وحدت نیوز(مانیٹرنگ ڈیسک) ذہن میں سانحہ مستونگ کا خیال آتے ہی بے ساختہ آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑتے ہیں، قلم لکھنے سے جواب دے دیتا ہے اور کئی کئی منٹوں تک انسان ان خیالوں میں گم ہو جاتا ہے کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں، جہاں انسانوں کی کوئی قدر نہیں، نہ انسانی خون کی کوئی ویلیو ہے۔ آرمی اپنے آپ کو محفوظ کرنے پر لگی ہے تو حکمرانوں بلٹ پروف گاڑیوں اور بلند و بالا محالات میں بیٹھ کو خود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ جس ملک کا چیف جسٹس دہشتگردوں کو رہائی دیتا ہو اور ریٹارمنٹ کے ساتھ ہی بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ کر دے وہاں امن کا ناپید ہونا فطری امر ہے، ظلم تو یہ ہے کہ عدلیہ بھی اس چیف جسٹس کو فوراً سکیورٹی فراہم کرنیکا حکم سنا دیتی ہے۔ ایسے ملک میں عام عوام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں، سانحہ مستونگ اس کی ایک مثال ہے، جہاں دو درجن انسان بارود کا نشانہ بن جاتے ہیں اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ شہداء کے ورثاء کے مطابق ان کے کسی بھی عزیز کی لاش سلامت نہیں۔ بقول آغا محمد رضا رضوی کہ تابوتوں میں جسموں کے حصہ اکٹھے کرکے ڈالے گئے ہیں۔ ایسا ظلم تاریخ انسانیت میں ڈھونڈو بھی تو شائد نہ ملے، جہاں قاتل قتل و غارت گری کا بازار گرم کرے اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہے۔
سانحہ کے اگلے ہی روز شہداء کے ورثاء نے میتیں شہداء چوک کوئٹہ رکھ کر احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا تو مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ان کی حمایت میں ملک گیر دھرنوں کا اعلان کر دیا۔ یوں ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ایک بار پھر ملت جعفریہ سڑکوں پر آگئی اور حکومتی بے حسی پر سراپا احتجاج بن گئی۔ اس بار شیعہ علماء کونسل کی جانب سے ان دھرنے میں شرکت یا الگ سے کوئی فوری احتجاج کی کال نہیں دی گئی، تاہم احتجاج کے دوسرے روز دن ساڑھے تین بجے شیعہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی نے ایک طویل مشاورتی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے حکومت کو مطالبات کی منظوری کیلئے چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اور کہا کہ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو وہ جمعہ کو احتجاج کریں گے اور اگر پھر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ احتجاجی مظاہروں کو دھرنوں میں تبدیل کر دیں گے، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں شہداء کے ورثاء شیعہ علماء کونسل کی اپیل پر میتیں رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں اور یہ احتجاج مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔ البتہ یہ معمہ حل طلب ہے کہ کوئٹہ کا دھرنا شیعہ علماء کونسل کی اپیل پر دیا گیا یا شہداء کے ورثاء نے خود دھرنے کی کال دی تھی۔
احتجاجی دھرنوں کے باعث ملک کے کئی شہروں میں بدترین ٹریفک جام رہی، کئی کئی میلوں تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں، شائد اسی درد نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء کو علامہ امین شہیدی سے ٹیلی فون پر بات کرنے مجبور کیا اور صوبے میں فوری طور پر تمام دھرنے ختم کرنے کی اپیل کی۔ اس پر علامہ امین شہیدی نے جواب دیا کہ جن شہداء کے ورثاء آج سڑکوں پر موجود ہیں، انہیں کسی اور نے نہیں بلکہ لشکر جھنگوی نے مارا ہے اور آپ لشکر جھنگوی سمیت شدت پسندوں کے دوست ہیں، لشکر جھنگوی کا گڑھ جھنگ ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم احتجاج ختم کر دیں۔ اس پر رانا ثناء اللہ اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے۔
دھرنے کے دوسرے روز اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت اعلٰی سطح کا اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کو وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ہمراہ فوری طور پر کوئٹہ پہنچنے کا حکم دیا، دونوں حکومتی رہنما علمدار روڈ پر پہنچے، جہاں انہوں نے وہاں پر موجود شیعہ رہنماوں سے ملاقات کی اور واقعہ پر اظہار افسوس کیا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ وہ خود نہیں بلکہ وزیراعظم کی طرف سے ان کے نمائندہ بن کر آئیں ہیں۔ اس موقع پر علامہ ناصر عباس جعفری سمیت دیگر احباب نے وزیر داخلہ کو شیعہ قوم کے تحفظات سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہمارے ہاں یہ رائے قائم ہوتی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ نون دہشتگردوں کی حامی جماعت ہے۔ کوئٹہ سمیت پنجاب میں بے گناہ شیعہ افراد کا قتل عام کیا جارہا ہے لیکن حکومت ٹس سے مس تک نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کا مطالبہ ہے کہ مستونگ سمیت پورے پاکستان میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کیا جائے۔ اس پر چوہدری نثار نے جواب دیا کہ انہیں ان مطالبات پر کوئی اعتراض نہیں، یہ مطالبات قانونی ہیں، جنہیں ہم تسلیم کرتے ہیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم دہشتگروں کا آخری حد تک پیچھا کریں گے۔ اب آپ لوگوں کو کارروائی ہوتی نظر آئیگی۔ چوہدری نثار نے شرکاء کو وزیرستان میں فوجی کارروائی اور وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے اعلٰی سطح کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے سے متعلق بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقدامات اٹھا رہے ہیں، آپ ہمارا ساتھ دیں۔
مذاکرات کے بعد جب وزیر داخلہ باہر دھرنے کی جگہ پر آئے تو ایچ ڈی پی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، اس پر مجمع مشتعل ہوگیا اور مذاکرات نہ منظور کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے، عبدالخالق ہزارہ دعویٰ کرتے رہے کہ انہیں شہداء کے لواحقین نے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے فوری پریس کانفرنس کی اور اعلان کیا کہ ملک بھر میں ہمارے احتجاجی دھرنے شہداء کے ورثاء کے حکم پر ہی ختم ہوں گے، ہم انہیں تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ بعد میں شہداء کے ورثاء نے سید محمد رضا کو کہا وہ مطئمن ہیں، لہٰذا دھرنے ختم کرنیکا اعلان کریں۔ اس کے ساتھ ہی علامہ ناصر عباس جعفری نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم دھرنے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں، تاہم اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو اب مظاہروں کا رخ اسلام آباد کی طرف کریں گے اور پارلیمان سے حکمرانوں کو نکال باہر کریں گے۔
احتجاجی دھرنوں میں شیعہ سنی اتحاد کا عظیم مظاہرہ دیکھنے کو ملا، اسلام آباد میں سنی اتحاد کونسل کے سرابرہ صاحبزادہ حامد رضا نے راولپنڈی فیض آباد پر مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے لگائے دھرنے میں شرکت کی اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلہ رضا، تحریک انصاف، تحریک منہاج القرآن اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے ملک کے مختلف حصوں میں دھرنوں میں شرکت کی۔ ملتان میں تحریک انصاف کے سینئیر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے شرکت کی، لاہور میں پی ٹی آئی کے صوبائی صدر چوہدری اعجاز اور پیپلزپارٹی کے منظور وٹو نے شرکت کی اور شیعہ قوم کے موقف کی تائید کی۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
تحریر : این ایچ بلوچ