وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ 7مارچ 1995ء کی ایک المناک صبح تھی،تقریباً پونے آٹھ بجے ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ حسین اسٹریٹ بھلا اسٹاپ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔عید کے باعث آپ نے اپنے حفاظتی عملہ کو چٹھیاں دے دی تھیں فقط آغا تقی جو لاہور کے نواحی علاقہ امامیہ کالونی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ہمراہ تھے اور ہمیشہ کی طرح فرنٹ سیٹ پر الرٹ بیٹھے تھے، ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی منی پجارو جیپ جس کا نمبرQAD 3428 سلور کلر کو خود ڈرائیو کر رہے تھے،ان دنوں یتیم خانہ چوک سے ساہیوال کیلئے ٹویؤٹا ہائی ایس گاڑیاں نکلتی تھیں جس کی وجہ سے لاہور کا یہ مصروف ترین چوک ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔چوک سے تھوڑپہلے ویگن اسٹینڈ کے پاس الٹے ہاتھ پر گلی مڑتی ہے اور گلی کے عین نکڑ پر اخبارات اور کتابوں کا اسٹال لگا ہوتا تھا۔گھر سے یہاں تک کا فاصلہ بمشکل دو کلومیٹر ہو گا،آپ کی گاڑی جیسے ہی ا س ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی بعض عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند ادھر ادھر بھی فائرنگ کر رہے تھے تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب میں آ جائیں کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ آغا تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے ،اس کے باوجود دہشت گردوں کا ایک ساتھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔جب دہشت گردوں کو یقین ہو گیا تو وہ فائرنگ کرتے ہوئے بڑے آرام سے فرار کر گئے اس وقت پنجاب میں میاں منظو احمد وٹو وزیر اعلیٰ تھے۔
لاہور کے مصروف ترین چوک میں ہونے والی اس اندوہناک واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی پرائیویٹ ٹی وی چینلزکا زمانہ نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی خبر لمحوں میں ہر سو پھیل چکی تھی،قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ ملت تشیع پاکستان کیلئے سب سے بڑانقصان اور صدمہ تھا جس کا اندازہ آج بھی اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ملت تشیع پاکستان کی اکثریت کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے بارے ان کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ ان کی ملت کا ایک روشن ،چمکتا ستارہ یتیم خانہ چوک میں ڈوب گیا ۔ انہوں نے ایک گمنام مجاھد کی طرح زندگی گذاری ان کی فکری پرواز بہت بلند اور مقام و مرتبہ ہر ایک سے اعلیٰ تھا مگر انہوں نے کبھی روایتی قائدانہ انداز اختیار نہ کیا اور نمود و نمائش،ذاتی تشہیر سے میلوں دور رہتے شائد ان کا تقویٰ و خلوص ہی تھا جس کے باعث وہ پاکستان کے ہر شیعہ نوجوان کے دل میں گھر کر چکے تھے،ملت کے سیماب صفت نوجوان ہمیشہ ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے ان گنت پہلو اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی لوگوں کے سامنے نہیں آ سکے جس شخص نے اپنی مکمل زندگی تنظیمی و قومی تشکیلات و تحریکات میں گذار دی ان کی حیات و کارہائے نمایاں پر کئی کتب لکھی جاسکتی تھیں مگر آج تک صر ف دو کتب سامنے آئیں ہیں ایک ان کی زندگی کے حوالے سے اور دوسری ان پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔اول الذکر سفیر انقلاب محترم تسلیم رضا خان اور آخرالذکر پاسبان انقلاب برادر محترم ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی نے تدوین کی ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان کی اس قدر بڑی شخصیت جس نے مسلسل 30برس قومی و اجتماعی زندگی میں گذار دیئے اور اپنا سب کچھ تنظیموں و تحریکوں کو دیاہم اس کے آثار ہی جمع نہیں کر سکے ۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے تمام پہلو، ہر لحاظ سے ملت کے نوجوانوں کیلئے مشعل رہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا صرف ایک کردار ہی ہمارے سامنے ہو تو ان کو نسلوں کا آئیڈیل سمجھنے کیلئے کافی ہے اور وہ ہے امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حج پر براء ت از مشرکین کیلئے خود کو پیش کرنا ،یہ کس قدر خطرناک کام تھا اس کا اندازہ شائد ہم لوگ کبھی بھی نہ لگا سکیں اس لیئے کہ وہ وقت گذر چکا ہے جس میں یہ فرض نبھایا گیا تھا۔وہ واقعا ایثار و قربانی کا پیکر تھے ،عملی کردار ادا کرنے والے تھے ،آج کے نوجوانوں میں اگر کہیں جذبہ ایثار و قربانی دکھائی دیتا ہے توان کا آئیڈیل ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی ذات ہی توہے۔
ان کی برسی کے موقع پر اگر ہم اختصار کے ساتھ بھی ان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہیں تو کئی صفحات بھر جائیں ،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدایک معروف عالم دین مولانا امیر حسین نقوی کے فرزند تھے جن کی زندگی مکتب تشیع کی تبلیغ و دفاع میں گذری تھی جبکہ محسن ملت جناب قبلہ سید صفدر حسین نجفی ان کے بے حد قریبی رشتہ دار تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی دینی تربیت میں قبلہ صفدر نجفی صاحب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے اور ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی نوجوانوں کی نشستوں او ر تربیتی پروگراموں میں ان سے بھرپور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید دیگر کئی ایک علما ء جن میں مولانا قبلہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل ،جناب مفتی جعفر حسین قبلہ،اور آغا سید علی الموسوی بھی شامل ہیں سے بہت زیادہ مربوط رہے ،ان میں بھی آغا سید علی الموسوی کہ جنہوں نے ساری زندگی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ ایک مستقل رکن نظارت اور بانی رہنما کے طور پر گذار دی سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے آغا سید علی الموسوی بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو علما ء کی طرح احترام دیتے تھے وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔ڈاکٹر شہید بھی دیگر نوجوانوں کی طرح آغا علی الموسوی کے انداز خطاب و گفتگو بالخصوص نوجوانوں کے سالانہ کنونشن میں نئے مرکزی صدر کے اعلان کی تقریب کو بے حد دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو حضرت امام خمینی کی ذات سے عشق تھا اور وہ ان ہی کے عشق میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو اگرپاکستان میں کسی سے اپنا درد بیان کرنا ہوتا تھا تو ان کا اعتماد شہید ڈاکٹر پر ہی تھا۔حقیقت میں یہ دونوں شخصیات امام راحل خمینی بت شکن کی عاشق تھیں جنہوں نے وقت کے طاغوت کو للکارا ہوا تھا اور پاکستان کے ہمسائے میں میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر کے اسلامی انقلاب برپا کر دیا تھاپاکستان کی یہ دونوں عظیم شخصیات اس مادر وطن میں دیگر امت مسلمہ کے ساتھ ملکر امام خمینی کے پیغامِ انقلاب کو راسخ کرنے کیلئے کوشاں تھیں تاکہ اس وطن کے مظلوم عوام بھی استعمار و طاغوت کے منحوص خونی پنجوں سے آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔امت کو یکجا و متحد کرنے کیلئے انہوں نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک چلا رکھی تھی اور اس کے اثرات بے حد مثبت دیکھے جا رہے تھے دشمنان امت مسلمہ اتحاد کی اس فضا سے خاصا پریشان تھا لہذا اس نے اپنے پالتو نمک خواروں کے ذریعے اس کے مخالف فرقہ وارانہ فضا کو ایجاد کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ایسے گروہ تشکیل دیئے جو پہلے سے افغان جہاد کے حوالے سے ان کے رابطے میں تھے۔اصل میں اس کا مقصد پاکستان کی سرزمین سے انقلاب کی پھوٹی کرنوں کا راستہ روکنا تھا۔آج جو کچھ ہماری سوسائٹی اور ملک و معاشرہ میں دکھائی دے رہا ہے یہ سب اسی کا حصہ ہے ۔ فرقہ واریت کا جن آج طاغوت کا بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے جب چاہتے ہیں باہر نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر شہید آخری ایام زندگی سے پہلے ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کی تشکیل کردہ نہضت کا انداز ،طریقہ ء کار اور نام کسی بھی طرح سے ملکی حالات اور ماحول کے حوالے سے آئیڈیل نہیں بلکہ اس کے الٹ ہے اور باعث ضرر ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،اس کا اظہار انہوں نے کئی ایک دوستوں کے سامنے کیا اور اپنے طور پر اس کی کوشش بھی کی مگر اس وقت تک شائد حالات ان کی گرفت سے باہر ہو چکے تھے نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم استعماری و طاغوتی جال میں بری طرح جکڑے دکھائی دیتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیئے نمونہ ء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق،کردار،عمل،میل جول،برتاؤ،اٹھنا بیٹھنا،فلاحی امور کا نیٹ ورک،خدمت خلق سے سرشار معمولات،تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک،تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء،نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون،ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی ،دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت،ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات،الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھااس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھااور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی ۔آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتااسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفےٰ اسکول کے نام سے قائم کیا جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔بلتستان کی ایک شخصیت کے ساتھ ملکر انہوں نے ایک ادارہ بلتی طالبعلموں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا جس کا نامbestرکھا تھا۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید زندگی میں ایک ایسے محور کی حیثیت رکھتے تھے جس کے گرد ملک بھر کے تنظیمی نوجوان کھنچے چلے آتےتھے ان کی مقناطیسی شخصیت کی کشش سے ہر کوئی ان سے مربوط رہتا تھااور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ کمال تھا کہ وہ ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے کسی کو بیکار نہ رہنے دیتے تھا گویا ان کی ذات کی شکل میں تنظیمی مسؤلین و سابقین کا ایک نیٹ ورک موجود تھا ان کی شہادت کے بعد ہم اس مقناطیسیت سے محروم ہو گئے اور سابقین کا کوئی نیٹ ورک بھی قائم نہ کر سکے نہ ہی کوئی ایسی شخصیت ابھر کر سامنے آ سکی جس پر شہید ڈاکٹر کی طرح سب احباب و دوست اعتماد کرتے اور وہ شخصیت بھی اپنے مستقبل کی قربانی دے کر قومی اجتماعی جدوجہد اور اسلامی تحریک کو مضبوط کرتی۔وقت آج بھی ہمیں پکار رہا ہے ۔آج بھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے آج بھی سعادت و خوشبختی کا اور شہدا ء کا راستہ منتظر ہے کہ کوئی محمد علی نقوی بن کر آئے اور چھا جائے۔آخر میں تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام ،تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں
تحریر:ارشاد حسین ناصر