موجودہ حالات میں شیعانِ پاکستان کی حکمت عملی

05 مارچ 2014

وحدت نیوز(آرٹیکل) کہتے ہیں جسمِ انسانی کے کسی حصیّ میں چوٹ لگ جائے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے.ہماری شیعہ قوم کی مثال بھی جسمِ انسانی کی مانند ہے ۔کہ دنیا کے کسی حصیّ میں بھی شیعہ مصائب و مشکلات کا شکار ہوتے ہیں توپوری قوم تڑپ اٹھتی ہے ۔کہیں بھی شیعت ظلم و بربریت کاشکار ہوتی ہے تو اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔اور پوری شیعہ قوم سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالقاسم رضوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔آپ گزشتہ پچیس برس سے درِ علی ابنِ ابو طالبؑ سے وابستہ ہیں اور انڈیا ، ایران ، سائوتھ افریقہ اور افریقہ کے بعد اب آسٹریلیا میں اپنے علمی وتبلیغی فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔سانحہ علمدار روڈ کوئٹہ کے سلسلے میں جب مجلسِ وحدت مسلمین کے تحت جب پورے پاکستان اور دنیا بھر میں دھرنے اور احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو مولانا صاحب نے مجلسِ وحدت مسلمین کی صدائے احتجاج پر لبیک کہا اور پہلی بار آسٹریلیا کی شیعہ برادری نے آپ کی قیادت میں دھرنا کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔آپ نے اپنی کاوشوں سے یہ ثابت کر دیا کے آپ دور ہو کے بھی پاکستان کی شیعہ قوم کے شریکِ درد ہیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ،شیعہ قوم کی نسل کشی ، حکومت کی بے حسی اور اس مشکل ترین دور میں ہماری کیا حکمتِ عملی ہونی چاہیے اس سلسلے میں جب ہماری آپ سے گفتگو ہوئی تو آپ نے ہماری درخواست پر ایک مفصل مراسلے کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔


موجودہ حالات میں شیعانِ پاکستان کی حکمتِ عملی کے عنوان سے چند معروضات اس مضمون کے تحت مومنین تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
ِِ یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ جنھوں نے پاکستان بنایا تھا جنھوں نے مملکتِ اسلامی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا کہ ایسی اسلامی ریاست معرضِ وجود میں آجائے جہاں اسلامی قوانین کی بالا دستی ہو اور آئین و شریعت کا بول بالا ہو جہاں حقوق العباد کا احترام ہو اور اس ریاست کے رہنے والے اسلام کی صحیح تصویر اپنے اقدام و عمل سے پیش کریں ،ایسی مملکت جہاں امن و امان،سکون وچین ،عدل و حسنِ انتظام ہو مگر


نیرنگئی سیاستِ دوراں نہ پوچھئے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے


بھڑیا صفت ،تشدد مزاج ظالموں نے جنہیں دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے اپنی باغیانہ سوچ ، انسان دشمنی اور عدل مخا لف بھیڑ کے ساتھ ملک پر قبضہ کر لیا ہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ قانون و احکام معطل ہو گئے ہیں جو نظریہ پاکستان کے مخالف تھے انہوں نے ریاست کے اندر ایک ظالم و جابر ریاست قائم کر کے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔محسنین و مخلصین کو اور انکی نسلوں کو بے دریغ قتل کیا جانے لگا ہے اور یہ عمل اب تک شدت سے جاری ہے
اس سے بڑھکر نہیں دنیا میں کوئی جرم عظیم
آدمی کچھ بھی ہو احسان فراموش نہ ہو

 

پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے متمدن اور مہذب معاشرہ میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں کیا جا سکتا ۔ایک نام نہاد مملکت یا ریاست میں بھی یہ غیر انسانی عمل نا قابلِ قبول ہے کیونکہ رسولِ خد ا ﷺفرما چکے ہیں (کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو)اور وہ بھی سرکار کا امتی نہیں ہو سکتا جو صبح اس حال میں بسرکہ امت کی بہتری کی کوئی فکر نہ کرے۔اسلام بے خبری اور لاتعلقی کو پسند نہیں کرتا۔رسول ؐ نے فرمایا ( العالم برمانہ لا یھجم علیہ اللوابس) جو حالاتِ زمانہ سے با خبرہوتا ہے وہ شکوک کا شکار نہیں ہوتا۔پاکستان میں جو کچھ ہو رہاہے وہ قابلِ مذمت و نفرین ہے۔آرنلڈ ٹو این بی نے ۳۳ سا ل کی محنت شاقہ کے بعد اپنی مشہور زمانہ کتاب A study of History لکھی ۔یہ کتاب دس جلدوں اور تیرہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں گذشتہ و موجودہ اقوام عالم کا تزکرہ کیا گیا ہے۔خلاصۂ کتاب یہ ہے کہ تاریخّ ِ عالم میں ا ب تک ۲۸ تہذیبوں کے آثار ملتے ہیں جن میں ۱۸ فنا ہو چکی ہیں ۹ زوال پزیر ہیں اور تنہا ایک تہذیب ہے جو ترقی کی جانب رواں دواں ہے البتہ متمدن معاشرہ civilised nation کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے کہ جب مشکلات کا مقابلہ ہوئے کوئی معاشرہ فتح و کامرانی حاصل کرتا ہے تو وہیں تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے یہ مشکلات تاریخی بھی ہو سکتی ہیں، جغرافیائی بھی، معاشرتی بھی،دینی بھی اور سیاسی بھی۔۔۔۔
البتہ تہذیب کا ارتقاء اقلیت Minority کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔یہی لوگ راستہ ڈھونڈتے ہیں،تلاش کرتے ہیں۔اکثریت انکی پیروی کرتی ہے وہی اقلیت ہیں ۔ بقول بسمل جائسی
کثرت دلیلِ حق و صداقت نہ بن سکی
لاکھوں ہوئے ذلیل بہہتر کے سامنے
خدا نے ہدایت اور دین میں بھی اسی اصول کو کار فرما رکھا۔لیکن آج کا پاکستانی کچھ اس طرح کا ہے۔معاشرہ منقسم ہے،روحِ عصر مجروح و شکستہ ، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ،عوام وخواص ، حاکم و محکوم ، دینی و مذہبی مراکز ، گھر بازار کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔لہذا با شعور مہذب منصف اور پاکستان دوست لوگوں سے میری درحواست ہے کہ ان حالات سے صرف شیعت ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو خطرہ لاحق ہے۔پاکستان تباہ ہو رہا ہے۔لٹیرے لوٹ مچائے ہوئے ہیں ۔قاتل و سفاک خیابانِ شہادت میں لاشوں کے انبار لگا رہے ہیں ، مصلحت پسند دانشور ، بے ضمیر مفکر، تاجر علماء، سکوتِ مجرمانہ کو دانش بینش حکمتِ عملی کا نام دیکر منفعتِ عارضی کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔انتشار مکمل ہو چکا ہے۔موجودہ معاشرہ کی یوں تشریح کی جا سکتی ہے کہ معاشرہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔کسی نے ماؤزے سے پوچھا قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں تو جواب دیا کہ قومیں بحران، مصیبتوں اور آفتوں میں ترقی کر تی ہیں۔قوموں کو عام حالات Potential کا اندازہ نہیں ہوتا جو قوم Crises میں Potential اور کمزوریوں کا اندازہ نہیں لگا پاتی وہ ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھ سکتی۔وہی قوم ترقی کرتی ہے جو غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہے، اپنی اصلاح کرتی ہے اور خوش آئند مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔آج شیعہ قوم آزمائش و ابتلاء کے دور سے گذر رہی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ حسنِ تدبیر اور سعی پیہم سے کام لے کر ملتّ و مملکت دونوں کو تباہی سے بچائیں۔
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہو گی
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
موجودہ حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
۱۔موجودہ حالات میں ہمیں اجتماعی کوشش کرنی ہو گی تب ہی شیعہ قوم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کامیاب و سرخرو ہو گی۔بقول علامہ اقبال
خدانے آ ج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
۲۔اپنی قوت کا صحیح اندازہ لگا کر مقررہ اہداف کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا ہو گا
لیس للانسان الا ما سعی
انسان کے لئے کچھ بھی ممکن نہیں بشرطیکہ وہ کوشش کرے
(سورۂ نجم آیت ۳۴)
۳۔ استقامت واستقلال کا مظاہرہ قیادت و امتّ دونوں کو کرنا ہو گا۔مدبر و مخلص قیادت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔کسی بھی تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم رول قائد کا ہوتا ہے۔قائد مدبر ہو ،مخلص نہ ہو تو انجام تباہی۔مخلص ہو تدبیر کی صفت سے عاری تو سر نوشت ناکامی۔رہبر کا نہ ہونا مصیبت ہے اور ہر گوشے سے مدعیانِ رہبری کا ظہور مصیبتِ عظمی ہے۔لہذا تمام تنظیموں کو ایک رہبر پر متفق ہو جانا چاہئیے اور اسلام میں مشورہ بہت اھم ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ بے لوث، بے غرض مجلسِ مشاورت ہو ۔
۴۔وحدتِ امتّ کے لئے قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک ہو جائے حدیث کے مطابق ایک جسم کی طرح متحد ہو چونکہ حضور ؐ نے فرمایا
’’ید ا للہ علی ا لجماعتہ ‘‘ اللہ کا ہاتھ جماعت کے سر پر ہوتا ہے۔یعنی جماعت کو تا ئیدِخدا حاصل ہوتی ہے۔
۵۔آج سب سے بڑا مسئلہ ہماری صفوں میں انتشار ہے اور وہ تعلق و ارتباط جو باہم ہونا چاہیے تھا وہ نہیں رہا ۔برادرانِ ایمانی کے درد کو اپنا درد سمجھیں فرد کے نقصان کو قومی نقصان سمجھا جائے، رو ٹھوں کو منانے کی کوشش کی جائے ۔فاصلے سمیٹے جائیں۔خدا وند تعالی ہمیں حکم دے رہا ہے ’’انما ا لمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم ‘‘
بے شک مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اپنے یھائیوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرتے رہو۔(سورۂ حجرات آیت ۱۰)
امامِ حسین ؑ نے بھی اپنے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف اصلاح امتّ قرار دیا تھا۔
۶۔معجزہ کا انتظار کر نے کے بجائے ذمہ داریاں لینی ہونگی۔مولائے کائنات حضرت علی ؑ نے ارشاد فرمایا ،
’’ کلکم راعٍ و کلکم مسؤلٍ‘‘
تم میں سے ہو ایک اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے جواب دہ ہے۔


۷۔ حوصلہ شکنی نے قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے ، قوم کی کامیابی کی تدبیر کی جائے اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔کوشش کرنے والوں کے ساتھ تعاون کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’تعاونو علی البر و التقوی ولا تعاونو علی الاثم والعدوان‘‘
نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے تعاو ن کرو اور گناہ و بغاوت میں بلکل مدد نہ کرو۔صاحبانِ منبر و محراب ، قوم کے اربابِ مجاز ، صاحبانِ نفوذ و اثر کو آگے آناہو گا بہت دیر ہو چکی ہے قوم مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہے۔
۸۔آج کی جنگ کا اسلحہ قلم اور میڈیا ہے۔انٹر نیٹ ، ٹی وی ، اخبارات ا ور دیگر تمام ذرائع ابلاغ سے رشتہ استوار رکھا جائے۔
میڈیا ٹیم پر محض احتجاج نہ کیا جائے بلکہ International media کے ذریعے Coverage کرایا جائے Political Pressure بنانا بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو ظالموں کا مکروہ چہرہ دکھانا ضروری ہے۔۲۰ فیصد شیعہ عوام وہ طاقت ہے جو جسے چاہے اقتدار میں لائے جسے چاہے اقتدار سے بے دخل کر دے مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب قوم متحد ہو ، قیادت مخلص ہو۔الیکشن سے پہلے اپنی مطالبات table پر رکھے جائیں ، معاہدے sign ہوں ،ووٹ تقسیم نہ ہوں ، زیادہ سے زیادہ اپنوں کو سیاسی عمل کے ذریعے پارلیمنٹ تک پہنچائیں محتصر یہ کہ ا یسی سیاسی و سماجی طاقت بن جائیں کہ شیعوں کے بغیر حکومت کا تصور محال ہو جائے۔۔

 

(تحریر:مولانا سید ابوالقاسم رضوی : میلبورن آسڑیلیا)
(ترتیب و تدوین:ثمینہ مطیع الحسن )



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree