فتنہ راولپنڈی 2013

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آخر کار چار سال گزرنے کے بعد انھوں نے دیوبندی وتکفیری دھشگردوں کے اصلی چہرے سے پردہ اٹھایااور پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے سامنے مدلل انداز سے خود دھشگردوں کے زندہ اعترافات کے ساتھ فتنہ راولپنڈی روز عاشورا 2013  کو واضح کیا اور اس فتنہ کے اغراض ومقاصد بھی انہیں دھشگردوں کی زبانی پوری قوم نے سنے ،اس لئے آج پوری قوم آئی ایس آئی اور پاک فوج کو سلام پیش کرتی ہے، لیکن حق بات یہ ہے کہ ابھی اس فتنے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،اس فتنے کے سب کرداروں کو پاکستانی قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ابھی فقط اس فتنے کا پہلا کردار ادا کرنے والا گینگ چار سال بعد گرفتار گیا اور ابھی دوسرے اور تیسرے اور باقی سب گینگز کے افراد کو گرفتار کرنا باقی ہےاور مندرجہ ذیل حقائق سامنے لانا باقی ہے

* اسکی پلاننگ کس فرد اور ادارے نے کی ؟
* کیا یہ فقط بیرونی انڈیا اور افغانستان کی ہی پلاننگ تھی یا اندرونی دشمن بھی اس میں شریک تھے؟
* وہ اندرونی دشمن کون ہیں ؟ کیا وہ مشخص ہوئے یا نہیں ؟
* اگر مشخص ہیں تو وہ کون کون ہیں ؟
* کیا انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی ؟
* انکے سہولت کار پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص روالپنڈی میں کون کون تھے؟
* وہ گرفتار ہوئے یا نہیں؟

دوسرا گینگ:  

اس سانحے کے ایک دن بعد جب ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کے ہمراہ کرفیو کے ایام میں راولپنڈی کے اس علاقے کا دورہ کیا تو ہم نے وھاں کے اھل سنت اور اھل تشیع سے جو آنکھوں دیکھا حال سنااس کے مطابق ابھی ایک اور گینگ کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے جس نے مدرسہ تعلیم القران اور مسجد کو آگ لگانے کے بعد نزدیک ہی 6 اہل تشیع کی  مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا.ان مساجد وامام بارگاہوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے اور دھواں، آتش زدہ قران مجید اور دینی کتابیں، مقدسات کی بیحرمتی ، تکفیری جتھوں کی بربریت کا آنکھوں دیکھا حال بتانے والے خوفزدہ لوگ اور سہمی ہوئی  مستورات یہ سب  المناک مناظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔

اس فتنہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ان منظم جتھوں کو گرفتار کرنا اور ان سے تفتیش کرنا بہت ضروری ہے ۔
یہ بقول اہلیانِ راولپنڈی کے تقریبا 100 کے لگ بھگ  افراد تھے جن کے پاس آتش گیر مواد ، اسلحہ اور  لاٹھیاں تھیں اور ایسے مساجد اور امام بارگاہوں کو آگ لگانے کے لئے بڑھ رھے تھے جیسے انھوں نے باقاعدہ پریکٹس اور مشقیں کیں ہوں اور انکے پاس نقشے اور  معلومات بھی تھیں یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ بہت بڑی منظم سازش تھی اور بہت سارے اندرونی وبیرونی کردار ملوث ہیں۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ

* یہ آگ لگانے والے افراد کون تھے ؟
* کیا واقعا لال مسجد سے آئے تھے جیسے بعض عینی شاہدین نے کہا تھا؟
* اگر لال مسجد سے نہیں آئے تو کہاں سے منظم طور پر سے آئے اور آگ لگانے اور دھشگردی پھیلانے کے بعد چلے گئے ؟
* انکا تعلق کس مدرسے ، علاقے اور مرکز سے تھا. کیونکہ مقامی عینی شاہدین اور سیاستدانوں کے بقول وہ راولپنڈی کے نہیں تھےآخر وہ کون تھے.؟
* کیوں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ؟

تیسرا گینگ

تیسرا گینگ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹنگ میڈیا پر فتنے کی آگ بھڑکانے والا تھا  جو برما ، فلسطین اور شام وغیرہ کے بچوں کی تصویریں اور مظالم دکھا رھا تھا اور جھوٹا پروپیگنڈا کر رھا تھا کہ اہل تشیع نے مدرسے ، مسجد اور مارکیٹ کو آگ لگا دی اور بچوں کو قتل کیا اور پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل رہا تھااور جلتی پر پٹرول ڈال رھا تھا یقینا اس گروہ کی بھی مکمل تیاری تھی اور نشر کرنے کے لئے پہلے ہی مواد تیار کر چکا تھا۔
انکو گرفتار کر کے تفتیش اور تحقیق ہونی چاہیئے کہ
یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کون کون تھے.؟
ان کا تعلق کس ادارے یا پارٹی یا گروہ سے ہے  ؟
کس کے کہنے پر فتنہ پھیلا رہے تھے. ؟

چوتھا گینگ

اس فتنے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کردار یہ وہ چوتھاگینگ کر رھا تھا کہ جس کے کردار

* انتھا پسند اور تکفیری آئمۃ مساجد جو پورے ملک میں آگ لگانے پر کام کر رہے تھے
* تکفیری فتوے دینے والے مفتیان
* فتنے کو تقویت دینے والے وفاق العلماء ، مدرسے ، مذہبی ادارے اور تنظیمیں
* مذہبی وسیاسی متعصب قائدین
* ضمیر فروش صحافی اور اینکر پرسنز
* دولت کی خاطر ملک کی سالمیت کا سودہ کرنے والے ٹی وی چینلز کے مالکان

ان سب میں کون کون اس فتنے اور سازش کا باقاعدہ حصہ تھے، اسکی بھی تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیئےاور مجرم خواہ جتنا ہی با اثر ہو اسے عدالت کے کٹھڑے میں لانا چاہئےاور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے۔

رد المظالم:

راولپنڈی اور اطراف کے بیگناہ سیکڑوں شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا،چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا،انکی زندگیاں معطل ہوئیں اور انھوں نے بیگناہ ہونے باوجود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالی طور پر نقصانات برداشت کئے۔

اور ریاستی ادروں کے مزید بھی ظلم وستم اور تشدد  کا نشانہ بننے والے ان افراد کی مظلومیت ثابت ہو گئی.  کیا وزارت داخلہ کے پاس اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہی سہی پاکستانی قوم اور بالخصوص جن پر ظلم کیا ہے ان سے معافی مانگے اور جو انکا مالی نقصان ہوا اور انہیں اذیتیں برداشت کرنا پڑیں حکومت انہیں اسکا معاوضہ ادا کرے اور جھوٹی الزام تراشی کرنے والے شیعہ قوم  سے معافی مانگیں۔


تحریر۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت حسین شیرازی

جذام سے بھی بد تر مرض

وحدت نیوز(آرٹیکل)جسمانی علاج کے مرکز کو ہسپتال کہتے ہیں،  لوگ اپنی جسمانی شفا یابی کے لئے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ان جسمانی امراض میں سے ایک متعدی مرض جذام یا کوڑھ بھی  ہے ۔۱۹۵۸ میں  جرمنی کے شہر لائزگ کی رہنے والی ایک ڈاکٹر خاتون  نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔ موصوفہ کی اس وقت عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔اس تیس سالہ کافرہ عورت نے ایک مسلمان ملک میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج معالجے پر کمر باندھ لی۔

قابلِ ذکر ہے کہ  اس وقت پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا،لوگ کوڑھ کو بیماری کے بجائے عذاب الٰہی سمجھتے تھے اور  کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر  ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرا دی گئی تھیں جو کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں۔ لوگ  منہ اور سر لپیٹ کر مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینکتے تھے اور یوں ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطوں کے اندر بیمار انسان سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔

ایسے میں اس  خاتون نے جرمنی سے کراچی آنے کا فیصلہ کیا   اورکراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔ انہوں نے اس مرض سے مقابلے کے لئے سوشل ایکشن پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے دو مقاصد تھے ایک لوگوں کو یہ باور کرانا کہ کوڑھ  عذابِ الٰہی نہیں بلکہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور دوسرا یہ مقصد تھا کہ اس اس کارِ خیر کے لئے فنڈز اکٹھے کئے جائیں،  انہیں دونوں مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی اور  ملک کے متعدد حصوں میں جذام کے علاج کے مراکز قائم ہوتے گئے یہانتک کہ  ۱۹۹۶ میں عالمی ادارہ صحت نے وطن عزیز پاکستان کو  لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکتی بلکہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ایشا کا پہلا ملک تھا جسے لپریسی کنٹرولڈ کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

دوسری طرف  حکومت ِ پاکستان نے 1988 میں  موصوفہ جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت  بھی دی اور انہیں  ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز ، جناح ایوارڈ  اور نشان قائداعظم عطا کیا گیا اسی طرح آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

یہ سارے اعزازات اپنی جگہ لیکن مجھے جس چیز نے تعجب میں ڈالا وہ یہ تھی کہ ہمارے مطابق ایک کافرہ عورت نے بیمار انسانوں کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج ہم سب کوڑھ سے بھی بدترین مرض مذہبی و علاقائی تعصب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

عدمِ برداشت، شدت پسندی، دھونس، سفارش ، رشوت، غیبت و تہمت اور قتل و غارت  کا وائرس عام ہے۔ ان امراض کے علاج کے لئے ہمیں اپنے روحانی مراکز یعنی مساجد و مدارس کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن کیا کریں اب ہمارے ملک میں کوئی مسجد بھی اسلامی کی مسجد نہیں رہی ، ہر مسجد ایک مخصوص فرقے کی ہے ، کوئی دوسرے فرقے والا اس میں داخل ہونے کی سوچ ہی نہیں سکتا اور بعض دینی مدارس تو اس عدم برداشت اور نفرتوں کے اصلی مراکز ہیں ۔۔۔

مشال خان کے قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کا ملوث ہونا، نورین لغاری کا داعش کو جوائن کرنا، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں کے گردے نکال کر بیچ دینا اور جعلی سٹنٹ ڈالنا، بعض مساجد سے مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے جاری ہونا، بعض مدارس میں دہشت گردی کی ٹریننگ دئیے جانا، ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سوچنا، بلوچی اور پٹھان و پنجابی و سندھی کے جھگڑے ،  یہ سب کیا ہے۔۔۔!؟

ایسے میں ہم سب کو اور خصوصا ہمارے دینی و سیاسی مصلحین کو سوچنا چاہیے کہ اگر ایک کافرہ عورت ہم مسلمانوں کے ساتھ محبت اور خلوص  کا برتاو کر کے پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک بنا سکتی ہے تو کیا ہم لوگ ایک دوسرے سے محبت آمیز اور خلوص بھرا برتاو کر کے اس ملک کو شدت کنٹرولڈ اور کرپشن سے پاک ملک نہیں بنا سکتے۔

کیا ہمارے اندر ایک کافرہ عورت جتنی بھی پاکستان میں بسنے والے  انسانوں سے محبت نہیں ہے۔ یا پھر ہم سب  جذام سے بھی کسی بڑے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں!!!


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

یمن کا آکٹوپس

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ریاض اب بھی اس سوچ میں پڑا ہے کہ عسکری حوالے سے نہ سہی کم ازکم سیاسی حوالے سے ہی یمن ایشو پر کچھ کامیابی حاصل ہو ،یا کم ازکم دن بدن آکٹوپس کی طرح لپٹتے اس مسئلے سے کچھ اس طرح جان چھڑ ائی جائے کہ دنیا کے سامنےفاتح ثابت نہ ہوں توکم ازکم شکست خوردہ تونہ کہلائیں ‘‘
یہ خلاصہ ہے ان خبروں اور تبصروں کا جو مسلسل عربی زبان کے اہم اخبارات اورعالمی میڈیا کے ایک حصے کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں ۔

مارچ دوہزار پندرہ میں سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد اور اس وقت وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سیاسی عدم استحکام اور معاشی طور پر انتہائی بدحال ملک یمن پر چڑھائی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بن سلمان کی جانب سے اس وقت یمن پر چڑھائی کے بارے انتہائی اطمنان اور یقین کے ساتھ کہا گیا تھا کہ یہ عمل ’’فوری اور سرجیکل‘‘(Quick and surgical)ہوگا ۔

ناتجربہ کار جذباتی شہزادے کو اس وقت بڑے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یمن ایک دلدل ہے یہاں جو بھی گھسنے کی کوشش کرتا ہے اسے نہ صرف واپسی کا راستہ نہیں ملتا بلکہ وہ اس طرح پھنستاجاتا ہے جیسےکوئی چیز آکٹوپس کے پنچوں میں پھنستی ہے ،جس قدر بچاو کی کوشش کرتا ہے آکٹوپس کے حصار میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔

اس وقت مصرجیسا ملک مضبوط فوجی طاقت کے باوجود عملی طور پراس پورے عمل سے دامن بچاتا رہا ،مصر یقینا اس وقت کو نہیں بھولا تھا کہ جب اسے ماضی میں یمن سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے تک کا موقع نہیں ملا تھا اور فرار ہونا پڑا تھا ۔

ناتجربہ کار اور گھمنڈ میں مبتلا شہزادے کو اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ یمن پر چڑھائی کا نتیجہ عوامی انتفاضہ کی شکل میں نکل سکتا ہے جہاں مرد تو مرد خواتین بھی اس جارحیت کے آگے مقابلے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوسکتیں ہیں ۔

یمن میں بنیادی طور پر چار اہم قوتیں موجود ہیں جن میں سب سے مضبوط ترین سیاسی انتظامی اور عسکری قوت انصار اللہ پارٹی کی ہے کہ جس میں یمن کے انتہائی اہم اور موثر قبائل شامل ہیں جن میں نمایاں طور پر حوثی قبیلہ ہے جس کے افراد انتہائی پڑھے لکھے ،ملکی نظم ونسق چلانے کی مہارت کے ساتھ ساتھ عسکری حوالے سے بھی انتہائی مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

سن 1962میں یمن میں بادشاہی نظام کے خاتمے کے بعد حوثی قبائل نے تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں انتہائی آرگنائز انداز سے خود کو منوایا ہے ایک طرف جہاں اس قبیلے میں خود اندرونی طور پر زبردست قسم کا انسجام اور مرکزیت پائی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ قبیلہ دوسرے قبائل اور مکاتب فکر کے لئے بھی کھلی گنجائش رکھتا ہے ۔

ماضی میں حوثی قبیلے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور زیادتیوں نے اس قبیلے کوایسے تجربات سے گذارا ہے کہ وہ ہرقسم کے دباو کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مدمقابل کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا بروقت تدارک بھی کرسکتے ہیں ۔

بنیادی طور پر حوثی قبیلہ کے افراد تمام قبائل میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہونے کے سبب جمہوریت اور مشترکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں وہ یمن میں ایک شفاف جمہوریت کی ہمیشہ سے خواہش کرتے آئے ہیں ۔

دوسری قوت یمن کے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح ہیں کہ جن کا پس منظر فوج سے تعلق رکھتا ہے اور سن باسٹھ کے انقلاب میں اس کے کردار نے اسے شہرت دی اور یوں سن انیس سو نوے سے لیکر دوہزار گیارہ تک اس نے یمن پر حکمرانی۔

علی عبداللہ صالح اور ان کی پارٹی پاپولر کانفرنس کو عرب عوامی تحریک کی لہر سے متاثرہ یمنی عوامی احتجاجی تحریک کے سبب اقتدار چھوڑنا پڑا ۔

ہمسائیہ ملک سعودی عرب جو کہ عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں سے پہلے سے ہی سخت ہراساں تھا اور وہ قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہمسائے میں کم ازکم کسی قسم کی تبدیلی واقعہ ہو،لہذا شروع میں اس نے علی صالح کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی مقبولیت کے فقدان اور زمین میں بدلتے حالات نے سعودی اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں دیا ۔

اس کے بعد سعودی عرب کی کوشش تھی کہ یمن کی عبوری حکومت کے دورانیے کو ہی طول دے اور عبوری صدر منصور ہادی کو ہی قانونی مستقل صدر بنائے رکھے لیکن عوامی احتجاج کے بعد منصور ہادی کو اقتدار چھوڑکر سعودی عرب جانا پڑا اور یہی سے سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا آغاز ہوا ۔

صدر منصورہادی کی عبوری حکومت کی بحالی کے نام پر سعودی عسکری حملوں کو یمن کی اکثریت نے جارحیت سے تعبیر کی اور یہ وہ نکتہ تھا کہ جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں نے باہمی رسہ کشی کو ترک کرکے اس جارحیت کے مقابلے کے لئے خود کو تیار کیا یوں انصار اللہ اورسابق صدر علی صالح کے درمیان بھی اتحاد وجود میں آیا ۔
گرچہ علی صالح اور انصاراللہ کے درمیان موجود اس اتحاد کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے کہ جس کی بنیاد صرف اور صرف بیرونی جارحیت کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔

واضح رہے کہ علی صالح کا بیٹا احمد صالح گذشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے جبکہ بعض زرائع ان کی نظر بندی کے بارے میں خبریں نشر کرتے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات یہ امید رکھتا ہے کہ وہ علی صالح کو ان کے بیٹے احمد کے توسط سے اس بات پر مجبور کرے گا کہ انصار اللہ سے اتحاد ختم کردے اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرے ۔

دوسری جانب یمن پر چڑھائی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بڑھتی نزدیکیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جو عرب ممالک میں عوامی تحریکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لئے جدوجہد کی صورت میں پہلے سے قائم ہوچکیں تھیں ۔

واضح رہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کو ہٹانے اور مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے تک بن سلمان اور بن زائد کےہی پلان تھے جو کامیابی کے ساتھ کام کرگئے ۔
یمن کی تیسری بڑی قوت اخوان المسلون کی اصلاح پارٹی ہے اصلاح پارٹی بھی قدرے آرگنائز اور نسبی عوامی پذایرائی رکھنے والی پارٹی ہے کہ جس نے سن دوہزار گیارہ میں یمنی عوامی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اصلاح پارٹی کے اخوانی نظریے(دینی سیاسی سوچ) نے اسے بھی سعودی عرب اور متحدہ امارات کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیا ہے ،عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انصار اللہ کے ساتھ سیاسی و سماجی مقابلے کی ایک حدتک اصلاح پارٹی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے اخوانی بیگ گرونڈ کے سبب بادشاہی نظام پر چلنے والے سعودی عرب اور امارات اسے اپنا پہلا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ مصر میں وہ اخوانی حکومت کو بالکل بھی برداشت نہ کرسکے ۔

چوتھی بڑی قوت جنوبیون کی ہے در حقیقت جنوبی یمن کی علیحدگی پسند تحریک ہے جو انیس نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے وجود میں آئی ہے جن کا مرکزی حکومت پر ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کے حوالے سےامتیازی رویہ رکھتی ہے اس تحریک میں کچھ قبائل اور سابق فوجی افراد کی موجودگی نیز جنوبی یمن میں شدت پسنداور دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی جیسے القاعدہ اور انصار شریعیت،نے اسے کافی اہمیت دی ہے ۔

عرب تجزیہ کاروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کے یمن میں مخصوص اور کنفیوژ کردینے والے ایجنڈوں نے اس تحریک کی عوامی پذیرائی کو انتہائی کم کردیا ہے ۔

گذشتہ دو سالوں میں اس تحریک سے وابستہ شخصیات اور اس کے عسکری ونگ کو کبھی اماراتی ایجنڈوں پر عمل کرتے دیکھا گیا ہے تو کبھی مخالفت کرتے ،یوں عملی طور پر یہ تحریک اور اس سے وابستہ عوام شدید کنفوژن کا شکار ہے ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات جنوبی یمن میں ہر اس جماعت اور گروہ کا پیچھا کررہا ہے جو مذہبی سیاسی نظریے کا حامل ہو ،ایک طرف جہاں امارات پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ جنوبی یمن کی اس تحریک کی حمایت کررہا ہے تاکہ یمن کے پھر سے دو حصے ہوں ،وہیں پر عملی طور پےیہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا قابل عمل ایجنڈہ سامنے نہیں آیا کہ جس سے یمن کی تقسیم واضح ہو۔

گرچہ اس کنفیوژن نے یمن کے جنوبی حصے میں بدترین قسم کی بے چینی پھیلائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے قبائل اب بھی جنوبی یمن کی علحیدگی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یمن کے دیگر حصے اس قسم کی علحیدگی کو برداشت کرینگے ۔

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یمن کی مضبوط قوت انصار اللہ ہی ہے کہ جس نے علی صالح کی پاپولر پارٹی کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد مزید مضبوطی حاصل کرلی ہے۔

سعودی عرب کی یمن پر چڑھائی کا ایک اہم مقصد انصاراللہ کی قوت کوختم کرنا تھا لیکن اب قریب ڈھائی سال بعد ہر گذرتا دن سعودی عرب کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کا فوری سرجیکل آپریشن نہ صرف بری طرح ناکام ہوا بلکہ وہ یمن کے آکٹوپس کی گرفت میں اس بری طرح پھنس چکا ہے کہ اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ صرف اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے ۔

عرب میڈیا میں نشر ہونے والی لیکس کے مطابق مسند شاہی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والا جوان شہزادہ بن سلمان اب یمن جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے یمن کی شرائط کو ہی کیوں نہ ماننا پڑے ۔

بن سلمان اچھی طرح جان چکا ہے کہ یمن جنگ کو مزید طول دینے کا نتیجہ اندرونی مسائل کو بڑھاوا دینا ہے ،پہلے سے ہی یمن پر چڑھائی کے فیصلے سے نالاں خاندان کے بڑے بن سلمان کی ولی عہدی سے سخت چراغ پاہیں جبکہ قطر کے ساتھ جاری کشیدگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔

عالمی سطح پر یمن کی تباہ حال صورتحال اور پھیلتے وبائی امراض کے سبب دباو بڑھتا جارہا ہے اور اب حال ہی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر کی لیک ہونے والی ایمیلز نے بن سلمان سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے کہ اس نے یمن میں سویلین کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالی دی ہے ۔


تحریر۔۔۔عابد حسین

وحدت نیوز(آرٹیکل) اپریل ۲۰۱۷ میں احسان اللہ احسان نے پاک فوج کو اپنی گرفتاری دی،  کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں کہا  کہ طالبان نے نوجوانوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کیا ہے ۔ اپنے ویڈیو بیان میں احسان اللہ احسان نے کہا کہ نو سال میں سوشل میڈیا پر اسلام کی غلط تشہیر کر کے پراپیگنڈا کیا گیا ۔

 اسلام اس چیز کا درس نہیں دیتا ، لیکن ہم نے نوجوانوں کو بھٹکایا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود کالعدم تنظیمیں بھی بھتہ لیتی ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں ۔

احسان اللہ احسان نے کہا کہ میں نے 2008 میں کالعدم ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی اور دہشتگردی کی کئی کارروائیوں میں حصہ لیا ۔ ان کارروائیوں میں اسرائیل کے علاوہ پاکستان دشمن ممالک بھی ان کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ احسان اللہ احسان نے یہ بھی بتایا کہ "را" اور "این ڈی ایس" افغانستان سے دہشتگردوں کو پاکستان بھیجتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما خالد خراسانی نے کہا تھا کہ مجھے پاکستان میں دہشتگردی کیلئے اسرائیل کی مدد بھی لینا پڑی تو میں لوں گا۔

اس کے علاوہ   احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈ پر حملے، ملالہ یوسفزئی پر حملے، گلگت بلتستان میں 9 غیرملکی سیاحوں کو قتل کرنے اور کرنل شجاع خانزادہ پر حملے سمیت 10 بڑے واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی۔[1]

اس  کے بعد مئی ۲۰۱۷ میں70 سے زائد وکلاء کا قاتل ،سانحہ سول ہسپتال ، پولیس ٹریننگ کالج ،سانحہ شاہ نورانی، فرنٹیئر کور ، ٹریفک پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹرز سمیت ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کی درجنوں وارداتوں کا ماسٹر مائنڈسعید احمد عرف تقویٰ با دینی اپنے کچھ ساتھیوں سمیت کوئٹہ میں گرفتار ہوا۔

اس کی گرفتاری کا اعلان ایک   پریس کانفرنس  میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی نے  کیا تھا کہ بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں ہونیوالی دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی متعدد وارداتوں میں ملوث کوئٹہ کے رہائشی کالعدم تنظیم  طالبان کے کمانڈر سعید احمد عرف تقویٰ با دینی کو گرفتار کر لیا ہے۔

موصوف نے2014 ء میں دتہ خیل میران شاہ میں قائم تحریک طالبان پاکستان کے ٹریننگ کیمپ سے تربیت حاصل کرنے نیز جنوبی وزیرستان میں ملا ہنر کے کیمپ  کے علاوہ افغانستان میں براہ راست انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے بھی ٹریننگ حاصل کی  اور واپسی پر 2016 میں اسے طالبان  کوئٹہ اور لشکر جھنگوی کوئٹہ  کا امیر بنادیا گیا ۔

حراست کے دوران موصوف نے کئی کارروائیوں کا اعتراف کیا اور کئی انکشافات کئے ، ان انکشافات کے دوران اس  نے مستونگ کے علاقے کانک کلی یارو کے مقام پر طالبان اور لشکر جھنگوی کے اہم مراکز کی نشاندہی  بھی کی ۔

 چنانچہ  سی ٹی ڈی بلوچستان، اے ٹی ایف اور دیگر پولیس اہلکار وں نے  سعید تقویٰ  کو اپنے ہمراہ لے کر نشاندہی شدہ مقام پر آپریشن کا فیصلہ کیا۔ آپریشن کے دوران  وہاںطالبان اور لشکر جھنگوی کے  پہلے سے موجود افراد نے فائرنگ  کر کے سعید تقوی کو ہلاک کر دیا اور یوں ہمارے میڈیا نے بھی اس موضوع پر مٹی ڈال دی۔

جب تک ہم مٹی ڈالتے رہیں گے ، تب تک ہمارے نوجوان دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کرتے رہیں گے اور ہمارے  سرکاری ادارے اور نہتے لوگ دہشت گردی کے شکار ہوتے رہیں گے۔

آپ زیادہ  نہیں  صرف اسی سال اپریل اور مئی میں گرفتار ہونے والے انہی دو بڑے دہشت گردوں کے بیانات ، انکشافات  اور اعترافات کو سامنے رکھیں، آپ کو صاف پتہ چلے گا کہ   ہندوستان اور اسرائیل کی ایجنسیاں متحد ہوکر پاکستان کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔

سب سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے جوانوں کو ہی پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہاہے۔ پاکستان کے جوان مختلف کیمپوں میں دہشت گردی کی  ٹریننگ حاصل کرتے رہتے ہیں   اور ہماری خفیہ ایجنسیاں اس سے لاعلم رہتی ہیں جس کے بعد یہ ٹریننگ پانے والے دہشت گرد ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پاک فوج اور عوام کا متحد ہونا ضروری ہے۔ ملت کے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد مشکوک افراد ، مشکوک دینی مدارس اور مشکوک مراکز پر نگاہ رکھے اور کسی بھی قسم کے خطرے کی صورت میں پاک فوج کو اطلاع فراہم کرے، اسی طرح پاک فوج کوبھی چاہیے کہ وہ درست آگاہی اور معلومات کے حصول کے لئے عوامی طاقت کو ملکی مفاد کے لئے استعمال کرے۔

دوسری طرف  مشکوک مراکز، مطلوب افراد ، مفرور شخصیات اور باغی گروہوں کے بارے میں میڈیا کے زریعے عوام کو آگاہی دی جانی چاہیے۔

جب تک ہم اپنے عوام کو دہشت گردوں کی صحیح شناخت فراہم نہیں کرتے اور عوام کو دہشت گردوں کے مقابلے میں کھڑا نہیں کرتے تب تک دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن ہے۔

ہم اس طرح کی باتوں سے لوگوں کو وقتی طور پر بے وقوف تو بنا سکتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا  لیکن ان باتوں سے عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ عوام کو تحفظ تبھی ملے گا جب ہم  عوام کو دہشت گردوں، ان کے مراکز اور افکار و شخصیات  سے آگاہ کریں گے اور لوگوں کو ان سے بچاو کی احتیاطی تدابیر  بھی سکھائیں گے۔

عوام کو دہشت گردوں کے خلاف فلمی ڈائیلاگز کے بجائے  زمینی حقائق کی روشنی میں آپریشنز کی ضرورت ہے۔ کسی بھی آپریشن سے مطلوبہ فوائد تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب وہ آپریشن درست معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔ درست معلومات کے لئے عوامی اطلاعات کا درست استعمال ضروری ہے۔

ہمارے سیکورٹی اداروں کو چاہیے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے مقابلے کے لئے اپنے عوام کو لازمی  شعور اور ضروری تربیت فراہم کریں۔

جہاں تک عوامی شعور کی بات ہے وہاں ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ نواز حکومت کے ہندوستان سے اور سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات کا اثر  پاکستان کی سلامتی پر بھی پڑا ہے۔ اس وقت میڈیا کی اطلاعات کے مطابق  پاکستان اسرائیل الائنس کے نام سے برطانیہ میں ایک تنظیم  بھی قائم کی گئی ہے جس کا مقصد  دنیا بھر میں موجود پاکستانی عوام کو اس سلسلے میں ابھارنا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے پاکستان پر دباو ڈالیں۔

مجموعی طور پر پاکستان اپنی سلامتی کے لحاظ سے انتہائی حساس دور سے گزر رہاہے لہذا ہمارے حساس اداروں کو چاہیے کہ وہ عوام کو بیدار اور باشعور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بے شک بیدار اور باشعور عوام ہی اپنے وطن کا  صحیح دفاع کر سکتے ہیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج کے دور میں صاحب میڈیا وہ نہیں جو ایک بہت بڑے میڈیا (جیو،بی بی سی سی این این وغیر) کا مالک ہو اس کے پاس سینکڑوں، ہزاروں لوگ کام کرنے والے ہوں  جیسا کہ پہلے ایسے ہی تها جو خود ہی ایک میسیج،پیام (یاد رہے کہ ہر خبر،ٹاک شو،ڈرامہ، فلم وغیرہ، غرض ہر پروگرام اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے، اس کے اندر کسی نہ کسی چیز کے بارے اطلاع هے ،غلط یا صحیح، جھوٹی یا سچی)تیار کرتے، اس کی پروڈکشن ہوتی ،اور پھر  اس پیام کو اپنے تسلط اور میڈیا پرمکمل انحصاری کنٹرول کے ذریعے یا ایک حد اپنے انحصاری کنٹرول کے ذریعے اس پیغام کو نشر کرتے تهے اور یوں رائے عامہ کو  اکیلے ہی اپنے کنٹرول میں لے لیتے تھے یا اپنے دوسروں ہمفکروں کے ساتھ ملکر رائے عامہ کو کنٹرول کرتے تهے . (ان بڑے بڑے میڈیا کے مراکز کا کنٹرول تها رائے عامہ بنانےپر اور رائے عامہ کو کنٹرول کرنے پر اور اسے اپنی مرضی کی سمت دینے پر ) لیکن آج micro media آنے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے .آج  دنیا میں جس کے پاس ایک اطلاع،ایک اہم پیغام ہے ،ایک ضروری پیغام ہے ،ایک مفید پیغام ہے وہ صاحب میڈیا ہے (مثلا پاراچنار کے دهرنے کو جب mass mediaنشر نہیں کر رہا تها ،اس وقت اس micro media کے ذریعے اس Black out کو توڑا گیا ،justice for parachinar  والا ٹرینڈ   top trend بنا ،لہذا اس وقت ہم صاحب میڈیا تهے ،ہمارے پاس میڈیا تها جس نے mass media  کو شکست دی )

پس آج کے دور میں وہ شخص صاحب میڈیا نہیں جو  mass media کے ایک بہت بڑے set up کا مالک ہو ، وسیع بجٹ رکهتا ہو  ،اس طرح کے کئی وسائل اسکی دسترس میں ہوں ،یا کوئی مشہور  اینکر ہو ، بلکہ آج اس شخص کو ہم صاحب میڈیا کہیں گے جس کے پاس ایک پیغام ہے .البتہ یہ بات واضح رہے کہ پیغام اور اطلاعات  ( اور صرف information  ) میں واضح فرق ہے ضروری نہیں کہ جس شخص کے پاس اطلاعات ہوں ،معلومات ہوں ،اسے آگاہی ہو  اور ایک پیام کے لئے ضروری سارا matter ہو،ضروری نہیں کہ اس کے پاس ایک پیغام بهی ہو ،چونکہ پیام کا matter ابتدائی مواد ہے پیام تیار کرنے کے لئے  (جیسا کہ 1970 کے انتخابات کے بعد جب حالات خراب ہوئے تو ایک صحافی تهے سید اطہر عباس انہوں نے تمام معلومات کو سامنے رکهتے ہوئے ،خبرکی سرخی یہ بنائی کہ  ادهر تم ادهر ہم ، جو آج تک ذہنوں میں ہے )لہذا معلومات کو پیام میں  اس طرح سے ڈهالنا کہ  لوگ اسے دلچسپی سے پڑہیں ،سنیں یا دیکهیں .اس کام کے لئے کچھ چیزوں کا ہونا اور انکی طرف توجہ لازم ہے .اس پیام کی شکل و صورت کیسا ہو  کہ دلچسپی سے پڑها،سنا یا دیکها جائے . اس کے لئے مثلاً  مخاطبین،ناظرین اور سامعین کی درست شناخت لازم ہے (جن کے لئے وہ پیام تیار کیا جا رہا ہے ،جوانوں کے لئے ہے یا بڑہوں کے لئے، خواص کے لئے  یا عوام کے لئے )اسی طرح مخاطب کی ضرورتوں کا پتہ ہو .مختلف قسم کے امکانی پیغامات  میں سے مناسب پیام کا انتخاب اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا اسلوب اور انداز بهی مورد توجہ رہنا چاہئے۔

1. مخاطبین کی درست اور صحیح شناخت  اور ان کی طرف خیرخواہانہ توجہ
میڈیا (پیام ) کی تاثیر اور اثر گزاری  میں اضافے میں سب سے اہم عنصر مخاطب کی شناخت ہے ،یعنی میڈیا مخاطب کو کیا سمجهتا ہے ،یہ بات پیام رسانی کے اسلوب اور اسٹائل میں بہت موثر ہے ۔
2.  مخاطب کی خصوصیات.  قرآن میں مخاطب کی طرف دو طرح کی نگاہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
الف. مخاطب کی طرف فرعونی نگاہ اس طرح کی  نگاہ سے اگر مخاطب کو دیکھا جائے تو مخاطب کو بندہ ، نوکر ،غلام اور رعیت سمجھ کر اس تک پیام پہنچایا جائے گا ،وہی نگاہ جو فرعون کی لوگوں کے بارے تھی
فحشر فنادي ..فقال انا ربكم الأعلي
اس فرعونی نگاہ میں لوگوں کا کام صرف سننا ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ،اس نگاہ میں انسان کا میڈیا کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے جیسا کہ در حقیقت صاحب پیام کے آگے سر جھکانا ہے ۔اس طرح سے مخاطب کو دیکھنا انسان کے سب سے بڑے وصف "خود اپنے لئے کسی چیز کو خود اپنی مرضی سے اختیار کرنا ،اور حقیقت کو تلاش کرنا " سے منافات رکھتی ہے ،اس طرح کے انداز میں انسان کو دیکھنے کی صورت میں پھر انسان تک وہ پیام بهیجا جائے گا جس سے وہ طاقت ور لوگوں کے سامنے تسلیم محض ہو جائے۔

فاستخف قومه فأطاعوه إنهم كانوا قوماً فاسقين

 پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک (خفیف،هلکا اندر سے کھوکھلا )کر دیا اور انہوں نے فرعون (جیسے پست ) کی اطاعت کر لی وغیرہ یعنی فرعون نے ان سے ان کی انسانی کرامت،عزت نفس چهین لی تهی ،وہ بےوقار ،اور اندر سے کھوکھلے کر دئے گئے تهے ۔

ب.  مخاطب کی طرف الہی نگاہ ،اس  نگاہ میں انسان کی کرامت اور اسکی انسانیت کا خیال رکها جاتا ہے ،لوگوں کو رعیت ،نوکر احقر غلام سمجھ کر پیام نہیں دیا جاتا، خطاب نہیں کیا جاتا ،صاحب پیام  اپنے آپ کو لوگوں کی قوت سماعت اور قوت بینائی کا مالک نہیں سمجهتا ، بلکہ اسے اپنے پیام کی حقانیت پر اس قدر ایمان رکهتا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ انسان کی سماعت اور بینائی کی طاقت جس قدر آزاد ہونگے اس کا پیام ان کے لئے دیکهنے،سننے اور پڑھنے میں آور جذاب ہو جائے گا ،اس  نگاہ میں مخاطب  کی فطرت پیام کو درک کرنے اور اسے قبول کرنے کی اساس اور بنیاد (اور زمینہ ) ہے،انسان کے اپنی مرضی سے کسی چیز کو اپنانے ،اختیار کرنے ، اس کی حق اور حقیقت کے جستجو کرنے کی خصوصیت اور وصف کو محترم سمجھا جاتا ہے۔

فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه أولئک الذین هداهم الله و أولئك هم أولو أﻷلباب
 پس میرے بندوں کو بشارت دو ،وہی بندے جو (دوسروں کے) سخن کو سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین  (بات ) کی پیروی کرتے هیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے  اور یہ صاحبان عقل ہیں ۔

اس نگاہ میں مقصد مخاطب کو غلام بنانا ،اپنا بندہ بنانا ،یا اس کو اپنے سامنے تسلیم کروانا نہیں .بلکہ  مقصد اس کو جهل اور نادانی کی ان ہتھکڑیوں اور زنجیروں سے آزادی دلانا ہے جن میں وہ جکڑا ہوا ہے ۔

اس نگاہ میں صاحب پیام اپنے آپ کو مخاطب کے  دل و دماغ اور اس کی سوج اور فکر پر مسلط نہیں قرار دیتا بلکہ اپنے آپ کو اس کے  ساتھ  برابر قرار دیتا ہے
اس نگاہ میں انبیاء کرام اپنے آپ کو لوگوں کا ارباب اور انکی فکر اور سوچ پر حاکم نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو مخاطبین کے بهائی ،انکے  ساتهی اور خدا کی طرف سیر تعالی ،تکامل میں ہمراہ کے پر بیان کرتے ہیں ۔

إ ذ قال لهم اخوهم نوح الا تتقون /إني لکم رسول امین/فاتقوا الله و أطيعون .....الخ جب انکے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم پرہیزگارنہیں  بنو گے  ......
فذکر إنما أنت مذکر ،لست علیهم  بمصیطر
بس تو تذکر دے کہ تو صرف تذکر دینے والا ہے .......تو ان پر مسلط نہیں ہے (کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے)
اس نگاہ کی روشنی میں میڈیا کی ذمہ داری ،"ذکر" یعنی تذکر دینا هے  ،اس وقت میڈیا (پیام ) یعنی "مذکر"

2. مخاطب (سامعین ،ناظرین، قارئین )کی ضرورتوں کا صحیح علم اور شناخت انسان کی سب سے اہم ضرورت اس کی "آگہی" یا آگاہی ہے .شیاطین ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ انسانوں کی آگاہی کا راستہ روکیں ،قدیم اورماڈرن جاہلیت اپنی بقا اور زندگی انسانوں کی "لاعلمی " اور نادانی اور جہالت میں سمجھتے ہیں ۔

وقال الذين کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فیه لعلکم تغلبون
کافرون نے کہا : اس قرآن کو نہ سنو ؛اور قرآن کی تلاوت کے دوران لغو (بیہودہ) باتیں کرو ،تاکہ شاید تم غلبہ پا لو۔

قدیم جاہلیت لوگوں کو منع کر کے جاہل رکھتی تهی اور ماڈرن جاهلیت information کی bombardment کے ذریعے انسانوں کو حقائق تک رسائی سے محروم کرتی ہے .یعنی یہ قدیم جاہلیت  اور ماڈرن جاہلیت لوگوں کی آگاہی اور بصیرت  ، حقائق اور صحیح معلومات  تک رسائی کا راستہ روکنے کے لئے کهبی لا تسمعوا لهذا القرآن کہتے ہیں اور کبھی اس  نامناسب  اور غیر ضروری معلومات کی اس قدر یلغار کرتے ہیں  تا کہ انسانی ذہن اس قدر مشغول ہو جائے کی حق بات تک رسائی سے محروم ہو جائے :"والغوا فيه"

قدیم جاہلیت یہ کوشش کرتی تهی کہ لوگ جاہل رییں اور لوگ کسی چیز کو نہ جانیں ( جھل بسیط کا شکار یوں ) اور ماڈرن جاہلیت کی کو شش یہ ہے کہ لوگ یہ نہ جانتے یوں کہ وہ نہیں جانتے  ( جهل مرکب کا شکار یوں ) آج information کی bombardment ،انسانوں کو انگنت پیغامات کا اسیر کرنا ،یہ ایک ایسا  میڈیائی استعمار ہے جو انسان کے دل و دماغ اس کی سوچ اور فکر کو تسخیر کر کے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ،اور انسان کے سرمایہ معرفت و شناخت کو چهین لیتا ہے (پھر جیسے وہ چاہتے ہیں ویسا ہی سوچتا ہے،اس کے افکار اور تفکر بهی انہی کی منشا ءکے مطابق ہو جاتا ہے )

ماڈرن جاہلیت اپنے شیطانی پیغام کو  celebrities کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں .ان کے ذریعے اپنی مرضی کے پیغام لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچاتے ہیں ،جو نہ صرف یہ کے لوگوں کے عقل و شعور کو بیدار نہیں کرتے  بلکہ رائے عامہ کی بےوقوف اور حماقت کا سبب بنتے ہیں۔

اس صورت میں انسان کی آگاہی حاصل کرنے کی عطش ( ضرورت )کو مصنوعی طور پر بجھایا جاتا ہے ،لوگ یہ سمجھتے هیں کہ ان کے پاس مثلاً  دنیا کے  بہت زیادہ نالج اور معلومات  ہیں ،جبکہ information کی bombardment کی وجہ سے بہت سے انتہائی اہم  واقعات اور حوادث یا تو اپنی اہمیت کهو  بیٹهتے ہیں ،جو ممکن ہے کہ اس قدر اهم ہوں جو اسکی زندگی اور اس کے فیوچر کو بدل کے رکھ دیں۔

تحریر ۔۔۔۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
سوشل میڈیاکے ایک گروپ میں ہونے والی گفتگوسے اقتباس

وحدت نیوز(آرٹیکل)انسان دوستی کا عالمی دن (Humanitaryian day) 19اگست کو ہر سال اقوام متحدہ اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد انسانی فلاح و بہبود کیلئے متحرک افراد اور انسانی جذبے کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکنان کو سراہانا اور انکا خیال رکھنا ہے۔اقوا م متحدہ کی جانب سے 19اگست کو انسانی دوستی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ دسمبر 2008ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔19اگست ہی تھا جب 2003میں عراق کے شہر بغداد میں کینال ہوٹل پر بم حملے میں اقوام متحدہ کے سفیر سر جیو ڈی میلو Vieiraسمیت 22افراد ہلاک ہوئے تھے۔سر جیوعراق میں اقوام متحدہ اعلیٰ ترین نمائندے تھے۔اس واقعہ کے پانچ سال بعدجنرل اسمبلی نے عالمی انسانی ہمدردی کے دن کے طور پر 19اگست کو قرارداد منظور کی۔ بعد ازاں ہر سال انسانی بنیادوں پر کمیونٹی عالمی سماعت WHDیادگار بنانے کیلئے منظم کیا،یہ دن انسانی امداد فراہم کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور سلامتی کے قیام کی وکالت ،بقاء،بہبود اور بحرانوں سے متاثرہ افراد کے وقار کیلئے کام کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔خلق خدا کی بھلائی کی سر گرمیوں کے حوالے سے بنیادی سمجھ بوجھ کو عام کرنے کے ساتھ ان سر گرمیو ں میں شریک افراد کا احترام ،اور جو لوگ کار خیر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے ان کو یاد بھی کیا جاتا ہے۔یہ دن دکھی انسانیت کی خدمت کر نے والوں کے نام ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل ہر ممکن طور پر دکھی او ر ناچار انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں مردو زن انسانیت کیلئے کام کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں کچھ تو بعض اوقات اپنے مقاصد کے حصول میں اپنی جان بھی کھو دیتے ہیں ۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں جو اس راہ میں جان دینے کوعین حیات خیال کرتیں ہیں ۔
                    
                طلاطم ہائے بحرزندگی  سے  خوف  کیا   معنی
                جو دیوانے ہیں وہ موجوں کو بھی ساحل سمجھتے ہیں

دراصل ایسے لو گ اپنی قربانیوں سے ایک جہاں کوحیات جادواں بخشتے ہیں اور خود بھی زندہ جاوید رہتے ہیں ۔

19اگست انسان دوست عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصد ان ہیروز اور انکی قر بانیوں کو یاد کرنا بھی ہے۔انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں بین الاقوامی تعاون کی ضرور ت اور اسکی اہمیت کو اجاگر کرنا، عالمی سطح پر انسان دوستی کے حوالے سے شعور کی بیداری بھی اس دن کے موضوعات میں شامل ہے۔ یہ دن مختص ہے تمام انسان دوست فعال کارکنوں کے نام اور اس سلسلہ میں ہونے والی تمام تر کاوشوں ، پروگرامز سے آگاہ ، جاری سر گرمیوں سے آگاہ کرنے والوں کیلئے۔

آج دنیا بھر میں بہت سی کمیونٹی اور بہت سی آرگنائزیشن لوگوں میں آگاہی پھیلانے کیلئے اشتہارات اور معلوماتی مواد کا سہارا لیتی ہیں اور پریس کے زریعے انسانیت کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی کوشش بھی کرتیں ہیں ۔ انسان دوستی کا عالمی دن غریب اور ضرورت مندوں کی مدد اور تعاون کے عزم کے نام ہے۔ہر انسان کو چاہئے کے سوچے اور اپنی صلاحیت کے اعتبار سے انسانیت کی مدد کریں ۔یہ سب کچھ تعلیم اور شعور سے ممکن ہوگا۔اس سلسلہ میں ان ممالک کے حالات کا مطالعہ اور جائزہ ضروری ہے جہاں حقیقتًا جنگ وقوع پزیر ہوئی ہو اور انکی بد قسمتی کا مشاہدہ ضروری ہے تاکہ عام آدمی دکھی انسانیت کی خدمت کرنے پر خود کو تیا ر کر سکے۔

قارئین انسان تو دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کم کم ہی پیدا ہوتی ہے اگر ہم اس بات کو دیکھیں تو واقعی یہ بالکل ٹھیک بات ہے کیونکہ پاکستان میں 21کڑوڑ انسان آباد ہیں عبدالستار ایدھی ایک ہی تھا جو سچے دل اور اچھی نیت کے ساتھ اپنا کام بنا کسی لالچ کے سر انجام دیتے تھے۔ چھیپا ،رتھ فائو جیسے نام بہت کم ہیں ۔ ہاں دنیا میں روشنی کی بہت سی کرنیں موجود ہیں جو راستے کو روشنی کرنے کا کام دے رہی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے جو کام وہ سب کر رہے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں اس کے لئے سچ کی اور ہمت کی ضرورت ہے اور بس۔۔۔


تحریر ۔۔۔سلمان  احمد قریشی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree