وحدت نیوز(آرٹیکل) میں تو ابھی ابھی بیٹھنا سیکھ رہا تھا، میری چھوٹی بہن دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر مجھے گھومنا سکھاتی تھی، بابا جب کام سے تھکا ہارا گھر آتا تھا تو اگرچہ میں مٹی میں بھرا ہوتا تھا تب بھی وہ اٹھا کر مجھے کندھوں پر سوار کرتا تھا، میری امی کو کہتا تھا دیکھو میرا بیٹا بڑا ہوکر بڑا آدمی بنے گا اور امی دونوں مٹھیان بند کرکے چہرے پر گھماتے ہوئے خوشی سے باغ باغ ہوجاتی تھی، میری دنیا صرف امی ابو اور میری مجھ سے بڑی بہن ہی تھیں۔

مجھے غصے سے کسی نے دیکھا تک نہیں تھا، پیٹنا تو دور کی بات، امی کی جدائی مجھے لمحہ بھر برداشت نہیں ہوتی تھی اور ہاں میری معصوم سی بہن اگر پریشان ہوتی تھیں تو میں چیخیں مار کر روتا تھا تاکہ اسکی پریشانی ختم کر سکوں۔

پھر ایک دن ایسا بھی آیا: بابا جب گھر سے نکل کر کھیتوں پر گئے تو واپس نہیں آئے، اچانک کچھ نارنگی لباس میں ملبوس سر منڈوائے لوگ آئے اور انہوں نے گاوں جلانا شروع کیا، امی نے جلدی میں تھوڑا سامان اٹھایا اور پچھلے دروازے سے نکل کر جھاڑیوں میں چھپتے چھپتے جنگل کا راستہ لیا اور ہم تھوڑا ہی آگے نکلے تھے کہ اچانک گاوں کی مغربی سائیڈ سے ایک بڑا ہجوم نمودار ہوا کہ جن کے ہاتھ میں ڈنڈے، کلہاڑیاں، بھالے اور خنجر وغیرہ تھے ان کی نظر ہم پر پڑ گئی اور ان میں سے کچھ ہماری طرف لپکے اور کچھ ایسے چیخ رہے تھے پکڑو ان کو، ان کی بوٹیاں نوچ لو ان کو زندہ جلادو، ان کے مکروہ قہقہے میرے اندر کو چیر رہے تھے، امی کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا اس نے ہم دونوں کو جھاڑی میں چھپا کر میری بہن کو میرا خیال کرنے کا کہا اور کہا کہ تم خاموش یہاں بیٹھے رہو میں ابھی واپس آتی ہو، اور ہاں شور مت کرنا اور رونا مت ورنہ یہ لوگ تمہیں دیکھ لیں گے ۔

امی جھاڑی میں ہمیں چھپا کر تھوڑا دور گئی تھی کہ اسکو ان ظالموں نے پکڑ لیا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے انہوں نے امی کے بدن کو نوچنا شروع کیا اور کچھ لمحے بعد امی کا بے جان جسم زمین پر سیدھا ہوگیا، میرا دل پھٹ رہا تھا جب امی کو میں نے ایسی حالت میں دیکھا لیکن امی نے کہا تھا کہ تم دونوں رونا، چیخنا چلانا مت، اس لیے ہم دونوں گھٹ گھٹ کے رو رہے تھے۔

جب وہ لوگ امی کو مار چکے تو ان میں ایک نے کہا: اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے، انہوں نے ہمیں ڈھونڈھنا شروع کیا اور جھاڑیوں کو آگ لگانا شروع کی، میری بہن نے جب آگ دیکھی تو ڈر کے مارے مجھے اٹھا کر جھاڑیوں سے نکل کر بھاگی اور ہمیں ان درندوں نے دیکھ لیا، بہن گر گئی اور اس کے ساتھ میں بھی دھڑام سے گرگیا مجھے شدید چوٹ آئی لیکن بہن کو جب انہوں نے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا شروع کیا تو مجھ سے اپنا درد بھول گیا اور میں نے چیختے ہوئے رونا شروع کیا انہوں نے میری آنکھوں کے سامنے میری معصوم سی بہن کو ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے بے جان کردیا اور اس کے ننھے سے جنازے کو امی کے جنازے کے ساتھ رکھ کے جلادیا۔
پھر میری باری جب آئی تو ان میں سے ایک ظالم میرے اوپر چڑھ گیا، میرے چھوٹے اور معصوم چہرے پر لامحدود تھپڑ مارنے لگا، میری آنکھوں سے نور جاتا چلا اور کچھ لمحے مجھے پیٹنے کے بعد انہوں نے مجھے قریبی پانی کے تالاب میں پھینک دیا، پانی جلدی جلدی سے میرے منہ، ناک اور کانوں کے ذریعے میرے جسم میں داخل ہونے لگا اور میں ڈوبتا چلا گیا اور جب روح نے میرے جسم کا ساتھ چھوڑا تو میں نے خود کو دیکھا کہ بابا امی اور بہن بھی تالاب کے کنارے میرے انتظار میں کھڑے ہیں انکا روح بھی رو رہا تھا مجھے ایسے دیکھ کے، میرا روح ان کہ طرف لپکا، بابا نے مجھے اپنے سینے سے لگالیا، امی اور بہن نے باری باری مجھے اٹھانا شروع کیا، میرے درد ختم ہوگئے لیکن میرا مردہ جسم پانی کی سطح پر تیر کر نکل آیا، اب بھی وہ وحشی میرے ننھے بدن کو دور سے پتھروں سے مار رہے ہیں اور نشانہ لے کر میرے نصیب پر ہنس رہے ہیں.
خدایا یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا؟
میرے اللہ میرا جلدی فیصلہ کرنا؟
میں کس جرم میں مارا گیا؟
میں نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا،
میرا جرم صرف مسلمان ہونا تھا، میں برما کا مسلم ہوں اور روہنگیا کا رہنے والا۔


از: محمد جواد عسکری

برما اور آزاد کشمیر

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ توکم ہے، کسی چیز کی تو کمی ہے! اگرچہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے! اگرچہ اسلامی عسکری اتحاد کا سربراہ بھی ہمارا ہی ایک ریٹائرڈ جنرل ہے  لیکن بحیثیٹ قوم  ہم ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کا تعین نہیں کر سکے۔  دوسری طرف  لاکھوں ہندی اور کشمیری مسلمانوں کے قاتل مسٹر مودی  اس وقت برما پہنچ چکےہیں جہاں وہ  میانمار کے صدر ہیٹن کیاؤ سے ملاقات کریں گے۔ یعنی مسلمانوں کے دو مسلمہ قاتل آپس میں مل بیٹھیں گےاور اس کے بعد مسلمانوں کے حوالے سے  وہ  دونوں کیا منصوبہ بندی  کریں گے اس کا فی الحال  ہم کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتے ۔

اس دوران اچھا ہواکہ  پاکستان سےمولانا سمیع الحق نے  اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام ایک خط لکھا ہے لیکن یہی خط اگر سعودی فوجی اتحاد کی طرف سے  لکھاجاتا تو اس  کی تاثیر بھی کئی گنا زیادہ ہوتی اور سعودی فوجی اتحاد کے بارے میں اٹھنے والے شکوک و شبہات بھی کچھ کم ہو جاتے۔

یہاں پر میانمار کی  نوبل انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی برمی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی کا ذکر ہر گز ضروری نہیں چونکہ ظلم پر خاموش رہنا تو ہم پاکستانیوں کی بھی عادت ہے۔ ہم بھی تو صرف  اپنی پارٹی ، اپنے مسلک ، اپنے گروہ، اپنے مدرسے اور صرف اپنے ہی فرقے کے لئے بولتے ہیں۔

ابھی ہم سب کے سامنے  برما اور مقبوضہ کشمیر کی طرح  آزاد کشمیر کو بھی فرقہ واریت کی آگ میں جھلسانے کی سازش تیارہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ چند سالوں میں جہاں دیگر متعدد واقعات  رونما ہوئے وہیں ٹارگٹ کلنگ کے آپشن کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔

 اس سلسلے میں فروری ۲۰۱۷ میں علامہ تصور جوادی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔  ان پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر کہیں جارہے تھے، علامہ  تصور جوادی کے چار گولیاں لگیں جن میں سے ایک ان کے  گلے میں لگی۔

اب  یہ بھی  ایک واضح حقیقت ہے کہ  آزاد کشمیر کے لوگوں میں مسلکی وحدت اور بھائی چارہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ،  اسی طرح تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ ہونے کی وجہ سے بھی یہ علاقہ انتہائی حساس ہے ، ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس علاقے میں مین روڈ بھی صرف ایک ہی ہے جس پر کوئی کارروائی کر کے فرار ہونا ممکن ہی نہیں لیکن نجانے وہ کونسی قوت ہے جس نے ابھی تک حملہ آوروں کو پناہ  دی ہوئی ہے۔

یاد رہےکہ جب کسی بھی منطقے میں کچھ قوتیں دہشت گردوں کی سہولت کاری شروع کر دیتی ہیں تو پھر وہاں  پر  برما جیسے سانحات معمول بن جاتے ہیں۔

اس وقت جس طرح برما کے مسلمانوں کی خاطر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی  فرقہ واریت  اور ٹارگٹ کلنگ کا آغازکرنے والوں کو بے نقاب کرنے اور کیفرکردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

اس امر کے لئے برما کے اعلی حکام کو فیکس اور ای میلز کرنے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کے اعلی حکام کو بھی فیکس اور ای میلز کئے جانے چاہیے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آزاد کشمیر جیسے حساس علاقے  کے دارالحکومت  میں ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آئے اور ملک کی خفیہ ایجنسیاں حملہ آوروں کو گرفتار کرنے میں ناکام ہو جائیں۔

 اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس   کچھ توکم ہے، کسی چیز کی تو کمی ہے! اگرچہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے! اگرچہ اسلامی عسکری اتحاد کا سربراہ بھی ہمارا ہی ایک ریٹائرڈ جنرل ہے  لیکن بحیثیت قوم  ہم ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کا تعین نہیں کر سکے۔ جس طرح مسٹر مودی ہم سے پہلے برما میں پہنچ چکا ہے اسی طرح را کے ایجنٹ ہم سے پہلے آزاد کشمیر میں بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔

ہمارے سیکورٹی اداروں کو آزاد کشمیر میں  ڈٹ کر را کے ایجنٹوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ میں ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کا ماحول بنا رہے ہیں وہ   یقینا! را کے ٹاوٹ ہیں  اور کسی لانگ ٹرم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں، ایسے لوگوں کے نیٹ ورکس کے خلاف فوری طور پر کارروائی ہونی چاہیے۔

اس سے پہلے کہ بلوچستان کی طرح  آزاد کشمیر میں بھی  را اپنے قدم جمالے  اور اپنے نیٹ ورکس کو پھیلا دے،   ہمارے حساس اداروں نیز فوج اور پولیس کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت  سات مہینے گزرنے کے باوجود ٹارگٹ کلرز کا گرفتار نہ ہونا آزاد کشمیر میں فعال سیکورٹی اداروں کی سلامتی پر سوالیہ نشان ہے۔

یہ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے کہ ہم  برما اور آزاد کشمیر میں را کے نیٹ ورکس کے خلاف آواز اٹھائیں اور تحریک آزادی کے اس بیس کیمپ کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔یاد رکھئے کہ  جو آگ بھارت کی ایما پر برما میں جل رہی ہے اسی کو را آزادکشمیر میں سلگانے میں مصروف ہے۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) الزام کسے دیاجائے؟ شکوہ کس سے کیا جائے؟ فاختاوں کے نشیمن پر آگ کے شعلے کون برسا رہاہے؟ اخوت کی فضاوں میں نفرت کون گھول رہا ہے؟ اعتماد کی وادی میں بد اعتمادی کو کون پروان چڑھا رہا ہے؟ آزاد کشمیر جسے اولیائے کرام کی سر زمین اور امن و محبت کا گہوارہ کہاجاتا ہے اس میں فرقہ واریت کی آگ کو اپنے دامن کی ہوا کون دے رہا ہے؟

یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ یہ فرقہ واریت ہی ہے یا پھر فرقہ واریت کی آڑ میں کچھ لوگ اپنا چہرہ چھپا رہے ہیں!!! ؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لئے فرقہ واریت کے لیبل کو استعمال کرکے بھائی کو بھائی سے لڑوانے کے درپے ہوں! ہاں جی ہاں سوالات تو بہت سارے اٹھتے ہیں لیکن آزاد کشمیر کی آزاد فضاوں میں کس کے پاس جواب دینے کا وقت ہے۔

علامہ تصور جوادی کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ابھی کتنے ماہ ہو چکے ہیں!؟ خیر یہاں کون ماہ و سال کا حساب رکھتا ہے! البتہ جن اداروں کی زمہ داری ہی حساب و کتاب رکھنا ہو اور وہ حساب کتاب نہ رکھیں تو پھر سوالات تو اور بھی اٹھتے ہیں کہ حملہ آوروں کو زمین کھا گئی یا آسمان!؟

آزاد کشمیر جیسے حساس علاقے کے دارالحکومت  کے سیکورٹی اداروں کو سلام ہو کہ  جنہوں نے کمالِ ہوشیاری سے اس مسئلے کو خسدان  یا سرد خانے میں پھینک دیا ہے۔ البتہ سیانے کہتے ہیں:

کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟

کبھی تو آغاز باب ہو گا۔۔۔

جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،

کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔

سحر کی خوشیاں منانے والو۔۔

سحر کے تیور بتا رہے ہیں۔۔۔

ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی،،

کہ سانس لینا عذاب ہو گا۔۔۔۔۔

وہ دن گیا جب کہ ہر ستم کو،،

ادائے محبوب سمجھ کے چپ تھے،،

اٹَھے گی ہم پر جو اینٹ کوئی۔۔۔

تو پتھر اسکا جواب ہو گا۔۔۔۔۔۔

سکون صحرا میں بسنے والو۔۔

ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔

جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔

تو کل کا موسم خراب ہو گا۔۔۔۔۔۔

آج کے موسم کو دیکھتے ہوئے ہم یہ پیشین گوئی کر رہے ہیں کہ کل کا موسم ضرور خراب ہوگا چونکہ  کل کو جب کوئی ڈکیت ، قاتل یا غنڈہ ، کسی روڈ ایکسیڈنٹ ، کسی پولیس مقابلے  یا کسی عدالتی کاروائی میں مارا جائے گا تو اس کے گلے میں لٹکی ہوئی تختی پر یہ بھی لکھ دیا جائے گا کہ یہی شخص علامہ جوادی پر حملے کا بھی ذمہ دار تھا۔

وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے سیکورٹی ادارے اپنے فرائض منصبی  کو انجام دیں اور  فرقہ واریت کے ٹائٹل کے پیچھے انسانیت کے دشمنوں کو نہ چھپنے دیں۔

یہ ایک تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ فرقہ واریت کی آگ سلگانا آسان ہے لیکن اسے بجھانا بہت مشکل ہے۔ ہماری ارباب اقتدار سے مودبانہ اپیل ہے کہ مقبوضہ شمیر پہلے ہی جل رہا ہے اب آزاد کشمیر کو بھی جہنم نہ بنایا جائے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)16برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود امریکہ بہادر افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ سپر پاور ہونے کے دعویدار کیلئے اعتراف شکست نہایت مشکل کام ہے، اس لیے اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کے سر تھونپ رہا ہے اور ہندوستان کے انتہاپسند اور ماضی میں تسلیم شدہ دہشت گرد وزیراعظم مودی کو گلے لگانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کیخلاف سخت رویہ اپنانے کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا حالیہ دورہ پاکستان بھی پاکستان کو ناراضگی اور سخت پالیسی کا پیغام دینے کیلئے تھا۔ پاکستان پر افغانستان میں عدم استحکام کی ذمہ داری ڈالنا حقیقت پسندی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے، کیونکہ افغانستان کا امن و استحکام پاکستان کے قومی مفادمیں بہت اہمیت رکھتا ہے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار قیام امن کا نہ صرف متمنی ہے بلکہ اس کیلئے اپنے تمام تر سفارتی و اخلاقی ذرائع بھی بروئے کار لا رہا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیئے کیونکہ پاکستان کی ترقی، داخلی استحکام ا ور امن امان کیلئے افغانستان میں پائیدار امن ناگزیر ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کو پاکستان کی اس ضرورت کا بخوبی ادراک ہے، جبھی وہ افغانستان میں قیام امن کی ہر کاوش کو نہ صرف سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے بلکہ پاکستان کی مغربی سرحد کو بھی مصروف رکھنے کیلئے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے ذریعے وطن عزیز میں اندرونی مداخلت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔امریکی تائید و حمایت سے بھارت پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کررہا ہے،جسکے ناقابل تردید شواہد پاکستان میں ہونیوالے دہشتگردی کے کئی سانحات میں سامنے آئے۔ تاہم اس کے باجود امریکہ افغانستان سمیت خطے میں بھارتی کردار اور اثررسوخ بڑھانے کا تو حامی ہے جبکہ اس میں کمی پہ بالکل آمادہ نہیں۔یہ امریکی تعاون اور آشیر باد کا ہی شاخسانہ ہے کہ بھارت بیک وقت کئی جگہوں پہ جارحانہ حکمت عملی کا مرتکب ہوکر پورے خطے کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے پہ کمر بستہ ہے۔

بھارت ایک طرف چین کے ساتھ سرحدی تناعات کو بڑھاوا دے رہا ہے تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی، مشرقی سرحد پہ جنگی نقل و حمل اور پاکستان کی مغربی سرحد پہ دہشت گردوں کی سرپرستی‘ یہی نہیں بلکہ خطے کے معاشی و انرجی کوریڈور سمجھے جانےوالے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی بدامنی اور انتشار کو ہوا دینے کیلئے درجنوں تنظیموں اور تحریکوں کی باقاعدہ سرپرستی کررہا ہے۔ اسی صوبے سے بھارتی فوجی افسر کلبھوشن کی باقاعدہ گرفتاری بھی عمل میں آچکی ہے اور اسکے زیرنگرانی دہشتگردی کا پورا منصوبہ بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔ ان سب کے باوجود بھارت اور امریکہ کے تعاون میں اضافہ ہوا نہ کہ کوئی کمی واقع ہوئی، جو کہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ اسی جنگ میں جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا، جس نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور جو ملک تاحال اسی جنگ کو ہر قیمت پہ جیتنے کی بنیاد پر لڑ رہا ہے،و ہ پاکستان ہی ہے جبکہ دوران جنگ اسی پہ دباؤ بھی بڑھایا جارہا ہے اور اسی کے کردار پہ شک کرکے اسکی حمایت و مدد سے بھی اجتناب کی پالیسی برتنے کی کوشش کی جاری ہے، جو کہ دشمنی کے مترادف ہے۔ پاکستان دہشتگردی کے فروغ یا پھیلاو¿ کا موجب نہیں بلکہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ ایسی دہشت گردی کہ جس میں وہ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد انسانی زندگیاں قربان اور سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اسکی مسلح افواج بیک وقت ضرب عضب، ردالفساد، خیبر فور جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں کی حفاظت بھی یقینی بنائے ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایک ایسے موقع پر جب دہشتگردوں کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن میں پاکستان کو تعاون اور حمایت کی ضرورت ہے تو امریکہ تعاون میں کمی اور دباؤ میں اضافہ کئے ہوئے ہے۔ یہ بالکل وہی پالیسی ہے جو نیٹو نے پاک افغان سرحد پہ پاکستان کیخلاف اپنائی تھی۔ ایک جانب پاک افغان سرحد کو عبور کرکے دہشتگرد آکر پاکستانی فوجی چیک پوسٹو ں پر حملے کرتے اور اگلے دن افغان ادارے دراندازی کا شور مچاتے جبکہ پاکستان اسی سرحد پہ غیر قانونی آمدورفت روکنے کیلئے جب باڑ کی تنصیب کی کوشش کرتا تو اس باڑ کی تعمیر کیخلاف بھی نیٹو اور افغان حکومت مشترکہ موقف اپناتیں۔ نتیجے میں پاکستان کو دوطرفہ مسائل کا سامنا رہتا، وہی پالیسی تاحال جاری ہے۔

امریکی کانگریس نے حال ہی میں ایک بل کی منظوری دی ہے کہ جسکے تحت پاکستان کی فوجی امداد میں کمی اور پاکستان کے ساتھ جاری تعاون کو ماضی کی طرح ڈومور پالیسی سے مشروط کیا گیا ہے۔ قبل ازیں امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے پہلے دورہ پینٹاگان کے دوران جو بریفنگ دی گئی ، اس میں نہ صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا بلکہ اس بریفنگ میں افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے باقاعدہ سفارش کی گئی کہ افغانستان میں طالبان کےخلاف جنگ جیتنے کیلئے پاکستان کیخلاف کارروائی ناگزیر ہے۔اسی طرح وائٹ ہاؤس کے اجلاس میں جب افغانستان کے اندر امریکی فوج کی تعداد بڑھانے کے معاملے پہ مشاورت جاری تھی تو اس وقت بھی پاکستا ن کے تعاون اور حمایت کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں امریکی صدر نے افغانستان کے معدنی ذخائر میں سے ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کی بھی بات کی ، جس کے جواب میں امریکی صدر کو بتایا گیا کہ افغانستان کے معدنی وسائل پر مکمل دسترس حاصل کرنے کیلئے افغان حکومت کا ملک پہ کنٹرول ضروری ہے، جس کی راہ میں پاکستان حائل ہے۔ اسی اجلاس میں امریکی صدر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ پھر چینی کمپنیاں افغانستان میں کیسے کان کنی کے شعبے میں مسلسل فوائد حاصل کررہی ہیں؟علاوہ ازیں امریکی صدر کہ جنہوں نے پہلے روس کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اب روس ، ایران اور شمالی کوریا پہ متعدد پابندیوں کے بل پر دستخط بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان پہ بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کا اندازہ ایلس ویلز کے حالیہ دورہ پاکستان سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائم مقام امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی وسط ایشیائی امور ‘ اور قائم مقام خصوصی ایلچی برائے افغانستان و پاکستان‘ ایلس ویلز جب اپنے پہلے دورے پر پاکستان آئیں تو انہوں نے بھی پاکستان کو تنبیہہ کی کہ پاکستان کی زمین کسی پڑوسی ملک کیخلاف ہرگز استعمال نہیں ہونی چاہیے جوکہ بالواسطہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام تھا۔

داعش اب افغانستان میں مسلسل زور پکڑ رہی ہے کہ جس نے مشرق وسطٰی کے کئی ممالک کے امن کو تہہ و بالا کیا اور جسکے متعلق دنیا کے سینکڑوں اداروں نے اپنی رپورٹس میں اسے امریکی پراڈکٹ قرار دیا ۔رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا میں اس تنظیم کا میزبان بھارت ہے اور بھارتی ریاست کیرالہ سے اسے باقاعدہ آپریٹ کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے جو اندوہناک خونی واقعات ہوئے ، ان کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، جبکہ ماضی قریب میں ان دہشتگردوں نے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا تھا کہ جو بھارت کے زیراثر تھے۔ اسی طرح نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال کے دورہ مشرق وسطیٰ کا کچا چٹھا بھی کئی خبررساں اداروں نے اپنی رپورٹس میں بیان کیا ۔ اس دورے کا مقصد دہشتگردوں کے الگ الگ متعدد گروہ تشکیل دیکر انہیں داعش کے ساتھ منسلک کرکے ایک لڑی میں پرونا تھا۔ اس کا اقرار افغانستان میں نیٹو فوج کے سربراہ جنرل نکلسن نے بھی بجا طور پر کیا اور اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ داعش، ایسٹ ترکمانستان موومنٹ، ازبک موومنٹ اور ٹی ٹی پی کے درمیان غیر رسمی اتحاد وجود پاچکا ہے ۔ یہ تمام وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں کہ جنہوں نے کبھی اور کہیں بھی نیٹو، امریکہ یا بھارتی مفادات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ہی چین ، پاکستان اور انکے مشترکہ مفادات کو نشانہ بنایا ہے۔ دہشتگرد گروہوں کے مابین اس اتحاد سے امریکہ و بھارت کا کردار مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ وہ خطے کے امن میں کتنے مخلص ہیں ؟ عالمی سطح پر ان خطرات کے پس منظر میں روس، ایران اورچین امن و سلامتی کیلئے آپسی تعاون بڑھا رہے ہیں تکہ امن عالم کو ہولناک جنگ سے بچایا جاسکے۔ ان حالات میں پاکستان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ خطے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیکر امن و اعتماد کی بحالی کیلئے جاری کوششوں کو مزید فروغ دے۔ داعش کی صورت میں خطے میں ابھرنے والے نئے فتنے سے نمٹنے کیلئے روس، چین ، ایران اور ترکی کے ساتھ ہم آہنگی ، تعاون اور ہم کاری کی پالیسی اپنائے۔ سی پیک کے ثمرات سے فقط پاکستان یا چین ہی نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک مستفید ہوں گے، چنانچہ اسکے خلاف جاری سازشوں سے نمٹنے کیلئے جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انتشار یا عدم استحکام کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں، حکومت اور اپوزیشن قوتیں قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ذاتی یا فی الوقتی مفاد پر پاکستان کے روشن مستقبل پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ امریکہ یا بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ پاکستان تصادم ہر گز نہیں چاہتا مگر اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ بھی ہرگز قابل قبول نہیں۔ عالمی سطح پر ابھرتی نئی قوتوں یعنی روس، چین، ایران اور ترکی کیساتھ ہمارے مستحکم تعلقات امریکی و بھارتی رعونت کے خاتمے کا بھی باعث بنیں گے اور انکے ساتھ ہم اپنے معاملات باعزت طریقے اور بات چیت کے ذریعے بہتر بھی بناسکیں گے، چنانچہ مقتدر سیاسی قوتیں حالات کا ادراک کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے فدویانہ پالیسی ترک کرکے برابری کی سطح پہ بات کریں اور موثر سفارتکاری کے ذریعے خطے کو درپیش مسائل اور ان مسائل کی پشت پناہ قوتوں کو عالمی سطح پہ بے نقاب کریں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان ان مشکلات سے سرخروہوکر ترقی و خوشحالی کا سفر بطریق احسن طے کرے۔ انشاءاللہ!

بشکریہ :روزنامہ نوائے وقت

وحدت نیوز(آرٹیکل) کیونکہ امریکی تاریخ ہی ایسی ہے ۔جو وہاں کے باسیوں کے قتل عام سے شروع ہوتی ہے ۔امریکہ میں ابتداء میں ہی ریڈ انڈین کی عورتوں کی جبری نس بندی پر عمل درآمد کا پروگرام شروع کیا گیا ۔کرستوفرکولمبس سے لیکر جنگ جہانی دوم تک ریڈ انڈین کی تعداد ساٹھ لاکھ سے کم ہو کر صرف آٹھ لاکھ تک رہ گئی ۔شکاگو میں مزدور مظاہرین پر بے رحمانہ قتل عام کی وجہ سے ورجینیا میں کان کنوں پر بے جا حملوں کی وجہ سے اور شیکاگومیں ریلوے ملازمین پر تشدد کی وجہ سے ، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کی وجہ سے جس نے چندلمحوں میں 220000افراد کی جان لے لی ۔ویٹنام میں 150000مظلوں کی ہلاکت کی وجہ سے جس میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے ۔امریکیوں نے ان حملوں میں زیادہ تر کیمیکل اسلحہ استعمال کیا ۔ اسرائیل کی مجرمانہ حمایت اور پشت پناہی کی وجہ سے جس وجہ صہیونی حکومت وجود میں آئی ہے اور فلسطینیوں کی دنیا بھر میں نسل کشی کی وجہ سے ایران میں بغاوتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے انقلاب اسلامی سے دشمنی کی وجہ سے ،دنیا کی دیگر تمام ملتوں کی جاسوسی کرنے کی وجہ سے ،آٹھ سالہ ایران عراق جنگ میں صدام ڈکٹیٹر کی بھر پور مالی اور عسکری مدد کرنے کی وجہ سے ، ایرانی مسافر طیارے پر حملے کی وجہ سے جس پر 290 لوگ سوار تھے ،ایران ،پاکستان ، عراق ،نائیجیریا ،بحرین ،شام اورلبنان کی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ، ایران سمیت دیگر آزاد ملتوں پر پابندیوں کی وجہ سے ،افغانستان اور دیگر ملتوں کے کئی لاکھ افراد کے قتل عام کی وجہ سے ،عراق پر حملہ جس کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ،دنیا کئی عالمی اور علاقائی دہشت گردوں کی فنڈنگ اور حمایت کی وجہ سے ، دنیا میں براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے ، امریکہ کی اسی حمایت کی وجہ سے دہشت گردوں نے دنیا میں ہزاروں بے گناہوں کو قتل کر ڈالاہے ۔ اور امریکہ کی بے جا حمایت کی وجہ اسلام دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس حمایت کی وجہ سے آج مشرق وسطی اور عالم اسلام جنگ کی لپیٹ میں ہے ۔ امریکی غلط پالیسیوں کی وجہ آج آل سعود حرمین شریفین کے لئے خطرہ جبکہ دہشت گردوں کے لئے جائے پناہ بن چکے ہیں۔

ترتیب وتدوین :ظہیر الحسن کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) کائنات میں اس دور اور اس عصر میں تین ایسی کتابیں ہیں جن کی کوئی مثل نہیں اور جن کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان میں سے ایک قرآن کریم ہے جو ختمی المرتبت کا ایک زندہ معجزہ ہے ۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ کوئی قرآن کے چیلنج کے باوجود بھی قرآن کی طرح ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی قرآن کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔دوسرا صحیفہ سجادیہ ہے جو امام زین العابدین  علیہ السلام کی دعاوں اور مناجات اور معشوق ازل سے کئے گئے راز و نیازپر مشتمل ہے ۔جو علوم و معارف کا گنجینہ،سیر و سلوک کا جامع دستور عمل ہے اور فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر ہے کہ عصر حاضر میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔تیسرا نہج البلاغہ ہے جو مدینۃ العلم کے ان خطبات و مکتوبات اور حکمت کے گوہر پاروں پر مشتمل ہے جسے سید رضی نے فصاحت و بلاغت کے شہ پارے اور صراط مستقیم کے طور پر انتخاب کیا ہے ۔اسی لئے ہر عصر اور ہر دور کے نامور ادیب اور عالم کو یہ اعتراف کرانا پڑا کہ یہ مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہیں ۔کیوں نہ ہو چونکہ یہ ایک ہستی کا کلام ہے جس نے ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا جو پوچھنا ہو پوچھ لو  علی ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔

نہج البلاغہ علوم اور معارف کا وہ گراں بہا سرمایہ ہے جس کی اہمیت اور عظمت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور ہر عہد کے علماو ادباء نے اس کی بلندی اور رفعت کا اعتراف کیا ہے ۔یہ صرف ادبی شاہکار ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ ،حکمت و اخلاق کاسر چشمہ اور معارف ایمان کا ایک انمول خزانہ ہے ۔ افصح العرب کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دھلی ہوئی زبان چوس کر پروان چڑھنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوھر دکھائے کہ ہر سمت سے [فوق کلام المخلوق و تحت کلام الخالق] کی صدائیں بلند ہونے لگیں. بیروت کے شھر ت آفاق مسیحی ادیباور شاعر پولس سلامہ اپنی کتاب [اول ملحمہ عربیہ عید الغدیر]میں لکھتے ہیں "نہج البلاغہ مشہور ترین کتاب ہے جس سے امام علی علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کتاب سے بالاتر سوائے قرآن کے اور کسی کتاب کی بلاغت نظر نہیں آتی اور اس کے بعد چند اشعار پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:یہ معارف و علوم کا معدن اور اسرار رموز کا کھلا ہو ادروازہ ہے ۔یہ نہج البلاغہ کیا ہے ؟ایک روشن کتاب جس میں بکھرے ہوئے موتیوں کو فصاحت و بلاغت کی رسی میں پرووئے گئے ہے ۔یہ چنے ہوئے پھولوں کا ایک ایسا  باغ ہے جس میں پھولوں کی لظافت،چشموں کی صفائی اور آب کوثر کی شیرنی انسان کو نشاط بخشتی ہے ۔جس کی وسعت اور کنارے تو آنکھوں سے نظر آتے ہیں مگر تہ تک نظریں پہنچنے سے قاصرہیں ۔1

کلام امیر المومنین علیہ السلام زمانہ قدیم سے ہی دو ا متیازات کا حامل رہا ہے ۔اور ان ہی امتیازات سے اس کی شناخت ہوتی ہے۔ایک فصاحت و بلاغت اور دوسرا اس کا متعد د جہات اور مختلف پہلووں پر مشتمل ہونا ہے ۔ان میں سے ہر ایک امتیاز اپنی  جگہ کلام علی{علیہ السلام} کی بے پناہ اہمیت کے لئے کافی ہوتا ،چہ جائیکہ ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہونا ،یعنی ایک گفتگو جو مختلف بلکہ کہیں کہیں بالکل متضاد جہتوں اور میدانوں سے گزر رہی ہے  اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے کمال فصاحت و بلاغت کو بھی باقی رکھے ہوئے ہے ۔اس نے کلام حضرت علی علیہ السلام کو معجزے کی حد سے قریب کر دیا ہے ۔اسی وجہ سے آپ کا کلام خالق اور مخلوق کے کلام کے درمیان رکھا جاتا ہے ۔02

حضرت علی علیہ السلام کے ساتھی جو فن خطابت سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتے تھےآپ کی خطابت کے شیدائی تھے۔انہی شیدائیوں میں سے ایک ابن عباس ہے جیسا کہ جاحظ نے لکھا ہے وہ خود هی ایک زبردست خطیب تھے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی باتیں اور تقرریں سننے اور ان سے لطف اندوز ہونےکا اشتیاق چھپایا نہیں ہے ۔چناچہ جب حضرت علی علیہ السلام اپنا مشھور خطبہ [خطبہ شقشقیہ ] ارشاد  فرما رہے تھے  ابن عباس وہاں موجود تھے  خطبے کے دوران کوفے کی ایک علمی شخصیت نے  ایک خط آپ کو دیاآپ  نے خطبہ روک دیا اور یہ خط پڑھنے کے بعد کلام کو آگے نہ بڑھائے ۔ابن عباس نے کہا کہ مجھے اپنی عمر میں کسی بات کا اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس تقریر کے قطع ہونے کا افسوس ہو اہے ۔ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کے ایک مختصر خط کے بارے میں جو خود انہی کے نام لکھے  گئے تھے  کہتے ہیں " پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے میں مستفید نہیں ہوا ہوں۔03

 معاویہ  ابن ابی سفیان جو آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا وہ بھی آپ کے کلام کی غیر معمولی فصاحت و بلاغت  اور زیبائی کا معترف تھا ۔محقق ابن ابی محقن حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑکر معاویہ کے پاس گئے اور اس کو خوش کرنےکے لئے کہا" میں ایک  گنگ ترین شخص کو چھوڑ کرتمھارے پاس آیاہوں "یہ چاپلوسی اتنی منفور تھی کہ خود معایہ نے اس شخص کو ڈانٹتے ہوئے کہا "وائے ہو تجھ پر،تو علی کو گونگا ترین شخص کہتا ہے جب کہ قریش علی سے پہلے فصاحت سے واقف بھی نہیں تھے ۔علی نے ہی قریش کو درس فصاحت دیا ہے۔04

جو افراد آپ کے ان خطبات کو سنتے وہ بہت زیادہ متائثر  ہو جاتے  تھے ۔آپ کے موعظے لوگوں کے دلوں کو ہلا دیتے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری کر دیتے تھے۔سید رضی مشھور خطبہ [غرا ]نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں [جس وقت حضرت علی علیہ السلام نے یہ خطبہ دیا تو لوگوں کے بدن کانپ اٹھے ،اشک جاری ہو گئے اور دلوں کی دھڑکنیں بڑھ گئیں۔05

 ہمام ابن شریح آپ  کے دوستوں میں سے تھے جن کا دل عشق خدا سے لبریز اور روح مصونیت سے سرشار تھی ۔آپ کوا صرار کرتے ہیں کہ خاصان خدا کی صفات بیان کیجئے ۔جب آپ نے خطبہ شروع کیا اور جوں جوں آگے بڑھتے گئے  ہمام کے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی گئی اور ان کی متلاطم روح کے تلاطم میں اضافہ ہو تا گیا اور کسی طائر قفس کی مانند روح قید بدن سے پرواز کے لئے بے تاب ہو گئے کہ اچانک ایک ہو لناک چیخ نے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا جو ہمام کی چیخ تھی ۔جب لوگ اس کے سرہانے پہنچے تو روح قفس عنصری  سے پرواز کر چکی تھی ۔آپ نے فرمایا :میں اسی بات سے ڈر رہا تھا ۔عجب، پر بلیغ موعظہ آمادہ قلوب پر اسی طرح اثر کرتا ہے۔06

  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تنہا امام  علی علیہ السلام ہی وہ ذات  ہے جس کے کلام کو لوگوں نے حفظ کرنے کا اہتمام کیا ۔ابن ابی الحدید عبد الحمید کاتب سے جو انشاء پردازی میں ضرب المثل ہے اور دوسری صدی ہجری  کے اوائل میں گزرا ہے نقل کرتے ہیں : میں نے{حضرت }علی {علیہ السلام }کے ستر خطبے حفظ کیا اور اس کے بعد میراذہن یوں جوش مارتا تھا جیسا جوش مارنے کا حق رکھتا ہے۔علی الجندی لکھتے ہیں کہ لوگوں نے عبد الحمید سے معلوم کیا تمھیں بلاغت کے اس مقام پر کس چیز نے پہنچایا ؟اس نے کہا "حفظ کلام الاصلع ۔علی کے خطبوں کی مرہون منت ہے ۔

عبد الرحیم ابن نباتہ جوکہ خطبائے عرب میں اسلامی دور کا نامورخطیب ہے اعتراف کرتا ہے کہ میں نے فکر و ذوق کا سرمایہ حضرت  علی علیہ السلام سے حاصل کیا ہے ۔ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں اس کا یہ قول نقل کیا ہے : میں نے حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی سو فصلیں ذھن میں محفوظ کر لی ہے اور یہی میرا وہ نہ ختم  ہونے والا خزانہ ہے۔مشہور ادیب ،سخن شناس اورنابغہ ادب جاحظ جس کی کتاب البیان و التبین ادب کے ارکان چھارگانہ میں شمار ہوتی ہے میں بار بار حضرت علی [علیہ السلام] کی غیرمعمولی ستائیش اور حد سے زیادہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ البیان و التبین کی پہلی جلد میں ان افراد کے عقیدے کے بارے میں لکھتے ہیں {جو سکوت اور صداقت کی تعریف اور زیادہ بولنے کی مذمت کرتے تھے }:زیادہ بولنے کی جو مذمت آئی ہے وہ بے ہودہ باتوں کے سلسلے میں ہے نہ کہ مفیدو سود مند کلام کے بارے میں ورنہ حضرت علی [علیہ السلام] اور عبد اللہ ابن عباس کا کلام بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔07

اسی جلد میں جاحظ نے حضرت علی [علیہ السلام] کا یہ مشہور جملہ نقل کیا ہے [قیمۃ کل امرء مایحسنہ]ہر شخص کی قیمت اس کے علم و دانائی کےمطابق ہے ۔اور پھر اس جملے کی وضاحت اور تشریح میں لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں "ہماری پوری کتاب میں  اگر صرف یہی  ایک جملہ ہوتا تو کافی تھا ۔بہترین کلام وہ ہے جو کہ ہونے کے باوجود آپ کو اپنے بہت ہونے سے بے نیاز کر دے اور معنی لفظ پنہاں نہ رہیں بلکہ ظاھر و آشکار ہوں ۔پھر کہتے ہیں گویا خدانے اس مختصر جملے کو اس کے کہنے والے کی پاک نیت کی مناسبت سے جلالت کاایک پیراھن اور نور حکمت کا لباس پہنا دیا ہے۔8

ابن ابی الحدید  اپنی کتاب کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں :حق تو یہ ہے کہ لوگوں نے بجا طور پر آپ کے کلام کو خالق کے کلام کے بعد اور بندوں کے کلام سے بالاتر قرار دیا ہے۔لوگوں نے تحریر و تقریر دونوں  فنون آپ سےسیکھے ہیں ۔آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگوں نے آپ کے کلام کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ جمع اور محفوظ کیا ہے ۔اسی طرح کتاب شرح نہج البلاغہ کی چوتھی جلد میں بھی ابن ابی الحدید امام کے اس خط کے بارے میں جو آپ نے مصر میں معاویہ کی فوج کے تسلط اور محمد ابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بصرہ کے گورنر عبد اللہ ابن عباس کے نام لکھا تھا اور انہیں اس سانحہ کی خبردے تھی ،لکھتے ہیں : فصاحت نے اپنی باگ دوڑ کس طرح اس مرد کے سپرد کر دی ہے ۔الفاظ کی بندش کو دیکھے جو یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور خود اس طرح اس کے حوالے کر دیتے ہیں جیسے زمین سے اپنے آپ بلا کسی پریشانی کے چشمہ ابل رہا ہو۔سبحان اللہ ،مکہ جیسے شہر میں پروان چڑھنے والے اس عرب جوان کا کیا کہنا کہ جس نے فلسفی و مفکر کی صورت بھی نہیں دیکھی لیکن اس کا کلام حکمت نظری میں افلاطون و ارسطو کے کلام سے زیادہ بلند ہے جو حکمت عملی سے آراستی بندوں کی بزم میں بھی نہیں بیٹھا ۔جس نے بہادروں اور پہلوانوں سے تربیت حاصل نہیں کی لیکن روئے زمین پر پورے عالم بشریت میں شجاع ترین  انسان تھا ۔خلیل ابن احمد سےسوال کیا گیا کہ علی شجاع ہیں یا عنبہ و بسطام؟ اس نے کہا :عنبہ و بسطام کا موا زنہ انسانوں سے کرنا چاہیے علی مافوق بشر ہیں۔9

۔علی الجندی اپنی کتاب [علی ابن ابی طالب شعرہ و حکمہ ] کے مقدمے میں مولائے کائنات کی نثر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: آپ کے کلام میں ایک خاص قسم کی موسقی کا آہنگ ہے جو احساسات کی گہرائیوں میں پنجے جمادیتا ہے ۔سجع کے اعتبار سے اس قدر منظوم ہے کہ اسے نثری شعر کہا جا سکتا ہے ۔10

حوالہ جات:
۱۔ نہج البلاغۃ،مفتی جعفر حسین۔
۲۔ جاحظ ،البیان و التبین،ج۱،ص۲۳۰۔
۳۔ نہج البلاغہ ،خط،۲۲۔
۴۔ مرتضی مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص  ۲۶۔
۵۔ نہج البلاغہ ،خطبہ ۸۱۔
۶۔ مرتضی مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص ۲۷۔
۷۔ جاحظ البیان و التبین،ج۱۔
۸۔ ایضا۔
۹۔ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ ،ج۴۔
۱۰۔ علی الجندی،علی ابن ابی طالب شعرہ و حکمہ ۔


تحریر:۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree