وحدت نیوز: جہاں اسلام کے نام پر معصوم انسانوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہو اور جہاں لوگ اپنی نسلی روایات کو ہی اسلام سمجھنے لگ جائیں، وہاں عدل پسندوں اور با ضمیر انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ کربلا کو ایک درس گاہ کے طور پر لیتے ہوئے حسین ؑ کے فلسفہ شہادت اور قربانی کے مقصد کو سمجھیں اور حق کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔
تحریر: طاہر یاسین طاہر
امام عالی مقامؑ کی شہادت کا پیغام بڑا واضح اور آشکار ہے۔ چودہ صدیاں گزرنے کو ہیں، مگر یہ غم، یہ پیغام پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ حسینؑ کے بے مثال قیام کا مقصد نہ تو حصولِ اقتدار تھا اور نہ ہی اس سے آپ کوئی ذاتی نمود کا کام لینا چاہ رہے تھے۔ واقعہء کربلا کو کسی ایسے زاویے سے دیکھنے والے ،کہ حسینؑ کے قیام کا مقصد اقتدار کا حصول تھا، وہ بالکل اسی طرح گمراہ ہیں جس طرح یزید تھا۔ انسانی تاریخ کے اس عظیم معرکہء حق و باطل کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو حسین ؑ اور آپ کے ساتھیوں کی عظیم شہادت میں پنہاں ہے۔ حسینؑ اور یزید، دو افراد ہی نہیں، خیر و شر کے دو ایسے کردار بھی ہیں جو صبحِ قیامت تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں گے۔ خیر کے پیمبر کا نام حسینؑ ہے، تو شر کی پیشانی پر یزید لکھا ہوا ہے۔ امام عالی ؑ مقام حضرت حسین ؑ کا معروف فرمان ہے کہ ’’مجھ جیسا کبھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا‘‘ یعنی امام ؑ نے کربلا کے ریگزار میں بتلا دیا کہ ہر وہ کردار جو حق و صداقت کی گواہی بنے، وہ یزید جیسے کسی فاسق و فاجر کی بیعت پر آمادہ نہیں ہوگا۔
بلاشبہ یومِ عاشورہ کو نواسہء رسولﷺ پر بے انتہا ظلم کیا گیا، کربلا میں جو کچھ ہوا، اور جس طرح ہوا دنیا بھر کے عدل پسند انسان نہ صرف اس پر حیران ہیں بلکہ نازاں بھی ہیں، کہ انھیں حسین ؑ کی شکل میں ایک ایسا رہبر مل گیا جو انسانی حریت اور وقار کو زندہ رکھنے کا قرینہ سکھا رہا ہے۔ کربلا زندگی ہے، صرف نسلِ انسانی کے لیے ہی نہیں بلکہ دینِ مبین کے لیے بھی حیاتِ نو کربلا ہی ہے۔ دین پر کڑا وقت آیا تو پھر کیا ہوا؟ کوئی جا کرحضرت معین الدین چشتی اجمیری سے پوچھے جنھوں نے کہا تھا کہ
،
شاہ است حسینؑ، پادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ، دین پناہ است حسینؑ
سر داد، نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسینؑ
آج کے انسان کو ماضی کے انسان سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ فلسفہ شہادتِ حسین ؑ کو سمجھے۔ شہادتِ حسین ؑ کا ایک مقصد انسان کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا بھی ہے۔
استاد شہید مطہری فرماتے ہیں کہ ’’حسین ابنِ علی ؑ کا قیام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے تھا، عدل اسلامی کے لیے تھا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اپنے مقام پر ایک اسلامی اصول ہے۔ عدل ایک اسلامی اصول ہے، اور امامت جو اصولِ اسلامی کی محافظ و نگہبان ہے، خود ایک جداگانہ اسلامی اصول ہے۔ عدالت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، کے اصولوں کا احیا ایک ایسے امام کے ہاتھوں ہوا، جس کی اطاعت فرض کی گئی ہے۔ اگر ہم نے اس سلسلے اور اس تحریک کو ہمیشہ زندہ رکھا، تو گویا ہم نے امامت کے عظیم ترین شعار کی حفاظت کی، ہم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم ترین شعار کی حفاظت کی، ہم نے عدل کی حمایت اور ظلم کے خلاف جنگ کے شعار کی حفاظت کی ہے۔ جب ہم میدانِ عاشورہ اور روزِ عاشورہ پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو وہاں کیا دیکھتے ہیں؟ وہاں ہم اسلام اور اسلامی روحانیت کی تجلی دیکھتے ہیں
‘‘
کربلا میں نظر آنے والی اس روحانی و اخلاقی تجلی سے ہر عہد کے عدل پسند انسان جرات و حمیت کشید کرتے رہے، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے انسان کو یہ ضرورت پہلے سے زیادہ آن پڑی ہے کہ وہ امر بالمعروف کا پرچم ہاتھ میں تھام کر عدل کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب واقعی شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، اور سماج کو ایسی بحثوں کی طرف لے جایا جا رہا ہو جہاں اسلام کے حقیقی تشخص کو مجروح کیا جا رہا ہو، جہاں اسلام کے نام پر معصوم انسانوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہو اور جہاں لوگ اپنی نسلی روایات کو ہی اسلام سمجھنے لگ جائیں، وہاں عدل پسندوں اور با ضمیر انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ کربلا کو ایک درس گاہ کے طور پر لیتے ہوئے حسین ؑ کے فلسفہ شہادت اور قربانی کے مقصد کو سمجھیں اور حق کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ آج کا دن، حق و باطل کے درمیان ایک لکیر ہے، اور یہ لکیر صبحِ قیامت تک وقت کے ہر یزید کا من چڑاتی رہے گی۔ حسینیتؑ صبحِ قیامت تک دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے امید کا استعارہ ہے۔ یزیدیت، ظلم،جبر، استحصال اور جفا و زبردستی کا ایک قابلِ نفرت نشان۔ جوں جوں انسانیت بیدار ہوتی چلی جا رہی ہے، توں توں کربلا سے اس کا رشتہ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے بالکل درست فرمایا تھا کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ