے جانشین اور خلیفہ ہو۔ تم میں اور ہارون میں فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔


 
اس کے بعد امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا:
تم لوگوں نے اپنے پیغمبر کو دیکھا ہے اور غدیر خم میں ان کی فرامین کو سنا ہے۔ اس دن میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے والد علی علیہ السلام کا ہاتھ تھاما اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: ہر وہ شخص جس کا میں مولی اور سرپرست ہوں اس کا علی مولی ہو گا۔ خدایا، ہر اس شخص سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سختی سے تاکید کی کہ موجود افراد اس واقعے کی خبر تمام ایسے افراد تک پہنچائیں جو وہاں موجود نہیں۔


 
امام حسین علیہ السلام اور منی میں حدیث غدیر کو بیان فرمانا:
معاویہ کی موت سے ایک سال قبل امام حسین علیہ السلام حج ادا کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن جعفر بھی آپ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ اس سال بنی ہاشم کے مرد و خواتین کی بڑی تعداد بھی حج پر موجود تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے ایام تشریق کے دوران انہیں منی کے میدان میں جمع کیا۔ اس عظیم اجتماع میں 700 سے زیادہ تابعین اور 200 سے زیادہ اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شریک تھے۔ سب افراد امام حسین علیہ السلام کے گرد پروانوں کی طرح جمع تھے اور اس انتظار میں تھے کہ آپ علیہ السلام انہیں اپنے کلام سے مستفیض فرمائیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے کا آغاز خدا کی حمد و ثنا سے کیا اور پھر فرمایا

:
 
"آپ لوگ اچھی طرح دیکھ رہے ہیں کہ معاویہ کے ساتھی کس طرح ہم اور ہمارے شیعیان پر ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں۔ میری باتوں کو غور سے سنیں اور انہیں لکھ لیں (تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فیض یاب ہو سکیں) اور دوسرے شہروں اور قبیلوں میں بسنے والے مومن اور قابل اعتماد ساتھیوں تک بھی پہنچائیں۔ انہیں ہم اہلبیت علیھم السلام کے حقوق کو ادا کرنے کی جانب دعوت دیں۔ مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ وقت گزر جائے اور ہمارے حقوق ضائع ہو جائیں اور ہم مظلوم قرار پائیں کیونکہ خدا سب سے بہتر حامی ہے۔ میں آپ لوگوں کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو یاد نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے روز میرے والد علی علیہ السلام کو اپنا وصی اور اپنے بعد امام اور خلیفہ قرار دیا تھا؟ اور حدیث ولایت بیان کی تھی؟ اور آپ لوگوں کو تاکید کی تھی کہ جو بھی اس وقت حاضر ہیں وہ یہ خبر ایسے افراد تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں؟"۔ سب نے مل کر جواب دیا: جی ہمیں یاد ہے۔


 
امام محمد باقر علیہ السلام اور غدیر:
فضیل بن یسار، بکیر بن اعین، محمد بن مسلم، برید بن معاویہ اور ابوالجارود امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی ولایت اور غدیر کے بارے میں فرمایا:
"خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ ولایت علی علیہ السلام کو بیان کریں اور یہ آیہ نازل فرمائی: انما ولیكم الله و رسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزكاة‏۔ اس آیہ کے نازل ہونے کے بعد اولی الامر کی اطاعت بھی مسلمانوں پر واجب ہو گئی لیکن بعض مسلمان یہ نہ سمجھ سکے کہ اولی الامر کون ہے؟ خداوند متعال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کیلئے واضح طور پر بیان کریں اور نماز، زکات، روزہ اور حج کی طرح اولی الامر کا مصداق بھی کھلے الفاظ میں بیان کریں۔ اس حکم خداوندی کے بعد پیغمبر اکرم پریشان ہو گئے اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اس وضاحت کے بعد کچھ لوگ دین اسلام سے مرتد نہ ہو جائیں اور انہیں جھٹلانا شروع نہ کر دیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کی جانب توجہ کی اور پھر آیہ تبلیغ (یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ۔۔۔۔) نازل ہوئی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بعد دستور دیا کہ تمام مسلمان غدیر خم کے میدان میں جمع ہو جائیں اور وہاں سب کے سامنے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے جانشین اور خلیفہ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب افراد پر تاکید کی کہ وہ یہ پیغام ان لوگوں تک بھی پہنچائیں جو وہاں موجود نہیں۔


 
امام جعفر صادق علیہ السلام اور غدیر:
حسان جمال روایت کرتا ہے: میں امام صادق علیہ السلام کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کی جانب سفر کر رہا تھا۔ جب ہم جحفہ کی میقات کے نزدیک "مسجد غدیر" پر پہنچے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے مسجد کے بائیں جانب دیکھا اور فرمایا: یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر کے دن علی علیہ السلام کو اپنے جانشین اور خلیفہ کے طور پر پیش کیا تھا اور فرمایا تھا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے باقی افراد کی خیمہ گاہ کی جگہ مشخص کی اور فرمایا: ابوخذیفہ کا غلام سالم اور ابوعبیدہ جراح اس طرف بیٹھے تھے۔ بعض افراد ایسے تھے جنہوں نے جب دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کا ہاتھ تھام رکھا ہے تو وہ شدید حسد کا شکار ہو گئے اور ایکدوسرے سے کہنے لگے: پیغمبر خدا کی دو آنکھوں کو دیکھو، کس طرح (نعوذ باللہ) پاگلوں کی طرح اردگرد گھوم رہی ہیں اور انہیں آرام نہیں آتا۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور یہ آیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل فرمائیں: و ان یكادالذین كفروا لیزلقونك بابصارهم لما سمعوا الذكر و یقولون انه لمجنون و ما هو الا ذكر للعالمین۔ (وہ افراد جو کافر ہو گئے ہیں جب انہوں نے قرآن کو سنا تو قریب تھا تمہیں بری نظر لگا دیتے، وہ کہ رہے تھے کہ یہ پاگل ہے جبکہ قرآن دنیا والوں کیلئے آگاہی اور بیداری کے سوا کچھ نہیں)۔


 
حسن بن راشد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے کہا: میں نے آپ علیہ السلام کو کہا: میری جان آپ پر قربان ہو، کیا مسلمانوں کیلئے عید فطر اور عید قربان کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں اے حسن، ان دونوں سے زیادہ عظیم اور بڑی ایک اور بھی عید ہے۔ میں نے پوچھا: وہ کون سا دن ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: وہ دن جب امیرالمومنین علی علیہ السلام کو لوگوں کیلئے امام اور پیشوا مقرر کیا گیا۔ میں نے پوچھا: میری جان آپ پر قربان ہو، اس دن کون سے اعمال انجام دینے چاہئیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: روزہ رکھو اور پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجو اور جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے ہیں ان پر تبری کرو۔ تمام انبیاء الہی نے اپنے اوصیاء یہ حکم دے رکھا تھا کہ جس دن ان کا جانشین مشخص ہوا ہے اس دن کو عید کے طور پر منائیں۔ میں نے عرض کی: جو شخص اس دن روزہ رکھے اس کا کیا ثواب ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کا ثواب 60 مہینے روزہ رکھنے کا ہے۔


 
امام کاظم علیہ السلام اور مسجد غدیر:
عبدالرحمان بن حجاج کہتا ہے: میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں شرف یاب ہوا۔ میں سفر پر جانا چاہتا تھا۔ میں نے آپ علیہ السلام سے مسجد غدیر خم کے بارے میں سوال پوچھا۔ امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: اس مسجد میں نماز ادا کرو کیونکہ بہت ثواب اور فضیلت رکھتی ہے۔ میرے والد فرمایا کرتے تھے کہ مسجد غدیر میں ضرور نماز ادا کریں۔


 
امام علی رضا علیہ السلام اور غدیر:
امام علی رضا علیہ السلام کو خبر ملی کہ کچھ لوگ واقعہ غدیر خم کا انکار کر رہے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ غدیر کا دن آسمان والوں کے درمیان زمین والوں کی نسبت زیادہ معروف ہے۔ بالتحقیق خدا اس دن مومن مردوں اور خواتین کے 60 سالہ گناہ بخش دیتا ہے اور ماہ مبارک رمضان سے دوگنا انہیں جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے۔ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ دن کس قدر بافضیلت اور اہم ہے تو یقینا فرشتے ہر روز دس بار ان سے مصافحہ کرنے آتے"۔


 
فیاض بن محمد بن عمر طوسی نے 259 ہجری قمری میں جب خود اس کی عمر 90 سال تھی روایت کی ہے: میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے غدیر کے دن ملاقات کی۔ آپ علیہ السلام کے حضور بعض خاص صحابی بھی موجود تھے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے انہیں افطار کی دعوت دے رکھی تھی اور ان کے گھر بھی کھانا، لباس اور تحائف حتی جوتے اور انگوٹھیاں بھجوائیں۔ امام علی رضا علیہ السلام ہمیشہ اس عظیم دن کو یاد کرتے رہتے تھے۔


 
امام حسن عسکری علیہ السلام اور غدیر:
ایک مومن شخص نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے پوچھا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کا کہ "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" کیا مطلب ہے؟ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: "خداوند متعال چاہتا تھا کہ یہ جملہ ایک ایسی نشانی اور پرچم میں تبدیل ہو جائے جو امت میں اختلافات کے وقت اہل حق کی پہچان کا باعث بنے"۔


 
امام زمانہ عج اور غدیر:
حضرت ولی عصر عج سے منسوب دعای ندبہ میں آیا ہے:
فلما انقضت ایامه اقام ولیه علی بن ابی طالب صلواتك علیهما و آلهما هادیا اذ كان هم المنذر و لكل قوم هاد فقال و الملاء امامه من كنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه.
"جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات آئے تو انہوں نے علی ابن ابیطالب علیہ الصلوات و السلام کو امت کی ہدایت کیلئے چن لیا چونکہ وہ ڈرانے والے تھے اور ہر قوم کو ہادی کی ضرورت ہے۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے روبرو کھڑے ہو کر لوگوں کو کہا: جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا علی مولا ہے، خدایا جو بھی علی سے دوستی کرے اس سے دوستی کر اور جو بھی علی سے دشمنی کرے اس سے دشمنی کر۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree