اختلاف کا نتیجہ

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک سبزہ زار پر تین گائیں باہم زندگی بسر کرتی تھیں، ایک کا رنگ سفید ، دوسرے کا سیاہ اور تیسری کا رنگ ذرد تھا۔ یہ تین آپس میں پیار, دوستی اور محبت سے زندگی گزارتی تھیں. ایک دن ایک ناتواں اور بھوکا شیر وہاں پہنچا اس نے ان تینوں گائیں کی محبت اور اتفاق کو دیکھ کر ایک ترکیب سوچی کہ کسی نہ کسی طرح ان کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جائے کیونکہ تفرقہ ہی واحد حل تھا جس سے وہ ان تینوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا اور پھر اپنی بھوک مٹاتا۔ ایک دن اس نے سیاہ اور ذرد گائیں کو سفید گائے سے الگ پایا تو جلدی سے ان دونوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم دونوں کے رنگ ایک دوسرے سے کافی ملتے جلتے ہیں لیکن یہ سفید گائیں تم دونوں سے بالکل الگ ہے لہذا اس خوبصورت سبزہ زار کا مالک صرف تم دونوں کو ہونا چاہئیے تاکہ تم دونوں آرام سے گھانس چر سکو. شیر کی باتیں ان دونوں جانوروں پر اثرکر گئیں اور انہوں نے سفید گائیں سے نفرت کا اظہار کر دیا ، نفرت کا اظہار کرنا تھا کہ شیر نے اپنا دوسرا تیر کمان سے چھوڑا اور کہنے لگا میں تم دونوں کی مدد کر سکتا ہوں، میں ایسا کرتا ہوں کہ اس سفیدگائے کو کھا جاتا ہوں تاکہ تم دونوں راحت سے یہاں زندگی گزار سکو دونوں گائیں شیر کی بات پر متفق ہو گئیں یوں شیر نے موقع پاکر سفید گائے پر حملہ کیا اور اپنی بھوک مٹائی۔ کچھ دن بعد شیر نے زرد گائے کو اکیلا پا کر پھر عیاری کی اور کہنے لگا کہ تم اس کالی گائے کے ساتھ بلکل اچھی نہیں لگتی تمہارا اور میرا رنگ ملتا جلتا ہے لہذا میں اس کالی گائے کو کھا جاتا ہوں تا کہ اس سبزہ زار کی مالک صرف تم بن سکو۔ اس طرح شیر نے موقع دیکھ کر سیاہ گائیں کو بھی کھا لیا اور کچھ دن بعد زرد گائیں کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اب تمہاری باری ہے، میں تمہیں کھانا چاہتا ہوں اب زرد گائے کو شیر کی چالیں سمجھ آگئیں مگر اب کچھ فائدہ نہیں تھا. اختلاف نہ صر ف تفرقہ کا باعث بن سکتا ہے بلکہ ہلاکت و نابودی کا سبب بھی ہے۔

کچھ ایسے ہی مسائل سے پاکستان بھی دوچار ہے ہم آپس میں دست وگریبان ہیں، کہی پر سندھی مہاجر کا مسئلہ ہے تو کہی پر پنجابی سرائیکی کا تو کہی پر پٹھان کا غرض ہم نہ صرف لسانی فسادات میں جھگڑے ہوئے ہیں بلکہ فرقہ واریت بھی اپنی عروج پر ہے ۔ ہمیں وطن عزیز میں کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں پر سب امن و بھائی چارگی سے زندگی گزار رہے ہوں اور اپنے آپ کو سچا اور محبالوطن پاکستانی سمجھتے ہوں۔ ملکی صورت حال کو اس نہج پر پہنچانے میں عوام سے زیادہ ہمارے ذمہ دار اداروں اور حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ قائد اعظم کے بعد ہمارے حکمرانوں اور جنریلوں نے اپنے اصل قبلہ سے منہ موڑ دیا تھا یعنی پاکستان بنانے کے مقصد کو فراموش کر دیا تھا اسی وجہ سے ایک تو ہم ابتدا ہی سے لسانی مسائل کا شکار ہو گئے اور دوسری جانب ہم نے اپنے قبلہ کو امریکہ  طرف موڑ دیا۔ جس سے ہمیں جو فائدے حاصل ہوئے ہیں وہ آج کل ہم طالبان اور دہشتگردوں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ کرپٹ اور غلام حکمران و جنریلز بھی امریکہ سے دوستی کے بل بوتے پر ہم پر مسلط رہے ہیں۔
ہمارے تمام حکمران طبقے اور پڑھے لکھے طبقے امریکہ اور یورپ سے دوستی کو اجر عظیم سمجھتے ہیں اور امریکہ کی طرف  سے کوئی ہڈی بھی پہنچے تو اسے سر آنکھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ حکمرانوں سے زیادہ حیرت مجھے پڑھے لکھے طبقے پر ہوتی ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود ان کی غلامی کو افضل سمجھتے ہیں اور ان کے ہر فرمان پر سر تسلیم خم کرتے ہیں اور فریب کھا جاتے ہیں۔

ہم اگر امریکہ سے دوستی میں کیا کھویا کیا پایا اس پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہم نے صرف چند ڈالرز حاصل کیے ہیں اور وہ بھی حکمرانوں کے اکاونٹس میں جمع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کو جو تحفہ ملا ہے وہ ملکی قرضے اور دہشت گردی کا ناسور ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے حواریوں کو انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد سمجھتے ہیں اور پس پردہ ان کے مقاصد سے غافل ہیں۔ عالمی طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے مسلمانوں کو بدنام کیا ہے اور ساری دنیا میں مسلمان کے نام کو ہی ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اس کی حمایت میں ہمارے سادہ لوح مسلمان میدان میں ہیں۔ ہمارے لیے اسے زیادہ شرم کا مقام اور کیا ہو گا کہ امریکہ کا بدمعاش اور متعصب ترین صدر سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو اسلام پر لیکچر دے اور سب سے بڑا دہشت گرد ہمارے وطن عزیز کو دہشت گرد ملک قرار دے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں. ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کچھ گروہ کے نائین الیون حملے میں ملوث ہونے پر(لیکن خود 9/11 پر حملے ابھی تک ایک معمہ ہے کہ اس کے اصل ماسٹر مائنڈ کون تھے) افغانستان کو خاک و خون میں ملا دینا دہشت گردی نہیں ہے؟ کیمیکل ویپن کی آڑ میں عراق کو تباہ کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟ اسی طرح شام، لیبیا، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں امریکی مداخلت بھی ایک مسئلہ ہے۔ امریکہ جو کہ اپنے آپ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا لیڈر مانتا ہے اگر ہم عراق، شام کی جنگ اور داعش کے وجود میں امریکہ کے کردار کو ایک جانب رکھ کر صرف افغانستان کا ہی جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ میں پیش پیش ہے یا دہشت گردوں کی نرسریاں لگانے میں آگے آگے ہے۔ امریکہ ۲۰۰۱ سے افغانستان میں نام نہاد شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور اس وقت ۱۱ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں ان سب کے باوجود آئے روز بم دھماکے اور دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں دوسری طرف داعش اور طالبان پھر سے ابھر رہے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ سولہ سترہ سالوں سے لڑنے والی دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟؟

لہذا مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیے، اسلام دشمن عناصر کبھی بھی مسلمانوں کو اتفاق اور طاقت میں نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی کبھی مسلمانوں کے دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمیں مشرق وسطی کے حالات سے سبق حاصل کرنا چاہئیے کہ کس طرح امریکہ نے پہلے صدام اور قزافی سے غلامی کروائی اور جب انکی تاریخ ختم ہوئی تو کس طرح ان کو ذلیل کیا اور موت کے گھاٹ اتروایا۔ اگر ہم غور و فکر کریں تو امریکہ نے سب سے پہلے عوام کو اپنے حکمرانوں سے بے زار کرایا، ملکوں میں افرا تفری کا عالم پیدا کروایا، فرقہ واریت اور لسانی تعصب کو بڑھکایا پھر خود ہمدرد بن کر میدان میں کود پڑا، یوں اس نے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے والی مثال پر عمل کیا۔ امریکہ اور ان کے حواریوں نے اسی طرح مشرق وسطی کے ملکوں کو تباہ کیا ہے عرب ممالک کو لوٹ رہا ہے اور اپنے اشارے پر نچا رہا ہے اب جو آخری ملک ان کی آنکھوں میں چبھ رہی ہے وہ وطن عزیز پاکستان ہے جہاں پر اترنے کے لیے وہ سالوں سے منصوبہ بندی کر رہا ہے. اول پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر رہا ہے, دوئم کچھ خائن حکمران یا قائدین کے ذریعے نسل پرستی و لسانیات کو فروغ دے رہا ہے، سوئم فرقہ واریت و دہشت گردی کے ذریعے ملک کو کمزور کر رہا ہے تاکہ وہ موقع ملتے ہی پاکستان کو عراق اور شام کی طرح بنا سکے۔ لہذا عوام کو باخبر رہنا چاہئیے کہ کوئی بھی فرقہ و لسانی طور پر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے تو وہ پاکستان کا دشمن اور امریکہ و را کا ایجنٹ ہے۔ اگر ہم اپنے پرانے رویہ پر قائم رہے تو پھر ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو شیر نے گائے کے ساتھ کیا تھا۔

تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) میں تو ابھی ابھی بیٹھنا سیکھ رہا تھا، میری چھوٹی بہن دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر مجھے گھومنا سکھاتی تھی، بابا جب کام سے تھکا ہارا گھر آتا تھا تو اگرچہ میں مٹی میں بھرا ہوتا تھا تب بھی وہ اٹھا کر مجھے کندھوں پر سوار کرتا تھا، میری امی کو کہتا تھا دیکھو میرا بیٹا بڑا ہوکر بڑا آدمی بنے گا اور امی دونوں مٹھیان بند کرکے چہرے پر گھماتے ہوئے خوشی سے باغ باغ ہوجاتی تھی، میری دنیا صرف امی ابو اور میری مجھ سے بڑی بہن ہی تھیں۔

مجھے غصے سے کسی نے دیکھا تک نہیں تھا، پیٹنا تو دور کی بات، امی کی جدائی مجھے لمحہ بھر برداشت نہیں ہوتی تھی اور ہاں میری معصوم سی بہن اگر پریشان ہوتی تھیں تو میں چیخیں مار کر روتا تھا تاکہ اسکی پریشانی ختم کر سکوں۔

پھر ایک دن ایسا بھی آیا: بابا جب گھر سے نکل کر کھیتوں پر گئے تو واپس نہیں آئے، اچانک کچھ نارنگی لباس میں ملبوس سر منڈوائے لوگ آئے اور انہوں نے گاوں جلانا شروع کیا، امی نے جلدی میں تھوڑا سامان اٹھایا اور پچھلے دروازے سے نکل کر جھاڑیوں میں چھپتے چھپتے جنگل کا راستہ لیا اور ہم تھوڑا ہی آگے نکلے تھے کہ اچانک گاوں کی مغربی سائیڈ سے ایک بڑا ہجوم نمودار ہوا کہ جن کے ہاتھ میں ڈنڈے، کلہاڑیاں، بھالے اور خنجر وغیرہ تھے ان کی نظر ہم پر پڑ گئی اور ان میں سے کچھ ہماری طرف لپکے اور کچھ ایسے چیخ رہے تھے پکڑو ان کو، ان کی بوٹیاں نوچ لو ان کو زندہ جلادو، ان کے مکروہ قہقہے میرے اندر کو چیر رہے تھے، امی کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا اس نے ہم دونوں کو جھاڑی میں چھپا کر میری بہن کو میرا خیال کرنے کا کہا اور کہا کہ تم خاموش یہاں بیٹھے رہو میں ابھی واپس آتی ہو، اور ہاں شور مت کرنا اور رونا مت ورنہ یہ لوگ تمہیں دیکھ لیں گے ۔

امی جھاڑی میں ہمیں چھپا کر تھوڑا دور گئی تھی کہ اسکو ان ظالموں نے پکڑ لیا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے انہوں نے امی کے بدن کو نوچنا شروع کیا اور کچھ لمحے بعد امی کا بے جان جسم زمین پر سیدھا ہوگیا، میرا دل پھٹ رہا تھا جب امی کو میں نے ایسی حالت میں دیکھا لیکن امی نے کہا تھا کہ تم دونوں رونا، چیخنا چلانا مت، اس لیے ہم دونوں گھٹ گھٹ کے رو رہے تھے۔

جب وہ لوگ امی کو مار چکے تو ان میں ایک نے کہا: اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے، انہوں نے ہمیں ڈھونڈھنا شروع کیا اور جھاڑیوں کو آگ لگانا شروع کی، میری بہن نے جب آگ دیکھی تو ڈر کے مارے مجھے اٹھا کر جھاڑیوں سے نکل کر بھاگی اور ہمیں ان درندوں نے دیکھ لیا، بہن گر گئی اور اس کے ساتھ میں بھی دھڑام سے گرگیا مجھے شدید چوٹ آئی لیکن بہن کو جب انہوں نے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا تو مجھ سے اپنا درد بھول گیا اور میں نے چیختے ہوئے رونا شروع کیا انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری معصوم سی بہن کو ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے بے جان کردیا اور اس کے ننھے سے جنازے کو امی کے جنازے کے ساتھ رکھ کے جلادیا۔
پھر میری باری جب آئی تو ان میں سے ایک ظالم میرے اوپر چڑھ گیا، میرے چھوٹے اور معصوم چہرے پر لامحدود تھپڑ مارنے لگا، میری آنکھوں سے نور جاتا چلا اور کچھ لمحے مجھے پیٹنے کے بعد انہوں نے مجھے قریبی پانی کے تالاب میں پھینک دیا، پانی جلدی جلدی سے میرے منہ، ناک اور کانوں کے ذریعے میرے جسم میں داخل ہونے لگا اور میں ڈوبتا چلا گیا اور جب روح نے میرے جسم کا ساتھ چھوڑا تو میں نے خود کو دیکھا کہ بابا امی اور بہن بھی تالاب کے کنارے میرے انتظار میں کھڑے ہیں انکا روح بھی رو رہا تھا مجھے ایسے دیکھ کے، میرا روح ان کہ طرف لپکا، بابا نے مجھے اپنے سینے سے لگالیا، امی اور بہن نے باری باری مجھے اٹھانا شروع کیا، میرے درد ختم ہوگئے لیکن میرا مردہ جسم پانی کی سطح پر تیر کر نکل آیا، اب بھی وہ وحشی میرے ننھے بدن کو دور سے پتھروں سے مار رہے ہیں اور نشانہ لے کر میرے نصیب پر ہنس رہے ہیں.
خدایا یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا؟
میرے اللہ میرا جلدی فیصلہ کرنا؟
میں کس جرم میں مارا گیا؟
میں نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا،
میرا جرم صرف مسلمان ہونا تھا، میں برما کا مسلم ہوں اور روہنگیا کا رہنے والا۔


از: محمد جواد عسکری

وحدت نیوز(لندن) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اپنے ایک بیان میں علامہ شیخ مشرف حسینی کو ایم ڈبلیوایم شعبہ لندن(برطانیہ)کا سیکریٹری جنرل نامزد کرنے کا اعلان کردیا ہے، انہوں نے کہاہے کہ مجلس وحدت مسلمین مظلومین پاکستان کی بالخصوص اور مظلومین عالم کی بالعموم مضبوط آواز اور ان کی امیدوں کامرکز بن  کر ابھری ہے جو کہ عصرجدید کے تقاضوں کے عین مطابق سرزمین پاکستان پر خط امام خمینیؒ ومشن شہید قائد ؒ کے تکمیلی مراحل طے کرنے کے لئے رہبر معظم (دام ظلہ)کے زیرسایہ اور ناصرملت علامہ ناصرعباس جعفری کی حکیمانہ قیادت میں اپنا وظیفہ انجام دے رہی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے قیام کے روز اول سے برطانیہ خصوصاًلندن کے انقلابی علماءاور ہم فکر نوجوانوں کا تعاون ہمیشہ برقرار رہا ہےاور وہ پر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیئے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت وکارکنان کے شانہ بشانہ کھڑے نظرآئے ہیں،جس کیلئے ہم ان کے بیحدممنون اور مشکور ہیں، اب وقت کی ضرورت ہےکہ یورپ میں تنظیمی ڈھانچے کی باقائدہ تشکیل کی جائے اور اسے مضبوط کیاجائےلہذٰاسیکریٹری جنرل جیسی اہم ذمہ داری اور مسئولیت کے لئے  حجتہ الاسلام شیخ مشرف حسینی کے تجربہ ، خلوص اور صلاحتیوں کو مدنظررکھتے ہوئےانہیں انگلینڈ سمیت پورے یورپ کا نمائندہ اور سیکریٹری جنرل نامزد کیا جارہاہے،امید ہے کہ آپ اپنی بہترین صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس الہیٰ ذمہ داری کو بطریق احسن انجام دیں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ توکم ہے، کسی چیز کی تو کمی ہے! اگرچہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے! اگرچہ اسلامی عسکری اتحاد کا سربراہ بھی ہمارا ہی ایک ریٹائرڈ جنرل ہے  لیکن بحیثیٹ قوم  ہم ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کا تعین نہیں کر سکے۔  دوسری طرف  لاکھوں ہندی اور کشمیری مسلمانوں کے قاتل مسٹر مودی  اس وقت برما پہنچ چکےہیں جہاں وہ  میانمار کے صدر ہیٹن کیاؤ سے ملاقات کریں گے۔ یعنی مسلمانوں کے دو مسلمہ قاتل آپس میں مل بیٹھیں گےاور اس کے بعد مسلمانوں کے حوالے سے  وہ  دونوں کیا منصوبہ بندی  کریں گے اس کا فی الحال  ہم کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ۔

اس دوران اچھا ہواکہ  پاکستان سےمولانا سمیع الحق نے  اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام ایک خط لکھا ہے لیکن یہی خط اگر سعودی فوجی اتحاد کی طرف سے  لکھاجاتا تو اس  کی تاثیر بھی کئی گنا زیادہ ہوتی اور سعودی فوجی اتحاد کے بارے میں اٹھنے والے شکوک و شبہات بھی کچھ کم ہو جاتے۔

یہاں پر میانمار کی  نوبل انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی برمی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی کا ذکر ہر گز ضروری نہیں چونکہ ظلم پر خاموش رہنا تو ہم پاکستانیوں کی بھی عادت ہے۔ ہم بھی تو صرف  اپنی پارٹی ، اپنے مسلک ، اپنے گروہ، اپنے مدرسے اور صرف اپنے ہی فرقے کے لئے بولتے ہیں۔

ابھی ہم سب کے سامنے  برما اور مقبوضہ کشمیر کی طرح  آزاد کشمیر کو بھی فرقہ واریت کی آگ میں جھلسانے کی سازش تیارہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ چند سالوں میں جہاں دیگر متعدد واقعات  رونما ہوئے وہیں ٹارگٹ کلنگ کے آپشن کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔

 اس سلسلے میں فروری ۲۰۱۷ میں علامہ تصور جوادی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔  ان پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر کہیں جارہے تھے، علامہ  تصور جوادی کے چار گولیاں لگیں جن میں سے ایک ان کے  گلے میں لگی۔

اب  یہ بھی  ایک واضح حقیقت ہے کہ  آزاد کشمیر کے لوگوں میں مسلکی وحدت اور بھائی چارہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ،  اسی طرح تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ ہونے کی وجہ سے بھی یہ علاقہ انتہائی حساس ہے ، ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس علاقے میں مین روڈ بھی صرف ایک ہی ہے جس پر کوئی کارروائی کر کے فرار ہونا ممکن ہی نہیں لیکن نجانے وہ کونسی قوت ہے جس نے ابھی تک حملہ آوروں کو پناہ  دی ہوئی ہے۔

یاد رہےکہ جب کسی بھی منطقے میں کچھ قوتیں دہشت گردوں کی سہولت کاری شروع کر دیتی ہیں تو پھر وہاں  پر  برما جیسے سانحات معمول بن جاتے ہیں۔

اس وقت جس طرح برما کے مسلمانوں کی خاطر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی  فرقہ واریت  اور ٹارگٹ کلنگ کا آغازکرنے والوں کو بے نقاب کرنے اور کیفرکردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

اس امر کے لئے برما کے اعلی حکام کو فیکس اور ای میلز کرنے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کے اعلی حکام کو بھی فیکس اور ای میلز کئے جانے چاہیے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آزاد کشمیر جیسے حساس علاقے  کے دارالحکومت  میں ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آئے اور ملک کی خفیہ ایجنسیاں حملہ آوروں کو گرفتار کرنے میں ناکام ہو جائیں۔

 اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس   کچھ توکم ہے، کسی چیز کی تو کمی ہے! اگرچہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے! اگرچہ اسلامی عسکری اتحاد کا سربراہ بھی ہمارا ہی ایک ریٹائرڈ جنرل ہے  لیکن بحیثیت قوم  ہم ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کا تعین نہیں کر سکے۔ جس طرح مسٹر مودی ہم سے پہلے برما میں پہنچ چکا ہے اسی طرح را کے ایجنٹ ہم سے پہلے آزاد کشمیر میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔

ہمارے سیکورٹی اداروں کو آزاد کشمیر میں  ڈٹ کر را کے ایجنٹوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ میں ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کا ماحول بنا رہے ہیں وہ   یقینا! را کے ٹاوٹ ہیں  اور کسی لانگ ٹرم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں، ایسے لوگوں کے نیٹ ورکس کے خلاف فوری طور پر کارروائی ہونی چاہیے۔

اس سے پہلے کہ بلوچستان کی طرح  آزاد کشمیر میں بھی  را اپنے قدم جمالے  اور اپنے نیٹ ورکس کو پھیلا دے،   ہمارے حساس اداروں نیز فوج اور پولیس کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت  سات مہینے گزرنے کے باوجود ٹارگٹ کلرز کا گرفتار نہ ہونا آزاد کشمیر میں فعال سیکورٹی اداروں کی سلامتی پر سوالیہ نشان ہے۔

یہ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے کہ ہم  برما اور آزاد کشمیر میں را کے نیٹ ورکس کے خلاف آواز اٹھائیں اور تحریک آزادی کے اس بیس کیمپ کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔یاد رکھئے کہ  جو آگ بھارت کی ایما پر برما میں جل رہی ہے اسی کو را آزادکشمیر میں سلگانے میں مصروف ہے۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار میں جاری مسلم نسل کشی پراقوام متحدہ،او آئی سی اور عالمی قوتوں کی خاموشی انسانیت کی تضحیک اور بدترین بے حسی ہے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ صوبائی سیکرٹری سیاسیات علی حسین نقوی ،علامہ مبشر حسن ،علامہ صادق جعفری ،علامہ اظہر نقوی ،اور میر تقی ظفر بھی موجود تھے۔

 پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ حسن ظفر نقوی کا کہنا تھا کہ روہنگیا میں مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ برمی حکومت کی سرپرستی میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔رواں ماہ میں انسانیت سوز مظالم نے جو شدت اختیار کی ہے اس کے تاریخ میں مثال نہیں ملتی ، زندہ خواتین ،نومولود اور کمسن بچوں کے جسمانی اعضا کاٹنے کی وڈیوز نیٹ پر موجود ہیں۔نوجوانوں کے ہاتھ پاو ¿ں باندھ کر انہیں اذیت ناک انداز میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت سوز سلوک کے روح فرسا مناظر درندگی کی بدترین تاریخ رقم کر رہے ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہزاروں مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برما کی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کوکسی قسم کا تحفظ دینے کی بجائے قتل عام میں ملوث مذموم عناصر کی حوصلہ افزائی بڑھتے ہوئے انسانیت سوز واقعات کی بنیادی وجہ ہے۔یورپ کے کسی ملک میں دہشت گردی کے عام سے واقعہ کے بعد پوری دنیا کے امن کو تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔ملالہ پرگولی چلنے کے درد سے اقوام عالم کے سینے میں ٹھیسیں اٹھنے لگتی ہیں مگر افسوس میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کا خاک و خون میں تڑپنا کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔ سامراجی طاقتوں کی یہ دانستہ چشم پوشی امت مسلمہ سے متعصبانہ رویے کا برملا اظہار اور قابل مذمت ہے۔اس مسئلہ پر مسلم ممالک کی طرف سے جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا رہا ہے وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے۔ برمی سفارت کار کو طلب کر کے محض سرزنش کرنے کو بھی غیر ضروری سمجھاجا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیے جانے والے اسلامک ملٹری الائنس نے برما کے مسئلہ پر منہ اور آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔کیا مسلمانوں کے انتالیس ممالک مل کر بھی ان مٹھی بھر اسلام دشمنوں کو ان کے غیر انسانی اقدام سے باز رکھنے کی جرات نہیں رکھتے۔اگر اس اتحاد کا مقصد سعودی حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ ہے تو پھر اس کا نام اسلامی فوجی اتحاد کی بجائے اپنے مقصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔اقوام متحدہ،انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور مسلمانوں کے حقوق کے ٹھکیدار ممالک کی طرف سے روہنگی مسلمانوں کے مسائل سے عدم دلچسپی کا اظہار اس امر کا عکاس ہے کہ ان ممالک کے اہداف اور مقاصد مختلف ہیں۔۔انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام مسلم ممالک کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جو برما کے مسئلے پر ابھی تک خاموش ہیں۔

آخیر میں ان کاکہناتھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے روہنگیاکے مسلمانوں کی حمایت میں ”حمایت مظلومین تحریک“ کا اعلان کیا ہے۔8ستمبر جمعہ کے روز میانمار کے مسلمانوں کے حق میں ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔جن کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی و صو بائی رہنما کریں گے۔اس کے علاوہ مختلف شہروں میں سمینار اور اجلاس بھی منعقد کیے جائیں گے۔مجلس وحدت مسلمین اقوام متحدہ اور برمی سفارت خانے سمیت مختلف اداروں کو احتجاجی خطوط لکھ کر برما میں مسلم کشی کو روکنے کا مطالبہ بھی کرے گی۔اس سلسلے میں مسلم ممالک کو بھی موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔برما کی حکومت کو مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیں بصورت دیگر برما سے سفارتی روابط منقطع کیے جائیں۔ برما کی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث شر پسندوں کو لگام دینے میں حیل حجت کا مظاہرے کرے تو پھرمسلمان خاندانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اسلامی ممالک کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ برما کے سفارت کار کو طلب کر کے سخت لب و لہجہ میں احتجاج کیا جائے۔انہوں نے کہا مجلس وحدت مسلمین اس سفاکیت کے خلاف ہر سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔

 پریس کانفرنس کے موقع پر ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکریٹری سیاسیات سید علی حسین نقوی نے عید کے پہلے روز ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماءاور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور شہید پولیس اہلکار اور بچے کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کی میزبانی میں  ملی یکجہتی  کونسل کے زیراہتمام مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں میانمر میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، پریس کانفرنس میں علامہ سید اقبال رضوی قائمقام سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان ،جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں محمد اسلم، پیر عبد الرحیم نقشبندی سربراہ جمعیت علمائے اسلام سینئر، علامہ امین شہیدی چیئرمین امت واحدہ پاکستان، پیر ناصر جمیل ہاشمی، سینئر نائب صدر جمعیت علمائے پاکستان اور آصف لقمان قاضی مرکزی رکن ملی یکجہتی کونسل پاکستان شامل تھے۔ اس کے علاوہ عبد اللہ گل چیئرمین تحریک جوانان پاکستان، سید راحت کاظمی چیئرمین تحریک اتحاد امت پاکستان، مفتی گلزار احمد نعیمی چیئرمین جماعت اہل حرم پاکستان، مولانا عبد الجلیل نقشبندی نائب صدر جمعیت اتحاد علمائے پاکستان،علامہ سید نصیر موسوی اسلامی تحریک پاکستان، پروفیسر خالد سیف اللہ جمعیت اہل حدیث، ثاقب اکبر ڈپٹی سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان، مولانا عمر فاروق جمعۃ اہل حدیث، ملک اعجاز امامیہ آرگنائزیشن پاکستان اور لعل مہدی خان امامیہ آرگنائزیشن بھی موجود تھے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ میانمار (برما) میں آباد لاکھوں روہنگیا مسلمان جو بنیادی شہریت اور دیگر انسانی حقوق سے دہائیوں سے محروم ہیں اور ریاستی تشدد کا متعدد بار نشانہ بنے، ایک مرتبہ پھر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انیس سو اٹھاسی سے لیکر ابتک مختلف واقعات میں ہونے والے حکومتی کریک ڈاون اور نسل کشی کے سبب قریباً پانچ لاکھ سے زائد انسان خانماں برباد ہیں۔ اردگرد کے ممالک اس کثیر تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے پر تیار نہیں۔ ۱۹۶۲سے قبل روہنگیا مسلمان برما کے شہری تھے۔ وہ افواج، حکومت کے اہم اداروں اور پارلیمنٹ میں ذمہ داریاں انجام دیتے تھے تاہم ۱۹۶۲میں حکومت پر فوجی شب خون کے بعد سے اب تک روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور ان کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے ان کے خلاف طرح طرح کے جارحانہ اقدامات کیے گئے۔ جسے اقوام متحدہ کے مختلف اداروں نے نسلی تعصب اور نسل کشی قرار دیا تاہم برما کی حکومت پر اس کا ذرہ برابر اثر نہیں۔

ملی یکجہتی کونسل کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آج بھی روہنگیا مسلمانوں کی آبادی کے خلاف مسلسل اقدامات کیے جاتے ہیں، کبھی برما کے بدھوں کو اکسایا جاتا ہے اور مسلمانوں کے دیہاتوں کے دیہات جلا دئے جاتے ہیں اور کبھی بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برمی افواج کا کریک ڈاون اور اس میں چار سو کے قریب افراد کا بہیمانہ قتل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق، ملی یکجہتی کونسل پاکستان میں شامل جماعتیں برما کی افواج کی جانب سے جاری روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہیں۔ پاکستان کے تمام مسلمان اس قتل عام پر شدید دکھ اور کرب کی کیفیت میں ہیں۔ ہم حکومت پاکستان اور تمام اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کو عالمی انسانی حقوق کے اداروں میں اٹھائیں اور برما کی حکومت کو ایسے اقدامات سے روکا جائے۔

متفقہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے مسئلہ کو عالمی عدالت انصاف میں لے جایا جائے اور اس جرم میں ملوث تمام عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ عالمی انسانی حقوق کے علمبردار ادارے برما کی فوج کے سربراہ کے بیانات کا نوٹس لیں جو ان مظالم کو دوسری جنگ عظیم کی تکمیل قرار دیتا ہے۔ انسانیت کے اس قاتل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔ برما کی حکومت اگر اپنے ان ظالمانہ اور جابرانہ اقدامات سے باز نہیں آتی تو اقوام عالم اس حکومت کے خلاف اقتصادی و معاشی پابندیاں لگائیں اور اس حکومت کو عالمی قوانین کی پاسداری اور روہنگیا مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق واگزار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ برما کی حکومت کو بھارتی اور اسرائیلی حکومتوں کی حاصل آشیرباد اور ان ممالک کی جانب سے برما کی افواج کو اسلحہ کی فروخت کو رکوانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اسلحہ انسانی نسل کشی میں نہ استعمال کیا جاسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برما کی بحری ناکہ بندی کی جائے تاکہ ریاستی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے اسلحہ کی ترسیل کو روکا جا سکے۔

متفقہ اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ روہنگیا مسلمان جو صدیوں سے برما میں رہائش پذیر ہیں کو برما کی شہریت دی جائے اور ان کے بنیادی حقوق مثلا تعلیم، روزگار، صحت، ووٹ کا حق اور دیگر مسلمہ شہری حقوق کو واگزار کروایا جائے۔ برما کے وہ پناہ گزین جو مختلف ممالک میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کو واپس اپنے ملک میں آباد کرنے کے لیے عالمی ادارے اقدامات کریں نیز ان کی بحالی کے لیے بھی فی الفور اقدام کیا جائے تاکہ کسی ناگہانی آفت منجملہ بیماری وغیرہ سے بچا جا سکے۔ حکومت پاکستان اسلام آباد میں تعینات برما کے سفیر کو فی الفور دفتر خارجہ میں طلب کرے اور اسے پاکستانی عوام کے جذبات اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے دکھ، درد اور قرب سے آگاہ کرے۔ روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے ایک وفد بنگلہ دیش کا دورہ کرے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت پاکستان خیر سگالی کے طور پر امداد کا اعلان کرے۔ مسلمان ریاستوں اور عالمی اداروں کی جانب سے فقط مذمتی بیانات کافی نہیں ہیں بلکہ ان کو ایسے عملی اقدامات کرنے چاہیں جس سے برما کی حکومت اس منظم نسل کشی کو ختم کرنے اور روہنگیا مسلمانوں کے جائز حقوق واگزار کرنے پر مجبور ہو جائے۔

ملی یکجہتی کونسل کے اعلامیے کے مطابق، او آئی سی کو روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے حرکت میں آنا چاہیے اور ان مظلوم انسانوں کے لیے کوئی عملی اقدام کرنا چاہیے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ دہشتگردی کےخلاف قائم اسلامی فوجی اتحاد نے بھی برمی دہشت گرد فوج کے خلاف ابھی تک کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس موقع پر خاموشی قابل مذمت ہے، میانمار کی صدر سان سن سوچی سے نوبل انعام واپس لیا جانا چاہیے جس کی سرپرستی میں یہ ظلم جاری ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree